Posts

Showing posts from December, 2018

پلوامہ:نسل کشی کب تلک؟۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

وادیٔ کشمیر میں سنہ نوے سے جاری قتل و غارت گری سے کب تلک معلوم اور بے نام مقبرے آباد ہوں گے، لاشیں گرتی رہیں گی، زخمیوں کے ڈھیر لگتے رہیں گے، باپ اپنے لخت ہائے جگر کو کند ھا دیتے رہیں گے ، مائیں ماتم کرتی رہیں گی، بستیاں اْجڑتی رہیں گی ، خوف دہشت کا بازار گرم ہوتا رہے گا ،ا نسانیت کی تذلیل ہوتی رہے گی ؟ یہ سوال ہی نہیں فریاد بھی ہے ، آہ وفغان بھی ہے ، مرثیہ خوانی بھی ہے۔ خون آشام المیوں کے اس لامتناہی سلسلے کی ایک اور کڑی ۱۵؍دسمبر کو جنوبی کشمیر کے گاؤں سرنو پلوامہ میںوردی پوشوں کے ہاتھوں وقوع پذیر ہوئی ،جس میں تین عسکریت پسند اور سات عام شہری ابدی نیند سوگئے جب کہ درجنوں عام شہری گولیوں اور پیلٹ گن کے چھروں سے زخم زخم ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق پندرہ منٹ کے مختصر انکاؤنٹر میں تین عسکریت پسندوں کے جان بحق ہوجانے کے بعدبھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے احتجاج کر رہے مقامی نوجوانوں پر راست طور گولیاں چلا ئیں اور چشم زدن میں ہر سو قیامت صغریٰ بپا کر دی۔ چاروں اور خون میں لت پت تڑپتے نوجوانوں کو دیکھ کر سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مار کنڈے کاٹجو نے بجاطور اس خونین کارروائی کو جلیاں

اپنی حالت کا خود احساس نہیں ہے ہم کو۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

آر ایس ایس کے آفیشل آرگن’’آرگنائزر‘‘(Organiser) میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے ایک وکیل پرشانت پاٹل کا مضمون شائع ہوا ہے۔Why the Population Control law is now most urgent and essential in the National Interest? کے عنوان سے لکھے گئے مضمون کو دیکھ کر پہلے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ شاید انڈیا کی بڑھتی ہوئی آبادی سے پریشان ِ حال آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے اس وکیل صاحب نے افلاس اور غربت سے بے حال آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی منصوبہ پیش کیا ہوگا لیکن جب اس پورے مضمون پربغور نظر دوڑائی جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی کا خطرہ پیش کرکے دراصل مسلم آبادی پر نشانہ سادھا گیا اور مسلم آبادی کو گلوبل وارمنگ اور ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں سے بھی زیادہ خطرناک انداز میں پیش گیا گیا ہے۔مضمون نگار نے مسلم آبادی کے تناسب کا اس اندازہ سے تذکرہ کیا ہے کہ جیسے بھارتی مسلمان جنگ کے لیے کوئی فوج تیار کررہے ہیں۔ ایڈوکیٹ پرشانت پاٹل رقمطراز ہیں کہ:’’ بھارت مسلم آبادی کے لحاظ سے انڈونیشا اور پاکستان کے بعد تیسرا بڑا ملک ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق 172 ملین مسلمانوں کی آبادی کے ساتھ د

انسانی حقوق کا عالمی دن اور کشمیر…… ایس احمد پیرزادہ

۱۰؍دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ۱۹۴۸ء؁سے پوری دنیا میں یہ دن بڑے ہی اہتمام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے انسانی حقوق کے بینر تلے مختلف قسم کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق کی علاقائی اور عالمی تنظیمیں دنیا بھر میں انسانیت کے ساتھ ہورہی ظلم و زیادتیوں کے حوالے سے رپورٹیں شائع کرتی ہیں، حکومتیں سرکاری سطح پر تقاریب کا اہتمام کرتی ہیں ، سمینارز و سمپوزیم کے ذریعے سے احترامِ آدمیت اور بشری حقوق کے تحفظ پر لیکچر دئے جاتے ہیں اورانسانی اقدارپر کار بند رہنے کے ضمن میںتجدید عہد کیا جاتا ہے۔ یہ ساری سرگر میاںشرف ِ انسانیت کا احساس دلوں میں زندہ رکھنے کے لئے قابل تحسین ہیں مگر افسوس صدا فسوس کہ بشری حقوق کی پامالیوں کا بھدا سلسلہ لاکھ روکے بھی نہیں رْکتا۔  تاریخ شاہد عادل ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں بڑے پیمانے پر تباہیوں اورانسانی جانوں کے بدترین زیاں ہوا۔ یہ ناگفتہ بہ حال احوال دیکھ کر پوری دنیا ئے انسانیت تڑپ اْٹھی کہ عالمی طاقتیں انانیت اور خود غرضی کے ہاتھوں کس قدر نیچے گرسکتی ہیں، انسان دشمنی کے نتائج کتنے بھیانک ہوسکتے ہیں ، زبردست کے نرغے میں ز