تہاڑ جیل اور کشمیری قیدی

٭… ایس احمد پیرزادہ
گزشتہ ہفتے مقامی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ ۲۱؍نومبر کو دلی کی تہاڑ جیل نمبر 1 کے وارڈ ’’سی‘‘ اور وارڈ’’ایف‘‘ میں جیل کی سیکورٹی پر مامور اہلکاروں نے 18 قیدیوں کی بے تحاشا مارپیٹ کرکے اُنہیں شدید زخمی کردیا۔جیل کی حفاظت پر مامور تامل ناڈو پولیس کی سپیشل سیل کے علاوہ کوئیک ریسپانس فورس سے وابستہ اہلکاروں نے نظر بندوں پر وحشیانہ طریقہ سے حملہ آور ہوکر اُنہیں لہو لہاں کردیا۔ جن قیدیوں پر حملہ کیا گیا وہ تمام کے تمام مسلمان قیدی ہیں اور اُن میں اکثریت کشمیری سیاسی قیدیوں پر مشتمل ہے۔ زخمی ہونے والے قیدیوں میں حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین کے فرزند سید شاہد یوسف کا نام قابل ذکر ہے۔ 23 ؍نومبر کو سیّد شاہد یوسف کے وکیل نے دلی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی عرضی دائر کرتے ہوئے عدالت کے سامنے واقعہ کی تفاصیل بیان کرنے کے علاوہ ثبوت کے طور شاہد یوسف کی خون آلودہ بنیان بھی پیش کی۔28 ؍نومبر کو دہلی ہائی کورٹ نے اس واقعہ کو زیر بحث لاتے ہوئے ،جیل میں قیدیوں پر حملے کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے اسے تشویشناک قرار دیا۔ قائمقام چیف جسٹس گپتا متل اور جسٹس سی ہری شنکر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کہا’’ہمیں اسے دیکھنا ہوگا، یہ واقعہ قطعی طور بلاجواز ہے، اگر یہ دلی کی صورتحال ہے تو دیگر جگہوں میں کیا ہوگی۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ’’معاملہ انتہائی سنجیدہ ہے اور سنجیدہ تحقیقات کا حامل ہے۔‘‘کورٹ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دی، جسے واقعے کی تحقیقات کر کے رپورٹ کورٹ کے سامنے پیش کرنے کی ہدایات دی گئیں۔کئی اخبارات میں یہ خبریں بھی شائع ہوئی ہیں کہ سیکورٹی اہلکاروں نے کشمیری قیدیوں کو زبردستی پیشاپ پینے پر مجبور کردیا۔ اس واقعے کی جو تصویریں سامنے آئی ہیں اُن میں قیدیوں کے لہولہاں بدن اور جسم کی چوٹیں ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ حملہ کس قدر وحشیانہ تھا،۔قیدیوں کے تمام جسم پر تشدد کے واضح نشانیات موجود ہیں اور وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ تحقیقاتی کمیٹی نے جو سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی ہیں اُن میں واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ وردی پوشوں کے حملے کا کوئی جواز نہیںبنتا تھا ، یعنی قیدیوں کی جانب سے کوئی اشتعال انگیزی نہیں ہوئی تھی۔ اس خبر کے منظر عام آنے پر ریاست میں بالعموم اور بیرون وادی نظر بندوں کے لواحقین میں بالخصوص تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ریاست کے تمام سیاسی اور سماجی حلقوں نے تہاڑ جیل کے اس واقعے کو وحشیانہ اور مہذب دنیا کے لیے لمحہ فکریہ قرار دیا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں پہلے سے ہی اس خدشے کا اظہار کررہی ہیں کہ کشمیری قیدی بیرون ریاست کی جیلوں میں محفوظ نہیں ہیں۔ اُن پر ہر وقت جان لیوا حملہ ہونے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بالکل تہاڑ جیل کی ہی طرح کا واقع کٹھوعہ جیل میں بھی پیش آیا جہاں کشمیری قیدیوں کی مارپیٹ کی گئی۔
یہ پہلا موقعہ نہیں ہے جب تہاڑ جیل میں کشمیری قیدیوں کی مارپیٹ ہوئی ہے، اس سے قبل بھی کئی بار نہ صرف تہاڑ جیل کے بارے میں بلکہ ہندوستان کی دیگر جیلوں کے حوالے سے بھی یہ خبریں منظر عام پر آئی ہیں کہ وہاں نظر بند کشمیری قیدیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے، اُنہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اُن کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل جموں کے کوٹ بلوال جیل کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں ایک کشمیری نوجوان کو جیل حکام الف ننگا کرکے اُن کی مارپیٹ کررہے تھے۔ حتیٰ کہ جموں کے ایک اخبار میں چند اعلیٰ پولیس افسروں نے بھی بات کا اعتراف کیا تھا کہ جیل کی سیکورٹی پر مامور کئی اہلکار اپنی (بیمار) ذہنی تسکین کے لیے قیدیوں کو الف ننگا کرتے ہیں، اُنہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کے ساتھ ناروا ظلم روا رکھتے ہیں۔ گزشتہ سال جب وادی میں عوامی احتجاج کے بعد پولیس نے بڑے پیمانے پر نوجوانوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا نفاذ عمل میں لاکر اُنہیں جموں کے کورٹ بلوال، امپھالہ، ہیرا نگر، ادھمپور ، کٹھوعہ اور ریاسی کی جیلوں میں منتقل کیا تو کچھ ہی عرصے میں یہ خبریں موصول ہونے لگی ہیں کہ وہاں کشمیری قیدی نسلی تعصب کا شکار بنائے جاتے ہیں۔ کورٹ بلوال میں جیل حکام نے غیر قانونی طور پر یہ قواعد و ضوابط مقرر کیے ہیں کہ کشمیری قیدیوں کو مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا تھا، جو اُنہیں اپنے مذہبی فرائض ادا کرنے نہیں دیتے تھے۔ کھانے پینے کے اوقات ایسے مقرر کیے گئے تھے کہ لوگوں کو اِن جیلوں کے مقابلے میں ابوغریب اور گوانتاناموبے نہایت ہی چھوٹے نام محسوس ہونے لگتے ہیں۔ دن کا کھانا صبح آٹھ بجے دیا جاتا تھا اور شام کا کھانا دن کے چار بجے فراہم کردیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے اخبارات میں خبریں بھی شائع ہوئی ہیں۔
تہاڑ جیل کے بارے میں یہ بات اب عیاں ہے کہ یہاں کشمیری قیدیوں کے ساتھ نسلی تعصب برتا جارہا ہے، اُن کے مقابلے میں جیل میںمقید جرائم پیشہ افراد کو زیادہ سہولیات دستیاب ہوتی ہیں۔ کشمیری قیدیوں کو یہاں غیر ملکی تصور کیا جاتا ہے۔ کشمیری مزاحمتی خیمے کی خاتون لیڈر زمردہ حبیب نے اس جیل میں پانچ سال گزارے ہیں، اُنہوں نے اپنے جیل کے شب روز کو ایک کتابی صورت’’قیدی نمبر100 ‘‘ میں شائع کیا ہے۔ اُس میں درجنوں دل خراش واقعات درج ہیں جن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ کس طرح کا سلوک کشمیری قیدیوں کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے۔ اسی طرح کی ایک کتاب دلی میںمقیم معروف کشمیری صحافی افتخار گیلانی نے بھی تحریر کی ہیں اُنہیں بھی کشمیری ہونے کے جرم میںتہاڑ جیل میں مہینوں گزارنے پڑے۔ تہاڑ سے رہائی پانے والے کسی بھی کشمیری نوجوان سے جب ملاقات کرتے ہیں تو اُن کی رودادِ قفس میں یہ بات ضرور شامل ہوتی ہے کہ جیل حکام کے ساتھ ساتھ دوسرے عام قیدی بھی ہمارا ساتھ وہاں غیر انسانی رویہ اختیار کرتے ہیں۔یہی حالات ہندوستان کی دوسری جیلوں کا بھی ہے۔راجوری سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان محمد اسلم خان گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے مقید ہیں۔ دلی کی کورٹ کی جانب سے باعزت بری کیے جانے کے بعد اُنہیں ممبئی منتقل کیا گیا جہاں اُنہیں کسی اور کیس میں ملوث دکھایا گیا۔ وہاں اُنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی، اس وقت امراوتی کی جیل میں بند ہیں۔ دو ماہ پہلے بڑے پاپڑ بیلنے کے بعد اُن کے والدین کافی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے وہاں ملاقات کے لیے چلے گئے۔ کئی سال کے بعد اُن کے والدین کو بیٹے سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہورہا تھا لیکن بدقسمی سے بیس فٹ کی دوری پر اُنہیں مکروفون کے ذریعے چند منٹ کی ہی ملاقات دی گئی۔ وکیل کے ذریعے اسلم کے والدین کو معلوم ہوا کہ اُنہیں وہاں 4/4 کی سیل میں رکھا گیا ہے۔ اس قید تنہائی میں اُنہیں صبح کے وقت میں دو بالٹی پانی ملتے ہیں، جو اگلی صبح تک کے لیے ہوتے ہیں۔ ان ہی دو بالٹی پانی سے اُنہیں اپنی ہر ضروریات پوری کرنی ہوتی ہے۔ وضو کے لیے بھی وہی پانی ہے اور استنجاء کے لیے بھی، کپڑے دھونے ہوں یا پھرغسل کرنا ہو، پیاس بجھانی ہو یا پھر کھانے کے برتن صاف کرنے ہوں، یہ ضروریات اُنہیں محض ان پچاس لیٹر کے قریب پانی سے ہی پوری کرنی ہیں۔ اُس سیل میں ہی اُن کے لیے رفائے حاجب پوری کرنے کے لیے انتظام رکھا گیا ہے۔ تصور کیا جائے کہ 4/4 سیل میں ایک انسان کو برسوں تک رکھا جائے، اُسے جھلسانے دینے والی گرمی میں بھی محض چند لیٹر پانی فراہم کرکے اُس میں سے چوبیس گھنٹے تک اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کہا جائے تو اُس اللہ کے بندے کی کی حالت ہوتی ہوگی۔یہ کون سا انصاف ہے اور یہ کن انسانی حقوق کی پاسداری ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایسے اسیران کا کوئی پرسان حال ہی نہیں ہے۔ 
بیرون ریاست جیل میں بند اِن ستم رسیدہ کشمیری قیدیوں کے کیس بھی طویل عرصے سے لٹکے ہوئے ہیں۔جن کے خلاف مختلف غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا چارج شیٹ مختلف ایجنسیوں نے تیار کیا  ہوتا ہے اُنہوں نے اس انداز میں اُن کے خلاف کارروائی، ثبوت و شواہد درج کیے ہیں کہ ایک بے گناہ کو بھی چھوٹ جانے میں برسوں انتظار کرنا پڑتاہیں۔ رواں سال ہی میں ریاست کے اسیران طار ق احمد ڈار، رفیق احمد شاہ اور اُن کا ایک اور ساتھی تہاڑ جیل سے بارہ سال کے بعد چھوٹ گئے۔ کورٹ نے اُنہیں تمام الزامات سے بری قرار دیتے ہوئے اُنہیں باعزت رہا کردیا لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُن کی زندگی کے قیمتی بارہ سال کس کھاتے میں جائیں گے۔ کیوں بے گناہ افراد کو بے گناہ ثابت ہونے میں بارہ سال لگے؟ یہ کچھوے کی چال چلنی والی عدالتی کارروائی بھی اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ کشمیری قیدیوں کے لیے نہ ہی یہاں کی حکومت فکر مند ہے اور نہ ہی دلی میں کوئی ایسا صاحب دل فرد ہے جو انصاف اور اصولوں کی بات کرتے ہوئے ظلم و جبر کے اس سلسلہ پر لب کشائی کرکے ارباب اقتدار کو اقدامات کرنے کے لیے کہتا۔جیل میں ایک مینول ہوتا ہے۔ قاعدے اور قوانین ہوتے ہیں، اصول اور ضوابط ہوتے ہیں۔ قانون نام کی کوئی چیز ہوتی ہے۔ مقید افراد کے حقوق ہوتے ہیں لیکن بڑا ہی المیہ ہے کہ برصغیر کے اس خطہ میں اس طرح کے تمام اصول ، قواعد و ضوابط اور قانون کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے۔عوامی حلقوں کا یہ مطالبہ بجا نظر آرہا ہے کہ کشمیری قیدیوں کو ریاستی جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ تہاڑ اور دیگر ریاستوں کی جیلوں سے اُنہیں اپنی ریاست کی جیلوں میں منتقل کرکے اُن کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کے سبب جس طرح سے کشمیریوں کے تئیں ایک انتہا پسندانہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے، اُس کے پیش نظر بیرون ریاستوں کی جیلوں میں ہی نہیں بلکہ دیگر عوامی جگہوں پر بھی کشمیریوں کے جان و مال کو خطرات لاحق ہوتا جارہا ہے۔ گزشتہ سال سے کئی ریاستوں میں کشمیری طلباء، تاجر اور دیگر لوگوں پر جان لیوا حملے ہوئے ہیں۔ ابھی چند ہی ہفتے قبل پٹنہ سے دلی آنے والی ایک فلائٹ سے جہاز میں سوار دیگر سواریوں کی شکایت پر تین کشمیری نوجوانوں کو جہاز سے اُتارا گیا اور اُنہیں کئی گھنٹوں تک بند رکھا گیا۔وجہ یہ تھی کہ کشمیری ہونے کی وجہ سے جہاز میں سوار دیگر سواریوں نے اُنہیں مشکوک تصور کیا اور اُن کی موجودگی میں سفر کرنے سے انکار کیا۔ نفرت پھیلا کرجان بوجھ کر اور ایک منظم طریقے سے کشمیریوں کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کیا جارہا ہے، جس کا براہ راست اثر یہ ہورہا ہے کہ ریاست سے باہر ہر جگہ کشمیری مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو کو خطرات لاحق ہورہے ہیں۔
عالمی انسانی حقوق تنظیمیں بھی اپنا رول ادا کرنے سے قاصر دکھائی دے رہی ہیں۔ دنیا بھر میں بڑی بڑی عالمی کانفرنسیں ہوتی رہتی ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر جگہ طاقت کی طوطی بول رہی ہے۔ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس والا معاملہ بن چکا ہے۔ طاقتور قومیں کمزور قوموں کے خلاف کتنے ہی گھناؤنے ہتھکنڈے کیوں نہ استعمال میں لائیں اُنہیں کوئی روکنے والا ، ٹوکنے والا نہیں ہوتا ہے۔ وہ چنگیزیت اور بربریت کو بھی مات دے کرانسانی حقوق کی کتنی ہی دھجیاں کیوں نہ اُڑائیں اُن پر کہیں سے کوئی انگلی نہیں اُٹھتی ۔ مطلب یہ ہے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیمیں بیان بازیوں سے آگے بڑھ کر کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں ، وہ حکومتوں پر دباؤ بڑھانے کے لیے عالمی سطح کی مہم نہیں چلاتے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ تین دہائیوں کی تاریخ میں کس طرح کشمیر کی سرزمین پر انسانیت کی مٹی پلید کردی گئی، کس طرح انسانی حقوق کی آبروریزی کی گئی ،اس کی دنیا بھر میں کہیں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ اگر یہ کسی اور قوم کے ساتھ ہوا ہوتا، دلی کی جگہ پر کوئی مسلمان ملک ہوتا شاید ان سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف عالمی جنگ چھیڑ گئی ہوتی لیکن جب کشمیریوں کی بات آتی ہے تو پوری دنیا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے۔یہ بات بھی اپنی جگہ صد فیصد درست ہے کہ کشمیریوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھ کرسرینگر سے دلی تک ارباب اقتدار کو ئی قلعہ فتح نہیں کررہے ہیں بلکہ دوریوں کو جنم دیا جارہا ہے۔دلوں میں نفرت کے بیچ بوئے جاتے ہیں ۔ کاش انسانیت کے دائرے کی بات ہی نہیں ہوتی بلکہ عملاً لوگ انسانیت کا مظاہرہ کرکے حقائق تسلیم کرتے تو برصغیر کے کروڑوں عوام کا بھلا ہوجاتا۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ