Posts

Showing posts from March, 2016

دلی کی صوفی کانفرنس

دلی کی صوفی کانفرنس یہ بیل منڈھے نہ چڑھی ایس احمد پیرزادہ آل انڈیا علماءو مشائخ بورڈ نامی کسی غیر معروف تنظیم کے اہتمام سے ۱۷مارچ سے ۲۰مارچ تک ”انٹر نیشنل صوفی کانفرنس“ منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز وگیان بھون نئی دلی میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر سے ہوا۔ ۱۸اور ۱۹مارچ کو کانفرنس کے مختلف سیشن اسلامک کلچر سینٹر میں منعقد ہوئے۔ اختتامی اجلاس ۲۰مارچ کو رام لیلا میدان میں ہوا۔بقول کانفرنس آرگنائزر کے اجتماع میں ۲۵ ممالک کے نمائندوںنے شرکت کی، جن میں مختلف درگاہوں کے مجاوروں اور خانقاہوں کے متولیوں سمیت ایک مخصوص فکر سے وابستہ مقررین اور مبلغین بھی شامل تھے۔کانفرنس کے پہلے روز شرکاءنے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا استقبال”بھارت ماتا کی جے“کا نعرہ لگا کر کیا گیا اور قوالی کے ذریعے تقریب کی شروعات ہوئی۔اس کانفرنس کو ہندوستان بھرمیں موجود ایک مخصوص فکر سے وابستہ لوگوں سے منسوب کیا گیا، حالانکہ اُس طبقے سے وابستہ نامور علمائے کرام نے قبل از وقت اس کانفرنس اوراس کے ایجنڈے کی کڑی الفاظ میں نکتہ چینی کرتے ہوئے اجتماع کو مسلمانوں کی تقسیم کا استعماری حربہ قرار دیا تھا۔جمعی
حکومت سازی کی ڈرامہ بازی نقابیں اُٹھیں گی مگر دھیرے دھیرے ایس احمد پیرزادہ ۷جنوری۲۰۱۶ءکو وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد ریاست جموں وکشمیرمیں گورنر راج نافذ العمل ہے کیونکہ پی ڈی پی ، بی جے پی مخلوط سرکار کی بھاگ ڈور سنبھالنے کے لئے پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے اپنی سیاسی حلیف دلّی سرکارکو” اعتماد سازی“ کے اقدامات کئے جانے کی مانگ کی ہے۔ اعتماد ساز ی میں خصوصی طور پر مالی پیکیج کے اعلانات کے علاوہ این ایچ پی سی سے کم از کم ایک پاور پروجیکٹ واپس ریاست کو دئے جانے کی یقین دہانی بھی شامل ہے۔گزشتہ برس مارچ میں دو ماہ طویل درپردہ بات چیت کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت سازی کے لیے ایک مشترکہ ایجنڈا تشکیل پایا ہے جس پر گزشتہ دس ماہ سے دونوں جماعتیں عمل پیرا ہونے کا زبانی دعویٰ کرتی آئی تھیں لیکن اچانک مفتی محمد سعید کی رحلت کے بعد ایسا کیا ہوا کہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کو مودی سرکار سے” اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات“ کی مانگ کر نے کی ضرورت پڑی۔ دلّی میں بی جے پی سرکار بر سر اقتدار میں آجانے کے بعد سے تاد م تحریر بھارت کئی اعتبار سے عالمی خبروں میں رہا ہے۔ خاص کرع
کرپشن.... سماج کے لیے زہر ہلاہل ٭ ریاست جموں وکشمیر میں جہاں سیاسی اتھل پتھل سے سرکاری دفاتر کا کام کاج بُری طرح سے متاثر ہوتارہا ہے وہیں دفاتر میں کرپشن ، اقربا پروری، کام چوری، کچھ نہ کرنے کی بیماری اور سرکاری نوکریوں کو حرام کمانے کا آسان ذریعہ سمجھنے کی سوچ نے یہاں کے پوری سسٹم کو ہی مفلوج بناکر رکھ دیا ہے۔ مسلمانی کا دعویٰ ہمیں خوب ہے۔ ہم نمازیں بھی ادا کرتے ہیں، مسجد کی پہلی صف میں بیٹھ کر تکبیر اولیٰ بھی ضائع نہیں کرتے ہیں ، ہم دفاتر سے بھاگ کر دین کے کام میں بھی جٹ جاتے ہیں لیکن ہمارا دماغ اس سوچ اور سمجھ سے خالی ہیں کہ فرض شناسی، اپنے کام کے تئیں دیانتداری ، عوام الناس کی خدمت کا جذبہ ہی اصل میں وہ مطلوب صفات ہیں جن کے ذریعے سے ہماری بدنی عبادات اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں جائیں تو خاکروب سے لے کر ڈاکٹر تک ہرکوئی عام انسان سے اس طرح پیش آتا ہے جیسے شفا خانے میں کوئی مریض نہیں بلکہ جیل خانہ میں کسی خطرناک مجرم کولایا گیا ہو۔ پچاس پچاس ہزار کی تنخواہ پانے والی نرس تب تک نوزائد بچے کو لواحقین کے سپرد نہیں کرتی ہے جب تک نہ اُسے چائے کے نام پر رشوت دی جائے۔ المی