Posts

Showing posts from August, 2017

طلاق ثلاثہ پر بھارتی عدالت کا امتناع

طلاق ثلاثہ پر بھارتی عدالت کا امتناع صرف مسلم خاتون ہی نشانے پر کیوں ہے؟ ٭…ایس احمد پیرزادہ گزشتہ ہفتے 22 ؍اگست کوبھارتی سپریم کورٹ نے ایک ہی نشست میں تین طلاق یعنی طلاق ثلاثہ پر چھ ماہ کی پابندی عائد کرتے ہوئے حکومت ہند کو ہدایات دی ہیں کہ وہ اس دوران پارلیمنٹ میںطلاق ثلاثہ جسے طلاق بدعت بھی کہتے ہیں، کے حوالے سے قانون سازی کرے۔ بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے اس طرح کے فیصلے کی پہلے ہی سے توقع کی جارہی تھی کیونکہ بی جے پی سرکار بننے کے بعد گزشتہ برس جب طلاق بدعت کے حوالے سے بھارت بھر میں بحث شروع کروائی گئی تو اُس وقت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے طلاق ثلاثہ کو مسلم خواتین کے ساتھ سراسر زیادتی قرار دیا تھا۔ نیز دلی میں بی جے پی کے برسراقتدار آجانے کے بعدسے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انصاف فراہم کرنے والی عدالتوں کا وطیرہ بھی بدل چکا ہے۔ اس لیے پہلے سے ہی اندازہ تھا کہ سپریم کورٹ میں فیصلے کی نوعیت کیا ہوسکتی ہے۔ اب جب کہ سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ صادر کردیا ہے تو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اولین فرصت میں ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں اس فیصلے کو ہندوستان کی

این آئی ائے : کشمیریوں کی سیاسی آواز کو ختم کیا جارہا ہے٭…

این آئی ائے : کشمیریوں کی سیاسی آواز کو ختم کیا جارہا ہے٭… بھارت کے قومی تحقیقاتی ادارہ’’ این آئی اے‘‘ نے گزشتہ ہفتے حریت کانفرنس کے سات لیڈروں کو گرفتار کرکے راتوں رات دلی پہنچایاہے ، جہاں این آئی اے کی ایک خصوصی عدالت میں پیش کرکے پندرہ دن کے لیے اُن کا ریمانڈ حاصل کرلیا گیا۔ سات لیڈروں کی گرفتاری کے اگلے ہی روز ایک اور سینئر حریت لیڈر شبیر احمد شاہ کو بھی اپنی رہائش گاہ سے گرفتار کرلیا گیااور اُنہیں بھی این آئی ائے اہلکار دلی لے گئے۔ گرفتار شدہ لیڈران کے خلاف مبینہ طور پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ وہ بیرون ممالک سے حوالہ چینلوں کے ذریعے فنڈس حاصل کرتے ہیں ۔ بھارتی قومی تحقیقاتی ایجنسی کے مطابق مذکورہ لیڈران اور اُن کی تنظیمیں اس رقم کو یہاں سنگ بازوں اور عسکریت پسندوں میں تقسیم کرکے حالات کو بگاڑ رہے ہیں۔شبیر احمد شاہ کے خلاف ۲۰۰۵ء؁ کا ایک کیس کھولا گیا جس میں اُنہیں مبینہ طور پرحوالہ چینلوں سے رقم وصول کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ۔اخباری اطلاعات کے مطابق این آئی اے گرفتاریوں کے اس سلسلے کو پھیلانا چاہتے ہیں اور یہ بھی باتیں ہورہی ہیں کہ متعلقہ ایجنسی اتحاد ثلاثہ کے تین ا

دفعہ 370 تحریک آزادی کی دفاعی لائن ہے

دفعہ 370 تحریک آزادی کی دفاعی لائن ہے ٭… ایس احمد پیرزادہ ریاست جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ مسز محبوبہ مفتی نے حال ہی میں حکومت ہند کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر جموں وکشمیر کے خصوصی درجے یعنی دفعہ370 کو تبدیل کیا گیایا اس کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی توریاست میں ’’ترنگے‘‘ کی حفاظت کوئی نہیں کرے گا۔ اُنہو ں نے کہا کہ ایسے اقدام سے’’ علاحدگی پسند‘‘ نہیں بلکہ بھارت کو تسلیم کرنے والی قوتیں ( ہند نواز جماعتیں) کمزور ہوں گی۔نئی دہلی میں ’’بیورو آف ریسرچ آن انڈسٹری اینڈ اکنامک فنڈمنٹلز‘‘ نامی ایک غیر سرکاری ادارے کے زیر اہتمام دو روزہ مباحثے بعنوانUnderstanding Kashmir  میں حصہ لیتے ہوئے پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے اپنے ان خیالات کا اظہار کیا۔واضح رہے آر ایس ایس کی حمایت یافتہ ایک غیر سرکاری تنظیم نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک عرضی دائرکرکے مطالبہ کیا ہے کہ آرٹیکل 35A کو ختم کیا جائے۔ آرٹیکل 35A کو 1954 میں اُس وقت کے صدر ہند ڈاکٹر راجندر پرساد کے ذریعے جاری کردہ ایک ریفرنس کے تحت لاگو کیا گیا ہے۔دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں وکشمیر کو خصوصی درجہ حاصل ہے اورآرٹیکل 35A میں ریاس

کشمیر کو بھارتیوں کو آباد کرنے کی جانب پہلا قدم

 کشمیر کو بھارتیوں کو آباد کرنے کی جانب پہلا قدم ٭… ایس احمد پیرزادہ بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 35A کی منسوخی کے لیے عرضی قبول کرنے اورگورنمنٹ آف انڈیا کواس ضمن میں اپنا جواب دخل کرنے کی نوٹس روانہ کیے جانے نے ریاست جموں وکشمیر کے عوامی و سیاسی گلیاروں میں ہل چل پیدا کردی ہے۔ متحدہ مزاحمتی قیادت نے ریاستی کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کسی بھی طرح کی چھڑ چھاڑ کے خطرناک نتائج سامنے آنے کی بات کہی اور ایسے کسی بھی اقدام کے خلاف بھر پور ایجی ٹیشن چھیڑنے کا عندیا بھی دیا ہے جبکہ ہند نواز جماعتوں کے کان بھی اس مسئلے کو لے کر کھڑے ہوگئے۔ نیشنل کانفرنس کے سرپرست و سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے اپنی رہائش گاہ پر تمام اپوزیشن جماعتوں کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی جبکہ اس میٹنگ کے اگلے ہی دن وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے سیاسی حریف فاروق عبداللہ کے ساتھ ایک گھنٹے تک ملاقات کی۔ محبوبہ مفتی نے کانگریس کے ریاستی صدر کے ساتھ بھی ملاقات کی جبکہ چند اسمبلی ممبران نے بھی اُن کے ساتھ ملاقات کرکے اُنہیں پیدا شدہ صورتحال کے نتیجے میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔ مزاحمتی قیادت نے بھی حسب تواقع مؤق

کشمیرکی تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ پر قدغن

کشمیرکی تاریخی جامع مسجد میں نماز جمعہ پر قدغن ٭… ایس احمد پیرزادہ جامع مسجد سرینگر ریاست جموں وکشمیر کی سب سے بڑی اور تاریخی مسجد ہے۔ تیرہویں صدی میں سلطان سکندر کے زمانے میں تعمیر ہونے والی اس مسجد کو ریاست جموں وکشمیر میں ہمیشہ مرکزیت کا مقام حاصل رہا ہے۔ریاست جموں وکشمیر میں اُٹھنے والی آج تک کی تمام تحریکات میں جامع مسجدکا کردار نمایاں رہا ہے۔ اس اعتبار سے یہ تاریخی مسجد کشمیریوں کی مبنی برحق تمام تحریکات کی نہ صرف گواہ رہی ہے بلکہ ان تحریکات کو عوام میں مقبول عام بنانے میں بھی اس مسجد کی شاندار تاریخ ہے۔ برسراقتدار ٹولے نے ہر دور میں جامع مسجد سرینگر کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ تصور کیاہے۔ اقتداری سیاست کے حریص لوگوں نے جامع مسجد سرینگر کی مرکزیت کو ختم کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے ہیں۔البتہ کشمیری قوم کے لیے ہر ہمیشہ یہ مسجد اہمیت کی حامل رہی ہے۔گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے مسلسل چھ بار اس مسجد کو جمعہ کے دن محصور رکھا گیا اور یہاں فرزندانِ توحید کو سربسجدہ ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ جمعہ کے دن جہاں ہزاروں لوگ جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے جامع مسجد کا رُخ کرتے تھے وہیں لوگوں کی