Posts

Showing posts from March, 2018

نفرت کے بیج کیوں بوئے جارہے ہیں؟

نفرت کے بیچ کیوں بوئے جارہے ہیں؟۔۔۔ایس احمد پیرزادہ تاریخ میں ہمارے عروج و زوال کی داستاں اس طرح عیاں و بیان ہے کہ دلچسپی رکھنے والا کوئی بھی شخص اسلامی دنیا کے اُتار چڑھاو ¿،عروج و زوال اور حالات کو ماہ و سال کے حساب سے بآسانی جان سکتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں مسلمانوں کے آفتابِ عروج کے غروب ہو جانے کی جہاں بہت ساری وجوہات درج ہیں وہیں سب سے اہم وجہ یہ بھی بتا گئی ہے کہ مسلمان آپسی تضاداور رسہ کشی کے شکار ہوکر بڑی آسانی کے ساتھ دشمنوں کا نوالہ بن گئے۔ قوم پرستی، وطن پرستی، لسانیت، گروہ اور قبیلہ پرستی کے علاوہ مسلکی منافرت نے اس عظیم مسلم ملت کا شیرازہ بری طرح بکھیر کررکھ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔گزشتہ ادوار میں مسلکی اور مکتبی لڑائی نے اُمت مسلمہ میں اس قدر شدت اختیار کرلی تھی کہ مسلمانوں کا ایک فرقہ یہ پسند کرتا تھاکہ بے شک کوئی غیر مسلم دشمن دین فاتح بن جائے لیکن مخالف فرقہ نہ صرف اقتدار سے ہی محروم ہوجائے بلکہ اُنہیں زک بھی پہنچ جائے۔ چنگیز خان کے لشکر جب ایران کے شہر” قم“ پہنچے تو وہاں مسلمانوں کے دو گروہ موجود تھے، فروعی مسائل میں جن کے آپسی اختلاف آسمان کو پہنچ چکے تھ

شوپیان ۔۔۔یہ کس کا کہو ہے کون مرا۔۔۔۔۔ایس احمد پیرزادہ

شوپیان:یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟؟… ایس احمد پیرزادہ 4؍ مارچ کوجنوبی کشمیر کے پہاڑی ضلع شوپیان میں ایک اور خونی کھیل میںدوعسکریت پسندکے علاوہ چار بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کو فورسز اہلکاروںنے گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق اس روز شام کو جب لوگ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے باہر آرہے تھے توکچھ ہی دیر بعد باہر شوپیان سے ۶ کلو میٹر دور ترکہ وانگام روڑ پرپہنوپنجورہ نامی گاؤںمیں گاڑیوں کی تلاشی کرنے والے مقامی کیمپ سے وابستہ44 آر آر کے اہلکاروں نے ایک Swift گاڑی زیر نمبرJK04D 7353پر اندھا دھند فائرنگ کی تین بے گناہ لوگوں کو جان بحق کردیا۔عوامی ذرائع کے مطابق Swift گاڑی پر فائرنگ سے قبل جنگجوؤں اور فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی جس میں ایک عسکریت پسند جان بحق ہوگیا۔اس واقعے کے حوالے سے فوج نے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ فائرنگ میں ایک جنگجوعامر احمد ملک ولد بشیر احمد ملک ساکن حرمین شوپیان جان بحق ہوگیا۔ قریباً ایک گھنٹے کے بعد آرمی نے اپنے ایک اور بیان میں کہا کہ اس واقعے میں جنگجو ؤںکے ساتھ موجود تین مقامی نوجوان بھی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے، جن کی شناخت سہیل احمد

ہم کیوں پٹ رہے ہیں!۔۔۔ایس احمد پیرزادہ

1517 ء میں عثمانی بادشاہ سلیم اول نے خلافت کا تاج عظیم عثمانی سلطنت کے سر پر سجانے کے لیے مملوک سلطنت کے مرکز مصرپرحملہ کیا۔ عثمانی فوجی ہر اعتبار سے طاقت ور تھی البتہ مصر میں جو مملوک بادشاہ اُس وقت تخت نشین ہوا تھا اُس کا نام طومان بے تھا۔ طومان بے نے بڑی ہی بے جگری کے ساتھ عثمانیوں کے خلاف اپنی بہادر کے جواہر دکھائے لیکن اُن کی بہادر اور ماہر فوج کے پاؤں عثمانیوں کے توپ خانوں اور بندوقوں نے اُکھاڑ دئے۔ بالآخر طومان بے نے ہتھیار ڈال دئے اُن کے ایک بہادر فوجی افسر قرط بے کو جب گرفتار کرکے سلطان سلیم اول کی خدمت میں لایا گیا، تو یہاں دونوں سلطان سلیم اور قرط بے کے درمیان ایک تاریخی مکالمہ ہوا، جس کو تاریخ دانوں نے بڑی اہمیت کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔عثمانی سلطان سلیم اول کے سامنے قرط بے نے ایک زور دار تقریر کی جس میں اُنہوں نے توپ اور بندوق کا ذکر نفرت اور حقارت کے ساتھ کیا ،قرط بے نے سلطان سلیم کو مخاطب ہوکر کہا کہ توپ اور بندوق کا وار بہادرانہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ بزدلانہ طریقہ پر مارتی ہیں، اس نے سلیم کو بتایا کہ بندوقیں مصر میں سب سے پہلے اشرف قانصوہ کے عہد میںلائی