Posts

Showing posts from December, 2017

جھوٹ کا رقصِ نیم بسمل۔۔۔۔۔ایس احمد پیرزادہ

  موجودہ دور پروپیگنڈے کا دور ہے۔ مثبت کم اور منفی پروپیگنڈے پر زیادہ زور رہتا ہے۔ غلط کو صحیح، جھوٹ کو سچ اور باطل کو حق ثابت کرنے کے لیے پروپیگنڈے کے مختلف طریقوں کو اختیار کیا جاتا ہے۔ آج کے دور میں’’جھوٹ اتنی مرتبہ بولو کہ سچ لگنے لگے‘‘ اور ’’کتے کو بُرا نام دو اور مار ڈالو‘‘ جیسے ذہنیت اور نعروںکے ساتھ مغرب اور دنیا بھر میں اُن کے حواری مسلمانوں اور انصاف پسند اقوام کے خلاف برسر جنگ ہیں۔ اُمت مسلمہ سے تعلق رکھنے والی کئی مملکتوں کو تخت و تاراج کیا گیا۔عراق کے کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں سفید جھوٹ بولا گیا اور پھر ’’weapon of mass destruction‘‘ کے نام پر ایک مضحکہ خیز جھوٹ کی اس قدر تشہیر کی گئی کہ نصف دنیا کو عراق کے خلاف لاکھڑا کیا گیا اور پھر بآسانی اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی۔ ایک دہائی گزرنے کے بعد کہا گیا کہ اس ملک کے پاس کوئی کیمیائی ہتھیار نہیں تھے بلکہ یہ سب اسرائیل کو محفوظ بنانے کے لیے ڈراما رچا یاگیا۔ آج بھی اسلام دشمنوں قیاس آرائیاں کرکے مسلمان کو انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک دوسری اقوام کے لیے خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ اُمت مسلمہ کے بارے میں ایسے سوچ

بیت المقدس اُمہ کی شہ رگ

٭… ایس احمد پیرزادہ اُمت مسلمہ کی شدید مخالفت کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیتے ہوئے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔اس طرح امریکا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا ہے۔امریکہ کے سفارتحانہ کی منتقلی کا عمل 6ماہ میں مکمل ہوگا‘واضح رہے کہ تل ابیب میں اس وقت 86ممالک کے سفارتخانے ہیں، اور اسرائیلی حکومت عالم اقوام سے ہمیشہ یہ مطالبہ کرتی رہی ہے کہ تل ابیب کے بجائے یروشلم کو اسرائیل کا درالخلافہ تسلیم کیا جائے۔گزشتہ بدھ کو وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ کا کہنا تھا کہ یہ اقدام امریکا کے بہترین مفاد اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیامِ امن کے لیے ضروری تھاجب کہ اس فیصلے کو ماضی میں اختلافات کا سامنا رہا ہے،امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی بہت عرصے سے رکی ہوئی تھی،متعدد امریکی صدور اس حوالے سے کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔انہوں نے کہاکہ یہ ایک اتحادی کو تسلیم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں، یہ وہ کام ہے جو ہونا ضروری تھا۔امریکہ کے اس جانبدارانہ فیصلے

تہاڑ جیل اور کشمیری قیدی

٭… ایس احمد پیرزادہ گزشتہ ہفتے مقامی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ۲۱؍نومبر کو دلی کی تہاڑ جیل نمبر 1 کے وارڈ ’’سی‘‘ اور وارڈ’’ایف‘‘ میں جیل کی سیکورٹی پر مامور اہلکاروں نے 18 قیدیوں کی بے تحاشا مارپیٹ کرکے اُنہیں شدید زخمی کردیا۔جیل کی حفاظت پر مامور تامل ناڈو پولیس کی سپیشل سیل کے علاوہ کوئیک ریسپانس فورس سے وابستہ اہلکاروں نے نظر بندوں پر وحشیانہ طریقہ سے حملہ آور ہوکر اُنہیں لہو لہاں کردیا۔ جن قیدیوں پر حملہ کیا گیا وہ تمام کے تمام مسلمان قیدی ہیں اور اُن میں اکثریت کشمیری سیاسی قیدیوں پر مشتمل ہے۔ زخمی ہونے والے قیدیوں میں حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کے فرزند سید شاہد یوسف کا نام قابل ذکر ہے۔ 23 ؍نومبر کو سیّد شاہد یوسف کے وکیل نے دلی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کرتے ہوئے عدالت کے سامنے واقعہ کی تفاصیل بیان کرنے کے علاوہ ثبوت کے طور شاہد یوسف کی خون آلودہ بنیان بھی پیش کی۔28 ؍نومبر کو دہلی ہائی کورٹ نے اس واقعہ کو زیر بحث لاتے ہوئے ،جیل میں قیدیوں پر حملے کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے اسے تشویشناک قرار دیا۔ قائمقام چیف جسٹس گپتا متل اور جسٹس سی ہری ش