Posts

Showing posts from June, 2016

دلی پبلک اسکول سرینگر....

دلی پبلک اسکول سرینگر....  مذہبی معاملات میں مداخلت ناقابل قبول ٭.... ایس احمد پیرزادہ ۷۱جون ۶۱۰۲ئ کو ”دلی پبلک اسکول“ کے طلباءو طالبات نے احتجاجی دھرنادے کر کلاسوں کا مکمل بیکاٹ کرکے ریاست جموں وکشمیر کی پوری آبادی کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ احتجاج، ہڑتال اور دہرنوں کی تاریخ سے وادی کشمیر پُر ہے۔ یہاں آئے روز ظلم و زیادتیوں کے خلاف ہڑتالیں ہوتی رہتی ہیں، یہاں مختلف سرکاری محکموں سے وابستہ ملازمین کا اپنی جائز مانگوںکو لے کر روز احتجاج ہوتا رہتا ہے۔ یہاں بجلی، پانی اور غذائی اجناس کی عدم دستیابی کے خلاف ہر دن کہیں نہ کہیں خواتین سڑکوں پر نکل پر دھرنا دے کر پورا ٹریفک جام کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ۷۱جون کودلی پبلک اسکول کے طلباءو طالبات کا احتجاجی دھرنااس اعتبار سے منفرد تھا کہ یہ احتجاج مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر میں پہلی مرتبہ کسی اسلامی شعائر پر پابندی اور مذہبی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اسکول میں یہ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوا جب وہاں کی انتظامیہ نے ایک مسلم باپردہ استانی کو ابایا اورنوکری میں سے ایک کا انتخاب کرنے کاOption دیا ہے۔ اُمت کی اس
سینک کالونیاں ۔۔۔ حقیقت کیا ہے ؟ خدا را وطن کو بچائیں بچائیں ایس احمد پیرزادہ  سینک کالونی کے مجوزہ حکومتی منصوبے کا مسئلہ روزبروز سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی جارہا ہے۔ ایک جانب مختلف غیر سرکاری تنظیمیں ،مزاحمتی جماعتیں ، حتیٰ کہ اپوزیشن نیشنل کانفرنس ریاستی حکومت پر بیک زبان الزام عائد کررہی ہیں کہ وہ ریاستی مفادات کا سودا کرکے یہاں کی زمینیں نیلام کررہی ہیں اور اسرائیلی طرز پر جموں وکشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی راہ پر گامزن ہے، دوسری جانب ریاستی سرکاری متضاد بیانات کے ذریعے سے اس بات سے انکار کررہی ہے کہ سرینگر میںکوئی سینک کالونی بننے والی ہے۔ حالانکہ کولیشن سرکاری میں شامل بی جے پی کے متعدد لیڈران کھلے عام اپنے بیانات میں کہہ رہے کہ سرینگر میںسابق فوجیوں کے لیے کالونی تعمیر ہوکر رہے گی۔ ۶جون کو ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اسمبلی کے اجلاس میں اپنی ایک تقریر میں واضح کیا کہ سینک کالونیاں کہیں تعمیر نہیں ہورہی ہیں۔ انہوں نے حزبِ اختلاف اور میڈیا کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ بعض حلقے ریاست کے امن و امان کو درہم برہم کرنا چاہتے ہیں ۔ محبوبہ مفتی نے غصے میں آکر کہا

پاور پروجیکٹوں کی واپسی.... دلی کا صاف انکار

پاور پروجیکٹوں کی واپسی.... دلی کا صاف انکار ٭.... ایس احمد پیرزادہ ہندوستان کے مرکزی وزیر بجلی پیوش گوئیل نے ۰۲مئی کو ایک ویڈیو پریس کانفرنس کے دوران جس میں وہ اپنی پاور منسٹری کی کامیابیوں کی تشہیر کررہے تھے ، ایک سوال کے جواب میںکہا کہ”ریاست جموں وکشمیر کو این ایچ پی سی کے تحت قائم پاور پروجیکٹوں کے مالکانہ حقوق لوٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ “انہوں نے ان پروجیکٹوں سے حاصل شدہ بجلی میں سے ریاست کا حصہ 12 فیصد سے25 فیصد کرنے سے بھی انکار کرتے ہوئے کہا کہ این ایچ پی سی نے تمام ریاستوں کے لیے کل پیداوار میں سے12 فیصدی کا جو حصہ معیار مقررکر رکھا ہے کسی ایک ریاست کے لیے اس میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ہے۔ وزیرموصوف نے ریاست میں پاور پروجیکٹوں سے حاصل شدہ منافع میں سے بھی ریاست کو حصہ دینے سے انکار کردیا۔جب وزیر بجلی سے پوچھا گیا کہ ریاست جموں وکشمیرہندوستان بھر میں ہائیڈرل پاور پروجیکٹوں سے حاصل ہونے والی بجلی کا تقریباً 44فیصدی حصہ پیدا کرتی ہے اور اس کے باوجود ریاستی باشندوں کو بجلی دستیاب نہیں ہے۔ تو انہوں نے درجواب کہا کہ” ریاستی عوام بجلی کا بل ادا نہیں کرتے ہیں اور یہ

فکری ابتذال کو روکئے

فکری ابتذال کو روکئے حق لازوال ہے ایس احمد پیرزادہ برسوں پہلے کی بات ہے کہ آر ایس ایس کے اُس وقت چیف کے سدرشن جی سے ملنے ایک مسلم وفد جس میں ہندوستان کے اعلیٰ پایہ مسلم دانشور شامل تھے، اُن کے ہیڈ آفس ناگپور چلا گیا۔ ملاقات کا مقصد ہندوستان میں میں بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کو کم کرنے کے لیے آرایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم کے لیڈر شب کو قائل کرنا تھا اور اُن کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کے نظریہ کو رکھنا تھا۔ یہ ملاقات خوش گوار ماحول میں ہوئی۔ باتوں ہی باتوں میں جب سدرشن جی سے مسلم وفد میں ایک صاحب نے پوچھا کہ کیا مسلمانوں اور ہندوو ¿ں میں مفاہمت نہیں ہوسکتی ہے؟ کیا رسہ کشی کے ماحول کو ختم کرکے دوستانہ ماحول میں نہیں رہا جاسکتا ہے؟اس کے جواب میں کے سدرشن نے مسلم وفد کو بتایا کہ ضرور آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیم مسلمانوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرسکتی ہے لیکن اس کے لیے شرط ہے۔ مسلم وفد کے استفسار پر سدرشن نے کہا ” آپ لوگ(مسلمان)کہتے ہو کہ اسلام ہی برحق اور سچا دین ہے، آپ ایسا کہنا چھوڑ دیجئے اور کہیے کہ اسلام بھی برحق اور سچا دین ہے تو ہماری آپ کے ساتھ مفاہمت ہوسکتی ہے۔“