دلی پبلک اسکول سرینگر....
دلی پبلک اسکول سرینگر.... مذہبی معاملات میں مداخلت ناقابل قبول ٭.... ایس احمد پیرزادہ ۷۱جون ۶۱۰۲ئ کو ”دلی پبلک اسکول“ کے طلباءو طالبات نے احتجاجی دھرنادے کر کلاسوں کا مکمل بیکاٹ کرکے ریاست جموں وکشمیر کی پوری آبادی کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی۔ احتجاج، ہڑتال اور دہرنوں کی تاریخ سے وادی کشمیر پُر ہے۔ یہاں آئے روز ظلم و زیادتیوں کے خلاف ہڑتالیں ہوتی رہتی ہیں، یہاں مختلف سرکاری محکموں سے وابستہ ملازمین کا اپنی جائز مانگوںکو لے کر روز احتجاج ہوتا رہتا ہے۔ یہاں بجلی، پانی اور غذائی اجناس کی عدم دستیابی کے خلاف ہر دن کہیں نہ کہیں خواتین سڑکوں پر نکل پر دھرنا دے کر پورا ٹریفک جام کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ۷۱جون کودلی پبلک اسکول کے طلباءو طالبات کا احتجاجی دھرنااس اعتبار سے منفرد تھا کہ یہ احتجاج مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر میں پہلی مرتبہ کسی اسلامی شعائر پر پابندی اور مذہبی معاملات میں مداخلت کے حوالے سے تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اسکول میں یہ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوا جب وہاں کی انتظامیہ نے ایک مسلم باپردہ استانی کو ابایا اورنوکری میں سے ایک کا انتخاب کرنے کاOption دیا ہے۔ اُمت کی اس