Posts

Showing posts from April, 2015
تابندہ کے بعد کنن پوش پورہ? زخموں کا شمار کرنے پہ خنجر بھی شرمسار ایس احمد پیرزادہ ؍اپریل کو شمالی کشمیر کے ہنگامہ خیز ضلع کپواڑہ کی ایک عدالت نے ۸؍سال قبل ۲۰۰۷ء میں تابندہ غنی عصمت ریزی اور قتل کے کیس میں تاریخی فیصلہ سناتے ہوئیاس میں ملوث چاروں ملزمان کو سزائے موت سنائی۔پرنسپل سیشن جج محمد ابراہیم وانی نے کیس کی سماعت کے طویل سلسلہ کے بعدان چار ملزمان کو سزائے موت کا مستوجب قرار دیا۔ عدلیہ کے اس فیصلے پر نہ صرف مقتولہ کے اہل خانہ نے راحت کی سانس لی بلکہ پورے کشمیر میں انسانیت کے درد خواہوں کو لگا کہ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں بھی عدل کا میزان کام کرنے کی صلاحیت اور قوت رکھتاہے۔ معصومہ تابندہ غنی کو ۷ برس قبل چار درندہ صفت مجرموں نے اُس وقت اپنی ہوس کا شکار بنالیا جب وہ ۱۳؍برس کی کم سن بچی اسکول سے واپس اپنے گھر بٹہ پورہ لنگیٹ آرہی تھی۔ انسانیت کے ان بدترین دشمنوں نے اس بچی کے ساتھ جنسی زیادتی ہی نہ کی بلکہ اپنا جرم چھپانے کے لئے اس کا قتل بھی کیا ۔ یہ دلدوز منظر دیکھ کر آسمان بھی رو پڑا ہوگا۔ پولیس نے فوراً حرکت میں آکر مجرموں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔ ان پر عدالت میں مقدم
خالد وسہیل کی ہلاکت مسرت کی حراست ہے صید کا قفس جہاں صیاد کا قصروہیں  ایس احمد پیرزادہ مسرت عالم کی رہائی پر غم اور غصے کی آتشیں لپٹیں اٹھیں اور دس بارہ ورز بعد بغیر کسی تحقیقات یا جواز کے ا نہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا تو شادیانے بجے اور واہ واہ کی آوازیں بلند کی گئیں جیسے کسی بڑے معر کے کو سر کیا گیا ہو ۔ ریاست جموں وکشمیر کا سیاسی منظر نامہ کسی نہ کسی بہانے ہمیشہ ہنگامہ خیز رہتا ہے، یہاں کی دنیا ہی الگ ہے، یہاں حکومتیں تو ضرور ہوتی ہیں لیکن اُن کے اکثر اور اہم فیصلے ریاست سے چھ سات سو کلو میٹر دور حکومت ہند کی منشا ء اور مرضی سے ہوتے ہیں۔ یہاں کہنے کو قانونی ادارے اور قانون نافذ کر نے والے صیغے بھی قائم ہیں مگر ہمیشہ قانون کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر انصاف کی دیوی کا جامہ تار تار کیا جانا ان کے لئے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے۔ فی ا لوقت کملابوچھو ترال کا خالدمظفر وانی اور نارہ بل کا سہیل احمد صوفی ان پہلوانوں کی بندوقوں کا خوارک بن کر قبروں کی زینت بن چکے ہیں اور پورا کشمیر حسب دستور سر اپا احتجاج ہے مگر چشم فلک منتظر ہے کب کوئی دوسر اخالد اور سہیل بندوقوں کے آتش وآہن کی بھو
پنڈتوں کو خوش آمدید مگر۔۔۔ ہماری دوستی کب دشمنوں کوراس آئے گی  ٭....ایس احمد پیرزادہ ریاست جموں وکشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے اس لیے سیاسی سطح پر ہر دور میں یہاں کوئی نہ کوئی تنازعہ کھڑا ہوتا رہتا ہے۔ بالخصوص جب بھی کشمیر میں ٹورسٹ سیزن میں جان پڑ نا شروع ہوتی ہے ، کوئی نہ کوئی پنگہ کھڑا کر کے سیاحوں کو باضابطہ طور کشمیر نہ آنے کی گو یا چتاو ¿نی دی جاتی ہے۔ اس بار بھی یہی عمل باضا بطہ طور دہرایا جارہاہے۔ پنڈتوں کی گھر واپسی ایک نان ایشوہے ، اسے جان بوجھ کر ایشو کیوں بنایا جارہاہے اور سیاسی شطرنج کچھ اس طرح سے کیوں بچھایا جارہی ہے کہ یہ تاثر ملے جیسے کشمیر آنے سے پنڈتوں کو روکنے کے لئے یہاں کا بچہ بچہ ہاتھوں میں تلوار لئے کھڑا ہو۔یہ ایک معمہ اورا یک شر انگیزی ہے۔گزشتہ دنوں مفتی محمد سعید کی وزیراداخلہ راج ناتھ سے ملاقات کے فوراًبعد اس بارے میں دھرم یدھ کی سی صورت حال پیدا کی گئی جس میں ہند نواز سیاسی ٹولے اور مزاحمتی گروپ پنڈتوں کی موضوع پربیان بازیایوں میں مصروف ہیں ، بلکہ بعض لوگ خود کو ماڈریٹ اور جمہوریت پسند دکھلانے کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت بھی لے رہے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ کئی
یمن کا امن غارت کیوں ؟ اے ملتِ اسلام !وائےتیری خیر نہیں  ایس احمد پیرزادہ عرب بہار کا ایک اور مہیب شکل اب جنگ ِ یمن بن کر نمودار ہوچکی ہے ۔ بظاہرحوثی باغی یمن کو ایک خون آشام رزم گاہ بنا نے پر تلے ہوئے ہیں مگر یہ ان کی لڑائی نہیں بلکہ ان کی آڑ میں دنیائے کفر کی تمام ترتوانی بر سر پیکار ہے ۔ باطل کی یہ خواہش ہو ہی نہیں سکتی کہ حوثی باغی جنگ جیت جائے یا صدر عبد ربہ کی وفادار فوجیں ہار جائیں ، بلکہ وہ اس جنگ میں اپنے گھٹیا مفاد کے لئے ان کی پشتیبانی کر رہا ہے تاکہ مسلمان چاہے کسی بھی مسلک ومشرب سے وابستہ ہو وہ داخلی طور انتشار وافتراق کے شکار ہوں تاکہ خارجی محاذ پر ان کے حقیقی دشمن ان کا بینڈ بجائیں تاکہ تہذیبوں کے تصادم کا سفر جاری رہے ۔ اصل مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمان آپس میں لڑ بھڑکر اتنے منتشر اور کمزور ہوجائیں کہ ان کو زمین پناہ دے نہ آسمان ان پہ روئے ۔ مسلمانان ِ عالم کے لئے اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ جو ملت اتحاد کی داعی اورصلح جوئی کے لئے منصب امامت پر فائز کی گئی ، وہ یمن ، مصر ، لیبیا ، عراق ، پاکستان وغیرہ ممالک میں ایک دوسرے کے خلاف دست وگریباں ہوں ۔ ا س حقیقت کو سمجھ