توہین رسالت کا جرم عظیم........
کوئی آزمائیے نا میرے صبر کے پیمانوں کو!!
٭.... ایس احمد پیرزادہ
۷جنوری ۵۱۰۲ئ کو فرانس کے ”چارلی ایبڈو“ نامی طنزیہ جریدے کے دفتر پر نامعلوم مسلح نقاب پوش بندوق برداروں نے حملہ کرکے برسر موقع ۲۱افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کرڈالا ۔ اس حملے میں اخبارکے مدیر خاصSTEPHAE CHARBONIER اخبارسے وابستہ اُن تین کارٹونسٹ سمیت مارا گیا جنہوں نے اہانت و دریدہ دہنی پر مبنی خاکے بنائے تھے۔ ”چارلی ایبڈو“ پر حملہ کس نے کیا اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے البتہ یہ حملہ کیوں ہوا؟اس بارے میں پوری دنیا جانتی ہے۔ یہ وہی منحوس اور زہریلا جریدہ ہے جس نے۶فروری ۶۰۰۲ئ کو ڈنمارک کے روزنامےJYLLANS POSTEN کے پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کیے تھے۔ اس کے بعد اس منحوس اخبار نے مسلسل نہ صرف توہین اسلام کا سلسلہ شروع کررکھا ہے بلکہ دنیاکی سب سے عظیم المرتبت اور برگزیدہ شخصیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکم بدہن توہین آمیز خاکے شائع کرکے دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کے جرم عظیم کا ارتکاب بھی کیا ہے۔ بین الاقوامی نیوز ایجنسی AFP کے مطابق نومبر ۱۱۰۲ئ میں اس جریدے نے دوبارہ مسلمانوں کی دل آزاری پر مبنی مواد شائع کیا ۔ ردعمل میں اخبار کے دفتر پر بم حملہ ہوا لیکن ۲۱۰۲ئ میں مزید تضحیک آمیز خاکے شائع کیے گئے۔۶۰۰۲ئ میں جب ڈنمارک کے اسلام دشمن اخبار نے پہلی مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کیے تھے تو نہ صرف فرانس میں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے لاکھوں کی تعدادمیں سڑکوں پر نکل کر زبردست احتجاج کیا اور پوری دنیا کے غیر مسلموںنے سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ بھلے ہی اسلام کے نام لیواو ¿ں کی عملی زندگیوں سے دین نکل چکا ہو لیکن یہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کسی بھی صورت میں برداشت کرنے والی قوم نہیں ہے۔دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جہاں جہاں مسلمان نام کی مخلوق رہتی ہے وہاں وہاں توہین آمیز خاکوں کے خلاف بھر پور احتجاج ہوا اور دنیا پر واضح کردیا گیا کہ صبر اور برداشت کے آخری سِرے کو چھیڑنے کی کوشش نہ کریں ۔ اگر برداشت کی یہ آخری ڈور بھی کٹ گئی تودنیا ئے انسانیت کی صفوں میں ایک ایسی خوفناک آگ بھڑک اُٹھے گئے جس کا تصور بھی کسی نے نہ کیا ہوگا، لیکن کیا کریں سمجھانے سے بھی یہ مادر پدر آزاد تہذیب کا دلدادہ مغرب سمجھناہی نہیں چاہتا ہے شاید اس لیے کہ اُنہیں اپنے حرب و ضرب او رمادّی طاقت کے ناپائیدار سہاروںکا بھروسہ ہے۔ اس لیے تخریب کاری کا یہ گھناو ¿نا طریقہ استعمال کرکے اُمت مسلمہ کے فہم ، فراست، ایمان ، عشق اور صبر کو للکارا جارہا ہے۔چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملے کے نتیجے میں ۲۱افراد کی ہلاکت اس ملک میں پچھلی پانچ دہائیوں کے دوران ایسا پہلا واقعہ ہے جس میں اس پیمانے پر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس سنسنی خیز واقعے سے فرانس کے منچلے سبق سیکھ لیتے اورحکومت امن و امان برقرار رکھنے کے علاوہ جان کی امان کے لیے ملک کے اخباروں اور اداروں پر واضح کرتی کہ کسی مذہب یا مذہبی شخصیت کی توہین نہ کریں، ملت اسلامیہ کی دل آزاری نہ کریں لیکن کیا کریں اس کند ذہنیت اور کور چشمی کا ، اس ملک میں حکومتی سرپرستی میں مذکورہ اخبار کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کے لیے دس لاکھ لوگوں کی ریلی نکالی گئی جس میں دیگر چالیس سربراہانِ مملکتوں نے بھی شرکت کی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ آزادی اظہار کے نام پر ”چارلی ایبڈو“ کی پیٹھ ٹھونکی گئی بلکہ اس کی بے تحاشا مالی معاونت بھی کی گئی اور اس بے جا حوصلہ افزائی کے نتیجے میں اخبار نے اپنی غلطیوں اور مکروہ ذہنیت سے سبق سیکھنے کے بجائے مزید توہین آمیز خاکے شائع کرکے جریدے کی ۰۳لاکھ کاپیاں شائع کی ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف زبان درازی کرکے زہر اُگلا گیا اور نہ جانے کیا کیا اسلام اور اس کے نام لیواو ¿ں کے خلاف کہا اور لکھا گیا۔ مغرب اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کی توہین کرنے والوں کی پشت پناہی کررہا ہے۔ اظہارِ آزادی ¿ رائے کے نام پر اُن خطاکار انسانوں کی پیٹ تھپتھپائی جاتی ہے جو اُمت مسلمہ کی دل آزاری کو اپنے مکروہ عزائم کا حصہ بناچکے ہیں۔ ۰۱۰۲ئ میںریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ایک ملعون پادری ٹیری جونز نے کھلے عام قرآن کریم کے نسخے نذ ر آتش کرنے کے ناپاک ارادوں کا اظہار کیا تو پوری دنیا میں اسلام کے دیوانوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے احتجاج کیا۔ ہماری ریاست جموں و کشمیر نے ۰۱۰۲ئ میں ٹیری جونز جیسے شیطان صفت انسان کے ارادوں کے خلاف خون سے تاریخ لکھی گئی ہے۔ جب پریس ٹی وی نے ۲۱ اور ۳۱ستمبر کی درمیانی رات کو خبر شائع کی کہ امریکی شیطان صفت پادری ٹیری جونز نے قرآن پاک کے نسخے نذر آتش کیے تو کشمیری مسلمانوں کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اسلام اور قرآن کے یہ شیدائی رات بھر مظاہرہ کرتے رہے اور اگلے صبح یعنی ۳۱ستمبر کو قرآن مقدس کے ان دیوانوں کی ٹنگمرگ، ہمہامہ اور وادی کے دیگر درجنوں مقامات پر خون کی ہولی کھیلی گئی۔ ۵۲ اسلام کے فدائین جان شہادت نوش کرگئے جبکہ درجنوں لوگ وردی پوشو ں کی گولیوں سے شدید طور پر مضروب ہوگئے۔مغرب نے اس گھٹیا حرکت کو بھی اظہارِ آزادی ¿ رائے کہا ۔ ایک اور گستاخِ و شاتم سلمان رشدی کو اسلام دشمنی کے پیش نظر ہی اُن کی مغربی آقاو ¿ں الخصوص برطانیہ نے خوب ہمت افزائی کی ہے۔ برطانیہ کی ملکہ نے اُنہیںاسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کے پاداش میں ملک کے سب سے بڑے ایواڑKnighthood سے نوازا ہے۔ ”لجا“ نامی توہین آمیزناول کی گری ہوئی مصنفہ ملعون تسلیمہ نصرین کو بھی اسلام اور قرآن کے خلاف زہر افشانی کرنے پر مختلف ایواڑوں سے نوازا گیا، اور حکومت ہند نے اس اس ملعون خاتون کو اپنے یہاں پناہ فراہم کرنے کے علاوہ اُنہیں خوف تشہیر فراہم کی۔ یہ آج کا ہی رونا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے خلاف بغض و عناد کی آندھیاںصلیبی جنگوں سے شروع ہوکر اور سر ولیم مور کی اسلام مخالف کتاب سے بڑھتے بڑھتے آج اس موڑ پر پہنچی ہے۔یہ سلسلہ اس گمراہانہ اور کج مزاج سوچ کا غمازہیں جو اسلام مخالف حلقوں میں بالخصوص نصرانی و صہیونی دنیا پروان چڑھا چکا ہے اور جس کا ہدف یہ ہے کہ پھونکوں سے اول نورِ الٰہی کے سرمدی چراغ کو بجھایا جائے، دوم مسلمانوں کی دل آزاری کرکے انہیںتیکھے ردعمل پر اُکسایا جائے، سوم مسلم اُمہ کو بدنام کرنے کا بیڑا اٹھایا جائے، ساتھ ہی ساتھ ان کے قلوب سے سدا بہار عشق اور وارفتگی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نکال باہر کیا جائے یعنی بالفاظ دیگر یہ روح محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بدن سے نکالنے کی ایک ہمہ گیر زہر ناک سازش ہے مگر ہر بار کی طرح یہود و نصارآج بھی اس راہ سے منہ کی کھارہے ہیں، آئندہ بھی ان کا یہی حشر ہونا ہے۔یہ چند مثالیں ہیں جو اُس سوچ کی عکاسی کررہی ہیں جو غیر اسلامی حلقوں میں پروان چڑھ چکی ہے اور جس کے ذریعے سے مسلمانوں کی دل آزاری کرکے نہ صرف اُن کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جارہی ہے بلکہ اُنہیںاپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں کسی بھی حد تک جانے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے۔
مغرب جان بوجھ کر اظہارِ آزاری ¿ رائے کے نام پر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ مغرب سالہاسال سے نام نہاد دہشت گردی کی آڑ میں مسلمانوں کی زمینوں اور ممالک پر قبضہ کر لیا، تومسلمان کم و بیش ساکت و جامد رہے۔ مغرب نے ہمارے وسائل کو لوٹا ہم نے آنکھیں موند لی، مغرب نے ہماری نسلوں کی نسلیں نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگوں میں فنا کردی ہیں ہم پھر بھی برداشت کرتے رہے لیکن مغرب اور اِس کے دیگر حواری اور چمچے اب اس قدر دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں کہ کھلے عام ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاںکرکے ہمارے اجتماعی ضمیر اور غیرت و حمیت کو چلینج کیا جانے لگا ہے۔ یہ سوئے ہوئے شیر کو جاگانے کے مترادف ہے، یہ اُمت کو کرو یا مرو والی پوزیشن پر لاکھڑا کرنے والا انتباہ ہے ۔ اس فکر و عمل کے بھیانک منطقی نتائج ضرور برآمد ہوں گے اور اس کا ثمر پوری دنیا کو مستقبل قریب میںچار و ناچار دیکھنا پڑے گا۔یورپی پولیس ایجنسیEuropol کے سربراہ روب وین رائٹ کے ایک حالیہ بیان کے مطابق پانچ ہزار یورپی مسلم اور نومسلم باشندے مختلف جہادی نیٹ ورک کے ساتھ جڑ چکے ہیں اور بقول روب وین رائٹ کے اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے ایسا ہونا یقینی ہے کیونکہ اُمت تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق اب آخری چارہ ¿ کار کے طور پر انتہائی ردّعمل دکھانے کے لیے مجبور ہورہی ہے، اور مسلم نوجوانوں کو جان بوجھ کر انتہا پسندی کا سہارا لینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
بے شک دنیا میں اس وقت مسلمان مغلوب، مجبور و مقہور قوم کی حیثیت سے مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ دنیا کے دیگر تمام اقوام نے اُمت مسلمہ کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ مسلمانوں کے اردگرد گھیرا تنگ کرکے اُنہیں اس قدر مجبوری کی حالت میں لاکھڑا کیا گیا ہے کہ جیسے جنگلی بھیڑیوں کے درمیان ایک کمزور بکری کا بچہ بے بسی کے عالم میں رقص نیم بسمل کررہا ہو۔ نام نہاد تہذیبی تصادم کی آڑ میں اُمت مسلمہ کی نسلوں کو گاجر مولی کی طرح دنیا بھر میں کاٹا جارہا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ اُمت مسلمہ کمپرومائزنگ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ ہر طرح کا ظلم سہنا اب مسلمانوں کی عادت بن چکا ہے۔ دفاعی لڑائی لڑنا بھی مسلم ورلڈ نے چھوڑ دیا ہے۔ مسلم دنیا کے ارباب اقتدار مغرب کی جی حضوری کے سوا کچھ کرتے ہی نہیں ہیں، لیکن اس سب کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمان اتنے بھی گئے گزرے ہوچکے ہیں کہ وہ اسلام کی توہین و تضحیک نعوذ باللہ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیں گے۔ عملی طور دین سے دور اُمت میں ابھی بھی عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کالافانی جذبہ موجود ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ قیامت تک قائم رہنے والا جذبہ ہے۔ محبت رسول اُنہیں طوفان سے ٹکرانے کا حوصلہ دیتا ہے اور اپنے نبی کی شان میں کسی بھی گستاخ کو اپنے بدترین انجام تک پہنچانے کے لیے اُمت کا ہر فرد کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اسلام کے نام لیوا بڑے سے بڑے دشمن کا غرور بھی خاک میں ملاسکتے ہیں۔چارلی ایبڈو پر حملے پر دنیا کا واویلا کوئی معانیٰ نہیں رکھتا ہے، گستاخان رسول کی حمایت میں مغربیوں کا ملین مارچ مسلمانوں کے عزائم اور ارادوں کو روک نہیں سکتے ہیں۔محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اسلام کا جامہ پہنا ہوا ہر فرد کسی بھی حد تک جاسکتا ہے اس بات کا مغرب اور اُس کے مشرقی حواریوں کو ادراک حاصل کرلینا چاہیے۔چارلی ایبڈو پر حملہ کرنے والے نوجوانوں کو پوری اُمت عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اُن کی قربانی تاریخ اسلام کے سنہری حروف میں درج بھی کی جاسکتی ہے صرف اس لیے کہ انہوں نے گستاخان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ 
دنیا بھر میں حق اور باطل کی جنگ عروج پر ہے۔ ایک جانب اُمت مسلمہ اگر چہ کمزور حالت میں ہے لیکن حق کی علمبردار ہونے کی حیثیت سے مضبوط پوزیشن پر کھڑی ہے اور دوسری طرف باطل طاقتیں اپنی تمام تر توانائیوں کے باوجود کمزورپوزیشن لیے ہوئے اپنے آخری داو ¿ پیچ کھیل رہی ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں دو محاذوں پر اسلام کے خلاف برسرپیکار ہے۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کو ہر جگہ زبردستی میدان جنگ میں گھسیٹ کر اُنہیں مجبوراً حالت جنگ میں رکھا گیا ہے اور ہر جانب کلمہ گو مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ عراق سے لے کر افغانستان تک، فلسطین سے کشمیر تک ، مصر اور شام میں غرض ہر جگہ اُمت مسلمہ کے خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ۔ اس محاذ پر اگر چہ مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان کے ساتھ ساتھ کئی کئی اپنی زمین سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اُمت مسلمہ کی پلٹ کر جھپٹنا اورگرکر سنبھلناتاریخ رہی ہے آج نہیں تو کل یہ ملت طوفان کا رُخ تبدیل کرکے حالات کو اپنے حق میں کرکے میدان مار سکتی ہے۔ مگر لمحہ فکریہ یہ ہے کہ دوسرا محاذ جہاںسے اسلام دشمن مسلمانوں پر حملہ آور ہورہے ہیں وہ عقیدے اور فکر کا مورچہ ہے ۔مسلمانوں کی مذہبی شخصیتوں ، قرآن مقدس اور مذہبی مقامات کوجان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ خصوصاً پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کی جارہی ہیں اور توہین رسالت کا ارتکاب کرکے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے جارہے ہیں۔ یہ سب منصوبہ بند طریقے پر کیا جارہا ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل ہوتا رہا ہے۔ دراصل یہ اسلام دشمنوں کی اُس سازش کا حصہ ہے جس کے تحت اُمت مسلمہ کو توہین رسالت کا اس حد تک عادی بنانا مقصود ہے کہ ایک وقت ایسا آجائے جب وہ ایسی کسی بھی حرکت پر کوئی ردعمل بھی نہ دکھا پائیں گے۔ اس طرح مسلمانوں کے دلوں سے پیغمبروں اور انبیاءکرام کے ساتھ ساتھ قرآن اور مقدس مقامات کا تقدس نکالنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔یہاں عام مسلمانوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے، اُن کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ ایسی کسی بھی حرکت پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کرکے نہ صرف احتجاج کریں بلکہ اپنی اپنی حکومتوں کو مجبور کریں کہ وہ حکومتی سطح پر ایسے اقدامات کریں جن کے ذریعے سے ایسے منحوص اخباروں، اشخاص اور اداروں کو توہین رسالت جیسے جرم سے زبردستی باز رکھا جاسکے۔
اُمت مسلمہ کی جانب سے توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے بہترین جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو ہر سو عام کرنے کے علاوہ اپنی زندگیوں میں عملاً اسلام کو لاگو کریں۔ دنیا کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آفاقی تعلیمات کو پیش کرنے کے لیے ہمیں اپنے وجود کو اسلام کا نمائندہ بنانا ہوگا۔ عملاً مسلمان بن کر دنیا کے سامنے سر اُٹھا کر بتا دینا چاہیے کہ اگر دنیا کے تمام مسائل کا حل اور انسانیت کے دُکھ درد کا مداوا کسی نظام میں موجود ہے تو وہ صرف اور صرف اسلامی نظام ہے۔دنیائے کفر کو بھی جان لینا چاہیے کہ وہ اُمت مسلمہ کو اتنا بھی گیا گزرا نہ سمجھیں کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جان کی بازی بھی نہ لگا سکیں۔ مسلمان کسی بھی وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں جان دے سکتا ہے او ر بلا جھجک جان کی بازی لگانے والی قوم سے ٹکرانے کا مطلب یہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں اپنے وجود کو مٹانے کا سامان خود ہی فراہم کررہی ہیں۔
essahmadpirzada@gmail.com









Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ