Posts

Showing posts from May, 2015
پلیٹ گن ۔۔۔ متروک نہ ممنوعہ انساینت کی مانگ ہے یہ آگ بجھائیں  ایس احمد پیرزادہ یہ ایک تلخ ترین تاریخی حقیقت ہے کہ وادیٔ کشمیر میں 2008 ء اور 2010 ء میں زوردار عوامی احتجاج کچلتے ہوئے وردی پوشوں نے مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلا ئیںاور دو سو سے زائد کشمیر ی نوجوانوں کو جاں بحق کر دیا۔ اس دوران سینکڑوں نوجوان گولیاں لگنے سے بری طرح سے مضروب ہوگئے ۔ ان نوخیز کلیوں کو جرم بے گناہی کی پاداش میں ابدی نیند سلادئے جانے کے ردعمل میں عوامی سطح پر غم و غصے کی لہر پیدا ہوگئی ۔ا دھر جہاں ایک جانب فوج نے اس صورت کو’’ ایجی ٹیشنل ٹرئرازم اور گن لیسٹرئرازم ‘‘ جیسی اشتعال انگیز اصطلاحوں سے یادکیا وہاں دوسری جانب2010 ء میں پانچ مہینوں کے مسلسل ہڑتال اور128 نوجوانوں کو جاں بحق کرنے کے بعد ہندوستانی پارلیمانی وفد کی کشمیر آمد کے موقع پر دلّی کے مسند اقتدار پر براجمان اُس وقت کی کانگریسی حکومت نے اعتراف کرلیا کہ عوامی احتجاج سے نمٹنے میں فورسز اہلکاروں سے فاش غلطیاں ہوئی ہیں۔ اس بات کو بھی قبول کیا گیا کہ وردی پوشوں نے حد سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں کم سن نوجوان ابدی نیند سو گئے
میٹرک نتائج… لڑکوں کا پچھڑنا لمحہ فکریہ! خوشیاں زہے نصیب ہیں غم بھی تو کم نہیں ایس احمد پیرزادہ حالیہ دنوں اسٹیٹ بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی جانب سے دسویں جماعت کے امتحانات کے نتائج کا اعلان کیا گیا۔ گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی ان امتحانات میںلڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں نے بازی مار لی۔ پہلی اور دوسری پوزیشن دور دراز علاقہ ترال کے ایک ہی گاؤں ڈاڈہ سرہ کی دولڑکیوں نے حاصل کی ۔اس کے علاوہ بھی مجموعی طورپر اعلیٰ نمبرات سے کامیابی پانے والوں میں لڑکیوں کا تناسب زیادہ ہے۔ امتیازی پوزیشنیں بھی لڑکیوں نے ہی حاصل کی ہیں۔ ان طالبات کی کامیابی پر فرداًفرداً انہیں ان کے والدین اوران کے اساتذہ کو مبارک باد۔ ان خوش نصیب ، ہونہار اور محنتی طالبات کی تہینت اور عزت افزائی کے لئے خود وزیراتعلیم نعیم اختر ان کے گھر گئے ۔ اگر اسے آگے سیاست زدہ نہ کیاجائے تو یہ ایک بہت اچھی روایت قائم کی گئی ہے ۔ یہ پہلا موقعہ نہیں ہے جب لڑکیاں لڑکوںامتحانی رزلٹوںمیں آگے نکل گئی ہیں بلکہ گزشتہ کئی برسوں سے یہ ایک رجحان بناہوا ہے کہ بورڈ امتحانات میں مسلسل لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیاں ہی کامیابیوں کے جھنڈے گارڈ ر
گھر یلو تشدد…حقیقت کیا ہے؟ رحم کے ترانے سناتے چلو ایس احمد پیرزادہ آج کل بنت حوا کے حوالے سے گھریلو تشدد کاموضوع بحث عالمی توجہ کا مر کز بناہوا ہے۔ سماجی مسائل کی فہرست میں یہ ایک حل طلب معمہ ہے ۔ ا س کا تدارک کر نے سے کسی باضمیر کو انکار کی مجال نہیں ہوسکتی مگر یہ مسئلہ الل ٹپ پیدا نہ ہوا بلکہ اس کی تخم ریزی، پرورش اور پروان چڑحانے میں ایک وسیع تر تہذیبی ،سماجی، سیاسی اورنفسیاتی پس منظر دخیل ہے۔ اس حقیقت کو نظرا نداز کر کے محض قانون کی ضخامت بڑھانے، حکومتی اداروں کو بیچ میں لانے ، فیمن ازم کا جھنڈا لہرانے، عورت کو مرد کے مدمقابل حریف کھڑا کرنے، نشستند گفتند برخواستند کی محفلیں جمانے اور اسی آڑ میں مردا ورعورت کے درمیان دوریاں اور نفرتیں پیدا کرنے سے یہ مسئلہ حل ہونے والا ہے نہ اس سے جڑی اُلجھن سلجھنے والی ہے ۔ اس مسئلے سے گلو خلاصی کے لئے پہلا قدم یہ ہے کہ فرد سے سماج تک ہر کوئی اپنی روش اور اپنا مزاج بدلے، مرد اپنی سنگدلی سے باز آئیں اور عورت اپنی نسوانیت کا دفاع کر نے کے پاک ومطہرہنر و جذبے سے باخبر رہے ،اس کام میں ا خلاقی، سیاسی وانتظامی فضا ہر دو اصناف کے لئے ساز گار
مقتول طفیل کاڈراپ سین  انصاف کے دامن پہ نیا خون لگاہے ایس احمد پیرزادہ ۱۱؍جون ۲۰۱۰ء جمعہ کو ۱۷؍برس کی کم سن عمر کا طفیل احمدمتو گھر شہر خاص سری نگر میں واقع اپنے گھر سے ٹیوشن پڑھنے نکل پڑتا ہے ، اپنے ماںباب کے اس اکلوتے بیٹے کے خواب وخیال میں بھی نہیں ہو تا کہ اس کا آخری سفر شروع ہوا چاہتاہے ، اس کے کتابوں کا بستہ اب خون اور خاک میں غلطاں وپیچاںہو جاتاہے ،ا س کا گولیوں سے چھلنی بدن پھر کبھی واپس نہیں لوٹتا ہے اور سرشام طفیل کے ستم زدہ والدین کو اپنے لاڈلے اکلوتے بیٹے کی بے گور وکفن لاش مل جاتی ہے۔ ۔۔یہ جمعۃ المبارک تھا، طفیل اپنے دیگر ساتھیوں سمیت ٹیویشن کے بعد گھر واپس لوٹ رہے تھے، راجوری کدل کے غنی میموریل اسٹیڈیم کے نزدیک اپنی اسکولی یونیفارم میں ملبوس طلبہ کی یہ ٹولی معصوم بے فکری کے عالم میںاپنے مستقبل سنوارنے کے سپنوں کے ساتھ گھر کی جانب رواں دواں تھی کہ اس دوران مبینہ طورپولیس کی ایک پارٹی وہاں نمودار ہوئی۔پولیس نفری دیکھ کر طفیل اور اُس کے ساتھی گھبرا گئے اور وہ اسٹیڈیم کے اندر داخل ہو گئے، پولیس نے گھبرائے ہوئے ان معصوم طلبہ کا تعاقب کیا اور اُن پر شلنگ کرنے لگے، ٹی
حکمران جماعت کونسی ہے ؟ امیدیںدلاسے بھروسے تمام ایس احمد پیرزادہ پی ڈی پی ، بی جے پی کولیش سرکار کو ابھی برسراقتدار آئے ہوئے دو ہی مہینے ہوگئے ، لیکن اس مدت کے دوران سرکاری اقدامات ،اعلانات، بیانات سے ہونہار برو اکے چکنے چکنے پات کے مصداق یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دونوں جماعتوں کے مشترکہ ایجنڈے کے کچھ نہ کچھ خفیہ گوشے ہیں اور ان سے ممکنہ طور کون کون سے اہداف طرفین کے درمیان قدر مشترکہ ہوسکتے ہیں۔ دونوں جماعتوں کو سرکار تشکیل دینے میں قریباً دو مہینے کا وقت لگا۔ اس دوران دونوں جماعتوں نے سرتوڑ مذاکرات کئے اور پھر جب اشتراک عمل کے نقش راہ پر سنگھ پریوار کی مہر ثبت ہوئی تو اس کے بعد اقتدار کی بندر بانٹ ہوئی۔ ظاہر ہے پردے کے پیچھے مشترکہ ایجنڈا سے جڑے ہر پہلو پر بات کی گئی ہوگی۔ سسپنس کے ان ایام کے دوران اندازہ لگایا جارہا تھا کہ پی ڈی پی نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے سپورٹ کے باوجود بی جے پی کا انتخاب اس لیے کیا ہے تاکہ ریاست جموں وکشمیر کو زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ پہنچایا جاسکے کیونکہ سیلاب کی ستم رانیاں ابھی ذہنوں میں تروتازہ تھیں۔سیاسی ماہرین کا یہ بھی سوچنا تھا کہ