Posts

Showing posts from 2015

پاک بھارت تعلقات میں سدھار؟؟۔۔۔۔۔۔۔تیور یہ کہہ رہے ہیں چہرے بدل رہے ہیں۔۔۔۔۔ایس احمد پیرزادہ

آر پار کے تعلقات میں سدھار ؟؟ تیور یہ کہہ رہے ہیں چہرے بدل رہے ہیں ٭....ایس احمد پیرزادہ ہند پاک تعلقات کا ا ±تار چڑھاو ¿ ہر دور میں نہ صرف برصغیر کے کروڑوں عوام میں زیر بحث رہتا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی ان دو نوںممالک کے باہمی تعلقات کی نشست وبرخواست بہت ہی دلچسپی سے دیکھی اور تاڑی جاتی ہے۔ وجہ ایک نہیں کئی ایک ہیں۔ تقسیم ہند کا فارمولہ اگر چہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر وقت کی سیاسی قیادت نے اختیار کیا لیکن اس کے نتیجے میں قیام ِپاکستان کو عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے اکثریتی فرقے نے کبھی بھی دل سے قبول سے نہیں کیا۔ کہاجاتاہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی” ضد“ پر وقتی طور پاکستان کے قیام کو برداشت کیا گیا۔ ان کی نیت ہمیشہ یہی رہی کہ نوزائید مملکت خدادادکی نظریاتی ا ور جغرافیائی بنیادوں کو اتنا کمزور کردیا جائے کہ مختصر مدت میں ناکام اسٹیٹ کی صورت میں یہ از خود اپنے وجودکو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ہندوستان میں ضم کردے۔ مگرایسا نہیں ہوا اور نہ خرابی ¿ بسیار کے باوجود مملکیت خداداد اپنے عروج کی جانب رواں دواں ہے۔ اپنی ہزارہا کمزوریوں کے باوجودپاکستان کچھوے کی چال چل کر ایک ایسے م

مسلم نوجوانوں میں شدت پسندی یا کچھ اور

جوان نسل :شدت پسند نہیں کچھ اور؟ نہ بصیر تیں نہ بصا رتیں کیا علاج ہو تیر ے روگ کا ایس احمد پیرزادہ     24 نومبر2015 ءکو معروف بھارتی اخبار”دی ہندو“ میں ایم کے نارائینن کا ایک مضمون بعنوان  "How The Valley is Changing" شائع ہوا۔ مضمون نگار کوئی عام کالم نگار یا صحافی نہیں ہیں بلکہ موصوف نے ماضی میں مختلف اہم سرکاری منصبوں پر کام کیا ہے۔ ایم کے نارائنن آئی بی کے ڈائریکٹر رہے چکے ہیں، انہوں نے ویسٹ بنگال کے گورنر اور سابق وزیراعظم ہند منموہن سنگھ کے دور حکومت میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرکی حیثیت سے بھی کام کیا ہے۔دلّی میں سرکاری اور سیکورٹی کے حوالے سے کسی بھی معاملے میں پالیسی ترتیب دیتے وقت اُن کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اورسابق آئی بی ڈائریکٹر کی حیثیت سے اُن کے مشوروں کو ترجیحی بنیادوں پر ملکی سلامتی کے حوالے سے مرتب شدہ پالیسیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ ”دی ہندو“ میں شائع ہونے والے اس مضمون میں ایم کے نارائنن ریاست جموں وکشمیر کی بدلتی صورت حال کے حوالے سے کافی فکر مند ی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”جموں وکشمیر میں دلّی کے لیے نہ سرحد پار سے کی جانے والی دراند

مسلم نوجوانوں میں شدت پسندی یا کچھ اور

جوان نسل :شدت پسند نہیں کچھ اور؟ نہ بصیر تیں نہ بصا رتیں کیا علاج ہو تیر ے روگ کا ایس احمد پیرزادہ     24 نومبر2015 ءکو معروف بھارتی اخبار”دی ہندو“ میں ایم کے نارائینن کا ایک مضمون بعنوان  "How The Valley is Changing" شائع ہوا۔ مضمون نگار کوئی عام کالم نگار یا صحافی نہیں ہیں بلکہ موصوف نے ماضی میں مختلف اہم سرکاری منصبوں پر کام کیا ہے۔ ایم کے نارائنن آئی بی کے ڈائریکٹر رہے چکے ہیں، انہوں نے ویسٹ بنگال کے گورنر اور سابق وزیراعظم ہند منموہن سنگھ کے دور حکومت میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرکی حیثیت سے بھی کام کیا ہے۔دلّی میں سرکاری اور سیکورٹی کے حوالے سے کسی بھی معاملے میں پالیسی ترتیب دیتے وقت اُن کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اورسابق آئی بی ڈائریکٹر کی حیثیت سے اُن کے مشوروں کو ترجیحی بنیادوں پر ملکی سلامتی کے حوالے سے مرتب شدہ پالیسیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ ”دی ہندو“ میں شائع ہونے والے اس مضمون میں ایم کے نارائنن ریاست جموں وکشمیر کی بدلتی صورت حال کے حوالے سے کافی فکر مند ی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”جموں وکشمیر میں دلّی کے لیے نہ سرحد پار سے کی جانے والی دراند
پیرس۔۔۔ دہشت گردانہ حملے! نہ خطا کوئی نہ قصور وار میر ے نام تہمتیںبے شمار ایس احمد پیرزادہ 13نومبرکی رات کو فرانس کی معروف شہر پیرس میں نامعلوم افراد کی جانب سے کیے جانے والے خود کش حملوں میں ڈیڑھ سو کے قریب افراد ہلاک جب کہ ساڑھے تین سو عام شہری زخمی ہوگئے۔ یہ دہشت گردانہ حملے یکے بعد دیگرے کیے گئے۔ پہلا حملہ شام کے 8:20 بجے پر ، دوسرا 9:40 بجے جب کہ تیسرا حملہ11:20 بجے پر کیا گیا۔ حملہ آور خود کش بمبار تھے جنہوں نے عوامی جگہوں پر اپنے آپ کوبارود سے اُڑا دیا۔ حملوں کے فوراً بعد فرانس میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی اور فرانس سے باہر جانے والی سبھی سڑکوں کو بند کردیا گیا۔ عراق اور شام میں سرگرم ایک پُراسرار جنگجو تنظیم نے مبینہ طور حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ فرانس کا شام اور دیگر مسلم ممالک میں امریکی اتحاد ی فوج کا حصہ بننا اور فرانسیسی فوج کی جانب سے شام میں اس کے ٹھکانوں پر بمباری کیے جانے کے جواب میں یہ حملے کیے گئے۔ کہاجاتاہے کہ دولت اسلامیہ نے مستقبل میں بھی یورپ کے دیگر ممالک میں مزید ایسے حملوں کی دھمکی دی۔پیرس میں کیے جانے والے اِن حملوں کی دنیا بھر میں مذمت کی
دلی کادل خوش ہوا؟ ہر موڑ پہ جو چھوڑ گیا لُوٹ کر ہمیں ایس احمد پیرزادہ ۷نومبر۵۱۰ ۲ءکو ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست جموں وکشمیر کا دورہ کرکے بغلیار( دوم) پاور پروجیکٹ کا افتتاح کرنے کے علاوہ کنٹونمٹ ایریاءسرینگرمیں واقع ایس کے کرکٹ اسٹیڈیم میں اپنی حلیف سیاسی تنظیموں کے کارکنوں سے بھی خطاب کیا۔ پی ڈی پی، بی جے پی سرکار وجود میں آئے ہوئے آٹھ ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر ڈیلیوری کے اعتبار سے یہ وہیں جہاں سے اس نے شروع کیا تھا۔ ریاست میں اس حکومت کا استقبال صدی کے بدترین سیلاب کے فوراّ بعد ہوا۔ گرچہ سیلابِ کشمیر نے ریاست میں ہنگامی حالات پیدا کئے تھے مگر اس کے باوصف قومی تعمیر نو کے نعرے کو لے کر سردیوں کے موسم میں الیکشن کرائے گئے، حالانکہ ابھی سیلاب زدہ کشمیر ی عوام سنگین ترین سیلابی حالات سے گزرہے تھے۔ پی ڈی پی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کے طورا بھری تو مفتی سعید نے بھاجپا سے ہاتھ ملاکر حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ۔ ا نہوں نے پریوار کے ساتھ رشتہ جوڑنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ چونکہ مرکز میں بی جے پی بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میںہے اور ریاست بدتری

#jammu#muslim#جموں مسلمانانِ

مسلمانانِ جموں بجھے بجھے چراغ ہیں آندھیوں کے درمیاں ایس احمد پیرزادہ ریاست جموں وکشمیر کے تین صوبوں۔۔۔ کشمیر، جموں اور لداخ۔۔۔ ہر صوبے کی اپنی تاریخ ، پہچان اور انفرادیت ہے ۔ صوبہ جموں ایک ایسا خطہ ہے جو کبھی علم و ادب کے ساتھ ساتھ مسلم تمدن و تہذیب کا گہوارہ رہا۔تقسیم ہند سے قبل جموںمیں40 فیصد کے قریب مسلم آبادی تھی لیکن 1947 ءمیں قیام پاکستان کے بعد ایک منظم سازش کے تحت جموں کے مسلمانوں کی نسل کشی کرکے چار سے چھ لاکھ غیر مسلم بلوائیوں نے بڑی بے دردی کے ساتھ جموی مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ نومبر سنتالیس کی تاریخ انہی خوں آشامیوں کا مرقع ہے ۔ لاکھوں مسلمانوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور کیا گیا اور ایک اچھی خاصی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو گھٹا یا گیا۔جموں، سانبہ، کٹھوعہ، اُدہم پور اور ریاسی میں مسلمانوں کوقریب قریب ختم ہی کر دیا گیا۔خطہ میں بچے کھچے مسلمانوں نے پھر سے اپنے قدم سنبھال لئے اور آج کی تاریخ میں66 فیصد ہندو ¿ں کے مقابلے میں 30 فیصد مسلمان صوبہ جموں میں آباد ہیں ۔ تاریخ کی ورق گردانی کریں تو ہزاروں ایسی داستانیںانسانیت کا جگر چھلن
مسلم اقلیت کیا کرے؟ صدموں کی سر زمین یہ زخموں کا وطن ہے ایس احمد پیرزادہ  ادھم پور جموں میں جنوبی کشمیر کے جواں سال زاہد رسول بٹ کو سنگھ پریوار کے چہیتوں اور حواریوں نے موت کے گھاٹ اُتار کر بالمعنی ہندوستان بھر میں جاری آتشیں فرقہ پرستانہ لہر کی لپٹیں ریاست جموں وکشمیر تک از سر نو پہنچا دیں۔ یہ پر جا پریشد اورسنگھر ش سمتی کا جدیدایڈیشن ہے۔ عام طور پر خیال کیا جارہا تھا کہ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ سیاسی پارٹیاں اس جنونی مہم کا حصہ ریاست جموں وکشمیر کو بننے نہیں دیں گی کیونکہ یہاں پہلے سے ہی نامساعد حالات کی بھٹی میں بہت ساری چنگاریاں دہک رہی ہیں ۔ خد شہ یہ ظاہر کیا جارہاتھا کہ ہندوتوا کے علمبرداروں کی جانب سے شروع کی گئی خوں خوارمسلم دشمن مہم کو اگر دوبارہ ریاست جموں وکشمیر میں درآمد کیا گیا تو آدم خوری کی ایک ایسی آگ لگ سکتی ہے جس پر قابو پانا شاید پھر ناممکن بن جائے۔ تاثر یہ بھی تھا کہ ۸۰۰۲ءاور ۰۱۰۲ءکی عوامی ایجی ٹیشن سے دلّی کے مسند اقتدار پر براجمان لوگوں نے ضرورسبق سیکھا ہوگااور وہ دوبارہ ایسی کوئی غلطی یہاں نہیں دوہرائیں گے جس کے نتیجے میں پُر امن جدوجہد کرنے والی قوم