پچھتاوا....! ایس احمد پیرزادہ جون اور جولائی کے گرم ترین دن تھے۔ تپتی دھوپ اور گرم ہواو ¿ں کے تھپیڑے انسان کو حواس باختہ کررہے تھے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ صبح سات بجے ہی کالج کے لیے نکلنا پڑتا تھا۔چائے ناشتہ تو دور کی بات ،دن کا کھانا بھی ہمیں کبھی نصیب نہیںہوتا تھا۔گرم ہواو ¿ں کے تھپیڑے تو پھر بھی قابل برداشت تھے لیکن گرم حالات کے تذلیل آمیز تھپیڑے دن میں ہزار مرتبہ زندہ درگور کردینے والے ہوتے تھے۔ یہ1997 ءکا سال تھا۔میں بی ایس سی فسٹ ائیرکا طالب علم تھا۔ ہندواڑہ اور کپواڑہ میں کالج تھے لیکن اُن میں سائنس نہیں پڑھایا جاتاتھا اس لیے سائنس پڑھنے کے شوقین ضلع بھر کے تمام طلبہ و طالبات کو سوپور، بارہمولہ یا پھر سرینگر کا رُخ کرنا پڑتا تھا۔ اکثر طلبہ و طالبات سوپور جانا ہی پسند کرتے تھے کیونکہ شام کو واپس گھر پہنچ جاتے تھے اور کرایہ کے کمروں کا خرچہ بچ جانے کے علاوہ نامساعد حالات میں والدین بھی اپنے نوجوان بیٹوں کو ہر روز اپنے سامنے ہی دیکھنے کے خواہاں ہوتے تھے۔حالات بھی کیا تھے روز کالج کے راستے میں کہیں نہ کہیں فائرنگ ہوجاتی تھی،گولیاں برستی تھیں، لاشیں گرتی تھیں،کریک ڈاون تو روز