کرسی کے چار وںپائے کسی کے ماتحت؟

نرالی سیاست پرائی حکومت 

٭....ایس احمد پیرزادہ
یکم مارچ 5 201ءکوتمام تر قیاس آرائیاں، تجزئے، تبصرے، اٹکلیں یہ حقیقت بالآخر سامنے لاہی گئیں کہ ریاست میں اقتدارہر سیاسی قائد کا واحد ایجنڈا ہوتاہے۔ اسی حقیقت کی صدائے بازگشت مفتی محمد سعید کی سر براہی میں پی ڈی پی بی جے پی کی ساجھا سرکار ہے۔ یہ چوں چوں کامربہ بنانے میں مفتی نے اپنے پتے نر یندر مودی کے ساتھ اسی طرح کھیلے جس طرح ڈاکٹرفاروق اور عمر عبداللہ نے کبھی راجیو گاندھی اور کبھی سونیا گاندھی کے ساتھ کھیلے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک وقت تھا جب شیخ عبداللہ نے کانگریس کو گندی نالے کے کیڑے کہہ کر قوم کو ان کاترک موالات کر نے کا درس دیا اور پھر گردشِ دوران ایسی چال چلا کہ یہی کیڑے ان کی آنکھوں کے تارے بن کر ان کے محاذ کو چیف منسٹر ی کے عوض سر تاسر چبا گئے کہ نہ ان کا قدوقامت رہا اور نہ عوام کو اپنی بے پناہ قربانیوں کا کوئی ادنیٰ سا صلہ ملا۔ وقت نے پھر پلٹا کھایا تو جس جن سنگھ کے شیاما پرساد مکھر جی کی پرجا پریشد آندولن کے دوران سری نگر میں پ ±راسرار موت نے شیخ کو راندہ ¿درگاہ ٹھہرایا، اسی پریوار کے ساتھ ڈاکٹرفاروق نے یارانہ گانٹھ کر اپنے فرزند کو مر کز ی وزیر کا عہدہ دلایا۔ آج کی تاریخ میں یہی رول اگر سیکولر ڈیموکریسی کی دعوے دار پی ڈی پی اپنے سیاسی حلیف بھاجپا کو گلے لگاکر ادا کرے تو کسی کو حیران وششدر ہونے کی ضرورت نہیں۔ آج کی تاریخ میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا بی جے پی کے ساتھ یارانہ اسی حقیقت کی صدائے بازگشت ہے جس کی داغ بیل شیخ نے ڈال دی یعنی اقتدار برائے اقتدار۔ جموں میں مفتی محمد سعید کی حلف برداری کے ساتھ ہی دونوں جماعتوں کی مخلوط سرکار وجود میں آگئی۔اس طرح’ ’سیاست میںکوئی مستقل دوست نہیں کوئی مستقل دشمن نہیں“ والی حقیقت پر پھر سے مہر تصدیق ثبت ہوئی۔ اقتداری سیاست میں اصول ، نظریات اور عوام سے کئے گئے وعدے ، اپنا سیاسی قد کاٹھ کوئی معنی نہیں رکھتے ہیں بلکہ اقتدار کی نیلم پری کے خاطر باقی سب کچھ بھلا کر کرسی کی چار ٹانگوں سے عشق نبھایا جاتا جاتا ہے۔ اگر یہ سب ہوتا تو شیخ ایکارڈ ہی کیوں کرتے ؟کہنے کوپی ڈی پی اور بی جے پی دو متضاد خیالات کی جماعتیں تصور کی جاتی ہیں، دونوں کا نظریہ اور ایجنڈا الگ الگ دکھائی بھی دے رہا ہے، ایک ”ہندتوا“ ایجنڈے کی حامل جماعت ہے جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ ہندوستان کو تمام دوسری اقلیتوں بالخصوص مسلمانوںسے شدھ کرکے اسے ”ہندو“ راشٹر بنایا جائے اور اس نشانے کو پانے کے لئے سال2021 ءتک کا وقت بھی اعلاناً مقرر کیا گیا ہے۔ پی ڈی پی نے ریاست بالخصوص وادی ¿ کشمیر میں مزاحمتی خیمے کا ایجنڈا ہائی جیک کرکے بڑی چابکدستی سے اپنی سیاسی جگہ بنالی ہے۔ اس جماعت کا پورا ووٹ بنک عوام لناس کا مزاحمتی خیمہ ہے ، بعض لوگ اسے’ ’نرم علاحدگی پسند“ کی انوکھی اصطلاح سے بھی یاد کر تے ہیں۔ یہ پارٹی انجینئررشید کی طرح کشمیر حل کی باتیں بھی کرتی ہے جو ووٹ دینے کی باری آنے پر پرناب مکھر جی سے لے غلام نبی آزاد تک کا ساتھ دے کر لوگوں کو فسانے سناتے ہیں اور لایعنی باتوں کے طور مار باندھ کر دلّی سے بظاہر دوری اختیار کرتے ہیں۔ پی ڈی پی کشمیری عوام کی نفسیات کی رگ رگ سے واقف ہے، البتہ یہ نیشنل کانفرنس کی مانند اقتدار میں ”کشمیریوں کو مارو گولی “ اور اقتدار سے باہر” ہاخوادیو! کاشر ہا ماررکھی“ ( اے اللہ! کشمیریوں کو ماراجارہاہے) جیسی دوعملی سے کم ہی کام نہیں لیتی ہے۔ ہاں ، کشمیر میںووٹ یہ جماعت کشمیر کاز کی ہمدردیوں اور حقوق البشر کے نام پر سمیٹی رہی ہے۔ بایں ہمہ مفتی محمد سعید کے بارے میں عام تاثر یہ تھا کہ یہ کشمیر اور کشمیریوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرسکتے ہیں اور ان کی پوری ٹیم الیکشن کے دوران بھی اور اس سے پہلے بھی ایسی ہی باتیں کررہی تھی بلکہ روایت سے ہٹ کر سیاست کرنے کے دعوے کیے جارہے تھے، لیکن اب جب کہ پی ڈی پی اور بی جے پی حکومت پتھر کی لکیربن چکی ہے، جب مشرق اور مغرب کا ملن ہوچکا ہے،یہ تمام تر چیزیں محض دعوی ٰ بلادلیل، جھوٹی توقعات ، تجزئیے ، خالی خوالی باتیں اور مفروضے ثابت ہوئیں۔ ا س حکومت کے بننے سے بہت کچھ قوم کشمیر پر واضح ہوگیا۔ یہ بھی سچ ثابت ہوا کہ دّلی کے کشمیر مشن کے راستے سے سری نگر میں برسر اقتدارآنے والی کوئی بھی جماعت کشمیریوں کی ہمدرد یا وکیل نہیں ہوسکتی اور نہ ہی دلی کا نمک خوار کوئی بھی شخص، چاہے وہ ذاتی حیثیت سے منجھا ہوا دانا ئے دہر بھی خود کو مانے،ریاست کے اکثریتی طبقے کے زخموں پر مرہم رکھ سکتا ہے۔ یہ بات مفتی سعید کے انڈیا کے واسطے ا ±ن بے ضرر بلکہ منافع بخش ریمارکس سے ثابت ہوئی جن کو خودوزیراعظم اور وزیرداخلہ کی زبانی پارلیمنٹ میں مسترد کیاگیا۔ا س سے صاف صاف واضح ہوا کہ یہ جو وزیراعلیٰ نے پاکستان ، عسکریت پسندوں اور ”الگاو ¿ واد یوں“کی اسمبلی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ان کی” خاموشی کو ان کی حمایت“ پر محمول کیا تھا ، وہ دلی کو ہضم نہ ہوئی۔ حالانکہ حریت پسند تنظیموں کو الیکشن سے پہلے ہی پولیس کریک ڈاون کا ب ±را سامنا رہا۔ بہرصورت یہ دعوے مفتی سعید کی ضرورت بھی ہیں اور مجبوری بھی،آخر کار کشمیر میں وہ کیاsell کر یں گے ؟ نومبر کے مہینے میں اپنی الیکشن مہم کے دوران پی ڈی پی سرپرست نے قاضی گنڈ میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پی ڈی پی کی لڑائی این سی اور کانگریس کے ساتھ نہیںہے بلکہ لڑائی بی جے پی کے مشن44 کو روکنا ہے۔پی ڈی پی کے بارے میں بی جے پی کے صدر امیت شاہ نے کہا کہ یہ”باپ بیٹی پارٹی ہے اور ریاست میں کرپشن کی جڑیں مضبوط کرنے میں اس جماعت کا ہاتھ بھی ہے۔“ اسی طرح ہندوستانی وزیر اعظم نریندرمودی نے گزشتہ برس 14 دسمبر کو اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ”این سی اور پی ڈی پی خاندانی جماعتیں ہیں اور کانگریس ایک کے بعد ایک کا ساتھ دے کرکہتی ہے کہ یہ اچھی جماعتیں نہیں ہیں۔ جموں و کشمیر کو ان تینوں جماعتوں سے آزادی کی ضرورت ہے۔“دونوں جماعتوں کے ذمہ دار لوگوں کی جانب سے اس طرح کی بیان بازی سے عام کشمیریوں میں یہ ثاثر پیدا ہونا لازمی امر تھا کہ پی ڈی پی شاید کشمیریوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے والی جماعت ہے اور وادی کے لوگوں نے یہی سوچ کر”کمتر برائی“ سمجھ کر اس جماعت کو ووٹ دیا۔دو مہینوں کے بعد آج یہ ثابت ہوگیا کہ وعدے صرف وعدے ہی رہ جاتے ہیں اور یہ سب سبز باغ ووٹ بٹورنے کے لئے دکھائے جاتے ہیں، باقی یہاں دلّی کی آشیر واد سے کوئی الیکشن سیاست میں کامیابی کے زینے طے نہیں کرسکتا ہے۔ این اور کانگریس کی جانب سے سپورٹ فراہم کرنے کے باوجود پی ڈی پی نے اتحاد بی جے پی کے ساتھ کیا، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں مسند اقتدار پر برقرار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ دلّی کی حکومت کا سایہ سر پر ہو۔ 
پی ڈی پی اور بی جے پی کے الیکشن ایجنڈے پر اگر نظر دوڑائی جائے گی تو متضاد فرق واضح طور پر دکھائی دیتا ہے۔ بی جے پی روز اول سے سنگھ پریوار کی بولی بول کر دفعہ 370 کے خاتمے کی بات کررہی تھی ،جب کہ پی ڈی پی نے اس دفعہ کی حفاظت کے لئے ووٹ بٹورے ہیں، بی جے پی جموں میںکھلے عام فرقہ پرستی پر مبنی سیاست کرتی پھر رہی تھی جب کہ پی ڈی پی انسانیت کا نعرہ لگاتی رہی ہے۔ واضح رہے ”انسانیت“ سیاست دانوں کی لغات میں زمینی بات نہیں بلکہ ایک آسمانی سپنا ہوتی ہے۔ جب جگ موہن نے کشمیرکا چارج سنبھالا تو یہ نہیں کہا کہ میں ہٹلر ہوں بلکہ خود کو نرسنگ آرڈرلی بتایا اور اس نرسنگ آرڈرلی کی شکل میں انہوں نے اپنے ہاتھوں زندہ انسانوں کو بے ہوشی کا انجکشن دئے بغیرکتنے آوپریشن کئے۔ وہ تاریخ سے پوچھئے یا ان اقلیتی کشمیری پنڈتوں سے جن کو سیاسی شو پیس کے طور استعمال کیا گیا۔ راجیش پائلٹ نے سری نگر میں بہ حیثیت وزیرداخلہ اعلان کیا کہ فورسز کے ہاتھوں کسی کو ستایا نہ جائے گا اورا گر کسی کو گرفتار کیا جائے تو چوبیس گھنٹے کے اندر معلومات فراہم کی جائیں گی ، اٹل بہاری نے انسانیت کے دائرے کی بات سری نگر میں کی مگر اس کے باجود حیوانیت کا دورہ دورہ رہا ور کشمیریوں کی نسل کشی جاری رہی ، نرسمہا راو ¿ نے بھی آسمانوں کی پہیلی سنائی۔ یہ سب بکواس ہے۔ بھاجپاجموں کے ساتھ بھید بھاو ¿ کی راج نیتی کررہی ہے اور پی ڈی پی وادی کے ساتھ ہورہی ناانصافیوں پر واویلا کررہی ہے۔ پی ڈی پی کے وعدوں میں سرفہرست افسپا کا خاتمہ، قیدیوں کی رہائی او ر این ایچ پی سی سے تمام پاور پروجیکٹوں کی واپسی تھا جب کہ بی جے پی ان معاملات میں مخالف سوچ رکھتی ہے۔ حکومت سازی کے حوالے سے دونوں جماعتوں کے درمیان جو کاغذی مشترکہ پروگرام تشکیل پایا ہے،ا ±س کا جائزہ لیا جائے تو مجموعی طور پر بی جے پی کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ اس جماعت نے دفعہ 370سے چھیڑ چھاڑ نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے، اس دفعہ کو ختم کرنے کی سوچ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دینے کی حامی نہیں بھری ہے۔ اگرچہ یہ اب انڈیا کے آئینی ماہرین بھی مانتے ہیں کہ اس دفعہ کے ساتھ ہاتھ بھی لگاناخود صدر ہند کے دائرہ اختیار میں بھی نہیں رہاہے۔ بہر کیف کل کو اگر دونوں جماعتوں کے درمیان معمولی نوعیت کے اختلافات بھی پیدا ہوگئے تو بی جے پی یہ کارڈ پھر کھیل سکتی ہے۔ افسپا کے بارے میں بی جے پی توشروع سے ہی یہ انہونا موقف رکھتی ہے کہ یہ فوج و دیگر ایجنسیوں کی ہاں کے بغیر اس کالے قانون پر ہاتھ ڈالنے والی نہیں ،گویا یہاں مارشل لاءلگاہوا ہے کہ فوج کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہل سکتا۔این ایچ پی سی کشمیر سے نصف ہندوستان کو کوڑیوں کے مول بجلی فراہم کرتی ہے اور سونے کا انڈا دینے والے یہ پروجیکٹس واپس لاناشاید کہنے کی ہی باتیں ہوںگی۔بی جے پی ایک نظریاتی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ ملک گیر جماعت بھی ہے۔ اس وقت بھاری اکثریت کے ساتھ دلّی میںمسند اقتدار پر براجمان بھی ہے۔ملکی مفادات اور اپنی مخصوص زعفرانی Ideology کے ساتھ کسی بھی صورت میں کمپرومائز نہیں کرے گی۔اس جماعت کی ملک گیر سیاسی طاقت کے سامنے پی ڈی پی کیا کانگریس کی اب کوئی حیثیت نہیں ،کسی بھی وقت اپنا مطلب نکا لنے کے بعد ا ±لٹا مو ¿قف اختیار کرتے ہوئے پی ڈی پی کو سائڈ لائن کرسکتی ہے۔مودی نے راجیہ سبھا میں پی ڈی پی کو سوچ سمجھ کر نظرانداز کرکے یونہی نہیں کہا کہ بی جے پی کشمیر میں ”ستھہ“ یعنی حکومت میں ہے۔ اس لئے یہ بات واضح ہے کہ پی ڈی پی نے ایک ہائی ٹیشن تار پکڑ لی ہے جو نہ صرف پ ±ر خطرہے بلکہ وادی میںپی ڈی پی کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا سکتی ہے۔ 
تحریک حق خود ارادیت کی بھاگ ڈور سنبھالنے والی تنظیموں، اداروں اور افراد کے لئے بی جے پی اور پی ڈی پی کا اتحاد ایک لمحہ ¿ فکریہ ہونا چاہیے۔ مزاحمتی جماعتوں اور قیادت کے آنکھیں کھول دینے کے لیے یہ بعدالمشرقین والا اتحاد کافی ہے۔ ایک جانب دلّی کے چہیتے ہند نواز سیاست دانوں کی ٹولیاں ہیں جو عوامی جذبات کی نمائندگی نہ کرتے ہوئے بھی عوام کو سبز باغ دکھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور کرسی کی رشوت پر کشمیر کے قانون وآئین کو بیچ کھاتے ہیں ، وسائل اور انفرادیت کو نیلام کر تے ہیںاوردلّی کی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے شیخ بخشی اورصادق کا روپ دھارن کر جاتے ہیں۔دوسری جانب مزاحمتی خیمہ ہے جس کے ساتھ کشمیریوں کی آرزوئیں اور تمنائیں دھڑک رہی ہیں، جس کی پشت پر قربانیاں اور ناقابل بیان تکالیف کی تاریخ ہے مگر یہ ہے کہ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے کے علاوہ اسے کوئی چیز نہیں آتی۔دلی نے پہلے حریت کو نرم اور گرم کے نام پر دو پھاڑ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی، پھر تنظیم در تنظیم کو وجود میں لاکر ہر گلی نکڑ پر لیڈروں کو کھڑاکیا کہ ہر ایک امام بننے کی دوڑ میں ہے کوئی مقتدی بننے کو تیار ہی نہیں ، اتنا ہی نہیںکشمیرکاز کے دعوے دار ایک دوسرے کو کبھی بلاوجہ ا ور کبھی بوجوہ مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں ، جنگ زرگری بھی الگ سے جاری ہے۔ دلی مزاحمتی خیمے میں چھید کر نے میں اس حد تک کامیاب ہوگئی کہ کل کے حریت پسند کہلانے والے آج آر ایس ایس کی جھولی میں پناہ لینے کو اپنے لئے آزادی سے بڑھ کراعزاز مانتے ہیں۔قائدین حریت سے ایک سادھاسا سوال ہے کہ آپ ایک مقصد ومنزل اورایک نشانہ رکھنے کے باوجود متحد کیوں نہیںہوسکتے؟اپنی حلف برداری کی تقریب کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے ایک اور جنگی چال والا بیان دے ڈالا۔ انہوں نے ریاست میں کامیاب الیکشن کا سہرا حریت، عسکریت پسندوں اور حریت کے سر باندھا۔ بالفاظ دیگر انہوں نے مزاحمتی قائدین کوایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنے اور الزام تراشیاں کرنے کا assignmentدیا ہے، یعنی ایک تیر دوشکار۔ منفی سوچ اور الزام تراشیوں پر مبنی سیاست شکست خوردہ قوموں کی علامت ہوتی ہے کہ وہ اپنی ہرناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے کے سر ڈال کر خود بری الزمہ ہوجاتی ہیں۔اگر بی جے پی کے ریاست میں قدم جمانے سے بھی حریت میں اتحاد قائم نہیں ہوجاتا ،یہ مل بیٹھ کر مشتر کہ حکمت عملیاں ترتیب نہیں دیتیں اور روایتی بیان بازیوں سے ہٹ کر جدید خطوط پر سوچا نہ گیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب سکڑتے سکڑتے کشمیری ایک میوزئم کی چیز بنے گی، بھولی بسری ا ور گرد آلودہ تاریخ کا ورق بنے کہ سیلانی آکر اسے دیکھ کریہ کہیں کہ ایک دور تھا جب کسی بڑی قامت والے قائد قوم، ا ±س کے آل اولاداور ا ±ن کے چالاک مقلدین اور حواریوں نے ا ن بچاروں کوچھو منتر کر کے سوئی بنا ڈالا اورانڈیا کے وشال سمندر میں دے مارا اور اب یہ لوگ یہاں پتھر کے بت بنے تاریخ کی عبرتیں یاد دلارہے ہیں۔ 

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ