مختلف الخیال حکومت کا منشور 
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا 

ریاست جموں و کشمیر میں چند دن قبل بالآخر تاریخ نے ایک انوکھی کروٹ لی اورپی ڈی پی و بی جے پی کی مخلوط حکومت ایک کانوں سنی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی حقیقت بن گئی ۔ اگر اس حقیقت کو ہم مسلم کانفرنس کا نیشنل کانفرنس میں بدلنے سے مشابہت دیں تو شاید غلط نہ ہوگا۔ نئی حکومت نے اب باگ ڈور سنبھال لی ہے اور ایک مشترکہ ایجنڈا ( common minimum programme) کی دستاویزمرتب کرکے اس پر کام کرنے پر دونوں جماعتیں رضا مند ہوگئی ہیں۔ ا س شاخ نازک پر استوار دوطرفہ رضامندی کی یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ اگر وزیراعلیٰ مفتی سعید اپنی زبانی پاکستان یا آزدای نوازوں کے بارے میں کوئی معمولی لب کشائی کر نے کی جسارت کر تے ہیں یا مسرت عالم جیسے کسی اسیر زندان کو رہا کر نے کا اقدام کرتے ہیں تاکہ عوام میں یہ تاثر جائے کہ ان کی زیر سرکردگی میں مخلوط حکومت کا کسی سے بیر ہے نہ کسی کوخواہ مخواہ قید وبند میں رکھنے کی روادار تو پارلیمنٹ سے لے کر وزیراعظم کر نریندر مودی تک سٹپٹا جاتے ہیں ۔ بھاجپا صاف لفظوں میں اسے اپنے پارٹنر کی جانب سے وشواس گھات جیسا مان کر خود کو اس سے بری الذمہ قرار دینے میں دیر نہیں کرتی ۔ اتحاد کا یہ ڈھنگ بھی نرالا ہے ۔ انتخابات سے قبل شاید ہی کوئی عقل و فہم روالا یہ وہم وگمان میںکرتاکہ کبھی مشرق اور مغرب کا بھی ملن ہوسکتا ہے، لیکن ’’سیاست میں سب کچھ جائز ‘‘ہوتا ہے وہ بھی جب اقتدار کی ہوس طرفین کی رگ رگ میں رچی بسی ہو۔ نفسانیت کی جھنکار میں جو سیاست پنپے اس سے کبھی کبھار ایسے حالات پیدا ہوہی جاتے ہیں کہ چوہا اور بلی بھی گلے مل جاتے ہیں۔ خود بی جے پی کے نیشنل جنرل سیکریٹری رام مادھونے اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ ’’انتخابات سے قبل حکومت سازی میں شامل ہونے کے لیے بی جے پی نے تمام options کو زیر غور لایاتھا ، سوائے اس کے کہ بی جے پی اور پی ڈی پی کا اتحاد ہوجائے‘‘ انہوں نے مزید لکھا کہ یہ سب( یعنی مخلوط حکومت کا قیام ) دور اندیشی کے مدنظر کیا گیا اور بی جے پی نے ہر قدم قومی اور پارٹی مقاصد کے حصول میں اُٹھایا ہے۔انتخابی نتائج برآمد ہونے کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد قائم ہونے میں پورے49 دن لگے اور ظاہر سی بات ہے کہ اس دوران دونوں جماعتوں نے اُن تمام وعدوں پر غور کیا ہوگا جو الیکشن کے دوران بھرے عوامی جلسوں میں لوگوں سے کئے جاتے رہے تھے اور جن کے بل بوتے پر ووٹ بٹورے گئے ۔جموںکے عوام نے مودی لہر کے تحت بی جے پی کو صرف اس لئے ووٹ دیا تاکہ یہ جماعت اپنے’’ہندوتوا‘‘ کے خاکے میں رنگ بھرنے کے خاطر سب سے پہلے دفعہ370 کا خاتمہ کرڈالے،1947 ء کے شرنارتھیوں کو ریاست کی مستقل شہریت عطاکرکے اُن کے لئے اسمبلی میں بھی نشستوں میں اضافہ کرے اور ساتھ ساتھ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد برائے حق خود ارادیت کو سختی سے کچل دے۔ اس کے برعکس پی ڈی پی نے نیشنل کانفرنس کی کھلم کھلا ہند نوازی کا بھرپور فائدہ اُٹھا کر کبھی دبے الفاظ میںاور کبھی کھلے عام یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ ’’آزادی ‘‘ سے بس مجبوراً دوقدم پیچھے اور کشمیریوں کے اندرونی جذبات کی ترجمانی کرنے مٰں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے گی۔ غور طلب ہے کہ اس پارٹی نے 2002 ء کے الیکشن میں جو کامیابیاں حاصل کرلیں ہیں ،وہ سلف رول اور Healing Touch جیسے سہانے سپنوں اور نظر فریب نعروں کے بدولت ہی حاصل کی اور انہیں کی وجہ سے دلّی کی بیشتر قوم پرست سیاسی پارٹیاں اور ’’ہندوتوا‘‘ جماعتیں پی ڈی پی پر اعتمادنہیں کرتی رہیں۔ اس ضمن میں بھاجپا نیتارام مادھو کی اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ الیکشن سے قبل پی ڈی پی سے کولیشن کے بغیر ہم نے ہر Option پر غور کیا ہے۔ حلف برداری کی تقریب کے بعد وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے نے پاکستان، عسکریت پسندوں اور حریت کے حوالے سے جو بیان دیا، وہ کیاتھا بس ایک آئیڈیا کی بازار سیاست میں بولی تھی ، لیکن اُس کو لے کر بھی ہندوستان کی سیاسی گلیاروں میں نہ صرف ان پر کافی تنقید یںہوئیں بلکہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتوں نے ہنگامہ کھڑا کردیا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ مفتی سعید قائداعظم محمد علی جناح بنے ہیں ۔ ،حتیٰ کہ وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کو کو بیان دینا پڑا اور وزیر اعظم ہند نریندرمودی کو مفتی محمد سعید کے بیان سے اپنا پلو جھاڑنا پڑا۔اس بیان کو لے کر آر ایس ایس کے آفیشنل ترجمانOrganiser میں سی آئی بی کے سابق ڈائریکٹر جوگیندر سنگھ نے"Speaking Controversy" کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ:’’کولیشن پارٹنر بی جے پی کو مفتی محمد سعید سے کہہ دینا چاہیے کہ وہ واضح کریںکہ آیاوہ ہندوستانی ہیں یا نہیں ؟ کیا وہ ہندوستان کے وفادار ہیں یا نہیں؟وہ دوہرا معیار نہ اپنائیں۔‘‘یہ چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کا مطلب کیا ہوتاہے ۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر اب ایسا کیا کر شمہ ہوا کہ اقتدار کی بند ربانٹ میں یکایک پی ڈی پی نہ صرف بھاجپا کے واسطے قابل اعتماد جماعت بن گئی بلکہ اس نے مفتی کیمپ کے ساتھ مطلبی یارانہ گانٹھ لیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھاجپا کی نظر میں مفتی محمد سعیدنے اپنا وہ سیاسی ایجنڈا ترک کر دیاہے جس کے ذریعے سے وہ ریاست جموں وکشمیر میں پی ڈی پی کو نیشنل کانفرنس کے مدمقابل کھڑا کرنے میں کامیاب ہوئے؟ کیا پی ڈی پی اپنے اُس الیکشن ایجنڈا سے دستبردار ہوگئی ہے جس کا ورد کرکے اس پارٹی کا ہر لیڈر کشمیریوں کا بہی خواہ بننے کا دعویٰ کرتاہے؟ اس پر ضرور سوچئے گا۔ کولیشن سرکار وجود میں آجانے کے بعد 5 ؍مارچ کو ریاست کے مقامی اخبارات میں جموں و کشمیر میں پی ڈی پی، بی جے پی مخلوط حکومت کے اتحاد کا جو ایجنڈا شائع کیا گیا اُس پر سرسری نظر دوڑانے سے ہی واضح ہوجاتا ہے کہ پی ڈی پی نے کس طرح اپنے بنیادی مؤقف سے دستبرداری کا خاموشی سے اعلان کر دیا ہے۔بظاہر یہ ایجنڈا ترقی اور اچھی انتظامیہ فراہم کرنے کا خوبصورت کاغذی خاکہ ہے لیکن جیسا کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مسئلہ کشمیر کوئی انتظامیہ مسئلہ نہیں ہے اور نہ ہی مسئلہ کشمیر اچھی انتظامیہ فراہم کرنے کا مسئلہ ہے بلکہ یہ ریاست جموں و کشمیر کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ا یک مسلمہ اور مستندحل طلب معاملہ ہے جوگزشتہ چھ دہائیوں سے یہاں کے عوام کے لئے سوہانَ روح بنا ہو اہے اور وہ انمول مسلسل قربانیوں کے بل پر اپنے جائز حق کے لئے برسر جدوجہد ہیں۔ کشمیریوں نے اس مسئلہ کے منصفانہ حل کے خاطر بیش بہا قربانیاں دی ں اور تکلیفیں اٹھائیں ۔ آج کی تاریخ میں ان قربانیوں کی ایک جھلک یہ بھی ہے کہ یہاں پانچ سو سے زائد قبرستان آباد ہیں، یہاں عصمتیں لٹی ہیں، یہاں ہنستے کھیلتے گھر ویران ہوگئے ہیں،یہاں بستیوں کی بستیاں تاراج ہوئی ہیں، یہاں بے نام قبروں کی ایک لمبی فہرست موجود ہے ۔ واضح رہے کہ یہاں آسیہ اور نیلوفر کی قربانی سڑک ، پانی ، نوکری اور بجلی کے لئے نہیں تھی، یہاں کنن پوش پورہ کی درجنوں خواتین کی عصمتوں کا سودا تعمیرو ترقی کے لئے نہیںہوا ، یہاں کوئی چھوٹے سائز کا بڑا دماغ والا درد پورہ کی سینکڑوں بیواؤں کوجھوٹے دلاسوں سے خرید نہیں سکتا ،یہاں 2008 ء سے2010 ء تک سینکڑوں معصوم نوجوانوں نے اپنی اٹھتی جوانیوں کو اس لئے قربان نہیں کیا کہ نئی دلی فی الفور پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے نام پر چائے نوشی کا شوق پورا کرے،یہاں سینکڑوں نوجوانوں نے اپنے سیاہ بال زندان خانوں میں صرف اس لئے سفید نہیں کئے کہ تعمیر و ترقی کے لیے ریاست کے تینوں خطوں کو برابر کے حقوق دئے جائیں۔۔۔ نہیں قطعی نہیںبلکہ یہ ساری بیش قیمت قربانیاں قومِ کشمیر نے اس لئے دیں یا اس سے لی گئیں تاکہ ریاست جموں و کشمیر کے عوام کو اپنے حق خودارادیت کے وسیلے سے اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے کا پیدائشی حق دیا جائے۔پی ڈی پی کے پالیسی ساز خوب جانتے ہیں کہ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں ۔ 2002 کے الیکشن میں جب نیشنل کانفرنس کے دور اقتدار میں کشمیریوں کا جینا حرام کررکھا گیا تھا، ہر سو ظلم و زیادتیاں اپنے عروج پر تھیں ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نت نئے ریکارڈ قائم ہورہے تھے تو پی ڈی پی نے سیلف رول اور Healing touch کا نعرہ دے دیا۔ سلف رول پر نہیں البتہ Healing touch کے نعرے پر یہاں کے عوام نے پی ڈی پی کو جوق درجوق ووٹ دیا ۔ اس مرتبہ بھی سیلف رول کا راگ الاپا گیا اور اس بار بھی گزشتہ حکومت کے ادوار میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔ گزشتہ حکومت کے دور اقتدار میں شوپیان میں آسیہ اور نیلو فر کو بڑی ہی بے درد کے ساتھ جان بحق کردیا گیا ،اس کے بعد انصاف کی مانگ کرنے والے عوام پر بے تحاشا گولیاں برسائی گئیں اور ظلم و ستم کی داستان رقم کی گئیں۔ 2010 ء میں مژھل میں فرضی انکاونٹر میں تین بے گناہ مزدوروں کو ابدی نیند سلا دیا گیا اور جب کشمیری عوام نے اس ظلم و بربریت کے خلاف اپنا احتجاج درج کرنے کی کوشش کی تو نہتے احتجاجیوں پر آگ و آہن برسا کر 128 ؍نوجوانوں کو گولیاں سے بھون ڈالا گیا۔ سینکڑوں لوگ پولیس اور نیم فوجی دستوں کی گولیاں سے زخمی ہوگئے اور اُن میں درجنوں ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپاہچ بن گئے۔ سابقہ حکومت میں ریاست بھر میں سینکڑوں نوجوانوں کو جرم بے گناہی کی پاداش میں گرفتار کرلیا گیا اور کوئی بستی ایسی نہیں ہے جہاں کا کوئی نہ کوئی نوجوان سنگ بازی کے الزام میں پولیس کے ظلم و ستم کا شکار نہ بنا۔ ان ظلم و زیادتیوں کی وجہ سے نہ جانے کتنے نوجوانوں کا تعلیمی کیئریر برباد ہوگیا ۔اپوزیشن میں رہ کر پولیس کی ان زیادتیوںکے خلاف پی ڈی پی کافی شور کرتی تھی لیکن اقتدار میں آ جانے کے بعد جوCommon minmum Program عوام کے سامنے لایا گیا اُس میں نہ ہی سیلف رول کا کوئی ذکر ہے اور نہ ہی Healing Touch جیسا کوئی نعرہ۔پی ڈی پی کا سیلف رول اگر چہ عام کشمیریوں کے لیے مسئلہ کشمیر کا قابل قبول حل نہیں ہے لیکن اس میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی بات کی گئی ہے جس کو دیکھ کر عام لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ شاید پی ڈی پی مسئلہ کشمیر کے حل کے بارے میں سنجیدہ ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ظلم وزیادتیوںکے حوالے سے Healing touch پالیسی کو بھی اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اتحاد کے ایجنڈے میں پی ڈی پی کے ان دو نعروں کو جگہ حاصل نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پی ڈی پی نے صحیح معنوں میں اقتدار کے خاطر اپنے بنیادی مؤقف کے ساتھ سمجھوتہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو بی جے پی جو پی ڈی پی کے ساتھ اتحاد کو پہلی آپشن کبھی نہ مانتی تھی ، اسی نے کولیشن سرکار اس جماعت کے ساتھ مل کر بنالی۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ تعمیر و ترقی تو ہر سرکار کا ایجنڈا ہوتا ہے لیکن اپنے الیکشن ایجنڈے پر کام کرنا ہر جماعت کے بس میں نہیں ہوتا ہے۔ پی ڈی پی کے برعکس بی جے پی نے بڑی حد تک اپنا الیکشن ایجنڈا عملانے کے سمت قدم بڑھانے شروع کئے ہیں۔ صرف دفعہ370 پر بی جے پی نے خاموشی اختیار کرلی ہے اور یہ جماعت جانتی بھی ہے کہ جب تک ریاستی اسمبلی میں وہ اکثریت حاصل نہیں کرے گی دفعہ370 کے خاتمے کی بات کرنا بے معنی ہوگااور وہ ریاستی اسمبلی میں اپنی اکثریت قائم کرنے کے لیے طویل مدتی منصوبے پر کام بھی کرنے لگی ہے۔ دفعہ 370 کے بعد بی جے پی کا جو سب سے بڑا الیکشن ایجنڈا تھا وہ مغربی پاکستان کے شرنارتھیوں کو ریاست کی شہرت دینا ہے اور اتحاد کے ایجنڈے میں ’’محروم طبقوں کے لئے مخلوط حکومت‘‘ کے عنوان کے تحت کہا گیا کہ موجودہ حکومت1947 ،1965 ، اور1971 کے پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے مہاجرین کی یک وقتی آباد کاری کا منصوبہ مرتب کرے گی اور مغربی پاکستانی مہاجرین کے معاشی و دیگر ضروریات کی فراہمی کے لئے اقدامات اُٹھائے گی۔مطلب یہ کہ بی جے پی بھلے ہی وزیر اعلیٰ کے منصب کو تیاگ گئی ہے لیکن یہ جماعت اپنے سیاسی ایجنڈے کو نافذ العمل کروانے میں بڑی حد تک کامیاب ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے اور ہاںپی ڈی پی کو اقتدار ( بمعنی لولری دستار)کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا ۔ مبصرین کا خیال ہے پی ڈی پی نے جلد بازی سے کام لے کر وادی میں قائم اپنی شبیہ کو متاثر کرکے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارنے جیسا عمل کیا ہے۔جس طرح سابق وزیر اعلیٰ کو بار بار یہ کہنا پڑا کہ گجرات فسادات کے بعد این ڈی اے حکومت کا ساتھ دینا نیشنل کانفرنس کی تاریخی غلطی تھی، اسی طرح تاریخ کی گردش پی ڈی پی کو کبھی نہ کبھی اُسی جگہ پہنچا کر یہ کہنے پر مجبور کرے گی کہ پی ڈی پی کا بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنا ایک تاریخی غلطی تھی۔ essAhmadpirzada@gmail.com

Comments

  1. بہت خوب جناب اللہ تعالیٰ زور قلم اور دے۔آمین

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ