مخلوط حکومت کے 100 دن
نئے ہیں نشتر نئے زخم ہیں میرے جگر پہ 

ریاست جموں وکشمیر میں پی ڈی پی ، بی جے پی مخلوط سرکار کے سو دن مکمل ہونے پر جہاں عام لوگ اس حکومت کی کارکردگی پر تجزیہ کرکے مایوسی کا اظہار کررہے ہیں، وہاں مخلوط حکومت کی اکائیاں ایک دوسرے پر دبی زبان میں ہی سہی طعنے اور فقرے کس کر لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوششوں میں جٹے ہوئے ہیں۔ حکومت سو دن گزرجانے کے بعد ریاستی حکومت کے وزیروں نے ازخود اعتراف کرلیا ہے کہ سرکار کے پاس مالی وسائل ہیں نہ مختلف اسکیموں اور کاموں کے لئے فنڈز دستیاب ہیں۔ایک وزیر نے یہاں تک اعتراف کرلیا کہ تاحال ریاستی سرکار وادیٔ میں کچھ نہیں کرپائی ہے۔جب یہ حکومت بنی تو مخلوط جماعتوں نے اس انداز سے پروپیگنڈاکیا کہ بظاہر نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے کوسوں دور ان جماعتوں کا اتحاد اس اعتبار سے اچھا ہے کہ دّلی میں بی جے پی کی حکومت ہے اور ریاست میں بی جے پی کولیشن پارٹنر ہونے سے ریاستی حکومت کو فنڈز دستیاب رہیں گے اور یہ کہ مرکزی حکومت کی بھرپور مدد سے ریاست میں تعمیر و ترقی کے نئے دروازے وا ہوںگے۔ حالانکہ ان ہی کالموں میں اُس وقت بھی یہ بات واضح کی گئی تھی کہ دونوں جماعتیں عام لوگوں کی بھلائی کے لیے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں ، بالخصوص پی ڈی پی نے اپنے لئے خود ہی ایک ایسا جال بھنا ہے جس میں اُلجھ کر سوائے اپنی کرسی کے یہ جماعت تعمیر و ترقی کا کوئی بھی کام کرنے سے قاصر ہے۔ آج سو دن گزر جانے کے بعد جب ہم مخلوط حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک بھی ایسا کام یا کارنامہ نظروں سے نہیں گزرتا جس میں عوامی فلاح و بہود کا رنگ موجود ہو، بلکہ ہر سو نااُمیدی ہی نااُمیدی منڈلاتے دکھائی دیتی ہے۔ اس حکومت کی وجہ سے کشمیر میں وہ سب کچھ کئے جانے کے آثار پیدا ہوئے ہیں جو گزشتہ ۶۰؍سالہ تاریخ کشمیر میں نہیں ہوا۔ جن لوگوں کے ذاتی مفادات کو اس حکومت کے بدولت تقویت پہنچ رہی ہوگی ، وہ یہ کہہ کر مخلوط حکومت کا دفاع کررہے ہیں کہ سو دن کا وقت قلیل ہوتا ہے اور یہ وقت حکومت کے کار ہائے نمایاں جانچنے کے لیے کم ہے۔ایسے لوگوں سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ مفادات کی عینک اُتار کر اکیسویں صدی کی دنیوی ترقی کا تقابلی جا ئزہ لے کربتائیں کہ ایک سو دن پر محیط وقت کتنا اہم ہوتا ہے ۔یہاں ہمارے پڑوسی ملک پاکستان جس کے بارے میں عام طور پریہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ وہاں تعمیر و ترقی کے تمام دروازے بندہیں، میں نواز شریف نے حکومت سنبھالنے کے ڈیڑھ سال بعد راولپنڈی ، اسلام آباد اور لاہورکے درمیان سینکڑوں کلو میٹر پر محیط عالمی معیار کی میٹرو بس ٹریک بناکر ترقی یافتہ دنیا کو بھی حیران کردیا۔پاکستان میٹرو بس سروس کے حوالے سے واشنگٹن پوشٹ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہے کہ راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس پر دنیا بھر کے سیلانی رشک کررہے ہیں۔ اِسی ملک کے صوبہ پنجاب میں شہباز شریف نے صرف 175 دن میں دس کلو میٹر پر محیط دو منزلہ فلائی اُور بنا کر لوگوں کے اُس وعدے کا وفا کیا جو انہوں نے الیکشن کے دوران کیا تھا۔ہمارے یہاں رام باغ، جہانگیر چوک ایک کلومیٹر لمبی مسافت کا فلائی اُور بنانے کے لیے تین برس کا عرصہ طے ہوا ہے اور حکومتی رفتار کو دیکھتے ہوئے آثار وقرائن یہی بتا رہے ہیں کہ شاید چار برسوں میں بھی اس کے مکمل ہونے کے امکانات نہیں۔کچھوے کی چال چلنے کا زمانہ گیا ۔ دنیا ئے انسانیت نے سطح زمین پر ضروریات زندگی کے تمام کام مکمل کرکے زیر زمین ، خلاؤں اور سمندروں میں بود و باش کی راہیں تلاش کرنا شروع کررکھا ہے ، ہمارے یہاں سو دن کے عرصے کو قلیل کہا جارہا ہے۔ یہ حکومتی اکائیوں کی جانب سے لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ہر روز نئی کہانی پیش کرکے ٹائم پاس کرناہے اورا س دوران بڑے بڑے مگر مچھ عوامی وسائل کو دو دو ہاتھ سے لوٹتے جا رہے ہیں۔ جس وقت پی ڈی پی نے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو نظر انداز کرکے قریبا ًدو ماہ طویل صلاح مشورے کے بعد بی جے پی کو اپناکولیشن پارٹنر بنالیااور حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اُس وقت فوری طور پر سیلاب متاثرین کی باز آبادکاری کا مسئلہ درپیش تھا۔ بی جے پی سے ہاتھ ملانے کے لیے پی ڈی پی نے یہ جواز پیش کیا تھا کہ چونکہ دلّی میں ان کاسنگھاسن ہے ،اس لیے سیلاب متاثرین کی باز آبادکاری کے لیے فنڈز حاصل کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔ ستمبر۲۰۱۴ء کے سیلاب نے ریاست بالخصوص وادیٔ کشمیر کے لوگوں کی کمر توڑ کررکھ دی ہے۔ ہزاروں لوگ روزی روٹی سے محروم ہوگئے، فصلیں تباہ و برباد ہوگئی، فروٹ انڈسٹری کو کھربوں کا نقصان ہوا، ہزاروں مکان ڈَھ کر زمین بوس ہوگئے۔لوگوں کے مالی وسائل ختم ہوچکے تھے۔تاریخ کے اس بھیانک سیلاب نے ریاست بھر میں جنگی صورت حال پیدا کررکھی تھی۔ ایک برس بیت جانے کو آیا ہے تاحال سینکڑوں لوگ بغیر چھت کے دربدر ہیں۔ کرایہ کے کمروں میں ، رشتہ داروں کے یہاں اور کھلے عام ٹینٹوں میں قیام پذیر سیلاب متاثرین ذہنی بیماریوں اور مالی دشواریوں کے شکار ہیں ۔اس ہنگامی صورتحال سے نبٹنا حکومت وقت کاپہلا کام تھا اور اس حوالے سے مخلوط سرکاری نے کافی دعوے بھی کئے تھے۔ سو دن گزرجانے کے بعد آج جب ہم سیلاب متاثرین کی حالتِ زار کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ پانی کے سیلاب سے بچ کر اب مسائل کی سونامی میں مر رہے ہیں اور بہت زیادہ اضطراب میں مبتلا ہیں۔ نہ ہی کسی کو ریلیف ملا اور نہ ہی کسی کو چھت میسرہوئی۔حکومت کے بلند بانگ دعوے کھوکھلے ثابت ہوچکے ہیں۔ وادی کشمیر میں سیلاب متاثرین ہزاروں لوگوں کو پھوٹی کوڑی تک نہیں دی گئی اور صوبہ جموں میں گزشتہ دنوں ستم رسیدہ لوگوں کے ساتھ اُس وقت بھونڈا مذاق کیا گیا جب اُنہیں ۳۵؍اور۹۰؍روپیوں کی چکیں فراہم کی گئیں۔ ستمبر ۲۰۱۴ء کے وحشت ناک سیلاب نے یہاں جہاں رہائشی عمارتوں کو شدید نقصان سے دو چار کردیا تھا ،وہیں ہزاروں کلو میٹر پر محیط شاہراؤں سڑکوں کو بھی بُری طرح خستہ حال بنا دیا۔ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوجانے کے فورا بعدمتعلقہ وزیر نے کہاتھا کہ سڑکوں کی مرمت کا کام ہنگامی بنیادوں پر انجام دیا جائے گا۔ تاحال حکومت کے سو دن اور سال کا نصف حصہ گزر جانے کے بعد بھی سڑکوں کی حالت وہی کی وہی ہے جو گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں دیکھنے کو مل رہی تھی۔نائب وزیر اعلیٰ نرمل سنگھ نے گزشتہ ہفتے اعتراف کیا تھا کہ سرکار کے خزانے خالی ہیں ، اس لیے بڑے بڑے پروجیکٹوں پر کام کا آغاز نہیں کیا جاسکا۔ پی ڈی پی سے تعلق رکھنے ایک اہم وزیر الطاف بخاری نے بھی اس حقیقت حال کو سر عام قبول کیا ہے کہ تاحال کولیشن سرکار وادیٔ میں کوئی خاص کام انجام نہیں دے سکی۔ سرکاری ملازمین جو ریاستی عوام اور حکومت کے درمیان پل کا کام انجام دیتے ہیں، جو حکومت کی کل پُرزے ہوتے ہیں، اس حکومت نے اپنی گزشتہ سو دن کے اقتدار میں کئی مرتبہ اُن پر شدید قسم کا لاٹھی چارج کروایا ہے۔ اپنے مسائل کو لے سرکاری ملازمین کا آئے روز سرینگر میں احتجاجی مظاہرہ ہوتا ہے۔ اُن کی بات پر کان دھرنے کے بجائے وردی پوش اپنی طاقت کا بے تحاشا استعمال کرکے بظاہر حکومت کی ناکامی کو پردوں میں چھپانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزیاں شہر و دیہات جاری و ساری ہیں۔پی ڈی پی والی کولیشن سرکار کے دور اقتدار میں ترال میں مظفر احمد وانی کو جرم بے گناہی میں وردی پوشوں نے گولیوں سے بھون ڈالا، مفتی سعید کا ہی دور اقتدار ہے کہ نارہ بل میں معصوم سہیل احمد صوفی کا سینہ چھلنی کردیا گیا۔ پیلٹ گن جس کے خلاف اپوزیشن میں رہتے ہوئے محبوبہ مفتی صاحبہ کبھی اسمبلی سے واک آوٹ کرتی تھیں تو کبھی تیز طرار بیان بازی کرکے حریت لیڈران کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی تھی لیکن حال ہی میں پلہالن میں پولیس اہلکاروں نے اس گن کا شکار ایک اور نوجوان کو بنایا اور وہ تاعمر آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوگیااور محبوبہ جی کے کان پرجوں تک نہ رینگی۔ الیکشن سے قبل پی ڈی پی نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا خوب ڈھنڈورا پیٹا ۔ دل پر ہاتھ رکھ مسرت عالم کو رہاکردیا گیاتھا لیکن دلی نشین چینلوں و پرنٹ میڈیا کے تاپڑتوڑ حملوں کی تاب نہ سہتے ہوئے سبز ہلالی پرچم لہرانے کے بہانے اُنہیں پھر سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ بزرگ لیڈر سید علی گیلانی عمر عبداللہ کے دور میں بھی گھر میں نظر بند رہے اور مفتی محمد سعید بھی اپنے پیش رو کے نقش قدم پر چل کر اسی ’’باعزت امن ‘‘کی روایت قائم کیے ہوئے ہیں۔ریاست بھر میں نوجوانوں کو ہراساں و پریشان کرنے کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ گویا حکومت کی تبدیلی محض چہرے بدلنے تک محدود رہی ، باقی زمینی صورتحال پہلے سے بھی ابتر ہے ۔ پی ڈی پی ، بی جے پی کولیشن سرکار نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد مخلوط حکومت کا مشترکہ ایجنڈا یہاں کے مقامی اخبارات میں شائع کیا تھا۔ ایک سو دن گزرجانے کے بعد جب حالات کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو وہ ایجنڈا ہاتھی کے دانت جیسا معاملہ معلوم ہوتا ہے۔ عام لوگوں کے سامنے ایک ایجنڈا رکھا گیا اور پردوں کے پیچھے کسی اور ہی ایجنڈے کی آبیاری کے وعدے کئے جاچکے ہیں۔ موجودہ حالات اس کا واضح ثبوت فراہم کررہے ہیں۔ بی جے پی کھلے عام فرقہ پرستی کو ہوا دے رہی ہے، مفتی سعید خاموش ہیں، آر ایس ایس ایجنڈا کو آگے بڑھانے کے لیے جموں میں مسلمانوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل کیا جارہا ہے، ڈوڈہ میں مقامی بی جے پی اسمبلی ممبر اپنے جوشیلے حامیوں کے ساتھ مسلم گھرانوں میں گھس کر لوگوں کی مارپیٹ کرتا ہے ، پی ڈی پی کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے، وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ کھلے عام کہہ رہے ہیں کہ پنڈتوں کے لیے الگ کالونیاں تعمیر کرنے کے لیے مفتی سعید سے اتفاق ہوچکا ہے اور ریاستی سرکار نے اس منصوبے کے لیے ۵۰ ؍ایکڑ زمین تک کی نشاندہی بھی کر رکھی ہے، ریاست سرکار کی جانب سے کوئی وضاحت سامنے نہیں آتی ہے کہ حقیقت کیاہے، مغربی پاکستان کے شرنارتھیوں کو ریاست کا باشندہ بنانے کے لیے ابتدائی کارروائیوں کا آغاز بی جے پی والوں نے کب کا کیا ہے اور یہاں پی ڈی پی والے کھوکھلے نعروں سے قوم کشمیر کا دل لبھا رہی ہے۔پی ڈی پی کے خیمے میں ان اہم ونازک امور پرمکمل خاموشی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ خفیہ ایجنڈے کو ریاست کے طول و عرض میں پروان چڑھایا جارہا ہے۔وزیر دفاع منوہر پاریکر نے حال ہی میں متازعہ بیان دے کر کشمیر کی سیاسی گلیاروں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ پاریکر نے کہا کہ دلی مسلح مزحمتی تحریک سے نبردآزما ہونے کے لیے پالیسی نئے سرے سے ترتیب دے رہی ہے۔ اب عسکریت پسندوں نے نبٹنے کے لیے فوج نہیں بلکہ’’ دہشت گردوں‘‘ کا ہی استعمال کیا جائے گا۔’’دہشت گردی کا مقابلہ دہشت گردی سے‘‘ کے نعرے نے ریاست بھرمیں ہل چل مچا دی ہے۔ یہاں ایک اور ’’اخوان‘‘ ٹائپ ملیشیا کو جنم دیا جارہاہے۔ تجزیہ نگار وں کا ماننا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ طرز پر آزادی پسندوں اور ہند مخالف جذبات رکھنے والوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ افسوس ناک صورتحال مفتی سرکار کے نامۂ اعمال کا ایک اور سیاہ باب ثابت ہوگا جو کشمیر کی تاریخ میں پی ڈی پی کے کھاتے میں شمار ہوکر اس جماعت سے وابستہ لوگوں کو سابق قدآوروں سے گیا گزرا دکھا سکتا ہے۔ سو دن کے قلیل مدت میں ہی پتہ چل گیا کہ پی ڈی پی نے بی جے پی سے ہاتھ ملا کر گھاٹے کا سودا کیاہے اور ہو اکا آئندہ رخ کیا ہوگا۔ اس اتحاد سے نہ صرف پی ڈی پی کا مستقبل مخدوش بن سکتا ہے بلکہ یہ حکومت ریاستی مسلمانوں کا قافیہ حیات تنگ کرنے کا با عث بن رہا ہے۔ فرقہ پرست طاقتیں جن عزائم کا کھلے عام اظہار کررہیں ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ مفتی محمد سعید نے اپنی زندگی کی بظاہر آخری اننگ سوچ سمجھ کر نہیں کھیلی بلکہ اُن کی سیاست کے تمام داؤ پیچ آخری مرحلے پر بے کار ثابت ہوگئے۔ ان سارے حالات میں کشمیری قوم آزمائشوں کا شکار ہوگئی ہے۔ جدوجہد برائے حق خود ارادیت کے چلتے ہوئے تمام فرقہ پرست طاقتیں کشمیری قوم پر چڑھ دوڑنے کے لیے پر ماررہے ہیں۔ اُنہیںجہاں سے بھی ممکن ہوپاتا ہے ،وہ کشمیری قوم کے ناقابل تسخیر جذبے کو کمزور کرنے اور کشمیریوں کو توڑنے کے لیے جتن کررہے ہیں اور افسوس اس میں پی ڈی پی کی صورت میں اُنہیں کشمیر سے ہی حمایتی حاصل ہوئے ہیں۔ essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ