Posts

Showing posts from 2016

وراب شر نارتھیوں کی اقامتی اسناد!

اوراب شر نارتھیوں کی اقامتی اسناد! امتحاں لے لے کے ہم کو آزما تا آسماں ایس احمد پیرزادہ  کشمیریوں کی حالیہ ایجی ٹیشن میں ایک ٹھہراؤ آیا ہی چاہتا ہے کہ بی جے پی نے اپنے زیر کنٹرول کولیشن سرکار سے سنگھ پریوار کے دیر ینہ خاکوں میں رنگ بھرنے کا عمل شروع کرلیا ۔ اس بارجموں میں رہائش پذیرمغر بی پاکستان سے آئے شرنارتھیوں کو خصوصی اقامتی اسناد فراہم کرکے بقول بی جے پی اُنہیں ریاست کا مستقل باشندہ بنانے کا پہلا قدم اٹھوایا گیا اور پی ڈی پی اس اقدام کو سیاسی پشت پناہی دے کر اپنے دھرم پال رہی ہے بلکہ کشمیر سپیسفک زعفرانی ایجنڈ کے حوالے شاہ سے زیادہ وفادار بن رہی ہے۔ریاستی سرکارکے ترجمان نعیم اختر سرکاری سطح پر اس اقدام کا بھرپور دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شرنارتھیوں کواقامتی اسناد جاری کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ اُنہیں مرکزی سرکار کی نوکریاں حاصل کرنے میں آسانی ہوجائے اور حکومت کا ان شرنارتھیوں کو ریاست کا مستقل باشندہ بنانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ حالانکہ بی جے پی کے لیڈران کھلے عام یہ سچ اگلتے پھررہے ہیں کہ مغربی پاکستان سے آئے ہوئے اِن لاکھوں شرنارتھیوں کو ریاست ج

اسیرانِ زندان

اسیرانِ زندان ہیروں کو سنگ کردیا حالات کے کرب نے ایس احمد پیرزادہ  ۶۵؍برس عمر کا محمد لطیف خان ضلع راجوری کے ایک دور دراز علاقے کا رہنا والا شخص ہے۔ زندگی کے آخری پڑھاؤ پر بھی ہشاش بشاش اور مطمئن نظر آرہا ہے۔ محمد لطیف کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، دس کنال اراضی اور ایک مکان بھی اُن کی کل ملکیت ہے، مال مویشی کو بہکوں میں لے جاکر یہ گھرانہ مقدور بھر کمائی کر کے اپناگزارہ چلاتا، گھر کے دن جوں توںکٹ رہے تھے۔ محمد لطیف اپنے بچوں کی پڑھائی کے تئیں لاپرواہ نہیں تھے۔ اُن کا بڑا بیٹا لکھنو یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کررہا تھا، ایک بیٹا اور تین بیٹیاں گجرات کے دینی مدارس میں قرآن حفظ کررہے تھے کہ ۲۰۰۶ء میں اس گھر پر آزمائشوں کا سلسلہ اُس وقت شروع ہوگیا جب محمد لطیف خان کے بڑے بیٹے محمد اسلم خان کو دلی پولیس کی خصوصی سیل نے لکھنو سے گرفتار کرلیا۔ اُنہیں ’’دہشت گردی‘‘ کے متعدد واقعات میں ملوث ٹھہراکرتہاڑ جیل میں بند کردیا گیا۔یہاں دلی میں اُن کے کیس کی شنوائی کچھوے کی چال چلتی رہی، تاریخ پہ تاریخ میں برسوں بیت گئے۔ محمد لطیف جس نے کبھی ریاست سے باہر قدم رکھا ہی نہیں تھا، ک

کشمیر کاز کی جیت ہوئی!

امتحانات2016ء کشمیر کاز کی جیت ہوئی! ایس احمد پیرزادہ رواں بارہویں اور دسویں جماعت کے امتحانات میں اُمیدواروں کی بالترتیب 95 ؍اور98 ؍فیصد شرکت سے سرکاری حلقے بغلیں بجا رہے ہیں۔بی جی پی حکومت میں شامل ایچ آر ڈی منسٹر پرکاش جاویڈکرنے تو حد ہی کردی، انہوں نے امتحانات میں طلبہ و طالبات کی شرکت کو کشمیریوں کی تحریک پر نریندر مودی کی سب سے بڑی سرجیکل اسٹرائیک قرار دیا ہے۔ دلی سے سرینگر تک میڈیا چینلیں اور ادارے اس بات کی خوب تشہر کررہے ہیں کہ طلباء و طالبات نے امتحانات میں شرکت کرکے مزاحمتی قیادت کی کال کا عملاً انکار کردیا۔ حالانکہ حریت قیادت نے نہ ہی کبھی امتحانات منعقد کرانے کی مخالفت کی تھی اور نہ ہی اُنہوں نے اپنے کسی بھی مزاحمتی کلینڈر میں طلبہ و طالبات کو امتحانات میں شریک ہونے سے باز رہنے کے لیے کہا تھا۔ امتحانات منعقد کرانے کا فیصلہ حکومت نے کیا اور اُس کی مخالفت میں طلباء از خود سڑکوں پرنکل آئے۔ ریاست کے اطراف و اکناف میں طلباء و طالبات نے سینکڑوں کی تعداد میں سڑکوں پر آکر حکومت کے امتحانات منعقد کرانے کے فیصلے کی شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اس فیصلے کو طلبہ مخالف اقدام قر

اسکولوں کو نذر آتش کرنے میں کس کا فائدہ؟

اسکولوں کو نذر آتش کرنے میں کس کا فائدہ؟ ٭.... ایس احمد پیرزادہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور ادیگر سرکاری ایجنسیاں کشمیریوں کی جدوجہد برائے حق خود ارادیت کو بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کررہے ہیں۔رواں عوامی تحریک کو بدنام کرنے کے لیے گزشتہ چند ہفتوں سے وادی کے مختلف اضلاع میں اسکولی عمارتوں کو نذر آتش کرنے کے پُر اسرار واقعات پیش آرہے ہیں۔ اسکولی عمارتوں کو خاکستر کرنے کے ان پے درپے واقعات سے کشمیری سماج میں بے چینی اورتشویش کی لہر پھیل جانا لازمی امر ہے اور ہر ذی حس فرد اِن افسوسناک وارداتوں کو لے کر فکر مند دکھائی دے رہا ہے۔گزشتہ چار ماہ سے جاری عوامی ایجی ٹیشن کے دوران نذر آتش کیے جانے والے اسکولوں کی تعداد تادم تحریر۰۳تک پہنچ چکی ہے۔کولگام، پلوامہ، اسلام آباد، بارہمولہ اور بڈگام ضلع میں نذر آتش کیے جانے اسکولوں کو کون لوگ خاکستر کررہے ہیں اس بارے تاحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے البتہ آثار و قرآئن سے واضح ہوجاتاکہ جو لوگ اپنے حقیر سیاسی مقاصد اور مفادات کی خاطر قومی کاز تک کو بھی داو ¿ پر لگا سکتے ہیں وہ ا سکول کیا بستیوں کی بستیاں راکھ کی ڈھیر میں تبدیل کرکے اپنے گھناو
ستم کی وادی میں ظلم کی دیوی قوم کے ان گمنام جان بازوں کو سلام ٭.... ایس احمد پیرزادہ ۸جولائی ۶۱۰۲ئ کے بعد کشمیر ی نوجوانوں نے گزشتہ تین دہائیوں کے کم عرصے میں تیسرے بڑے انتفادہ کی شروعات کرکے عوامی تحریکات کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کرلیا۔تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو دنیا کی ہسٹری میں ایسی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے جس میں مسلسل تین ماہ تک عوام نے مجموعی طور پر ظلم و جبر اور بنیادی حقوق کی پامالیوں کے خلاف اپنے روز مرہ کے کام کاج کو خیر باد کہتے ہوئے سڑکوں پر نکل کر صدائے احتجاج بلند کیا ہو،یہ تین ہی ماہ نہیں ہیں بلکہ چوتھے مہینے میں عوامی تحریک داخل ہوچکی ہے اور کہیں پر بھی تھکاوٹ کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آرہا ہے۔ کشمیری قوم جن کے بارے میں مفروضے قائم کیے گئے ہیں کہ اِن میں مستقل مزاجی نہیں ہے نے اکیسویں صدی کے اس دور میں جب انسان سیکنڈوں کا حساب رکھ کر مادی ترقی کی اندھی دوڑ میں لگ چکا ہے کشمیریوں نے اپنا سب کچھ داو ¿ پر لگا کر تحریک حق خود ارادیت کی جدوجہد کی آبیاری کرنے کو ترجیح دی۔ عوامی جوش ، جذبے اور ولولے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جو ٹرانسپو

سرجیکل اسٹرائیک حقیقت یا فسانہ

 سرجیکل اسٹرائیک حقیقت یا فسانہ یہاں سچ سے زیادہ جھوٹ ہی بکتا ہے؟ ٭.... ایس احمد پیرزادہ ۹۲ستمبر۶۱۰۲ئ کو دلی میں موجودہ بھارتی فوج کے ڈی جی ایم او ¿ رنبیریر سنگھ نے وزارت خارجہ کے ترجمان وکاسوروپ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں یہ انکشاف کیا کہ بھارتی فوج نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر۸۲اور۹۲ستمبر کی درمیانی رات کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں گھس کر سات مقامات پر سرجیکل اسٹرائیک کرکے عسکریت پسندوں کے لانچنگ پیڈ کو تباہ کرنے کے علاوہ وہاں موجود جنگجوو ¿ں کا کافی جانی نقصان بھی کیا ہے۔ پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ بھارتی فوجی کمانڈوز نے پاکستانی علاقے کے تین کلو میٹر اندر جاکر کارروائی کی ہے۔ بقول ڈی جی ایم او کے اِن سرجیکل اسٹرائیکس کی اطلاع پہلے ہی پاکستانی ڈی جی ایم او ¿ کو دی گئی تھی۔ بعد میں بھارتی ٹی وی چینلوں نے فوج میں موجود ذرائع کے حوالے سے یہ خبر بھی نشر کرنی شروع کردی ہے کہ ان کارروائیوں کی نگرانی دلی میں براہ راست وزیر دفاع اور وزیر اعظم کے دفاعی صلاح کار اجیت دُول کررہے تھے ۔ یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ اس پوری کارروائی کی ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی ہے ۔ پورے آپریشن میں
متاثرین نظر انداز نہ ہوں! اعانت غمگساری اور ہمدردی ا یس احمد پیرزادہ رواں عوامی ایجی ٹیشن کوگزشتہ 27 ؍برس کی ایسی پہلی ایجی ٹیشن قرار دیا جاسکتا ہے ، جس میں شعوری طور پر لوگ زمینی سطح پرسرگرم عمل ہیں۔ہر کوئی کشمیری اس میں اپنی قربانی کا حصہ ڈال کر قومی جدوجہد کوفیصلہ کن راہ پر ڈالنے کا خواب سجائے ہے۔ عوام کا ہر طبقہ اپنے جذبات اور احساسات کا برملا اظہار کرکے رواں ایجی ٹیشن کی کامیابی کے لئے کوشاں ہے۔ تاہم یاد رکھئے کہ اگر مسئلہ کشمیر کو عالمی اور علاقائی حالات کے تناظر میں سامنے رکھا جائے تو بغیر کسی لگی لپٹی کے کہا جاسکتا ہے کہ منزل کی جانب چڑھتی سیڑھیوں کے ضمن میں یہ قربانیاں اولین زینے ہیں، ابھی اُوپر تک پہنچنے کے لیے نہ جانے ہمیں کتنے ایسے مراحل سے گزر نا ہوگا۔دنیا کی سیاسی صورت حال کے پس منظر میں بات کرنا اپنی جگہ صحیح ہے، البتہ لوگوں کا جوش وجذبہ، ایمان و یقین اور جذبۂ حریت دیکھ کر ہی شاید ہی قائدین بھی یہ نہیں بتا پاتے کہ تحریک کی جانب رواں سفر کی ابھی بہت منزلیں ہمیں طے کرنا ہوں گی۔ بہر کیف عوام الناس کے جذبۂ حریت کو سلام پیش کیا جانا چاہیے۔ اُن کی قربانیوں اور تحریک

اور زیادہ امتحان نہ لیں

اور زیادہ امتحان نہ لیں زمانے کے خداؤں سے زبان ِ خلق کہتی ہے ا یس احمد پیرزادہ حال کے دنوں میں کشمیر میں جاری ہمہ گیر عوامی ایجی ٹیشن کے پیش نظر مسئلہ کشمیر کی جو گونج دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے، اُس کی وجہ سے حکومت ہند میں کافی اضطراب اور بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے ہندوستانی پارلیمنٹ میں کشمیر پر بحث بھی ہوئی ہے اور کئی پارٹیوں کے لیڈران نے تقریریں کرکے کشمیر میں ہورہی زیادتیوں پر حکومت کو آڑے ہاتھوں میں لیا ہے۔ کل جماعتی میٹنگ بھی منعقد کی گئی،ساتھ ہی ساتھ حکومتی وزیرا سمیت اپوزیشن لیڈران نے بھی وہی پرانا راگ الاپا کہ کشمیر میںحالات خراب کرنے کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ بھارتی لیڈران نے ’’اٹوٹ انگ‘‘ والی پھر وہی طوطے کی رٹ لگائی جو مسئلہ حل نہ کر نے کا رمز واشارہ ہے۔ بے شک پاکستان کشمیرکاز کا پلیڈر ہے اور یہاں کی جدوجہد کا سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کرتارہا ہے لیکن یہاں کی تحریک کشمیر خالص کشمیری عوام کی ہے اور اس میں کوئی بیرونی مداخلت نہیں۔ بھارت کی سیاسی جماعتیں حقیقت سے آنکھیں چرا کر دعویٰ کررہی ہیں کہ کشمیریوں کو پاکستان ورغلا رہا ہے ، کیا یہ ممکن ہے کہ کسی