ریاست میں تہذیبی جارحیت۔۔۔ایس احمد پیرزادہ
سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور نے دنیا کی بڑی بڑی قوموں کو کئی شعبوں میں ترقی کی اونچائیوں پر پہنچا دیا ہے لیکن ایسی بھی مجبور و مقہور اور بدنصیب قومیں ہیں جن کو زوال پذیر اور تباہ کرنے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔قوموں پر جارحیت کے نت نئے طریقے صدیوں سے آزمائے جاتے ہیں ، طاقت سے کمزور کو زیر کرنا، ذہنوں کو تبدیل کرنے کے لیے تعلیمی نصاب پر مسلط ہونا، قوموں کو اپنے کلچر سے بے گانہ بناکر اُن کے اندر دیگر تہذیبوں کی سحر انگیز کشش پیدا کرنا ، یہ وہ ہتھکنڈے ہیں جن کا سہارا لے کر آج تک سینکڑوں اقوام اپنا وجود مٹا چکی ہیں، ہزاروں تہذیبوں کے آثار تک دنیا سے مٹ چکے ہیں۔اس دور میں تہذیبی جارحیت کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال میں لایا جارہا ہے۔ تعلیم کے ذریعے سے، فروغِ کلچر کے نام پر،میڈیا کے مضبوط پروپیگنڈا کے ذریعے سے قوموں کی مجموعی ذہنیت کو مسخرکیا جاتا ہے۔ عام لوگوں سے اُن کی اپنی سوچ چھین کر اُنہیں مشین کی طرح اپنے من موافق سوچنے اور سمجھنے پرمجبور کیا جاتا ہے، اُنہیں اپنی تہذیب سے بےگانہ بناکر اغیار کی تہذیب کا دلداہ بنایا جاتا ہے۔ جہاں بس نہ چلے وہاں سائنس کے تباہ کن