مسلم اقلیت کیا کرے؟
صدموں کی سر زمین یہ زخموں کا وطن ہے

 ادھم پور جموں میں جنوبی کشمیر کے جواں سال زاہد رسول بٹ کو سنگھ پریوار کے چہیتوں اور حواریوں نے موت کے گھاٹ اُتار کر بالمعنی ہندوستان بھر میں جاری آتشیں فرقہ پرستانہ لہر کی لپٹیں ریاست جموں وکشمیر تک از سر نو پہنچا دیں۔ یہ پر جا پریشد اورسنگھر ش سمتی کا جدیدایڈیشن ہے۔ عام طور پر خیال کیا جارہا تھا کہ آر ایس ایس کی حمایت یافتہ سیاسی پارٹیاں اس جنونی مہم کا حصہ ریاست جموں وکشمیر کو بننے نہیں دیں گی کیونکہ یہاں پہلے سے ہی نامساعد حالات کی بھٹی میں بہت ساری چنگاریاں دہک رہی ہیں ۔ خد شہ یہ ظاہر کیا جارہاتھا کہ ہندوتوا کے علمبرداروں کی جانب سے شروع کی گئی خوں خوارمسلم دشمن مہم کو اگر دوبارہ ریاست جموں وکشمیر میں درآمد کیا گیا تو آدم خوری کی ایک ایسی آگ لگ سکتی ہے جس پر قابو پانا شاید پھر ناممکن بن جائے۔ تاثر یہ بھی تھا کہ ۸۰۰۲ءاور ۰۱۰۲ءکی عوامی ایجی ٹیشن سے دلّی کے مسند اقتدار پر براجمان لوگوں نے ضرورسبق سیکھا ہوگااور وہ دوبارہ ایسی کوئی غلطی یہاں نہیں دوہرائیں گے جس کے نتیجے میں پُر امن جدوجہد کرنے والی قوم سڑکوں پر آنے کے لئے مجبور ہوجائے ۔ بی جے پی کا بھارت میں بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنے کے بعد جو حالات پورے ملک کے ساتھ ساتھ ریاست جموں وکشمیر میں بن رہے ہیں اُن کا جائزہ لینے کے بعد کوئی بھی تجزیہ کار اسی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ شاید قوم پرست ہندو جماعتیں اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کی سبیلیں کررہی ہیں۔ اُن کی انتہا پسندی، دہشت پسنددانہ عزائم اور اقلیتوں کے لیے زمین تنگ کرنے کا جنون گردشِ دروان کو ٹال کر پھر سے۷۴۹۱ءکے پیچیدہ حالات ملک میں پیدا کرسکتے ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر تو بہرحال ایک متنازعہ خطہ ہے ، بھارت کی دیگر ریاستوں میں۸۱کروڑ مسلمانوں کو بار باریہ احساس دلانا کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں یا اُنہیں اس ملک میں مسلمان بن کررہنے کے لئے پر یوار کی کٹھن شرائط کو قبولنا ہوگا ، اُنہیں یہ ذہن نشین کرانا کہ اب بھارت میں مسلم تمدن، تہذیب اورشناخت کے ساتھ اُن کے لئے رہنا ممکن نہیں رہا تو ردعمل میں وہ ضروروہ تنگ آمدبہ جنگ آمد کے مصداق انتہائی اقدام کے طور پر کوئی رُخ اختیار کرسکتے ہیں۔ مثال کے طور پرگجرات میں پٹیل برادری کے چند ہزار لوگوں کی ایجی ٹیشن سے پورا ہندوستان ہل گیا اور اُن پر قابو پانے میں دلّی سے لے کر گجرات تک ریاستی و مرکزی حکومتیں بے بس نظر آرہی ہیں اور پھر اگر۸۱کروڑ مسلمانوں نے اسی طرح اپنے سلب شدہ حقوق کی جنگ لڑنے کی ٹھان لی تو خون خرابے کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہونا طے ہے۔ اس صورت حال میںترقی یافتہ ممالک میں اپنا نام دیکھنے کے خواہش مندبھارت کی جھولی میں خسارے جمع ہوں گے۔
 بات شروع کی تھی زاہد رسول بٹ کے تذکرے سے ۔ مقتول زاہدمسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کا باشندہ تھا۔ اندازہ کیجئے ایک مسلم اکثریتی علاقے میں ہندو فرقہ پرست ایک مسلم نوجوان کو دن دھاڑے ابدی نیند سلا ئیں، اکثریتی طبقے کی مال بردار گاڑیوں کو نذر آتش کر یں ، قانون اور آئین انسانیت کی دھجیاں بکھیریں تو پھر دوسری ریاستوں میں جہاں مسلم اقلیت میں رہتے ہیں ،کے جان و مال کو کس کس عنوان سے لا لے پڑ رہے ہوں گے ؟ شایدزاہد کی موت سے یہ پیغام پورے ہندوستان کی مسلم برادری کو دیاجانا مقصودہے کہ وہ اپنے مستقبل اور بقاءکے حوالے سے غیر یقینیت کے شکار ہیں اور اکثریتی ہندوو ¿ں کے رحم وکرم پر جی رہے ہیں۔دادری یوپی میں محمداخلاق کی صرف اس بے بنیاد شک کی بنا پر کہ اُن کے گھر میں گائے کا گوشت موجود ہے ،کو بڑی ہی بے دردی کے ساتھ مار ڈالا گیا۔یوپی، ہریانہ ، مدھیہ پردیش، کرناٹک، ہماچل پردیش، بہار اور دوسری بہت ساری جگہوں پر آر ایس ایس کی ذیلی تنظیموں سے وابستہ لوگوں نے بڑے جانوروں کا کاروبار کرنے والے مسلمانوں کی شدید زد کوب کی۔ یوپی میں ایک ۰۶برس کے بزرگ شخص کو دو روز تک اس جرم میں درخت کے ساتھ باندھ کر بھوکا رکھا گیا کیونکہ وہ ایک گائے کو گھر لے جارہا تھا۔ بہار میں کئی مسلم نوجوانوں کی جو اپنی ٹرک میں بڑے جانور لے جارہے تھے ،کی نہ صرف شدید مار پیٹ کی گئی بلکہ اُن کے سر منڈھوا دئے گئے اور اُن کے ٹرک کو بھی جلا دیا گیا۔شملہ سے ۰۸کلو میٹر دور سرمور علاقے میں” گائے کے محافظوں“نے یوپی کے ایک نوجوان نعمان کو مار مار کر ابدی نیند سلا دیا۔آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم Panchijanya نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں وارننگ جاری کردی کہ ”جو گائے کو ذبیح کرے گا ہم اُس کو ذبیح کریں گے“۔ یوپی سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے ایک ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے جم کر مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی اور کہا کہ ملکی سطح پر ایک ایسا قانون بنایا جائے جس میں گائے ذبیح کرنے والوں کے لئے سزائے موت رکھی جائے۔گاو ¿ رکشا کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف مہم اس حد تک تیز کردی گئی کہ یوپی کے گورکھپور حلقہ انتخاب کے بی جے پی ممبر پارلیمنٹ آدتیہ ناتھ نے یہاں تک اعلان کردیا کہ وہ گاو ¿ رکشا کرنے والے گروہوں کو افرادی قوت کے ساتھ ساتھ مالی مدد اور ہتھیار بھی فراہم کریں گے۔ہریانہ کے بی جے پی وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹرنے گزشتہ ہفتے”انڈین ایکسپرس“ کو اپنے ایک انٹرویومیں کہہ دیا کہ ”مسلمان ہندوستان میں رہیں مگر اس دیش میں اُنہیںبیف کھانا چھوڑنا ہی ہوگا .... یہاں کی ماتا ہے گاو ¿“ انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اگر مسلمان بیف کھانا ترک نہیں کرسکتے ہیں تو وہ پاکستان چلے جائیں۔ ۸۱کروڑمسلمانوں کو پاکستان جانے کی صلاح دینے والے کبھی یہ نہیں سوچتے کہ جب ۷۴۹۱ءمیں مسلمان پار نہ چلے گئے تو آج یہ کیسے اپنا دیش چھوڑ سکتے ہیں؟خود وزیر اعظم ہند مودی نے اپنی الیکشن مہم کے دوران کئی مرتبہ ہندو ¿ں سے کہا کہ وہ” گائے کی رکشا کرنے کے لیے مہاراجہ پرتاب کی طرح کردار ادا کریں“۔ وزیر اعظم ہوتے ہوئے دادری واقعے کی انہوں نے کھل کر مذمت نہیں کی بلکہ صرف سنٹرل گورنمنٹ کو اس واقعے سے الگ کرتے ہوئے ساری ذمہ داری ریاستی حکومت پر ڈال دی۔ اخلاق کی بہیمانہ ہلاکت کی مذمت نہ کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہانہیں ایک بے قصور مسلمان کی زندگی چلی جانے پر کوئی افسوس نہیں ۔بھارت میں سخت گیر ہندو تنظیم آر ایس ایس کے ترجمان اخبار”پنچ جینہ“ کے بانیوں میں شامل ایک طفیل چتریودی نے دادری (یوپی)میں محمد اخلاق کے قتل پر کہا کہ” ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے۔“ انہوں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ”ویدوں میں صاف صاف لکھا ہے کہ گائے مارنے والے پاپی کو قتل کرنا کوئی گناہ نہیں ہے۔“
غیر جانبدار ہندو کالم نگار بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ یہ سارا کھیل تماشہ اور یہ ساری دہشت گردی گائے کی رکشا کے لیے نہیں بلکہ مسلمانوں کو ستانے، انہیں ہراساں کرنے اور ان کے خلاف مہم شروع کرنے کے لیے بہانے کے طور پر کی جارہی ہے۔”لو جہاد“ کانسخہ بھی مسلمانوں کے خلاف آزمایا گیا اور اس جھوٹے پروپیگنڈے کے پیڑ نے جب پھل دینے سے انکار کردیا تو”گاو ¿ رکشا“ کو ایشو بنایا گیا۔ اگر ہندوتوا کے علمبرداروں کو ”گائے ماتا“ کی اتنی محبت ہوتی تو پھر بھارت بیرون دنیا ”بیف “ سپلائی کرنے بڑے ایکسپوٹروں میں شمار نہیں ہوتا۔حالیہ دنوں یہ انکشافات بھی ہوئے ہیں کہ بی جے پی کے بڑے بڑے لیڈر بیرون ممالک”بیف“ سپلائی کرنے کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ گائے کا گوشت کھانے اور اس کاروبار کی آڑ میں صرف مسلمانوں کو ہی مارا اور پیٹا جارہا ہے۔ حالانکہ ہنددو ¿ں میں بھی بعض طبقے بیف کھاتے ہیں اور عیسائی بھی گائے کا گوشت شوق سے کھاتے ہیں۔ نہ کسی ہندو کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی کسی عیسائی علاقے میں یہ مہم چھیڑی گئی۔اس ساری مہم جوئی کا ایک ہی مقصد ہے کہ مسلمانوں کا قافیہ حیات تنگ کیا جائے اور اُنہیں دلتوں سے بھی ابتر حالت میں پہنچاکر اُن کی ترقی کے تمام راستے مسدود کردئے جائیں تاکہ مستقبل میں یہ قوم اپنی شناخت قائم رکھنے میں ناکام ہوجائے اور بالفرض محال آہستہ آہستہ ہندوستان سے مسلم قوم کا خاتمہ ہوجائے۔ حالانکہ ان نادانوں کو یہ معلوم نہیں کہ مسلمان ادھر ڈوبنے اور اُدھر نکلنے کا نام ہے۔ اس قوم کا بظاہر تاتاریوں نے بھی خاتمہ کردیا تھا لیکن یہ پھر بھی دنیا بھر میں اُبھر کرسامنے آگئے۔ مسلم ملت کی ایک خاصیت یہ ہے کہ اِسے جتنا دبایا جاتا ہے اُتنی ہی یہ اُبھرتی جاتی ہے۔ مظالم اور زیادتیاں اس قوم کے افراد کو کندن بنادیتی ہیں۔گزشتہ نصف سے جو ظلم و زیادتیاں مسلمانانِ ہند کے ساتھ روا رکھی گئیں اُس کے نتیجے میں یہاں مسلمانوں نے اپنا دین تبدیل نہیں کیا بلکہ آہستہ آہستہ اُن میں اپنے دین کے تئیں والہانہ لگاو ¿ پیدا ہوگا اوراُن میںملت کو درپیش مسائل کے حوالے سے حساسیت پید ا ہوگئی۔اس لیے دباو ¿ اور دسھونس پر مبنی یہ ساری کارستانیاں اور مکاریاں بالآخر لاحاصل ثابت ہوسکتی ہیں بلکہ اس کے اُلٹے نتائج برآمد ہوجائیں گے۔اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہندوستان میں بھی غیر مسلموںمیں اسلام قبول کرنے رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ بھارت میں اس وقت فرقہ پرستی کا جنون اپنے عروج پر ہے۔ جس جمہورت اور سیکولرزم کے کئی دہائیوں سے یہاں دعوئے کیے جارہے تھے وہ سرعام عریاں ہورہے ہیں۔ حد یہ کہ اوبامہ کو اپنے دورہ ِ ہند کے دوران ملکی قیادت کو فہمائش کر نا پڑی کہ مذہبی تنگ نظری ترک کردو۔ بی جے پی کا اقتدار میں آجانے سے فرقہ پرستی کی یہ ہوامزید تیز ہوگئی اور ہندتوا کے جنونی علمبردار دیدہ دلیری کے ساتھ اپنے مسلم دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوششیں کررہے ہیںلیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بھارت کی پوری ہندوآبادی کو جنونیت اور انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ مسلم دشمنی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ایسے بے شمار ہندو دھرم کے پیروکار ہیں جو ہندوستان میں آر ایس ایس اور اُن کی حامی جماعتوں کے اس طرز عمل سے خائف نظر آرہے ہیں بلکہ ُان کے ان اقدامات کے خلاف کھل کر بولتے بھی ہیں اور مختلف طریقوں سے احتجاج بھی کرتے ہیں۔بھارت کے ایک سو پچیس سرکردہ ادیبوں نے سرکار کی جانب سے مختلف موقعوں پر دئے گئے قومی ایوارڈعدم برداشت اورانتہا پسندی کے بڑھتے واقعات اور رجحان کے خلاف احتجاج کے طور پر واپس کردئے ہیں۔ان ادیبوں نے اتنی بڑی تعداد میں ایوارڈ واپس کرکے ایک نئی روشن مثال قائم کردی۔کشمیر سے کنیاکماری تک ان درجنوں ادیبوں نے دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لئے اپنے انداز کا بہترین احتجاج درج کیا۔ کشمیر کے غلام نبی خیال اور مر غوب بانہالی نے بھی اس قابل تقلید مثال پر لبیک کہہ کر اپنے تمغہ جات واپس کر دئے بلکہ مرغوب صاحب وہ ا یک لاکھ روپیہ کی رقم بھی واپس کردی جو ان کی عزت افزائی کے لئے انہیں ساہتیہ اکادی نے عطا کی تھی ۔ ادیبوں اور تخلیق کاروں کے اس تیکھے ردعمل اور احتجاج کے مثبت اثرات مستقبل میں دیکھنے کو یقیناّ ملیں گے کیونکہ ان کایہ انداز عالمی سطح پر سماجی اور ثقافتی سطح پر اپنے اثرات ضرور چھوڑ دئے گا۔حکومت ہند ادیبوں کے اس طرز عمل سے خوف زدہ ہوگئی ہے، بی جے پی کے صدر امت شاہ نے مسلمانوں کے خلاف آگ اُگلنے والے لیڈروں کو بلا کر اُنہیں اپنی گز بھر زبانوں کو قابو میں رکھنے کی سخت تلقین کر ڈالی۔یہ الگ بات ہے کہ بیمار ذہن اور عدم برداشت کے مرض میں مبتلا پریوار کے ترجمان اخبار” پنج جنیہ“ نے اپنے ایک اداریے میں دادری کے واقعہ اور ہندوستان میں تیزی سے پھیلتی منافرت کے خلاف ایوارڈ واپس کرنے والے سرکردہ ادیبوں کو”خود ساختہ عقل کے ٹھکیدار اور سیکولر بیماری میں مبتلا افراد قرار دیا گیا۔“ ایک اور آر ایس ایس ہفتہ روزہ انگریزی میگزین نے ایوارڈ واپس کرنے والے ادیبوں کی مہم کے بارے میں لکھا کہ” ادیبوں کا ایواڑ واپس کرنے کی مودی کے خلاف ایک سازش ہے تاکہ دنیا پر باور کرایا جائے کہ مودی حکومت ہر حیثیت سے انسانیت کے لیے خطرناک ہے۔“۔ سنگھ کا یہ غم و غصہ صاف طور پر بتا رہا ہے کہ ادیبوں کا ایوارڈ واپس کرنے کے عمل نے اپنا اثر دکھانا شروع کردیاہے۔ آج ادیب ہیں، کل میڈیا سے وابستہ لوگ مجبور ہوجائیں گے، پھردوسرے لوگ۔ فرقہ پرستی کا وقتی طور پر زور ہوسکتا ہے لیکن اس خون تشنہ طرز عمل کے دن گنے جارہے ہیں کیونکہ ملک کوتباہی کے دہانے پر پہنچا نے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کی خوشگوار ہوائیں چلنے لگی ہیں۔
جمہوریت اور سیکولرازم کے جس مکھوٹے میں بھارتی نیتا دہائیوں سے دنیا کومرعوب کر ر ہے ہیں اُس مکھوٹے کو ہٹانے اور ان کی اصلی صورت ظاہرکرنے میںشاید اِن کے اپنے ہی ہاتھ کام آئیں گے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ بی جے پی کا دور اقتدار اس ملک کو ترقی کے بجائے دقیانوسی اور طوائف الملوکی کی جانب دھکیل دے گا۔ بالخصوص مسلم اقلیت کے لیے جو حالات بنائے جارہے ہیں اُن سے نکلنے کی صرف ایک راہ ہے کہ یہ ملت اللہ کی جانب رجوع کرے اور اپنی صفوں میں اتحاد قائم کرکے یکسوئی کے ساتھ ہر محاذ پر مقابلہ کرنے کے لیے کمر کس لے۔ دبنے اور معذرت خوانہ طرز عمل اختیار کیے جانے کے بجائے پورے ہوش وگوش سے اور سینہ ٹھونک کر اپنے حقوق کی بات کرنا اورحریف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دینے سے ہی قوم وملت اپنا کھویا ہوا مقام پھر سے پا سکتی ہے۔ 

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ