Posts

Showing posts from April, 2016

Telling the victim’s story

Telling the victim’s story ‘Vaadi-e-Khoonaab’ (Valley of bloodshed) is an important book which documents the life and death of over 120 unarmed persons killed during the 2010 civil uprising Majid Maqbool  Publish Date: Apr 19 2013 12:00PM On a sunny day in the summer of 2010, Ess Ahmed Pirzada was walking from Bagh-e-Mehtab area when he saw school boys blocking the road and protesting on the streets, raising their voice against the killing of seven unarmed boys killed by the government forces till then. What could he do, he asked himself, what was his contribution? And that day he decided to visit, to begin with, the families of the seven youth killed till then, collect all their details, the circumstances under which they were killed, and extensively document the lives of the unarmed youth killed during 2010 civil uprising. The result is ‘Vaadi-e-Khoonaab’ (Valley of Bloodshed), an important book in Urdu which documents the case histories and stories of more than 12
ہندواڑہ ۔۔۔ ظلم و جبر کی انتہا! خوں میں لت پت مر قدوں میں سوگئے ہیںسر کٹے ایس احمد پیرزادہ سانحوں ، المیوں اور سازشوں کی سرزمین کشمیر میں قتل و غارت گری کی داستان کوئی نئی بات نہیں ہے ، وقت وقت پریہاں قانون کی محافظت کا دعویٰ رکھنے والوں کے  ہاتھوں قانون کی عزت ریزی ہوتی رہی ہے۔ جن وردی پوشوں کو’’سیکورٹی فورسز‘‘ کہا جاتا ہے ، وہ افسپا کی چھترچھایہ میں اہالیانِ کشمیر کے جان و مال سمیت بشری حقوق کی پامالیوں ملوث چلے آرہے ہیں ۔ سنہ نوے میں حول اور گاؤ کدل قتل عام سے لے کر کنن پوش پورہ کی شرم ناک داستان تک ، سوپور اوربجبہاڑہ سے لے کر ہندوارہ کے خون ِ ناحق تک یہی ایک کہا نی بنتی رہی ۔ نہتے لوگوں پر بندوق کے دہانے کھولے بغیر خون کے پیاسے فورسز کو بھلا تب تک سکون میسر کیوں آئے جب تک کسی بے گناہ اور معصوم کے سینے کو چھلنی کرکے وہ اپنی بربریت کی دھاک نہ بٹھائیں۔ ۲۱؍اپریل کو شمالی کشمیر کا قصبہ ہندواڑہ اپنے معمولاتِ زندگی میں میں محو تھا، کسی کو ادنیٰ سا خیال بھی نہ تھا کہ کون سی بلائے ناگہانی قصبہ پر نازل ہو ا چاہتی ہے ۔ یہ بستی یکایک اس وقت اُبل پڑی جب ایک طالبہ کے ساتھ کسی فوجی

این آئی ٹی میڈیا کی حکومت سرکار کی اطاعت

این آئی ٹی.... میڈیا کی حکومت سرکارکی اطاعت میری ضعیفی نے لاج رکھ لی تیرے ستم کی ایس احمد پیرزادہ بھارت میںفرقہ پرستی اور جنونیت کی آگ اب سیاسی اکھاڑوں سے نکل کر تعلیمی اداروں میں داخل ہوچکی ہے۔ تہذیبی جارحیت کوسکہ رائج الوقت کرنے کے لیے کیا کیا نہ کیا جارہا ہے۔ نام نہادجمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والے مفروضوں پر مبنی کہانیاں تخلیق کر کرکے اپنا اُلو سیدھا کررہے ہیں۔ جے این یو کا واقعہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ سرینگر کے معروف انجینئرنگ کالج این آئی ٹی پر نشانہ سادھا گیا۔ کہا جاتاہے کہ ۳۱مارچ کو کرکٹ میچ کے دوران اقلیت میں موجود مقامی طلبہ اور اکثریت والے غیر ریاستی طلباءکے درمیان بھارت کی ہار پر بحث و تکرار ہوئی۔ غیر ریاستی طلباءنے ادارے میں اپنی کثرت کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے مقامی طلبہ کی جانب سے میچ کے دوران بھارتی ٹیم کی ہار پر خوشی منانے کو بہانہ بنایا اور نہ صرف کالج احاطے میں افراتفری کا ماحول برپا کیابلکہ کالج پراپرٹی کو بھی شدید نقصان پہنچایا ۔غیر ریاستی طلبہ نے اشتعال انگیز نعرہ بازی کرنے کے علاوہ پوسٹل سروس سے وابستہ ایک کشمیری لڑکے کو پکڑ کر اُسے زبردستی”بھار

کشمیر کی حکومت سازی،

دلی کی بادشاہ ساز ی! اہل ِکرم کی بازیوںکا دور چلے گا ایس احمد پیرزادہ  کشمیر عظمیٰ کے اسی کالم میں ریاست میں بی جے پی، پی ڈی پی کولیشن کے درمیان حکومت سازی کے معاملے میں پیدا شدہ مصنوعی تعطل کے حوالے سے راقم الحروف نے پہلے ہی یہ پیش بینی کی تھی کہ پی ڈی پی کی ڈھائی مہینے کی ”خاموشی“ اور دلی کے سامنے” شرائط “عائد کرنا محض دکھاوا ہے۔ یہ سب ڈرامہ بازی ہے اور اس کھیل کا ڈراپ سین ہندی فلموں کی طرح بالآخر دونوں جماعتوں کے ملن کی صورت میں ہوگا۔وقت نے پیش بینی صحیح ثابت کردی۔قبل از وقت لکھنا کہ سیاسی بازار کا کیا مول بھاو ¿ ہونے والے ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ لکھنے والا کوئی نجومی ہے یا اُسے کوئی علم غیب حاصل ہے بلکہ یہاں کی ہند نواز سیاسی جماعتوں کا مزاج، اُن کا دائرہ کار، اُن کے سوچنے اور سمجھنے کے حدود اور اُن میں اقتدار کی ہوس اور دلی کی بازیگری کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ اقتدار کو گلے لگانے کے لیے یہ لوگ کس حد تک جاسکتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر ریاست کے مسند اقتدار پر زعفرانی رنگ مسلط ہونے جارہا ہے۔ کشمیر کی تاریخ میں ایک اور افسوس ناک باب کا اضافہ ہورہا ہے۔ افسوس اس اعتب