Posts

Showing posts from September, 2015
بڑے گوشت پر پابندی.... ایمان سلامت نہ رہے تو زندگی کا کیا حاصل؟ ٭.... ایس احمد پیرزادہ ”ہندوتوا“ کی جنونی لہر نے ریاست جموں وکشمیر کے حدود میں سرکاری و ادارتی سطح پر اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے۔ ۹ستمبر ۵۱۰۲ئ کو ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بینچ نے ریاست جموں وکشمیر میں Beef یعنی بڑے گوشت پر پابندی عائد کرکے پولیس کو احکامات جاری کیے کہ وہ سختی سے بڑے گوشت پر پابندی کو لاگو کریں۔ عدالت میں مفاد عامہ میںپری موکش سیٹھ نامی ایک وکیل نے درخواست دائر کردی تھی جس میں مانگ کی گئی کہ گاو ¿ کشی پر ریاست میں پابندی عائد کردی جائے کیونکہ اس سے ہندو ¿ں کے مذہبی جذبات مجروح ہوجاتے ہیں۔جس کے بعد جسٹس راج کوتوال اور جسٹس دھیرج سنگھ ٹھاکر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے حکومت اور پولیس کو حکم دیا کہ ریاست میں دودھ دینے والے بڑے جانوروں جن سے مراد گائے اور بھینس وغیرہ ہے کو ذبح کیے جانے پر پابندی عائد کی جائے۔واضح رہے ریاست جموں وکشمیر میں نافذ رنبیر پینل کوڈ کے سیکشن 298-A کے تحت گائے ، بھینس اور ان جیسے دوسرے جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی عائد ہے اور اس عمل کو سنگین جرم سے تعبیر کیا گیا۔ پینل کوڈ کے سیکشن298-B
کشمیر۔۔۔کون ہے فریق اول؟ کبھی انکار کبھی اقرار کبھی دُھتکار ایس احمد پیر زادہ  ۳۲اور۴۲اگست کوپاکستان اور بھارتی سلامتی امورکے مشیران کے درمیان نئی دہلی میں دو طرفہ معاملات پر مذاکرات ہونے تھے لیکن ۲۲ اگست کو ہی بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے دہلی میں حریت رہنماو ¿ں سے ملاقات نہ کرنے اور بات چیت کا دائرہ کار دہشت گردی تک ہی محدود رکھنے کی یقین دہانی کے بعد ہی قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات ممکن ہو سکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں کسی” تیسرے فریق “کی موجودگی کا کوئی امکان ہی نہیں اور پاکستان کے پاس یہ یقین دہانیاں کرانے کے لیے سنیچر کی رات تک کا وقت ہے۔سشما سوراج کے اس بیان کے جواب میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی جانب سے پیشگی شرائط کے بعد دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی دہلی میں مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔یاد رہے کہ بھارت نے ہی گرداس پور حملے کے بعد پاکستان کو دونوں ممالک کے خارجہ ا ±مور کے مشیروں کے درمیان مذاکرات کی تجویز دی تھی۔بھارتی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کے بعد ۲۲اگست کی شب