پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ

٭…ایس احمد پیرزادہ
گزشتہ ستربرس سے کشمیر میں سیاست جھوٹے وعدوں، سنہرے سپنوں اور کہہ مکر نیوں کی شہ کار بنی رہی ہے۔رائے شماری کے وعدۂ فردا سے لے کر زخموں کے مرہم تک کے وعدے تک ایسی لمبی فہرست پھیلی ہے جو کبھی وفا نہ ہوئے مگر یہا ں کے قبرستانوں ، جیلوں ، تباہ شدہ بستیوں اور برباد بازاروں کو ضرور جنم دیا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور گزشتہ دنوں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اورسابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پلوامہ میں پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ایک اور وعدہ اس فہرست میں جوڑتے ہوئے کہا : ’’ہم یہاں اَفسپا کا قانون مرکز سے بات کئے بنا نہیں اْٹھا سکتے لیکن جو اپنے(ریاستی) قانون ہیں اْن کو ہم کیوں نہیں اْٹھا سکتے ؟ میں نے طے کیا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں جس دن نیشنل کانفرنس کی اپنی حکومت بنی ، کچھ ہی دنوں کے اندر پبلک سیفٹی ایکٹ کو قانون کے دائرے سے باہر نکال دیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ’’ ہمارے نوجوان پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار نہیں ہوں گے اور والدین بھی پریشان نہیں ہوں گے۔‘‘ عمر عبداللہ نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں دیا جب جموں وکشمیر میں قانون ساز اسمبلی کے مجوزہ انتخابات کی تیاریوں میں تمام ہند نواز سیاسی جماعتیں جٹ چکی ہیں۔ الیکشن سے قبل ووٹروں کو لبھانے کے لیے حسب عادت سیاست دان عوام کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح آج اس درمیانی مدت میں اقتدارپرست سیاسی جماعتوںکے لیڈروں کو عوام کے حقیقی مسائل کا صحیح معنوں میں بخوبی ادراک بھی حاصل ہے ، مگر ایک مرتبہ اقتدار کیا حاصل ہوتا ہے کہ پھر عوامی پریشانیاں اور مسائل کی جانب اْن کاکبھی بھی دھیان ہی نہیں جاتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ جن مسائل اور مشکلات کوایڈرس کرنے کی خاطر یہ جماعتیں عوام سے ووٹ لے چکی ہوتی ہیں ، کرسی پر بیٹھتے ہی یہ اْن مشکلات اور مسائل میںدیدہ و دانستہ اضافے کا ہی سبب بن جاتی ہیں۔پبلک سیفٹی ایکٹ اور افسپا جیسے کالے قوانین کا خاتمہ اگرچہ عوامی حلقوں کی برسوں سے مانگ رہی ہے ،ان ظالم قوانین کی وجہ سے یہاں انسانی حقوق کی ہوئی زیادتیوں پر عالمی سطح پر بھی خوف واویلا کیا جاچکا ہے اور ان کا خاتمہ حقیقی معنوں میں کشمیریوں کے لیے راحت کا باعث ہوسکتا ہے لیکن جو لوگ فی الوقت ان کے خاتمے کی باتیں کررہے ہیں ،اْن کے ماضی کو دیکھتے ہوئے کسی کو کیسے یقین آئے کہ یہ لوگ کبھی اپنے ان وعدوں کا ایفاء کرنے کے روا دار ہوں گے۔ ان کے گزشتہ اقتداری ادوار کا جائزہ لینے سے بخوبی واشگاف لفظوں میں یہ راز افشاء ہوجاتا ہے کہ یہی توہیں جن کی وجہ سے کشمیری عوام بنیادی حقوق سے آج تک محروم چلے آرہے ہیں ، جن کی وجہ سے کشمیریوں نے کبھی پی ایس اے توکبھی پوٹا اور کبھی ٹاڈاکی ناقابل بیان مار یں سہی ہیں۔ یہی تووہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی منچلے ہیں جنہوں نے اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کی خاطر کشمیریوں کے جان و مال، عزت و آبرو اور اْن کے وسائل اور حقوق کو دلی کے بازاروں میں کوڑیوں کے دام نیلام کردیا اور پھر جب اقتدار کی نیلم پری سے الگ ہوئے تو کشمیر کی بربادی اور کشمیریوں کی مظلومیت پر مگر مچھ کے آنسو بہانے میں دریغ نہ کیا۔
پبلک سیفٹی ایکٹ کو جموں وکشمیر میں ما بعد اندرا…عبداللہ ایکارڈ ستر کی دہائی میں لاگو کیا گیاتھا۔ عمر عبداللہ کے دادا اور اْس وقت کے وزیر اعلیٰ شیخ عبداللہ نے کہنے کو یہ ایکٹ جنگل چوروں اور سمگلروں کے خلاف ریاست میں معرض وجودمیں لایا تھا ، تاریخ کے چکے چوڑے سینے میںریکارڈ پر اْن کا یہی دعویٰ درج ہے لیکن بعد کے ادوار گواہ ہیں کہ اس بدنام زمانہ ایکٹ کا اطلاق جنگل چوروں اور سمگلروں کے بجائے اْنہوں نے ، ا ْن کے جانشینوں اور وقت وقت کے گورنروں نے اپنے سیاسی حریفوں بالخصوص حق خود ارادیت کا پیدائشی حق مانگنے والوں کو کچلنے دبانے کے لئے بے تحاشا انداز میں کیا۔ نوے کی دہائی میں پہلے گورنر راج میں اس قانون کے تحت کشمیریوں کو اندھا دْھندسلاخوں کے پیچھے دھکیلا گیا، بعد میں جب۱۹۹۶ء؁میں فاروق عبداللہ نے تین فیصد ووٹ حاصل کرکے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو اْنہوں نے بھی حریت کانفرنس کے لیڈروں کے ساتھ ساتھ حق خودارادیت کی مانگ کرنے والے عام کشمیریوں کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت قیدخانوں کی زینت بناڈالا۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت وردی پوش کسی بھی شخص کو’’ امن و امان کے لیے خطرہ‘‘ قراردے کر اْنہیں برسوں جیل میں نظر بند رکھ سکتے ہیں۔ ابھی تک ہزاروں کشمیری اس بدنام زمانہ قانون کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ، سینکڑوں کی جوانیاں تعذیب خانوں کی چار دیواریوں کے پیچھے ڈھل گئیں ، اَن گنت ایسے بھی ہیں جو اس قانون کی مار سہتے سہتے مختلف ذہنی و جسمانی امراض کے شکار ہوچکے ہیں اور ایسے بھی سینکڑوں نام لیے جاسکتے ہیں جنہوں نے تعذیب خانوں میں ہی اپنی جان گنوا دی۔
پی ایس اے کے تحت نوے کی دہائی میں کسی بھی عمر کے شہری کو پولیس ڈوزیر کی بنیاد پر ڈی سی کے دستخطوں سے ’’ سیکورٹی کے لیے خطرہ ‘‘قرار دے کر پہلے دو سال کے لیے جیل میں ٹھونس دیا جاتا تھا، پھر امن و امان کے لیے ’’خطرناک‘‘ لوگوں کے خلاف اس کالے قانون کا اطلاق سال در سال کردیا جاتا تھا۔۲۰۱۱ء؁ میں ہائی کورٹ کی ہدایات پرحکومت ِ وقت نے اس قانون میں ترمیم کرکے نظر بندی کی مدت چھ ماہ کردی اور عمر عبداللہ کی سرکار نے اْس وقت بھی یہ کہا تھا کہ ہم نے قانون میں ترمیم کرکے لوگوں کی نظر بندی میں آسانیاں پیدا کی ہیں، لیکن فورسز ایجنسیوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ وہ ایک ہی شخص پر پے در پے پی ایس اے لاگو کرکے اْسے برسوںبآسانی مقیدرکھتے ہیں۔ اس چکر میںبدنصیب قیدی کے لیے بار بار نئے نئے فرضی کیسوں کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے اور قانونی چارہ جوئی کے لیے اْنہیں وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ مالی بوجھ بھی سہنا پڑتا ہے اور پھر اْن کی رہائی کا تمام تر دارو مدار عدالتی فیصلوں کے بجائے فورسز ایجنسیوں کے مر ہونِ منت ہوتا ہے۔ اگر پولیس اور دیگر ایجنسیاں دہائیوں تک کسی قیدی کو چھوڑنا نہیں چاہیں گے تو عدالت اْنہیں ہزار مرتبہ بھی باعزت بّری کیوں نہ کردے، اْن کے خلاف نت نئے اور فرضی کیس بناکر اْن پر اس ظالمانہ قانون کا اطلاق کیا جاتا رہے گا۔اس لیے قانون میں ترمیم کرکے کشمیریوں پر کوئی ’’احسان‘‘ کئے جانے کے بجائے اْنہیں قانونی داؤ پیچ کے گورکھ دھندوں میں پھنساکر اْن کی آنکھوں میں دھول جھونک دی گئی۔
پبلک سیفٹی ایکٹ کی بے رحمی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حریت کانفرنس کے سر کردہ محبوس لیڈر مسرت عالم بٹ کو۲۰۱۰ء؁میں اس قانون کے تحت جیل میں ٹھونس دیا گیا، تاحال اْن پرایک محتاط اندازے کے مطابق۳۷؍ بار پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق عمل میں لایا گیا، ہر بار اْنہیں کورٹ تمام الزامات سے بّری قرار دیتی ہے اور اْن کی رہائی کے احکامات صادر کرتی ہے اور ہر دفعہ پولیس اْنہیںرہائی سے قبل ہی ایک اور کیس میں ملوث قرار دے کر از سر نو اْن پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرتی ہے۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ عمر عبداللہ والی سرکار کی زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کی اسیری والی’’ احسان مندانہ‘‘ ترمیم کا اطلاق مسرت عالم بٹ اور اْن جیسے درجنوں قیدیوں کے معاملے میں کہاں ہوتا ہے؟ قانون اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں میں کوئی بھی ایسی شق یا طریقہ کار موجود نہیں ہے جس میں ایک ہی شخص پر بار بار اور پے در پے پبلک سیفٹی ایکٹ لاگو کرنا انصاف کے تقاضوں کے خلاف قرار پاتا ہو۔ حد تو یہ ہے کہ جو عدالت اس ہفتے کسی بندے کو باعزت بری کرتی ہے، وہی عدالت اگلے ہفتے اْسی بندے پر عائدشدہ ایک اور پی ایس اے کی شنوائی کرتی ہے اور انصاف کی اندھی دیوی کے یہاں کو ئی میکانزم ہی موجود نہیں جس میں اس ظلم و جبر کا ایک دم جائزہ لے کر انسانی حقوق کی خلاف وزریوں پر روک لگائی جاتی۔
اگست۲۰۱۴ء؁میں عمر عبداللہ نے بہ حیثیت وزیر اعلیٰ ریاستی اسمبلی میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ جولائی۲۰۱۴ء؁تک صرف ۷۶؍افراد کو پی ایس اے کے تحت نظر بندکیا گیا۔اْن کے اس بیان کو موضوع ِبحث بناتے ہوئے پھر مارچ۲۰۱۵ء؁میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے انکشاف کیا کہ جموں وکشمیر میں ۱۹۹۱ء سے۲۰؍ہزار افراد کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندکیا گیا تھا۔۲۰۰۸ء؁سے تاحال کتنے لوگ بالخصوص نوجوان اس قانون کے ہتھے چڑھ چکے ہیں، اس کا اندازہ جموں وکشمیرہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سری نگر کی اْن رپورٹس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جو وہ مختلف مواقع پر جیلوں کا معائنہ ٹور کر کے اجراء کرتی رہتی ہے۔ان میں بار کی جانب سے پی ایس اے کیسیز کی شنوائی اور تعداد کا مفصل ذکر ہوتا ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ یہاںکم سن بچوں تک پر سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیاجارہا ہے۔ وادی کے علاوہ ریاست سے باہر کی جیلوں میں آج بھی سینکڑوں نوجوان اس کے تحت قیدو بند ہیں، جنہیں وردی پوشوں نے’’ امن وامان کے لیے خطرہ‘‘ قرار دے کر اْن پر صرف نیشنل کانفرنس کے تخلیق کردہ پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ عمل میں لایا ہے۔ عدالتوں میں زیادہ تر سرکاری وکلاء اْن کے کیسوں کو طولت دے کر اْن کی اسیری کے ایام زیادہ سے زیادہ کرنے کی دانستہ کوششیں بھی بے تکلفی سے کرتے رہتے ہیں، حالانکہ ہندوستانی قوانین میں شخصی آزادی کی اہمیت حد سے بڑھی ہے اور عدالتوں میں ایسے کیسز کو ترجیحی بنیادوں پر نپٹانے کے لیے باضابطہ قانونی شقیں موجود ہیں لیکن جموں وکشمیر کے حدود میں اکثرو بیش تریہاں کے سیاسی قیدیوں کے لیے ایوان عدل میں انصاف کے معانیٰ ہی تبدیل ہوجاتے ہیں۔
۲۰۰۸ء کے الیکشن میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اقتدار حاصل ہونے کی صورت میں افسپا ہٹانے کا نعرہ دیا تھا اور وہ اپنے جلسے جلسوسوں میں پرزور انداز میں دلیلیں دے دے کر اس کالے قانون کے خاتمہ کی بات کیا کرتے تھے۔ پھر جب اقتدار حاصل ہوا، تو بہ حیثیت وزیر اعلیٰ وہ بار بار دلی میں اپنے سیاسی حلیف کانگریس سرکار سے اپیلیں کیا کرتے تھے کہ وہ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کا جائزہ لیں، تجرباتی طور’’ ملی ٹینسی فری‘‘ علاقوں میں ہی اْن کی ناک بچانے کے لئے یہ قانون ہٹالے لیکن دلی نے اْن کی تجویز کو درغور اعتنا ء ہی نہیں سمجھا، اگرچہ ایک موقع پر وقت کے وزیرداخلہ پی چدمبرم نے اَ فسپا کو’’ بہت جلد‘‘ کہیں علاقوں سے ہٹانے کا وعدہ بھی دیا مگر عمل ندارد۔ عمر عبداللہ کو لگا تھاکہ دلی افسپا کوصحیح معنوں میں’’ مقدس کتاب‘‘ کا درجہ دے چکی ہے اور کسی صورت اس قانون پر نظر ثانی یا ہٹانے کے حق میں دکھائی نہیں دیتی تو اْنہوں نے ہاتھ پھیلا پھیلا کر برائے نام ہی سہی وادی کے چند مخصوص علاقوں سے افسپا ہٹانے کی مانگ کی، دلی نے اَن سنی کردی۔ حالانکہ اگر کسی ایک ضلع سے اس قانون کو ہٹا بھی لیا جاتا تو بھی زمینی صورت حال پر کوئی واضح فرق نہیں پڑتی لیکن دلی میں موجود برسراقتدار کانگریس سرکار نے عمر عبداللہ کو کوئی اہمیت ہی نہیں دی۔ یہ اْس وقت کی بات تھی جب ریاست میں حالات قدرے بہتر تھے، دلی میں  منموہن سنگھ کی سرکردگی میں کانگریسی سرکار برسراقتدار تھی جوریاست میں نیشنل کانفرنس کی کولیشن پارٹنر تھی۔ اس وقت دلی میں بی جے پی کی سرکار ہے ، بھارتی سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ پیشین گوئیاں بھی ہورہی ہیں کہ ممکنہ طور آئندہ سرکار بھی بی جے پی کی ہی ہوسکتی ہے، بی جے پی نے کشمیر ایشو کو نیشنل سیکورٹی سے جوڑ کر اس کوآستھا کا مسئلہ بنادیا ہے۔ بی جے پی کے سیاسی ایجنڈے کے لیے یہاں پر تعینات فوج اور اْن کی پشت پر موجود بدنام زمانہ قوانین آکسیجن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بی جے پی ہی کیا دلی کی کوئی بھی حکومت کبھی بھی یہ نہیں چاہے گی کہ خصوصی اختیار سے لیس جو فوج اور دیگر ایجنسیاں کشمیریوں کو مغلوب کرنے کے جتن کالے قوانین کے بل پر یہاں کر تی ہیں، اْن پر کوئی آنچ آجائے۔اس بات کا ادراک عمر عبداللہ، اْن کی جماعت نیشنل کانفرنس کے ساتھ ساتھ جتنے بھی ہندنواز سیاست دان یہاں ہیں، سب کو ہے، اس لئے اس کے باوجود اب اگر وہ اس طرح کی باتیں کر رہے ہیں تو یہ محض اسی سیا سی پینترا بازی کا اعادہ ہے جس کے دامِ ہمرنگ زمین میں سادہ لوح عوام کو پھنسا کر اْن سے نالی ، سڑک ، بجلی ، راشن کے نام پر ووٹ بٹورا گیا تھا۔ آج بھی پی ایس اے کو کالعدم قراردینے واحد مقصد یہی دکھائی دیتا ہے۔
اٹانومی نیشنل کانفرنس کا نعرہ ہے،۱۹۹۶ء؁میں یہ جماعت واضح اکثریت کے ساتھ یہاں کے مسند اقتدار پر براجمان رہی ہے۔ اْدھردلی میں دیوی گوڑا سرکار نے اپنے منشور میں کشمیر کو ’’گریٹر اٹونامی ‘‘ دینے کا وعدہ دیا تھا۔ ڈاکٹر فاروق برسوں اس بارے میں مکمل طور چپ رہے مگر جب دلی میں ملی جلی حکومت واجپائی کے ہاتھ میں تھی اور این سی اس کی سیاسی اکائی تھی ، فاروق عبداللہ نے مدتِ حکومت ختم ہونے سے ذرا پہلے ریاستی اسمبلی میں اٹانومی بل بڑے زور و شور اور واضح اکثریت کے ساتھ پاس کرائی۔ پھر دلی دربارمیں کشمیریوں کی نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کی پاس کردہ اْس بل کاحشر کیا ہوا یہ سب کو معلوم ہے۔ جو عبرت ناک انجام اسمبلی کی منظور کردہ اٹونومی بل کاکیا گیا ،اْس پر تب سے لے کر آج تک عمرعبداللہ کی جماعت نے کبھی لب کشائی کی؟ اْنہوں نے کبھی دلی کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہا کہ وہ اس طرح سے ریاستی اسمبلی کی توہین نہیں کرسکتے ؟ اس کے بجائے اس جماعت کے ذمہ داروں نے پرانی تنخواہ پر ہی کام کرنے کی حامی بھر کر ازسرنو اْن لوگوں اور جماعتوں کی جی حضوری شروع کردی ہے جو دلی سے ہی ریاستی معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھے ہوئے ہیں اور جن کے اشاروں پر ہی یہاں حکومتی بنتی اور گرتی ہیں۔اٹانومی تو دور کی بات این سی اقتدار حاصل کرنے کی خاطر کوئی بھی حد پھلانگنے میں وہی کرسکتی ہے جو قطبین کے اتحاد کے نام پر مفتی سعید نے کیا۔ عمر عبداللہ نے بہ حیثیت وزیراعلیٰ اسمبلی فلور پہ بر ملا اظہار کیا کہ ہم دلی کے ڈیلی ویجر ہیں۔
 بایں ہمہ پی ایس اے، پوٹا ، افسپا جیسے کالے قوانین اور ریاست کے محدود خطے کو دنیا کا سب سے بڑا فوجی جماؤ والا خطہ بنانے کے پیچھے جو بھی ا سباب و محرکات ہیں، اْن کو  پہلی فرصت میں ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے۔ کالے قوانین سب کے سب کشمیریوں کی جائز آواز اور حقوق کی باز یابی کی مانگ کو دبانے کے وہ حربے ہیں جو طاقت ور ممالک اور قومیں کمزرلوگوں کے خلاف ہمیشہ آزماتے ر ہے ہیں۔جب تک کشمیری اپنے حقوق کی بات کرتے رہیں گے ،نہ ہی پی ایس اے کو ہٹنے دیا جائے گا اور نہ ہی افسپاکی’’مقدس کتاب‘‘ پر کسی کو بات کرنے کا اختیار دیا جائے گا۔اس لیے بہتر یہ ہے کہ عمرعبداللہ اور دیگر سیاسی جماعتیں بنیادی مسئلے یعنی مسئلہ کشمیر کو اڈریس کریں اور دلی کے حکمرانوں کو یہ بات بہ خلوص قلب سمجھائیں کہ نہ ہی زور زبردستی میں کشمیر حل مضمر ہے اور نہ ہی سنگین قوانین کے بل پر قوم کے لب ہمیشہ کے لئے سلے جاسکتے ہیں۔ سب کی بھلائی اس میں ہے کہ فریبی اور مطلبی سیاست کا لبادہ اْتار پھینک کر مقامی ہندنواز اوردلی کشمیر کے زمینی حقائق کا ادراک کرکے مسئلہ کشمیر کا مذاکراتی حل کے لئے سہ فریقی ڈائیلاگ کا راستہ اپنائیں۔اسی میں کشمیر کا بھلااور انڈیا اور پاکستان کے کروڑوں غریب ، ننگے بھوکے، ناخواندہ اوربیمار لوگوں کی ترقی کا راز پوشیدہ ہے اور یہی پاک و ہند کے درمیان قیام امن اور خوشحالی کا سبب بھی ثابت ہوگا۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ