کشمیر۔۔۔کون ہے فریق اول؟
کبھی انکار کبھی اقرار کبھی دُھتکار

 ۳۲اور۴۲اگست کوپاکستان اور بھارتی سلامتی امورکے مشیران کے درمیان نئی دہلی میں دو طرفہ معاملات پر مذاکرات ہونے تھے لیکن ۲۲ اگست کو ہی بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے دہلی میں حریت رہنماو ¿ں سے ملاقات نہ کرنے اور بات چیت کا دائرہ کار دہشت گردی تک ہی محدود رکھنے کی یقین دہانی کے بعد ہی قومی سلامتی کے مشیروں کے درمیان مذاکرات ممکن ہو سکیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں کسی” تیسرے فریق “کی موجودگی کا کوئی امکان ہی نہیں اور پاکستان کے پاس یہ یقین دہانیاں کرانے کے لیے سنیچر کی رات تک کا وقت ہے۔سشما سوراج کے اس بیان کے جواب میں پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی جانب سے پیشگی شرائط کے بعد دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی دہلی میں مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔یاد رہے کہ بھارت نے ہی گرداس پور حملے کے بعد پاکستان کو دونوں ممالک کے خارجہ ا ±مور کے مشیروں کے درمیان مذاکرات کی تجویز دی تھی۔بھارتی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس کے بعد ۲۲اگست کی شب پاکستان کے دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کئے گئے ردعمل میں کہا گیا تھا کہ سشما سوراج کی نیوز کانفرنس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر دہلی میں دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کی ملاقات ان شرائط کی بنیاد پر ہوتی ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا کہ یہ مدِنظر رکھتے ہوئے کہ دہشت گردی کے ایسے کئی واقعات جن میں بھارت کی جانب سے پاکستان پر الزامات لگائے گئے جعلی ثابت ہوئے، یہ ممکن ہے کہ بھارت ایک، دو واقعات گھڑ کر اور ایل او سی پر محاذ گرم رکھ کر مذاکرات کی بحالی کو غیر معینہ مدت کے لیے ٹال دے۔پاکستانی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے مذاکرات کے حوالے سے پاکستانی اعلیٰ حکام کی میٹنگ کے بعد اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ”بھارت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ہمیں بتائے کہ ہمیں اپنا مہمان کسے بنانا ہے اور کسے نہیں۔ ہم کس سے ملتے ہیں اور کس کی دعوت کرتے ہیں یہ فیصلہ کرنا ہمارا حق ہے۔“
امریکی کوششوں کے نتیجے میںجولائی کے مہینے میں روس کے شہر اوفا میںپاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے درمیان کشیدگی کم کرنے کے لیے بات چیت ہوئی، جس میں طے پایا کہ دونوں ممالک کے درمیان معاملات کو سلجھانے کے لیے بات چیت جاری رکھی جائے گی۔اوفا بات چیت کو ہی بنیاد بناکر دلّی میں سلامتی اُمور کے مشیران اجیت دُول اور سرتاج احمد کے درمیان بات چیت طے پائی ہے۔ تاریخیں طے ہونے کے بعد آخری مرحلے میں اڑچنیں اُس وقت پیدا ہوئیں جب پاکستان نے مذاکرات سے قبل حریت لیڈران سے ملاقات کرنے کے لیے اُنہیں دلّی آنے کی دعوت دی۔ پاکستان کے اس اقدام پر بھارتی حکومت نے اپنے تیور تیکھے کرتے ہوئے کہا کہ اوفا مذاکرات میں یہ طے پایا ہے کہ بات چیت دو طرفہ ہوگی اور اِس میں خالص” دہشت گردی“ کو ہی موضوع بحث بنایا جائے گا، باقی مسائل پر کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔ گویا بھارت کشمیریوں کو تیسرا فریق سمجھ رہا ہے اور ان کے ساتھ ٹیبل شیئر کر نے سے احتراز برت رہا ہے۔
اوفا میں نواز اور مودی بات چیت کے بعد بھارتی میڈیا نے اُس ملن کو بھارت کی کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ بات چیت کا ایجنڈا ”دہشت گردی“ تک محدود کرکے گویا بھارت نے سفارتی میدان مار لیا تھا۔ کشمیری مزاحمتی لیڈران سے لے کر پاکستان کے سیاسی لیڈران اور وہاں کے تجزیہ نگاروں نے بھی وزیر اعظم نواز شریف کی اس بات کے حوالے یہ کہہ کر کڑی نکتہ چینی کی کہ انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ بات چیت میں کشمیر کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔نواز شریف جان بوجھ کر وہاں ایسا کربیٹھے یا پھر اُن سے نادانستہ غلطی ہوئی ،ان بحث سے قطع نظر اس حقیقت سے انکار کی مجال نہیں ہو سکتی کہ اپنے ہم منصب نریندر مودی کے سامنے مسئلہ کشمیر کا تذکرہ نہ کرکے پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ ن کو اندرون ملک کافی شرمندگی اُٹھانا پڑی۔ اوفامیں مسئلہ کشمیر کا تذکرہ نہ کرکے نواز شریف نے کشمیریوں کے دل تو مجروح کرہی دئے تھے ،اندرون ملک طاقت ور ترین ادارہ فوج کو بھی اپنے اوپرناراض کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ فوری ردعمل سے بچنے کے لیے نواز شریف نے اوفا سے سیدھے عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب کی راہ لی تھی۔ گرداس پور حملے کے بعد بھارت کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کئے جانے پر نواز حکومت کو اوفا کی غلطی سدھارنے کا بہترین موقع ہاتھ لگ گیا اور بھارت نے بھی اپنے طرز عمل سے پاکستان کو بھرپور موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی گزشتہ غلطی یا چوک کی تلافی کرے۔ مذاکرات ہونے سے جتنا فائدہ پاکستان کو حاصل نہ ہوسکتا تھا ، باپ چیت کے منسوخ ہوجانے سے اُس سے زیادہ مقاصد مملکت خدا داد نے حاصل کیے ہیں۔
 تاریخ شاہد عادل ہے کہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کی پالیسی ایک ہی نہج پر نہیں رہتی ۔ کشمیر میں حالات جب بگڑ جاتے ہیں تو بھارتی حکومت بات چیت سے مسائل کو حل کرنے کی باتیں کرکے وقت حاصل کرتی ہے اور جب بزور طاقت یہاں کی سیاسی گلیاروں میں قبرستان کی جیسی خاموشی چھا جاتی ہے تو ”کشمیر کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ہمسایہ ملک دہشت گردی کروارہاہے جس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا “کی رَٹ لگائی جاتی ہے۔ ادھر پاکستانی سیکورٹی ایڈوائزرسرتاج عزیز نے جب حریت لیڈران سے بات چیت کے لیے اُنہیں دعوت دی تو بھارت نے فوراً اپنی ناراضگی جتاتے ہوئے حریت یا کشمیریوں کو مذاکرات میں فریق ہونے سے ہی انکار کردیا۔ سرتاج عزیز نے اپنی باری پر حق بجانب سوال کیا اگر کشمیر کوئی مسئلہ نہیں ہے اور کشمیری اس کے فریق نہیں تو پھر بھارت کی سات لاکھ فوج یہاں کیا کررہی ہے؟ ا س ایک سوال کے پیچھے تاریخ کے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر ہے ہی نہیں تو پھر ایک لاکھ سے زائد افراد کو کیوں ابدی نیند سلا دیا گیا ہے؟ کیوں اربوں اور کھربوں کی جائیداد تہس نہس کردی گئی ہے؟ کیوں عزتیں لوٹی گئیں اور کیوں کشمیریوں کو بھارت بھر میں غیر ملکی تصور کیا جاتا ہے؟ اور اگر حریت لیڈران کشمیری سنٹمنٹ کے حقیقی ترجمان نہیں ہیں یا اُن کا مسئلہ کشمیر کے حل میں کوئی رول نہیں بنتا تو کیوں اُنہیں مخاطب کرکے سابق وزیراعظم نرسہما راو ¿ نے اپنے زمانے میںSky Is the limit کا آفر اُن کے سامنے رکھ دی؟ کیوں اٹل بہاری واجپائی نے انسانیت کا دائرے میں آکر اُن سے مذاکرات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا؟ کیوں واجپائی اور منموہن سنگھ نے بہ حیثیت پرائم منسٹر کشمیری لیڈروں سے گفت وشنید کی ؟ ۰۱۰۲ءمیں جب عوامی ایجی ٹیشن ریاست کی گلی کوچوں میں اپنے جوبن پر تھی ، اُس وقت ہندوستان نے کل جماعتی پارلیمانی وفد کو کیوں حریت قائدین کے پاس روانہ کیا؟ بلکہ اُس وقت توحریت لیڈران کی زبانی پارلیمانی وفد کو مسئلہ کشمیر کی راگنی سننا پڑی۔ بزرگ لیڈر سید علی گیلانی نے وفد کے ساتھ کیمرے کے سامنے بات کرنے کی شراط عائد کردی تووفد میں شامل بڑے بڑے سیاسی جگادھریوں نے بلا چوں و چراں اس شرط کو قبول کیا ۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ حریت لیڈران بھارتی پارلیمانی وفد نے ملنے نہیں گئے بلکہ وہ خود حریت لیڈران سے ملنے کے لیے اُن کی دہلیز پر آگئے تھے۔ اصولی طور پر بھارت نہ صرف مسئلہ کشمیر کی حقیقت کو تسلیم کر چکا ہے بلکہ حکومت ہند نے حریت لیڈران کو کشمیریوں کے نمائندوں کی حیثیت سے بھی قبول کرلیا ۔ اب اُن کا یہ عذر لنگ کہ کشمیری میز پر قبول نہیں، کیا معنی رکھتا ہے جب کہ انڈیا سمیت پوری دنیامزاحمتی قیادت کو دنیا تسلیم کرچکی ہے ۔ او ¿ آئی سی میں حریت لیڈران ہر سال شرکت کرتے ہیں، عالمی اور علاقائی فورموں میں مزاحمتی قیادت کو آئے روز دعوتیں موصول ہوتی رہتی ہیں اور یہ بھارت کے اجراءشدہ سفری دستاویز پران میں شرکت کرتے ہیں، بیرونی ممالک کے وفود اُن سے ملتے ہیں ۔یہ وہ ٹھوس سچائیاں ہیں جو بھارت کے لیے کڑوی ضرور ہیں لیکن انہیں کوئی ساون کاا ندھا ہی جھٹلا سکتا ہے۔ بھارت کی نئی حکومت ووٹ بنک سیاست کے پیش نظر اب کڑوے سیاسی گھونٹ گلے سے اُتارنے میں تکلیف محسوس کرتی ہے، اس لیے کشمیر کا ذکر سنتے ہی آگ بگولہ ہو نے کا رقص نیم بسمل کر تی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان کبھی بھی اپنی مرضی سے مذاکرات کی میز پر نہیں آئے ہیں بلکہ عالمی دباو ¿ بالخصوص امریکہ کی چودھراہٹ کبھی کبھی کام کرجاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں ممالک کی حکومتوں کے لیڈران کو گاہے بگاہے بغل گیر ہونے اور مصافحہ معانقہ کر نے کا ڈرامہ کرنا پڑتا ہے۔ اس بار بھی اوفا میں مودی اور نواز شریف کو میز پر لانے میں امریکیوں کا رول کلیدی رہا ۔ مجوزہ مذاکرات کی منسوخی پرامریکی دفترِ خارجہ کے ترجمان نے بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ روس کے شہر اوفا میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان ہونے والی بات چیت ’تعمیری تھی اور امریکہ نے مذاکرات کی بحالی کی حوصلہ افزائی کی تھی۔جان کربی کا کہنا تھا کہ ’اوفا میں بھارت اور پاکستانی رہنماو ¿ں کے درمیان تعمیری بات چیت، بالخصوص دنوں ملکوں کے مشیرانِ سلامتی ا ±مور کے درمیان مذاکرات کا اعلان حوصلہ افزا ءاقدام تھا۔ گویا امریکہ کی لاٹھی سے دونوں ممالک کے وزیرائے اعظم ہاتھ ملانے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ مسائل کو پیدا کرنے میں مغرب کا کلید ی رول ہے۔ امریکہ کبھی یہ نہیں چاہے گا کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مسائل خوش اسلوبی سے حل ہوجائیں بلکہ واشنگٹن کی ہمیشہ یہی دانستہ کوشش رہی کہ ہند پاک کے درمیان تمام مسائل یونہی لٹکے رہیں تاکہ اِن کی آڑ میں امریکہ لیوریج حاصل کر کے دونوں ممالک کواپنے کنٹرول اور قابو میں رکھ سکے۔ پاکستان کامسئلہ یہ رہا ہے کہ اُس ملک کی خارجہ پالیسی کبھی بھی آزاد نہیں رہی ہے بلکہ امریکہ اور چند اسلامی ممالک بھی مملکتِ خداداد کی خارجہ پالیسیوں پر اثر انداز رہے ہیں۔ پاکستان نے کشمیراور کشمیریوں کی تحریک کی کافی مدد کی۔ نہ صرف سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی سطح کی مدد فراہم کی گئی بلکہ افرادی قوت بھی جدوجہد برائے حق خود ارادیت میں جھونک دی گئی۔ مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ بیرون دباو ¿ کے نتیجے میں کبھی کبھی پاکستانی حکمرانوں نے اپنے ہی کیے کرائے پرپانی پھیر دیا۔ جنرل پرویز مشرف کی وجہ سے تحریک حق خود ارادیت کو جو سنگین نقصان اُٹھانا پڑا ہے اُس کی بھرپائی دہائیوں میں بھی نہیں کی جاسکتی ۔جنرل مشرف نے کشمیریوں کی جدوجہد کی جڑیں کمزور کرنے کا یہ اقدام امریکہ کے کہنے پر کیا تھا اور امریکہ یہ سب بھارت کو راضی کرنے کے لیے کررہا تھا تاکہ وہ چین کی طاقت کا توڑ کرنے کے لیے مقابلے میں ہندوستان کو لاکھڑا کرسکے۔ حالانکہ جنرل مشرف کے کشمیریوں کے جدوجہد مخالف اقدامات پرپاکستان کے فوجی حلقوں میں بھی ناراضگی پائی جاتی تھی۔ایک دہائی گزر جانے کے بعد پاکستان کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے کہ کشمیریوں کی جدوجہد سے ہاتھ کھینچ کراُنہوں نے سنگین غلطی کی ہے اور اس معاملے میں فوج زیادہ سخت رویہ اپنانے کے حق میں ہے۔ آج پہلی مرتبہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی فوج،حکومت اور میڈیا ایک ہی صفحے پر نظر آرہی ہے۔ پوری غیرت، جوش اور جذبے کے ساتھ پاکستان نے مو ¿قف واضح کرکے دلّی کو ایک سنگین عندیہ دیا ہے۔پاکستان کے اس مو ¿قف سے مزاحمتی خیمے کی بھی خوب حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔دلّی کے رویہ پر بھارتی میڈیا نے بھی اپنی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اُن کے بات چیت منسوخ کرنے کے اقدام کی شدید الفاظ میں نکتہ چینی کی۔” ٹائمز آف انڈیا“ نے اپنے ایک اداریہ میں لکھا کہ یہ بھارتی حکومت کی نادانی ہے اگر وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستانی مشیر خارجہ وہاں سے یہاں صرف اُن پر دہشت گردی کے الزامات سننے کے لیے آئے گا۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں کہ پاکستانی حریت کانفرنس کے لیڈروں سے ملاقات کرنے جارہے تھے بلکہ ماضی میں بھی وہ ایسا کرتے تھے۔ اس وقت بھارت حکومت کا بات چیت سے فرار اختیار کرلینا صحیح اور سنجیدہ فیصلہ نہیںہے۔ اخبار نے اپنی حکومت کو خبرداربھی کیا کہ وہ پاکستان کے ساتھ جنگ کے بارے میں کبھی نہ سوچیںکیونکہ جنگ کی صورت میں بھارت کو سخت خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔پاکستان نے ہمیشہ کشمیر یوں کی سیاسی جدوجہد کا ساتھ دیا ہے ۔ اس نے کشمیر کے لیے اپنی قومی زندگی کی تاریخ میں بھاری قیمتیں بھی چکائی ہیں اور یہ بات بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ عالمی فورموں پر مسئلہ کشمیر پہنچانے کا سہرا پاکستان کو ہی جاتا ہے، ورنہ اقوام عالم میں بھارتی پروپیگنڈ ا مشنری اور سفارتی لابی اس حد تک مضبوط ہے کہ وہ کشمیرکاز کو کب کو لپیٹ چکی ہوتی ۔ المیہ تو یہ ہے کہ یہاں کی مقامی اقتدارنواز جماعتیں جو کبھی کبھار مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے مذاکرات اور افہام وتفہیم کی راگیں الاپتی رہتی ہیں، اصل میںیہ وقت وقت پر دلی کی بی ٹیم کی حیثیت پر قناعت کر کے اپنا مطلب نکالتی ہیں ۔ اگر یہ بصدق دل چاہیتں کہ دونوں ملک پرامن بقائے باہم کے آفاقی اصول کے تحت کسی قابل قبول ، دیر پااور منصفانہ کشمیر حل کے نزدیک آجائیں تو ان کو سب سے پہلے دلی کو بہ دلائل قائل کر تیں کہ کشمیریوں کی فریقانہ پوزیشن کاا نکار کرنا حقائق کی گردن مروڑنے کے برابر ہے ۔
رابطہ:9797761908 

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ