بڑے گوشت پر پابندی....
ایمان سلامت نہ رہے تو زندگی کا کیا حاصل؟

٭.... ایس احمد پیرزادہ
”ہندوتوا“ کی جنونی لہر نے ریاست جموں وکشمیر کے حدود میں سرکاری و ادارتی سطح پر اپنا اثر دکھانا شروع کردیا ہے۔ ۹ستمبر ۵۱۰۲ئ کو ہائی کورٹ کی ایک ڈویژن بینچ نے ریاست جموں وکشمیر میں Beef یعنی بڑے گوشت پر پابندی عائد کرکے پولیس کو احکامات جاری کیے کہ وہ سختی سے بڑے گوشت پر پابندی کو لاگو کریں۔ عدالت میں مفاد عامہ میںپری موکش سیٹھ نامی ایک وکیل نے درخواست دائر کردی تھی جس میں مانگ کی گئی کہ گاو ¿ کشی پر ریاست میں پابندی عائد کردی جائے کیونکہ اس سے ہندو ¿ں کے مذہبی جذبات مجروح ہوجاتے ہیں۔جس کے بعد جسٹس راج کوتوال اور جسٹس دھیرج سنگھ ٹھاکر پر مشتمل ڈویژن بینچ نے حکومت اور پولیس کو حکم دیا کہ ریاست میں دودھ دینے والے بڑے جانوروں جن سے مراد گائے اور بھینس وغیرہ ہے کو ذبح کیے جانے پر پابندی عائد کی جائے۔واضح رہے ریاست جموں وکشمیر میں نافذ رنبیر پینل کوڈ کے سیکشن 298-A کے تحت گائے ، بھینس اور ان جیسے دوسرے جانوروں کو ذبح کرنے پر پابندی عائد ہے اور اس عمل کو سنگین جرم سے تعبیر کیا گیا۔ پینل کوڈ کے سیکشن298-B میں اس جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیا گیا اوراس فعل کے ثابت ہونے پر دس سال جیل کی سز ا کے علاوہ نقدی جرمانہ عائد کرنا بھی مقرر ہے۔رنبیر پینل کوڈ 1862ءمیں ڈوگرہ دور میں یہاں نافذ کیا گیا ہے اور تاحال مسلم اکثریتی ریاست میں اسی پینل کوڈ کے اصولوں کے تحت یہاں قانون سازی کی جاتی ہے۔اندھیری نگری کا چوپٹ راج یہ ہے کہ جس موکش سیٹھ نامی وکیل نے عدالت عالیہ میں مفاد عامہ کے تحت یہ عرضی دائر کی ہے وہ جموں ہائی کورٹ میں سرکاری وکیل کی حیثیت سے تعینات ہیں۔ سرکاری وکیل سرکار کے ہی خلاف مفاد عامہ میں عرضی داخل کردے، ایسا صرف ریاست جموں وکشمیر میں ہی ہوتا ہے۔ قانونی ماہرین کی مانیں تو یہ عمل ہی غیر قانونی ٹھہر جاتی ہے اور ایسا کرکے مذکورہ وکیل نے سرکاری منصب کے ساتھ وشواس گھاٹ کیا ہے۔ حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ وہ مذکورہ وکیل کے خلاف کارروائی عمل میں لائے ۔ تاحال اس معاملے میں یہاں کی پی ڈی پی سرکاری خاموش ہے اوریہ پراسرار خاموشی اور مذکورہ سرکاری وکیل کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ لانا اس بات کاواضح اعلان ہے کہ مفتی اینڈ کمپنی بی جے پی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں معاون و مدد گار ہے اور اس معاملے میں دونوں جماعتوں کے درمیان خاموش مفاہمت ہے۔
ہندوستان میں جب سے بی جے پی بھاری اکثریت کے ساتھ حکومت میں آگئی ہے ، ہندو انتہا پسند تنظیموں نے اپنے برسوں پرانے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لیے سینہ زوری کرنا شروع کردیا۔ زعفرانی سیاست کے پجاریوں نے ”ہندوتوا“کے لیے ساز گار ماحول پاکر عملی اقدامات کے ذریعے سے اپنے سیاسی اغراض و مقاصد حاصل کرنے کے سمت قدم بڑھانے شروع کردئیے ۔ یہاں دوسری بڑی آبادی، مسلمانوں کے خلاف ہر میدان میں جارحیت اپنائی جانے لگی اور اُنہیں طرح طرح سے تنگ کیا جانے لگا ۔ اُنہیں ”گھر واپسی“ کے نام پر ہندو بننے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں ، مسلمان بڑے گوشت کا کاروبار بھی کرتے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد آر ایس ایس اور اُس کی ذیلی تنظیموں نے ملک بھر میں گاو ¿ کشی پر مکمل پابندی عائد کرنے کی مانگ کرنی شروع کردی۔ مہاراشٹر پر سرکاری سطح پر پابندی عائد بھی کردی گئی۔مہاراشٹر نے بیل اوربچھڑے کاٹنے پر بھی پابندی لگا دی ہے اور اس کے لیے پانچ سال قید بامشقت کی سزا بھی رکھی ہے۔ہریانہ میں بی جے پی حکومت کے پیش نظر یہ تجویز تھی کہ گاو ¿ کشی کے جرم میں انسان کے قتل کا مقدمہ قائم کیا جائے، لیکن اس پر تنقید کے بعد حکومت نے گائے کاٹنے یا اس کا گوشت کھانے پر دس سال قید کی سزا رکھی۔تصویر کا المناک پہلو یہ بھی ہے کہ اِسی ریاست میں سڑک حادثے میں کسی انسان کو ہلاک کرنے کی زیادہ سے زیادہ سزا دو سال قید ہے۔اِسی سال مارچ کے مہینے میں ہندوستان کی ریاست مہاراشٹر کے شہر مالیگاو ¿ں میں پولیس نے گائے اور بیلوں کے مالکان سے کہا تھا کہ وہ اپنے جانوروں کی تصاویر پولیس تھانوں میں جمع کرالیں۔اس حکم نامے کے لیے پولیس نے دلیل یہ دی کہ ریاست میں گائے کے نسل کے کسی بھی جانور کو ذبیح کرنے پر پابندی کے باوجود اگر کوئی مجرمانہ معاملہ سامنے آتا ہے تو اس سے تفتیش میں آسانی ہوگی۔ہندوتوا کے علمبردار بار بار اس ملک میں موجود۸۱کروڑ مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کی صورت میں پاکستان چلے جانے کے لیے کہتے ہیں۔بی جے پی کے سینئر لیڈر اور منسٹر آف اسٹیٹ پارلیمانی اُمور مختار عباس نقوی نے اعلاناً کہا کہ جو لوگ گائے کا گوشت کھائے بنا نہیں رہ سکتے ہیں اُنہیں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان یا کسی عرب ملک میں چلے جانا چاہیے۔ اُن کے جواب میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے فیس بُک پر تحریر کیا” میں ایک ہند و ہوں اور میں نے بڑے جانور کا گوشت کھایا ہے اور آئندہ بھی کھالوں گا۔ بڑے جانور کا گوشت کھانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ دنیا میں ۰۹ فیصد لوگ بڑے جانور کا گوشت کھاتے ہیں کیا یہ سب گناہگار ہیں؟ اور میں اس بات میں بالکل ہی یقین نہیں رکھتا کہ گائے کوئی مقدس جانور ہے اور ہماری ماں ہے۔ایک گائے کیسے ایک انسان کی ماں ہوسکتی ہے؟اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ۰۹ فیصد ہندوستانی بیوقوف ہیں، جن میں مسٹر مختار عباس نقوی بھی شامل ہیں۔“
ریاست جموں وکشمیر ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ یہاں آبادی کی اکثریت دین اسلام کے ماننے والے ہیں۔ اسلام میں حلال و حرام انسان طے نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کا فیصلہ اللہ رب العزت نے پہلے ہی کر رکھا ہے۔ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حلال کررکھی ہیں اُنہیں رہتی دنیا تک اب کوئی طاقت حرام نہیں کرسکتی ہے اور جن چیزوں کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا اُنہیں دنیا کی تمام طاقتیں مل کر بھی جائز اور حلال نہیں بناسکتی ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے پاس اصول یہ ہے کہ اگر کوئی طاقت طاغوت بن کر اللہ کے حدود توڑنے کا حکم دے یا اللہ کی جانب سے حلال اور حرام میں ردوبدل کرنے کی کوشش کرے تو ایسی شیطانی طاقتوں کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے اُمت مسلمہ کے لیے لازم بن جاتا ہے کہ وہ اللہ کے احکامات کا بول بالا کرنے کے لیے مذکورہ طاغوتی طاقت کے قانون کو پیروں تلے رونڈ ڈالے اور جان کی بازی لگاکر قرآن وسنت کے احکامات کی حفاظت کرے۔لاکھ ایمانی کمزوروں کے باوجود اُمت مسلمہ اس اصول پر ابھی بھی کاربند اور قائم ہے۔ کسی قوم کے باطل عقائد کے لیے مسلمان اللہ کے قانون کو پامال نہیں کرسکتے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے ہندوستان میں اکثریتی طبقے کے جذبات کا خیال رکھنے کے لیے گاو ¿ کشی کو ترک کرنے کے حوالے سے لکھا ہے:”میرے نزدیک مسلمانوں نے ہندوستان میں ہندو ¿ں کو راضی کرنے کے لیے اگر گائے کی قربانی ترک کی تو چاہے وہ کائناتی قیامت نہ آجائے جس کا ذکر قرآن میںآیا ہے لیکن ہندوستان کی حد تک اسلام پر واقعی قیامت تو ضرور آجائے گی۔“عالم اسلام نے اس نامور عالم دین کے نزدیک گاو ¿ کشی پر پابندی اور مسلمانوں کا اس پابندی کے سامنے سر خم کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلامی حدود و قیود کے خلاف قانون سازی میں مسلمان اسلام پر قیامت ڈھا رہے ہیں اور اسی لیے مولانا مودودیؒ نے ہندوستان میں گائے کی قربانی کو واجب قرار دیا ہے۔ یہ محض گوشت خوری سے رُکنے کا مسئلہ نہیں ہے او رنہ ہی ہندو ¿ں کے جذبات کو مجروح نہ ہونے دینے کی بات ہے بلکہ یہ ہمارے عقیدے پر چوٹ ہے اور عقیدہ میں اگر خدانخواستہ خرابی ہوتو اسلام کی پوری عمارت خستہ ہی تصور کی جاتی ہے۔ ایک مسلمان کے لیے دنیائی زندگی ، مال و اولاد ، جاہ و حشمت، دولت و عزت، شہرت وغیرہ سب کچھ اسلام اور عقیدے کے مقابلے میں ہیچ ہے۔اللہ ا ور روز آخرت پر ایمان رکھنے والا بندہ سب کچھ داو ¿پر لگا سکتا ہے لیکن اپنے عقیدے اور ایمان پر آنچ نہیں آنے دیتا ہے اور یہاں ”بیف“ پر پابندی عائد کرکے ہمارے عقائد کی بنیادوں کو ہی مسمار کرنے کی کوشش ہورہی ہے، جسے قومِ کاشمیر ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرے گی۔ابھی ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے ہی بڑے گوشت پر پابندی عائد کردی ہے بقول امیر جماعت اسلامی جموں وکشمیر غلام محمد بٹ اگر ہندوستان کی پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلی میں بھی ”بیف“ پابندی کے حوالے سے قانون سازی کی جائے گی بحیثیت مسلم ہمارے لیے وہ بھی قابل قبول نہیں ہوگا۔عالمی سطح کے معروف عالم دین علامہ یوسف القرضاوی اس طرح کی پابندی قبول کرنے کو شرک سے تعبیر کرتے ہیں۔ اپنی شہرہ آفاق کتاب”اسلام میں حلال و حرام “ میں رقمطراز ہیں کہ ”اقتدار جو تحلیل و تحریم کے اختیارات کا اصل سر چشمہ ہے، مخلوق کا نہیں بلکہ صرف خالق کا حق ہے۔ عالم ہوں یا درویش، بادشاہ ہوں یاحکمراں کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ بندگانِ خدا پر کسی چیز کو حرام ٹھہرائے۔ جو شخص بھی اس کی جسارت کرے گا وہ حد سے تجاوز کرنے اور اللہ کے تشریعی حقوق میں زیادتی کا مرتکب ہوگا۔ اس کی اتباع کرنا اور اپنے عمل سے اس پر اظہارِ رضا مندی کرنا شرک کے مترادف ہے۔“یہ شیطانی طاقتیں ہیں جو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزین حرام کرکے اُنہیں شرک میں مبتلا کردینے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیت میں فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے:” میں نے اپنے بندوں کو دینِ حنیف پر پیدا کیا ہے لیکن شیطانوں نے انہیں بہکایا اور اُن پر اُن چیزوں کو حرام کردیا جن کو میں نے حلال کیا تھا اور انہیں حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ اُن کو شریک ٹھہرائیں جن کے شریکِ خدا ہونے کی میں نے ہرگز سند نازل نہیں کی۔“( مسلم)ہائی کورٹ کے فیصلے کو قبول کرنا اللہ کے حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف ہے۔ اگر مسلمان ہائی کورٹ کی پابندی کے سامنے سرخم کرکے بڑا گوشت کھانا ترک کردیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم اللہ کے مقابلے میں طاغوت اور شیطانی طاقتوں کے سامنے جھک گئے ۔ سورہ المائدہ کی آیات۷۸، ۸۸ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ”اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لیے حلال کی ہیں، اُن کو حرام نہ ٹھہراو ¿ اور حد سے تجاوز نہ کرو، یقین جانو اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا جو حلال و طیب رزق اللہ نے تم کو بخشا ہے اُسے کھاو ¿ اور اُس اللہ سے ڈرتے رہو جس پر تم ایمان لائے ہو۔“
اُمت میں ایک طبقہ ایسا بھی موجود ہے جو مرعوب ہوچکاہے اور اس طبقے نے اللہ پر توکل کرنا ہی چھوڑ دیا ۔ وہ افرادی قوت اور حرب و ضرب سے اس قدر خوف زدہ ہیں کہ اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہی کمپرومائز کرنے لگے ہیں۔ ذہنی طور شکست خوردہ یہ ٹولہ اب راہیں تلاشنے لگا ہے، اب یہاں تک کہا جارہا ہے کہ اگر حکومت نے اللہ کی جانب سے حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے تو مسلمانوں کو انسانی قانون کا پالن کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ ہندو ¿ں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں اور آپسی بھائی چارے کے لیے لازمی ہے کہ ایک دوسرے کے مذہبی عقائد کا احترام کیا جائے۔ اس طبقے سے پوچھا جاسکتا ہے کہ یہ جس احترام اور رواداری کی آپ بات کرتے ہیں کیا اِس کے لیے مسلمانوں کو ہی قربانی کا بکرا بننا ہے؟ کیا مذہبی جذبات خالص ہندو ¿ں کے ہی ہیں اور کیا مسلمانوں میں اپنے دین کے تئیں کوئی جذبات موجود نہیں ہیں؟مانا کہ گائے کاٹنے سے ہندو ¿ں کے مذہبی جذبات مجروح ہوجاتے ہیں لیکن کیا شراب جسے اسلام نے اُم الخبائث کا نام دیا ہے کو جائز قرار دینے سے اہل ایمان کے جذبات مجروح نہیں ہوتے ہیں؟ اسلام نے سود کو گناہِ کبیرہ میں شمار کیا ہے؟ اور ہندوستان کیا دنیا کی پوری معیشت ہی سودی نظام پر قائم و دائم ہے؟ مسلمانوں کے مذہبی جذبات سماج میں ہم جنس پرستی کے رواج سے مجروح ہوجاتے ہیں او رہندوستان میں اغلام بازی کو قانونی حیثیت دینے کی تیاریاں چل رہی ہیں۔ بغیر شادی کے تعلقات دین اسلام میں جرم عظیم قرار دیا گیا ہے اور ”اکھنڈ بھارت“ میں live in relation کو جائز ٹھہرا کر سماج کو شادی کے مقدس بندھن سے ہی آزاد کردیا گیاہے اور بے حیائی کو قانونی تحفظ فراہم کیا گیا۔یہ ساری چیزیں بھارت کی سرزمین پر ۸۱ کروڑ مسلمانوں کے مذہبی جذبات نہ صرف مجروح کردیتے ہیں بلکہ اُن کے ایمان اور عقیدے پر بھی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ ایسے میں کوئی بیوقوف ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ دوسرے کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچایا جائے، حتیٰ کہ یہاں تک فتویٰ بازی ہورہی ہے کہ سرکاری پابندی کی صورت میں بڑا گوشت کھانا حرام ہے۔ یہاں مسلمان کے ایمان اور عقیدے کی کسی کو پرواہ نہیں ، الٹا اُن سے ہی مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اپنے دینی شعائر سے دستبردار ہوجائیں۔ ایسے ہی حالات پر امیر المومنین حضرت علی ؓ کا یہ قوم چسپاں ہوجاتا ہے کہ”ذلت کی زندگی سے عزت کی موت اچھی ہے۔“
ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم دنیا پر واضح کردیں کہ ہم جان کی بازی لگا سکتے ہیں مگر کسی بھی صورت میں اسلام کے بنیادی عقائد سے کمپرومائز نہیں کریں گے۔ جو چیز اللہ نے حلال کی ہے وہ رہتی دنیا تک حلال رہے گی اور اُسے دنیا کی کوئی طاقت ہمارے لیے حرام نہیں کرسکتی اور جو چیزاللہ نے حرام کی ہے وہ ہمیشہ حرام ہی رہے گی ، دنیا کا بڑا سے بڑا ایوان بھی اگر قانون سازی کرکے حرام کو حلال کرے مسلمان کے لیے اللہ کا ہی قانون سب سے اعلیٰ اور افضل ہے ۔اُمت مسلمہ کے جذبات سے کھیلنے والے فرقہ پرست طاقتوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔ اس طرح مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے داو ¿ کھیلا کر وہ کسی بھی صورت میں نہ ہی اپنا بھلا کرتے ہیں ، نہ ہی اپنے ملک کی خیرخواہی کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے مذہب کی کوئی خدمت کرتے ہیں۔
رابطہ کریں:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ