اوبامہ کا پیغامِ انڈیا کے نام
دیر وحرم کی بات میں جذبات چھپے ہیں

امریکی صدر باراک اوبامہ نے اپنے حالیہ تین روزہ بھارتی دورے کے آخری دن۲۷؍جنوری کو دلی میں ایک نشست سے خطاب کرتے ہوئے بھارت واسیوں کو مذہبی رواداری اور کشادہ دلی سے سے کام لینے کی تلقین کی ۔ انہوں نے ہندوستان کی کامیابی اور ترقی کو مذہبی روداری اور مختلف مذاہب سے وابستہ لوگوں کا ایک دوسرے کو برداشت کرنے سے مشروط کردیا ۔ صدر اوبامہ کے دورے اور اس تقریر کے بعد ہندوستانی میڈیا اور سیاسی جماعتوں سمیت سیاسی حالات کے نشیب وفراز پر پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین اور دانشورمختلف انداز سے اس دورے کے مضمرات اورمذکورہ تقریر ی فہمائش کے حوالے سے خوب تجزئیے کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار کی ناک بھوئیں اس پر چڑھ جانا فطری عمل ہے۔ اب۶؍فروری کو صدر اوبامہ نے ایک مرتبہ پھر واشنگٹن میںاپنی ان بات دوہراتے ہوئے کہا کہ ’’ہندوستانی سماج میں مذہبی عدم برداشت کے واقعات سے گاندھی جی کی روح تڑپ رہی ہوگی‘‘۔ اس بیان نے جلتی پر تیل کاکام کیااور پریوار کے خیمے میںکھلبلی مچ گئی ۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد صدر اوبامہ کا ہندوستانی دورہ کافی اہمیت کا حامل سمجھا جارہا تھا اور بھارتی میڈیا کے ساتھ ساتھ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں نے اس دورے کی اس حد تک تشہیر کی کہ جیسے باراک اوبامہ بھارت کا دورہ کرکے ہندوستان اور ہندوستانی سماج کے تمام اندرونی وبیرونی مسائل حل کرنے اور ملکی عوام کے لئے کوئی اچھوتا چمتکارکر نے والے تھے ۔ بے شک اس دورے سے تجارت اور دوسرے شعبوں میں دونوں ملکوں کے درمیان اشتراک بڑھ جانے امکان پیدا ہوگیا ، خصوصاً توانائی کے شعبے میں چند برس قبل کئے جانے والے معاہدے کو آگے بڑھانے کے لئے عملی اقدامات اُٹھانے پر اتفاق بھی کیا گیا لیکن جس جوش وخروش سے دلّی کا میڈیا اس دورے کے ثمرات کے خواب ملک کو دکھانے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا ،ایسا کچھ خاص ہوا ہی نہیں بلکہ پاک بھارت تعلقات سے دلچسپی رکھنے والے ماہرین کی مانیں تو پاکستان کو راضی رکھنے کے لیے امریکی صدر کے دورے سے قبل ہی بھارت کو پیغام بھجوادیا گیا کہ وہ افغانستان میں پاکستان مخالف طاقتوں کی سرپرستی بندکردیں، اور یہ نرم الفاظ والا انتباہ بھارتی مفادات کو زک پہنچانے والی تصور کیا جارہاہے۔ بھارت ایک عرصے سے عالمی سطح پر اپنی شبیہ درست کر کے سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا خواب دیکھ رہا ہے اور اس کے لئے دلّی کے پالیسی ساز عالمی فورموں میں اپنی موافق لابیاں تیار کرنے کے لئے مختلف سطحوں پر کام کررہے ہیں۔ صدر اوبامہ کے دورے کو اسی سلسلے کی ایک کڑی کی نظر سے دیکھا جارہا ہے اور بھارت ویٹو پاور رکھنے والے پانچ بڑوںکا ہم پلہ بن کر عالمی فورم کی وساطت سے  عالمی سطح پر کردار ادا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے ۔ بھارت کی یہ خواہش پوری ہونے کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ حسب سابق دلی ہنوز دور است، تو بے جا نہ ہوگا، کیونکہ اوبامہ نے بھارت کو جس آئینے کے سامنے لاکھڑا کر دیا ،اُس میں سلامتی کونسل کی مستقل ممبرشپ ملنے کے کہیں کوئی آثارہی دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔
 صدر اوبامہ کے دورے سے بھارت کو کس قدر فائدہ ہوا ، اس پر فی الوقت بات کرنا مقصودنہیں ہے بلکہ یہاں امریکی صدر کی اس ’’مذہبی عدم برداشت‘‘ والے قندمکرر کو موضوع بحث بنانا مطلوب ہے ۔ یہ قند مکررانہوں نے دلی میں اپنے میزبانوں کے سامنے بڑی بے باکی کے ساتھ بانٹا۔ دنیوی طاقت کے معنوں میں مجازی خدا کہلانے والے امریکی صدر کے بغیر کوئی اور یہ گل افشانی کرتا تو دلی لٹھ لے کر اس کامنہ بند کرتی اور اسے دوبارہ منہ نہ کھولنے کی وارننگ دے کر صلوٰتیں سناتی مگر یہاں معاملہ چپ چاپ سنو ، خاموش رہو اور جبین پر شکنیں نہ ڈالو والا تھا ۔ وجہ صاف ہے کہ طاقت کے سامنے بڑے بڑوں کیواپنے اوقات کے دائرے میں صبر کی گولیاں نگلنا پڑتی ہے ۔ بہرصورت ہندوستانی اکثریتی سماج کے لیے اگر چہ یہ ایک تلخ بات ہے کہ اُن میں دوسرے مذاہب کو برداشت کرنے کا مادہ موجود نہیں ہے لیکن صدر اوبامہ کی یہ بات مبنی بر حقیقت ہے۔ دنیا کا یہ واحد سماج ہے جس میں ’’گھرواپسی، بیٹی بچاؤ بہو لاؤ اور ہندو راشٹر ‘‘جیسے ا شتعال انگیز نعروں کے سہارے نہ صرف الیکشن لڑے جارہے ہیں بلکہ جاگتے کے یہ سپنے دکھانے والے قصوںکے سہارے الیکشن جیتے بھی جاتے ہیں۔ دنیا  ئے جمہوریت کایہ کیا تماشہ ہے کہ یہاںانتخابات سے قبل مسلم کش فسادات کروائے جاتے ہیں اور پھر اُن فسادات کو ہی الیکشن ایجنڈا بناکر ووٹ بنک کی تشکیل کر کے میدان مارا اجاتاہے۔ اس سماج کی جذباتیت سے عبارت نفسیات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی نے حالیہ لوگ سبھا انتخابات میں انہی آزمودہ وسائل کو بروئے کار لاکر بھاری اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کی ۔ نریندر مودی کا بت تراش کر پورے دیش کے ووٹرون کو اُن کا دیوانہ بنایا گیا۔ دنیا حیران و پریشان ہے کہ آخر اس شخص میں ایسا کون سا جادو ہے یا کون سی ادا ہے جس نے اکثریتی فرقے کے لوگوں کے ذہنوں پر انہیں سوار کیا۔یہ جادو ابھی کتنی دیر چلے گا ،ا س سے صرف نظر کر تے ہوئے ، یہ نکتہ غور طلب ہے کہ گجرات فسادات کو لے کر امریکہ نے ان پر امریکی ویزے کی پابندی عائد کردی تھی لیکن سیاسی گردش کا چمتکاردیکھئے کہ ہندوستان کا وزیراعظم منتخب ہو نے کے بعد امریکہ کو بھی اپنا یہ فیصلہ تبدیل کرنے مٰن ذرہ بھر دیر نہ کی ۔ سنہ 47 ء سے2000 ء تک کے گجرات میں مسلم کش فسادات تک سیاسی نے دہائیوں سے ہندوستانی اکثر یتی سماج کی ذہن سازی اس انداز سے کی ہے کہ بھلے ہی اس ملک کی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کررہی ہو، بھلے ہی طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے دن میں ہزاروں لوگ بے موت مررہے ہوں، بھلے ہی اس ملک کی بہو بیٹیوں کی عصمت دن کے اُجالوں میں بھی محفوظ نہ ہو، بھلے ہی لوٹ کھسوٹ اور کرپشن ملک کی معیشت کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہی ہو یہاں کے لوگ فرقہ پرستی ایجنڈے پر ہی خوشی خوشی لبیک کہہ کراُسی شخص کو ووٹ دیتے ہیں جس میں اقلیت دشمنی خاص کر مسلم بیزاری کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ مئی کے پارلیمانی عام انتخابات نے یہ ثابت کردیا کہ اکثریتی طبقے کا ذہن جس سوچ پر پروان چڑھا ہے اس کی روشنی میں، امریکی صدر کی فہمائش کو نظرا نداز نہیں کیاجاسکتا اور نہ اسے حقائق سے بعید تر کہا جاسکتا ہے ۔ علی الخصوص بی جے پی کے اقتدار میں آجانے کے بعد سے پریوار کھلے عام ’’گھر واپسی ‘‘ کے نام پرمسلمانون اور عیسائیوںکو زبردستی ہندو بنانے کے اپنے ایجنڈے پر کام کرنے لگ گیا ہے۔ ہندو رضا کاروں کو نشانے دئے جاتے ہیں ، بر سر عام اعلانات کئے جاتے ہیں اوریہ تک کہا جاتاہے کہ۲۰۲۱ئ؁ تک پورے بھارت کے لوگوں کو ہندو بنایا جائے گا، تبدیلی ٔ مذہب کے پروگرام چلائے جارہے ہیں جن کے تحت اُن ہندو لڑکوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے جو کسی مسلم لڑکی کو اپنے دام محبت میں پھنسا کر اُسے ہندو بنائیں اورپھر اس سے شادی کریں ، جب کہ اُن ہندولڑکیوں اور اُن کے والدین کو دھمکیاں دی جارہی ہیں جو کسی مسلم لڑکے سے شادی کرنے کی خواہاں ہوں۔’’بیٹی بچاؤ اور بہو لاؤ ‘‘کے ان نعروں کو حکومتی سر پرستی حاصل نہ ہو تو  اکثریتی سماج میں ان کو خوب پذیرائی کیوں مل رہی ہے۔
مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے اور مسلمانوں کو ہندوستان میں ’’ویلن‘‘ کی طرح نیچا دکھانے کے لئے تاریخ کی پستکوں تک کو تبدیل کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ہسٹری میں سے مسلم دور کو بدترین دور کی حیثیت سے پیش کرنے اور مسلم حکمرانوں کو ظالم، جابر اور غیر ملکی قرار دینے کے لیے ہندوتوا طاقتیں اپنے عملاً ایسے اقدامات کررہی ہیں جن کے ذریعے ہندوستان کی صدیوں پرانی تاریخ کو بھی بدلنا ہوگا۔حالانکہ تاریخ ، تاریخ ہوتی ہے ،کتابوں کو تبدیل کرنے اس کی حقیقت تبدیل نہیں ہو سکتی۔اسی طرح اسکولوں اور کالجوں میںپڑھایا جانے والے نصاب ِ تعلیم کو بھی تبدیل کرکے اس کو ’’ہندوایا‘‘ جارہا ہے، ہندوؤں کی مذہبی کتاب’’گیتا‘‘ کونصاب تعلیم میںلازمی قرار دیے جانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں،راجستھان جہاں بی جے پی حکومت بر سر قتدار ہے، کے اسکولوں میں مسلم عقائد کے خلاف’’وندے ماترم‘‘ کا پڑھنا ضروری قرار دیا گیاہے۔اس صورتحال کو دیکھ کر  ایک صدر اوبامہ تو کیا کوئی بھی کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان کا اکثریتی طبقہ ملک میں بسنے والی دیگر اقلیتوں کو برداشت کررہا ہے؟ یہاں جیو اور جینے دو کا اصول برتا جارہا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی اپنے ہی ملک میں جو حالت بنی ہوئی ہے ،اگر کسی دوسرے مسلم ملک میں دوسری اقلیتوں کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا ہوتا تو پوری دنیا اُس ملک کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوتی اور اسے رجعت پسند، انسانیت مخالف ، دقیانوسی ، شدت پسند ، انتہا پسند اور نہ جا نے کن کن موٹی گالیوں سے یاد کر تی۔تارٰک کا ہر ورق گواہ ہے کہ مسلمانوں کا ہندوستان پر احسان ہے ، انہوں نے ہمیشہ اس کی ترقی اور حب ا لوطنی میں نمایاں اور کلیدی رول کیا ہے۔ آج بھی اسلام کے نام لیوا اس ملک میں زندگی کے ہر شعبے میں اپنی وفاداریاں اور خد مت گزاریاںدرج کررہے ہیں، اس کے باوجود اُن کا جینا حرام کیا جارہا ہے۔ آئے روز ملک کی کسی نہ کسی ریاست میں مسلم مخالف واقعات اور سانحات کرائے جاتے ہیں۔
امریکی صدر جہاں بھارت کی ’’مذہبی عدم برداشت‘‘ جیسی موذی بیماری کی نشاندہی کرکے اُن کو عالمی سطح پر کردار نبھانے سے قبل اس بیماری کا علاج کرنے کو کہتے ہیں ، وہیں دنیائے انسانیت پر غنڈہ گردانہ چودھراہٹ قائم کرنے والا یہ ملک خود اپنی پالیسیوں کا جائزہ کیوں نہیں لیتا؟دنیا بھر میںمسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرا ردینے میں جو کردار امریکہ ادا کرتا جارہاہے وہ تاریخ کی صفوں میں آہوں اور اشکوں کی زبانی درج ہے ۔ مورخ اور اہل بصیرت ضرور امریکہ کے اس کردار کو منفی ، جاہلانہ ، وحشیانہ اور مسلم کش قرا ردے رہے ہیں۔ 9/11 کے بعد جس طرح سے عراق، افغانستان اور پاکستان میں نہتے مسلمانوں کو خواہ مخواہ خون میں نہلایا گیا اور جس طرح سے عالمی سطح پر سازشوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کا مسلسل خون بہایا جارہا ہے اور مسلمانوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ،وہ عیاں وبیاں ہے۔ امریکہ نے سپر پاور ہونے کے نشے میں اسلام اور دیگر مذاہب کے درمیان ایسی خونی لکیر کھینچ دی ہے کہ صدیوں کے بعد بھی اب ان دوریوں کو پاٹا نہیں جاسکے گا۔ امر یکہ کی اسلام دشمنی کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی کہ اسی ملک سے ہی توہین اسلام کے سلسلے کا آغاز کیاگیا جو بڑھتے بڑھتے جرمنی، ڈنمارک اور فرانس پہنچ گیا ہے اور آج پوری دنیا میں مغرب اور اس کے حواری مسلمانوں کی دل آزاری کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔گوانتاناموبے اور ابوگریب جیلوں کے اندر رونگٹے کھڑے کر دینے والے مظالم کی کہانیاں تاصبح قیامت انسانیت کے سامنے امریکیوں کی وحشت اور دہشت پر واویلا کرتے رہیں گی۔ امریکی فوج کے مظالم کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہوگی کہ جب ظلم کی یہ داستانیں اُن کے اپنے عوام پر بھی ظاہر ہوجاتی ہیں تو وہ بھی چیخ پڑتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ویڈیو کلپ نے امریکی سماج کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے جس میں گوانتاموبے میںامریکی فوجی ایک مسلم خاتون قیدی کے سامنے اُس کے کمسن بیٹے سے فعل بد کرتے ہوئے دکھایا گیا اور دیگر خواتین امر یکی فوجی اس کا ویڈیو بناکر لطف اندوز ہورہی تھیں۔اس طرح کی درندگی کا مظاہرہ کرنے والا امریکہ بھلا دوسروں کو مذہبی روا داری کا کیا درس دے سکتا ہے جس کا اپنا چہرہ سیاہ ہو ؟وہ دوسروں کے داغدار چہروں کی نشاندہی کریں یہ کمینے پن کی انتہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ مغرب کی صلیبی سوچ کی صدائے بازگشت ہی ہے کہ مسلم کش پالیسیاں ان کا طرہ ٔ امتیاز بنی ہوئی ہیں اور نتیجے کے طور کشمیر اور فلسطین جیسے سلگتے مسائل حل نہیں ہوپاتے کیونکہ یہ دونوں مسائل مسلمانوں کے ہیں اور ان مسائل سے براہ راست مسلمان ہی متاثر ہورہے ہیں۔ یہ ایسٹ تیمور نہیںاور نہ ہی یہ جنوبی سوڈان ہے جو عیسائیوں کے مسائل تھے ،جہاں ریفرینڈم کرانے میں دیر نہیں لگائی گئی۔ المیہ تو یہ ہے کہ مسلم حکمران یہ سب کچھ جاننے کے باوجود مغرب کے کٹھ پتلی غلام ہیں۔
بھارتی سماج اور یہاں کے سنجیدہ سیاست دانوں کو اس حقیقت کا فہم وادراک حاصل کرلینا چاہیے کہ جس ملک کا صدر آج اُنہیں مذہبی رواداری قائم کرنے کا درس دے رہا ہے ، اُس ملک کی حالت یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عر صے سے حالت جنگ میں رہنے اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف مسلسل سازشیں کرنے کے باوجود بھی وہ اپنے ناپاک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو رہا ہے۔ اُمت مسلمہ بے شک پریشانیوں اور مصیبتوں کی بد ترین شکار ہے لیکن اس کے باوجود اُمت مسلمہ بحیثیت اُمت قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہے گی اور اگر یہی ناگفتہ بہ حالت کسی دوسرے مذہب اور ملت کی ہوتی تو کیا وہ ایک پل بھی قائم رہ سکتی ہے؟ اسلام آخری خدائی پیغام انسانیت ہے جس کو جبر واکراہ  کے ہتھکنڈوں سے کوئی بھی طاقت زیر نہیں کر سکتا ۔گھر واپسی کے مجنونوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک ہندوستان پر حکومت کرنے کے باوجود ہندوستان کی ہندو آبادی کی دل جوئی کی ، ان کی داد ودہش میں کوئی کسر نہ رکھی اور جیو اور جینے دو کا منشور اپنا کر ہر ایک مذہب اور عقیدے کو ماننے والے کوجان ومال کی امان ا ور عزت وآبر وکی ضمانت دی ۔ اسی طرز عمل کو سب کا وکاس سب کا ساتھ اورا چھے دن لوٹ آنا کہتے ہیں ۔
essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ