Posts

Showing posts from August, 2016
متاثرین نظر انداز نہ ہوں! اعانت غمگساری اور ہمدردی ا یس احمد پیرزادہ رواں عوامی ایجی ٹیشن کوگزشتہ 27 ؍برس کی ایسی پہلی ایجی ٹیشن قرار دیا جاسکتا ہے ، جس میں شعوری طور پر لوگ زمینی سطح پرسرگرم عمل ہیں۔ہر کوئی کشمیری اس میں اپنی قربانی کا حصہ ڈال کر قومی جدوجہد کوفیصلہ کن راہ پر ڈالنے کا خواب سجائے ہے۔ عوام کا ہر طبقہ اپنے جذبات اور احساسات کا برملا اظہار کرکے رواں ایجی ٹیشن کی کامیابی کے لئے کوشاں ہے۔ تاہم یاد رکھئے کہ اگر مسئلہ کشمیر کو عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں سامنے رکھا جائے تو بغیر کسی لگی لپٹی کے کہا جاسکتا ہے کہ منزل کی جانب چڑھتی سیڑھیوں کے ضمن میں یہ قربانیاں اولین زینے ہیں، ابھی اُوپر تک پہنچنے کے لیے نہ جانے ہمیں کتنے ایسے مراحل سے گزر نا ہوگا۔دنیا کی سیاسی صورت حال کے پس منظر میں بات کرنا اپنی جگہ صحیح ہے، البتہ لوگوں کا جوش وجذبہ، ایمان و یقین اور جذبۂ حریت دیکھ کر ہی شاید ہی قائدین بھی یہ نہیں بتا پاتے کہ تحریک کی جانب رواں سفر کی ابھی بہت منزلیں ہمیں طے کرنا ہوں گی۔ بہر کیف عوام الناس کے جذبۂ حریت کو سلام پیش کیا جانا چاہیے۔ اُن کی قربانیوں اور تحریک

اور زیادہ امتحان نہ لیں

اور زیادہ امتحان نہ لیں زمانے کے خداؤں سے زبان ِ خلق کہتی ہے ا یس احمد پیرزادہ حال کے دنوں میں کشمیر میں جاری ہمہ گیر عوامی ایجی ٹیشن کے پیش نظر مسئلہ کشمیر کی جو گونج دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے، اُس کی وجہ سے حکومت ہند میں کافی اضطراب اور بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے ہندوستانی پارلیمنٹ میں کشمیر پر بحث بھی ہوئی ہے اور کئی پارٹیوں کے لیڈران نے تقریریں کرکے کشمیر میں ہورہی زیادتیوں پر حکومت کو آڑے ہاتھوں میں لیا ہے۔ کل جماعتی میٹنگ بھی منعقد کی گئی،ساتھ ہی ساتھ حکومتی وزیرا سمیت اپوزیشن لیڈران نے بھی وہی پرانا راگ الاپا کہ کشمیر میںحالات خراب کرنے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ بھارتی لیڈران نے ’’اٹوٹ انگ‘‘ والی پھر وہی طوطے کی رٹ لگائی جو مسئلہ حل نہ کر نے کا رمز واشارہ ہے۔ بے شک پاکستان کشمیرکاز کا پلیڈر ہے اور یہاں کی جدوجہد کا سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کرتارہا ہے لیکن یہاں کی تحریک کشمیر خالص کشمیری عوام کی ہے اور اس میں کوئی بیرونی مداخلت نہیں۔ بھارت کی سیاسی جماعتیں حقیقت سے آنکھیں چرا کر دعویٰ کررہی ہیں کہ کشمیریوں کو پاکستان ورغلا رہا ہے ، کیا یہ ممکن ہے کہ کسی

احتجاج مظلوم کا حق!

احتجاج مظلوم کا حق! ظلم بے ثبات ہے عدل میں حیات ہے ایس احمد پیرزادہ جمہوری دنیا میں احتجاج قوموں کا حق ہوتا ہے۔ احتجاج ہی موجودہ زمانے کا وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے اپنی آواز کو بلند کیا جاسکتا ہے۔ یہ حق انسانیت کو اقوام متحدہ کے چارٹر نے بھی فراہم کیا ہے اور مختلف ممالک کے آئین میں بھی عوام کا یہ حق محفوظ ہے کہ وہ اپنی ناراضگی کا اظہار احتجاج کے ذریعے سے کرسکتے ہیں۔ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں آج بھی اگر چند لوگ ہی سڑکوں پر خاموش احتجاج ہی کرنے نکلیں تو وہاں کی سرکار ہل جاتی ہے۔میڈیا کی پوری کوریج اُن کو دی جاتی ہے۔ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں اِن چند نفوس کا احتجاج موضوع بحث بن جاتا ہے۔ موجودہ زمانے کی تاریخ میں ایسی بھی مثالیں ہیں کہ عوام کی معمولی ناراضگی کے نتیجے میں حکومتیں گر گئیں۔ غرض آج کے زمانے میںقوموں کے لیے اپنی بات منوانے کے لیے احتجاج کا ہی واحد راستہ رکھا گیا ہے۔ جو ممالک اور اقوام عوام کو اپنے حقوق کی بازیابی اور زیادتیوں کے خلاف احتجاج کرنے سے روکتے ہیں ،طاقت کی زبان سے عوام کی آواز کو دباتے ہیں، ایسے ممالک بھلے ہی جمہوریت کا چوغا زیب تن کرکے دنیا کی ا
رواں عوامی ایجی ٹیشن.... ہم نے کیا پایا؟ ٭.... ایس احمد پیرزادہ وادی میں کشت و خون ، ظلم وبربریت، جبر و استبداد، مار دھاڑکاسلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ صورتحال دن بدن ابتر ہوتی جارہی ہے۔ پولیس، سی آر پی ایف اور آرمی کے ہاتھوں شہر و دیہات میں جگہ جگہ لوگوں کو ہراساں کرنے کی خبریں روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا چلن ہر سو عام ہے۔ لوگوں کا غم و غصہ ہر اعتبار سے جائز ہے اور المیہ یہ ہے کہ یہاں کی حکومت ایک ہی لہجے میں یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ ظلم و زیادتیاں ہوئیں ہیں ، پھر اُسی سانس میں یہ بھی قبول کرتی ہے کہ وردی پوش زیادہ سے زیادہ صبر کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ احتجاجی نوجوانوں پر حکام اور وردی پوشوں کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتارہا ہے کہ وہ پولیس اور سی آر پی ایف پر حملہ آور ہوجاتے ہیں پھر مجبوراً وردی پوشوں کو طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہ پروپیگنڈا سرینگر سے دلی تک حکومتی لوگوں ، فورسز ایجنسیوں اور مخصوص ایجنڈا رکھنے والے دلی کے میڈیا نے اس قدر عام کردیا ہے کہ اب ہندوستانی شہریوں کی اکثریت کے یہاں یہ تصور پیدا ہوگیا ہے کہ کشمیری قوم ”دہشت گرد“ ہے اور اُن کے سات
رواں عوامی ایجی ٹیشن.... ہم نے کیا پایا؟ ٭.... ایس احمد پیرزادہ وادی میں کشت و خون ، ظلم وبربریت، جبر و استبداد، مار دھاڑکاسلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ صورتحال دن بدن ابتر ہوتی جارہی ہے۔ پولیس، سی آر پی ایف اور آرمی کے ہاتھوں شہر و دیہات میں جگہ جگہ لوگوں کو ہراساں کرنے کی خبریں روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا چلن ہر سو عام ہے۔ لوگوں کا غم و غصہ ہر اعتبار سے جائز ہے اور المیہ یہ ہے کہ یہاں کی حکومت ایک ہی لہجے میں یہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ ظلم و زیادتیاں ہوئیں ہیں ، پھر اُسی سانس میں یہ بھی قبول کرتی ہے کہ وردی پوش زیادہ سے زیادہ صبر کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ احتجاجی نوجوانوں پر حکام اور وردی پوشوں کی جانب سے یہ الزام لگایا جاتارہا ہے کہ وہ پولیس اور سی آر پی ایف پر حملہ آور ہوجاتے ہیں پھر مجبوراً وردی پوشوں کو طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہ پروپیگنڈا سرینگر سے دلی تک حکومتی لوگوں ، فورسز ایجنسیوں اور مخصوص ایجنڈا رکھنے والے دلی کے میڈیا نے اس قدر عام کردیا ہے کہ اب ہندوستانی شہریوں کی اکثریت کے یہاں یہ تصور پیدا ہوگیا ہے کہ کشمیری قوم ”دہشت گرد“ ہے اور اُن کے سات