شادی بیاہ میں رسوماتِ بد… ایک ناسور۔۔ایس احمد پیرزادہ
حال کے دنوں میں مقامی اخبارات میںشہ سرخیوں کے ساتھ دو ایسی خبریں شائع ہوئی ہیں جنہوں نے عوامی حلقوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی ہے، اوریہ سماجی سطح پر عام لوگوں میں موضوع بحث بھی بن گئیں ہیں۔ ایک خبر سرینگر میں کسی فلاحی ادارے کے اُس احسن اقدام کے بارے میں تھی جس میں 105 ایسے جوڑوں کی اجتماعی شادیاں کی گئی ہیں جو خود ازدواجی زندگی کے بندھن میں بند جانے کی خواہش تو رکھتے تھے لیکن شادی کے موقعے پر ہونے والے پہاڑ جیسے اجراجات اُن کے لیے ناقابل برداشت تھے۔ مذکورہ فلاحی ادارے نے ایسے ہی105 جوڑوں کو شادی کے مقدس بندھن میں باندھ دیا ہے۔ اس ادارے نے شادی پر ہونے والے تمام اخراجات برداشت کیے ہیں۔ یہ105 جوڑے غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، اِن میں چالیس سے زائد لڑکیاں یتیم ہیں۔ عوامی حلقوں میں اس اقدام کی خوب واہ واہی ہوئی ہے اور اس طرح کے احسن اقدامات کو وقت کی ضرورت قرار دیا جارہا ہے۔ دوسری افسوس ناک نیوز جو شائع ہوئی ہے ، وہ یہ تھی کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران وادی میں ۸؍ لڑکیاں پراسرار طور پر غائب ہوچکی ہیں، یہ لڑکیاں جواں سال اور پڑھی لکھی ہیں، پولیس نے ان لڑکیوں کے بارے میں جانکاری فراہم