پچھتاوا....!

ایس احمد پیرزادہ

جون اور جولائی کے گرم ترین دن تھے۔ تپتی دھوپ اور گرم ہواو ¿ں کے تھپیڑے انسان کو حواس باختہ کررہے تھے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ صبح سات بجے ہی کالج کے لیے نکلنا پڑتا تھا۔چائے ناشتہ تو دور کی بات ،دن کا کھانا بھی ہمیں کبھی نصیب نہیںہوتا تھا۔گرم ہواو ¿ں کے تھپیڑے تو پھر بھی قابل برداشت تھے لیکن گرم حالات کے تذلیل آمیز تھپیڑے دن میں ہزار مرتبہ زندہ درگور کردینے والے ہوتے تھے۔ یہ1997 ءکا سال تھا۔میں بی ایس سی فسٹ ائیرکا طالب علم تھا۔ ہندواڑہ اور کپواڑہ میں کالج تھے لیکن اُن میں سائنس نہیں پڑھایا جاتاتھا اس لیے سائنس پڑھنے کے شوقین ضلع بھر کے تمام طلبہ و طالبات کو سوپور، بارہمولہ یا پھر سرینگر کا رُخ کرنا پڑتا تھا۔ اکثر طلبہ و طالبات سوپور جانا ہی پسند کرتے تھے کیونکہ شام کو واپس گھر پہنچ جاتے تھے اور کرایہ کے کمروں کا خرچہ بچ جانے کے علاوہ نامساعد حالات میں والدین بھی اپنے نوجوان بیٹوں کو ہر روز اپنے سامنے ہی دیکھنے کے خواہاں ہوتے تھے۔حالات بھی کیا تھے روز کالج کے راستے میں کہیں نہ کہیں فائرنگ ہوجاتی تھی،گولیاں برستی تھیں، لاشیں گرتی تھیں،کریک ڈاون تو روز کا معمول ہوتے تھے۔ ہم طالب علم اپنی فاتح ہونے کا جھنڈا اُس وقت گاڑ دیتے تھے جب ہم کریک ڈاون کے دوران وردی پوشوں کے بڑے صاحب کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہوجاتے تھے کہ آج ہمارے Practical کا امتحان ہے، اس لیے کالج جانا لازمی ہے اور وہ ہمارے ہتھیلیوں پر دستخط کرکے ہمیں جانے کی اجازت دیتا تھا اور سیاہی کی اُن ٹیڑھی میڑی لکیروں میں ہماری رہائی کا پروانہ ہوتا تھا اور بڑے صاحب کا یہ دستخط راستے کے وردی پوشوں کو دکھا کرہم نکل جانے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ دن بھر اپنی اس چالاکی اور ہوشیاری کا چرچا رہتا تھا۔کبھی کبھی چال اُلٹی بھی پڑجاتی تھی۔ وردی پوشوں کے موڈ پر ہوتا ہے جس دن اُن کا موڈ آف ہوتا تھا کوئی چالاکی نہیں چلتی تھی اور نہ ہی ہم ایسی کوئی چالاکی دکھانے کی جرا ¿ت کرتے تھے بلکہ جنتی بھی تسبیح اور کلمات یاد ہوتی تھی اُس کا ورد کرتے تھے اور اللہ سے بچانے اور حفاظت کرنے کی دعائیں ہوتی تھیں۔پھر بھی ہفتے میں دو ایک بار تھپڑوں، گونسوں ، لاٹھیوں اور لاتوں سے ہماری خاطر داری ہوہی جاتی تھیں۔نوجوانی اور کالج جانے والے لڑکوں کا منچلا مزاج ہمارے اُس احساس اور سوچ کو سر اُبھارنے ہی نہیں دیتاتھا جو کبھی کبھی خودآگہی کے ذریعے سے ہمیں یاد دلاتا تھا کہ تمہاری اپنی ہی سرزمین پر دن میں ہزار بار دیارِ غیر سے آنے والے یہ وردی پوش تمہاری تذلیل کرتے ہیں، تمہارا مذاق اُڑاتے ہیں، تمہاری عزت ِ نفس کا جامہ ہی تار تار کیا جاتا ہے اور تم نے اپنی بے بسی پر سوچنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ہم اکثر اپنی اس بے بسی اور بے کسی کو مذاق بناکر روز کے ان تلخ واقعات سے دل بہلانے کے عادی بن چکے تھے۔
ہم گھر سے سوپور تک دو گاڑیاں تبدیل کرتے تھے۔ ہندواڑہ تک پہنچ جانے کے لیے ایک بس میں سوار ہونا پڑتا تھا اور پھر ہندواڑہ سے سوپور تک دوسری بس میں سوار ہوجاتے تھے۔ صبح سات بجے گھر سے نکلتے تھے۔ پہلی والی گاڑی میں سوار ہوکر ہماراساڑھے دس والی کلاس پکڑنے کا نشانہ ہوتا تھا لیکن مجھے سال بھرکا وہ دن یاد ہی نہیں جب ہم نے انگریزی کی وہ پہلی کلاس Attend کی ہو۔تلواری، ماگام، ودی پورہ، براری پورہ، وٹائین، زالورہ، سیلو کے مقامات پر گاڑیوں کی تلاشی اور ہمارے شناختی کارڈ کی چیکنگ ، سوال و جواب اور پریڈمیں گھنٹوں ضائع ہوجاتے تھے کبھی کبھار تو ان مقامات کے علاوہ بھی راستے میں کوئی ناکہ ہوتا تھا یا پھر راستے میں ڈیوٹی پر مامور وردی پوش ٹائم پاس کرنے کے لیے بس کو روک کر اپنی طاقت، ہمت اور شخصیت کا مظاہرہ کرتے تھے۔صبح سات بجے سے آٹھ بجے کے درمیان اور شام کو چار بجے سے ساڑھے چار بجے کے درمیان چلنے والی بسوں میں اکثر اسٹوڈنٹ ہی سوار ہوتے تھے ۔ ہمارے آپس کے درمیان کالج اور کلاس کی جان پہچان سے زیادہ بس کی آشنائی ہوتی تھی۔ کون کس اسٹاپ سے بس میں چڑھا،اور کس اسٹاپ پر اُترا ، یا آگے کے اسٹاپ سے کس کو چڑھنا ہے یا پھر آنے والے اسٹاپ پر کس کو اُترنا ہے قریب قریب ہر ایک کو معلوم ہوتا تھا۔
ہمارے ساتھ لڑکیاں بھی پڑھتی تھیں۔ بس میں بھی ہمارے ساتھ مختلف علاقوں کی درجنوں لڑکیاں سوار ہوتی تھیں۔ہندواڑہ سے نکلتے ہی پانچ منٹ کی مسافت طے کرنے پر ایک لڑکی روز بس میںچڑھتی تھی۔درجنوں طالبات میں اُس کا ذکر کرنا ہی یہ معانی رکھتا ہے کہ وہ سب سے جدا تھی، سب سے الگ تھی۔ اُس کی شخصیت ہی دیگر تمام لڑکیوں سے اُسے منفرد او رممتاز بناتی ہے۔ ہمارے کلاس میں پڑھتی تھی اور جب بھی وہ اپنے اسٹاپ سے بس میں چڑھ جاتی تھی ,overloaded بس میںدرجنوں لڑکے اُس کے لیے سیٹ خالی کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کرتے تھے۔ جس کی سیٹ پر وہ بیٹھتی تھی اُس کا سینہ فخر سے چوڑا ہوجاتا تھا۔حالانکہ وہ کسی سے بات نہیں کرتی تھی،اُسے شائد کسی لڑکے کا نام تک بھی معلوم نہیں تھا، وہ بارہویں جماعت میں 75 فیصد نمبرات حاصل کرنے کے باوجود اپنی ذہانت اور قابلیت کا راعب جمانے کی کوشش کبھی نہیں کرتی۔گم سم ، الگ تھلگ اور اپنے ہی کام سے کام رکھنے والی اُس لڑکی کو بس میں سوار ہونے والا ہر لڑکا اپنی بہن کہلانے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ وہ اس لیے کیونکہ وہ باپردہ ہوتی تھیں،جون اور جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی میں بھی اُس کا چہرہ کیا ہاتھ تک گلوز کے اندر بند رہتے تھے، اُس کی آنکھیں بھی بس اُتنی ہی کھلی ہوتی تھیں جس میں سے وہ اپنا راستہ دیکھتی تھی۔ کالج کی وہ واحد لڑکی تھی جس کے بارے میںسب کو معلوم تھا کہ وہ دن کے اوقات میںیعنی ظہرکے وقت انگریزی پڑھانے والی میڈیم کے کمرے میں جاکر نماز ادا کرتی تھیں۔اُس کی دین داری، پاک دامنی اور شرم و حیا کا پیکر ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اُس کی عزت کرتا تھا۔ اسلام اور دین کے سانچے میں ڈھلی اُس عزت مآب بہن کی مثال کالج کے پروفیسر صاحب بھی دیا کرتے تھے۔اُسے دیکھ کر معلوم پڑتا تھا کہ اُسے بچپن سے ہی تربیت میں بتا دیا گیاتھا کہ شرم و حیا لڑکیوں کا زیور ہوتا ہے۔ مخلوق کلچر میں ہوکر بھی وہ مخالف جنس کو احساس ہی نہیں ہونے دیتی کہ اُس کے ساتھ یا سامنے کوئی لڑکی ہے۔ وہ پاک باز و پاک جان معصوم کلی تھی۔ اُس کی معصومیت اور حیاداری کی سب سے بڑی مثال یہ تھی کہ کالج کا کوئی لڑکا اس کے بارے میں اس سے زیادہ نہیں جانتا تھا کہ کالے کپڑوں میں لپٹی حوا کی یہ بیٹی ہمارے کالج میں پڑھتی ہے۔
ایک دن حسب معمول اپنے اسٹاپ پر وہ بس میں چڑھ گئی، اُس کا وہ شریفانہ انداز کہ ہر لڑکے کی آنکھیں خود بخود جھک جاتی تھیں۔ گاڑی میں سوار کئی لڑکوں نے اُن کے لیے سیٹ خالی کردی۔ وہ ایک جگہ دوسری لڑکی کے برابر میں پر بیٹھ گئی۔ گاڑی اپنی منزل کی جانب چل پڑی۔ پاکستانی گلوکار الطاف راجہ کا گانا بج رہا تھا۔گاڑی میں سوار کچھ لڑکے گانے کے بول کے ساتھ سُر ملارہے تھے تو کچھ گپ شپ میں محو تھے۔ عام سواریوں اپنے اپنے خیالات میں گم تھیں۔ ”تم تو ٹھہرے پردیسی ........“ کا گانا ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ یکایک ڈرائیور نے بریک ماری اور پھرتمام مرد سواریوں کو گاڑی سے اُترنے کے احکامات صادر ہوئے۔ہم وٹائین پہنچ چکے تھے۔ یہاں تمام مردوں کو گاڑی سے اُتار کر تقریب آدھا کلومیٹر پیدل چلنے کے لیے کہاجاتا تھا ۔ گاڑی میں عورتوں کو ہی بیٹھنے کی اجازت ہوتی تھی اور پھر وردی پوش گاڑی میں سوار ہوکر تلاشی لیتے تھے۔ اُس کے بعد گاڑی نکل کر آگے سے مردوں کو اُٹھا لیتی ہے۔یہاں تمام مرد گاڑی سے اُترتے تھے لیکن یہاں ہماری گاڑی سے روز ایک بہن بھی اُترتی تھی۔ ہماری یہی کلاس فلو پردہ پوش بہن گاڑی میں بیٹھنے کے بجائے مردوں کے ساتھ اُترنے کو ترجیح دیتی تھی۔ شاید اُسے وردی پوشوں کی گورتی نظریں برداشت نہیں ہوتی تھی، شاید اُس کی غیرت اُسے اجازت نہیں دیتی کہ وہ وردی پوشوں کے سوال وجواب میں الجھ جائے جیسا کہ گاڑی میں اکثر خواتین اور طالبات کے ساتھ یہ وردی پوش مختلف بہانوں کی آڑمیں باتیں کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ یہ اب معمول بن چکا تھااور ہم سب اس بے غیرتی اور بے عزیتی کے عادی بن چکے تھے۔روز کی ذلت و رسوائی اب ہمیں اپنامقدر لگتا تھا۔
اس بار بھی حسب معمول ہماری یہ بہن گاڑی سے اُتر گئی لیکن آج وردی پوشوں کا غصہ آسمان سے باتیں کررہا تھا۔ اُتر نے والوں میں سے کسی کو شناختی کارڈ کے بہانے تھپڑ مارتے تھے تو کسی کو مرغا بننے کوکہتے تھے۔ ایسا اکثر تب ہوتا تھا جب کئی فائرنگ ہوجاتی تھی لیکن آج تو ہمیں کوئی ایسی اطلاع نہیں ملی کہ رات کے دوران اس علاقے میں کہیں کوئی فائرنگ ہوئی ہو، پھر وردی پوشوں کی یہ غضبناکی کس وجہ سے ہے۔ مجھے سوپور میں کسی پرائیو ٹ اسکول میں پڑھنے والا وہ ننھا لڑکا یاد ہے جس کے نازک اور کمزورکندھے پر ڈنڈے سے اس قدرشدیدضرب ماری گئی کہ اُس کابازوں ہی ٹوٹ گیا۔ میری آنکھوں کے سامنے اُس بزرگ سرکاری ملازم کا چہرہ آج بھی گھومتا ہے جس کی ٹوپی اُتار کر اِس قدر تذلیل کی گئی کہ وہ زار و قطار رونے لگا۔ مجھے اپنی ٹانگوں اور پیٹ پر ڈانڈوں کی وہ کاری ضربیں آج بھی یاد ہیں کہ جن کے نشان ایک ہفتے تک موجود رہے اور میں کئی دنوں تک ٹھیک طرح سے چلنے پھرنے کے قابل نہیں رہا۔کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ آخر آج ان ”ویر سیناو ¿ں“ کو کیا ہوگیاہے کہ یہ اپنی”ویرتا“کا مظاہرہ کرنے پر تلے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ تمام مردوں کی خاطر مدارت کرنے کے بعد سبوں کو ایک جگہ جمع ہونے کے لیے کہا گیا۔ حکم کی تعمیل کی گئی اور کالج طلبہ کو الگ کر لیا گیا۔ دیگرگاڑیوں کی سواریوں کو آگے بڑھنے کے لیے کہا گیا اور ہم کو فحش گالیاں دے کر کہا جارہا ہے کہ آپ سب لوگوں کا انکاونٹر کیا جائے گا۔کسی میں جرا ¿ت ہی نہیں ہوئی کہ وہ پوچھ لیتا کہ آخر کس جرم میں ہماری یہ دُرگت بنائی جارہی ہے ۔
جس دوران ہماری پٹائی ہورہی تھی ہماری وہ باپردہ بہن بیچ سڑک کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی۔ وہ ایک ہی جگہ جیسے کھمبے کی طرح کھڑا ہوگئی ،جیسے کسی سانپ نے اُسے سونگھ لیا ہو، بے حس و حرکت وہ نازک اور پھول جیسی بچی دہشت زدہ ہوچکی تھیں۔ بچاری کی سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں۔ آگے بڑھتی تو وہاں ہر جانب دور دور تک وردی پوش ہی وردی پوش تھے ، گاڑی میں واپس چڑھ جاتی جہاں خواتین اور طالبات تو موجود تھیں لیکن وہاںخونخوار آنکھوں والے بندوق بردار گاڑی کے دونوں دروازوں پر کھڑے تھے۔شرم اور حیا کی پیکر ملّت کی یہ بیٹی بھوت بن کر کھڑی رہی اور وردی پوش ہماری مارپیٹ کرکے اس کی جانب دیکھ دیکھ کر اُسے اپنی طاقت کا احساس دلاتے رہے۔قریباً آدھے گھنٹے کے بعد جب ہماری لاتوں، گھونسوں اور ڈنڈوں سے خوب مرمت کی گئی تب سامنے کے بینکر سے میجر صاحب بڑے ہی کروفر کے ساتھ نکل پڑے۔ شاہانہ انداز میں ہمارے سامنے نمودار ہوا اور تقریر کرتے ہوئے کہنے لگا:” تم لاتوں کے بھوت باتوں سے کہاں ماننے والے ہو۔ ہم آپ کی عزت کرتے ہیں اور تم نخرے دکھاتے ہو۔“ پھر وہ سوالیہ انداز میں ہم سے مخاطب ہوا۔ ”کیا ہم نے تمہیں کبھی بلاوجہ مارا پیٹا ہے“ سامنے ایک بزرگ جس کی تھوڑی دیر پہلے مار پیٹ ہوئی تھی نے جان کے خوف سے کہا :”نہیں سر“۔ میجر صاحب نے پھر بولا کیا ہم تمہاری” ناریوں“ کی عزت نہیں کرتے ہیں ، کیا ہم نے اُنہیں کبھی گاڑیوں سے نیچے اُتارا ہے“ اِسی بزرگ نے پھر جواب دیا”نہیں سر“....ایک دم سے میجر آگ بگولا ہوگیا اور غضبناک ہوکر ملّت کی اس بیٹی کی جانب مخاطب ہوکر چِلایا.... تو پھر یہ لڑکی روز کیوں گاڑی سے اُتر جاتی ہے، یہ ہمارا ”اپمان“ کررہی ہے، یہ ہماری”شرافت“ کا مذاق اُڑا رہی ہے.... میجر صاحب کے ان جملوں سے ہم سب کی سمجھ میں آگیا کہ ماجرا کیا ہے۔ اتنا ہی کہنا تھا کہ اس میجر نے چِلا کر اُس بہن سے کہا اِدھر آجاو ¿، وہ بے بچاری اپنی جگہ سے ہل ہی نہیں پائی۔تب میجر نے اِسی بزرگ سے کہا کہ اس لڑکی سے کہوں کہ یہ چہرے سے برقعہ ہٹائے، ہمیں شک ہے کہ اس نقاب کے پیچھے کہیں کوئی”آتنگ وادی“ تو چھپا نہیں ہے۔آس پاس کھڑے درجنوں بندوق بردار وردی پوش جھپٹنے والی پوزیشن میں بیٹھے ہوئے تھے وہ اشارے کا انتظار کررہے تھے کہ کب اُن کا صاحب حکم دیں وہ مسلمانوں کی عزت کے چہرے سے نقاب اُتار دیں۔ کب وہ محمد بن قاسم کی قوم کی بیٹی کی سر راہ تذلیل کریں؟ کب وہ طارق بن زیاد کی بہن کو احساس دلائیں کہ اُس کا بھائی مرچکا ہے؟ کب وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی روح کو پیغام دیں کہ اب تو تیرے ملت میں جرا ¿ت اور ہمت کہاں کہ وہ تمہارا جیسا کردار دکھا سکیں۔
وہ بزرگ ہانپتا کانپتا اُٹھا اور اس انداز سے ہماری اُس بہن سے مخاطب ہوا کہ جیسا سارے فساد کہ جڑ وہی تھیں،اور جیسے ہمارے گناہوں کی قصوروار بھی وہی ہے۔بزرگ آدمی نے اسے پردہ اُتارنے کے لیے کہا۔ باپ جیسا وہ بزرگ اپنی جان کے خوف سے اپنی بیٹی کو عریاں ہونے کے لیے کہہ رہا ہے؟ اُس کے ماتھے پر نمازوں سے سیاہ دھبہ بھی لگا ہوا تھا ، وہ بار ریش بھی تھا، شکل و صورت سے باعمل مسلمان بھی لگ رہا تھا، اُسے اپنی موت کا کھٹکابھی نہ تھا ،صرف مار پیٹ کے خوب سے دین کی تذلیل کروانے پراُم عائشہ صدیقہؓ کی اُس لاڈلی کو مجبور کررہا تھا۔اپنے اردگرد فوجیوں کا گھیرا تنگ ہوتا دیکھ کر، میجر کا چیخنا چِلانا،بزرگ کی دُہائیاں اور جو لڑکے اُسے بہن کہتے تھے اُنہیں موت کے چنگل میںبے بسی کے عالم میں دیکھ کر اُس پھول جیسی نازک لڑکی نے اپنے ہتھیار ڈال دئیے۔ پوری طاقت کے ساتھ اپنے چہرے سے پردہ کھینچ لیااور ایک دم سے جیسے کسی نے ہماری غیرت کو سرراہ عریاں کردیاہو۔ وہ نورانی چہرہ جسے اُس بیچاری نے کبھی آئینے کے سامنے بھی پوری طرح سے نہ کھولا ہوگا ، کھلے آسمان تلے بے نقاب ہوگیا۔اُس کی بے بسی اور باحیاآنکھوں سے موتیوں جیسے موٹے موٹے آنسوو ¿ں کے قطرے ہماری بزدلی کا مذاق اُڑا رہے تھے۔وردی پوشوں کے چہرو ں پر وہ زہریلی مسکراہٹ ، ہمارا بھیگی بلی کی طرح سر نیچے کرنا اور سامنے ہماری بہن کی بے بسی نے اُس وقت ضرور ہمارے اسلاف کی روح کو تڑپایا ہوگا۔قوم اور ملّت کی بیٹی کا ڈوپٹہ اور نقاب اُتروانے کے بعد وردی پوشوں نے ہماری گاڑی کو جانے کی اجازت دے دی۔ اگلے دن اُس اسٹاپ پر بس رُکی، لڑکے سیٹ خالی کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لیے تیار تھے پر آج وہاں سے کوئی نقاب پوش سوار نہیں ہوئی اور پھر وہ کبھی بھی سوار نہیں ہوئی۔ اُس نے اپنی تعلیم کو ہی خیر باد کہہ دیا۔اُس نے اپنی عزت، عصمت اور دین کے خاطر اپنی دنیا کو قربان کردیا۔ اُس نے اپنی تذلیل کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا بلکہ اپنی ایمانی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرکے گھر کی چار دیواری کو ہی اپنے لیے محفوظ تصور کیا ۔ 
میں اُس بہن کا نام تک نہیں جانتا ہوں او رنہ ہی مجھے معلوم ہے کہ اُس کا پھر کیا ہوا؟لیکن17 سال گزرجانے کے باوجود میں اُس کو اپنے ذہن سے نہیں نکال پاتا ہوں۔میں جب بھی اپنے آبائی گاو ¿ں روانہ ہوجاتا ہوں ، وٹائین پہنچ کر میرے زخم ہرے ہوجاتے ہیں۔مجھے اپنی بے غیرتی پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ میرا ضمیر مجھ سے پوچھتا ہے کہ جس بہن کی دین داری پر تمہیں فخر ہوا کرتا تھا اُس کی تذلیل دیکھ کر آپ کی غیرت مسلم کہاں گئی تھی۔مجھے گاڑی میں چڑھ جانے کے بعد والی عام سواریوں کی وہ کاٹ کھانے والی باتیں کرید رہی ہیں جن میں وہ الزام ہماری اُس بہن پر ہی عائد کررہے تھے کہ اتنی سواریوں کی مارپیٹ کروانے کی قصور وار یہی لڑکی ہے۔ سواریوں کی اُن کڑوی کسیلی باتوں کو سن کر آج بھی مجھے احساس ہوتا ہے کہ اُس گاڑی میں کوئی ایمان کے تیسرے درجے میں بھی نہ تھا۔ ظلم و زیادتی کو ہاتھ سے روکنا تو ہمارے بس میں ہی نہیں تھا ، زبان سے ہم نے احتجاج کیا ہی نہیں اور دل میں وردی پوشوں کی اس گھناو ¿نی اور اسلام دشمن حرکت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ہم نے اپنی اُس بہن کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا۔میں آج بھی اُس بہن کے چہرے کو یاد کرکے اپنی نظریں جھکا لیتا ہوںاور میرے ضمیر کی آوازمیرے قلب و روح سے چین و سکون ہی چھین لیتی ہے۔میں الطاف راجہ کے ”تم تو ٹھہرے پردیسی....“ کے اُس گانے کو یاد کرکے سوچنے لگتا ہوں کہ واقعی میں ہم اپنی اُس بہن کے لیے پردیسی ہی ٹھہرے تھے اُس کی دنیا دین داری، شرافت اور غیرت ِ مسلم تھی اور ہماری دنیا بزدلی، جان کی امان اور دین سے دور مادہ پرستانہ زندگی تھی۔ دونوں کے درمیان موت اور حیات جیسا فیصلہ قائم تھا۔ ہم بھلے ہی اُسے بہن کہنے میں فخرمحسوس کرتے تھے لیکن حقیقی معنوں میں وہ ہماری دنیا کی باسی نہیں تھی بلکہ ہمارے دیس میں بھی پردیسی اور اجنبی تھیں۔وہ چند منٹ آج بھی مجھ کسی قیامت سے کم نہیں لگتے ہیں جن میں اُس دین دار باحیا قوم کی بیٹی نے اپنے چہرے سے پردہ نوچ کر ہماری غیرت و حمیت اور ایمان و مسلمان ہونے کے دعوے پر تازیانے برسائے۔میرا من کرتا ہے کہ میں دنیا کی ان گہما گہمیوں میں حوا کی اُس بیٹی کو تلاش کروں اور اُس کے سامنے اپنا دامن پھیلاکر معافی مانگو، میرا من کرتا ہے کہ میں راتوں کی پچھلی پہر میں اُٹھ اُٹھ کر اللہ کے سامنے گڑگڑا کر اور زار وقطار رو کر اپنے بزدلی کے لیے معافی مانگو، میرا جی چاہتا ہے کہ اُس سانحے کی یادیں اپنے دل و دماغ سے کرید کر نکال باہر کروں۔ پر میرا ضمیر مجھ سے بار بار مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ کیا آپ کے معافی مانگنے سے اور اُس بہن اور اللہ کے معاف کرنے سے اُس بیچاری کے دل و دماغ سے وہ دینی غیرت و حمیت چھن جانے کی تلخ یادیں ختم ہوجائیں گی؟کیا تمہاری یہ ندامت اُس کی اُس تذلیل اور ذلت کا نعم البدل ہوسکتی ہے؟ کیا تمہاری بے غیرتی کو یاد کرکے تمہارا اُس سے بہن کہنے کا دُکھ آج بھی ستا نہ رہا ہوگا؟ میرے ضمیر پر یہ وہ بوجھ ہے جو لحد تک میرا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ اب یہ خالص پچھتاوا ہے اور میرے قلب و جگر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پچھتاوا ہی رہے گا۔

Comments

  1. بہت عمدہ تحریر. بحثیت مسلم لڑکی مجهے بهی اس سے بعید مگر نقاب کے سبب تکلیف برداشت کرنے کا سامنا ہوا ہے آزاد فضاوں میں تکیلف کاٹے جانا خود بظاہرایک بڑی تکیلف ہے. اس بہن کے روح کے گهائل ہونے کاادراک کم ہی لوگ کرسکے ہونگے. اگر کہیں وہ مل جائے تو میری طرف سے بهی خراج عقیدت پیش کیجیے گا

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ