مسلم نوجوانوں میں شدت پسندی یا کچھ اور


جوان نسل :شدت پسند نہیں کچھ اور؟
نہ بصیر تیں نہ بصا رتیں کیا علاج ہو تیر ے روگ کا

    24 نومبر2015 ءکو معروف بھارتی اخبار”دی ہندو“ میں ایم کے نارائینن کا ایک مضمون بعنوان
 "How The Valley is Changing" شائع ہوا۔ مضمون نگار کوئی عام کالم نگار یا صحافی نہیں ہیں بلکہ موصوف نے ماضی میں مختلف اہم سرکاری منصبوں پر کام کیا ہے۔ ایم کے نارائنن آئی بی کے ڈائریکٹر رہے چکے ہیں، انہوں نے ویسٹ بنگال کے گورنر اور سابق وزیراعظم ہند منموہن سنگھ کے دور حکومت میں نیشنل سیکورٹی ایڈوائزرکی حیثیت سے بھی کام کیا ہے۔دلّی میں سرکاری اور سیکورٹی کے حوالے سے کسی بھی معاملے میں پالیسی ترتیب دیتے وقت اُن کی رائے کا احترام کیا جاتا ہے اورسابق آئی بی ڈائریکٹر کی حیثیت سے اُن کے مشوروں کو ترجیحی بنیادوں پر ملکی سلامتی کے حوالے سے مرتب شدہ پالیسیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ ”دی ہندو“ میں شائع ہونے والے اس مضمون میں ایم کے نارائنن ریاست جموں وکشمیر کی بدلتی صورت حال کے حوالے سے کافی فکر مند ی کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ”جموں وکشمیر میں دلّی کے لیے نہ سرحد پار سے کی جانے والی دراندازی کوئی بڑا معاملہ ہے اور نہ ہی سرحد پر پاکستانی فوج کی جانب سے کی جانے والی شلنگ، مزاحمتی جماعتیں بھی ہمارے لیے کسی بڑی مشکل کا سبب نہیں بن سکتی ہیں۔کشمیر میں اگر کوئی بڑا خطرہ ہمیں لاحق ہے وہ وادی کے نوجوانوں میں ”شدت پسندی“ کابڑھتا ہوا رُجحان ہے۔ “ بقول موصوف کے ”ریاست جموں وکشمیر کی نوجوان نسل میں بڑے پیمانے پر شدت پسندانہ رجحانات پنپ رہے ہیں اور اُن کی یہ شدت پسندی مستقبل میں انڈیا کے لیے سب سے بڑا اور خطرناک چلینج ثابت ہوگا۔“ سابق آئی بی چیف نے بھارتی وزیر اعظم کے حالیہ دورے کے دوران اعلان کردہ مالی پیکیج کے حوالے سے لکھا ہے کہ” مالی مراعات ، عالیشان عمارتیں اور کشادہ سڑکوں سے حالات میں سدھار ہونے والا نہیں ہے بلکہ وادی کی نوجوان نسل میں واقع ہورہیںذہنی اور فکری تبدیلیوں کو ایڈرس کرنے کی ضرورت ہے۔ “۔ ان کا عندیہ ہے کہ ”شدت پسندی“ کی اس تازہ لہر اور فکری تبدیلی کے لیے عالمی عسکری تحریکات علی الخصوص القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس کی بڑھتی سرگرمیاں ہیں کیوںکہ ان تحریکات نے کشمیری نوجوانوں کو بڑی حد تک متاثر کررکھا ہے اور اِن اثرات کی وجہ سے یہاں کی نوجوان نسل نہ صرف شدت پسندی کی جانب مائل ہورہی ہے بلکہ عملی اقدامات میں ملوث ہورہی ہے۔کشمیری نوجوان نسل کی فکری تبدیلیوں کو کس طرح ایڈرس کیا جائے گا ،اس حوالے سے ایم کے نارائنن نے کچھ بھی نہیں لکھا۔شاید اس لیے کیونکہ ریاست جموں وکشمیر کے حوالے سے جو بھی کیا جاتا رہاہے ، وہ سیاسی اقدامات سے زیادہ وہ ایجنسی سطح کے اقدامات ہوتے ہیںاور سابق آئی بی چیف ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اُن اقدامات کو خفیہ ہی رکھا ہے جو وہ کشمیری نوجوان نسل کی فکری تبدیلی کے لیے روبہ عمل لانا چاہتے ہیں۔
دلّی میں بیٹھے صحافی، تجزیہ نگار، تھنک ٹینک ا ور انٹلی جنس ایجنسیاں ریاست جموں وکشمیر کے حالات کا مشاہدہ زمینی سطح پر رونما ہونے والے واقعات سے لگانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں ۔ گہرائی میں جانے کے بجائے اوپری سطح پر دکھائی دینے والی تبدیلیوں پر تبصرے کیے جاتے ہیںاوراندازے لگائے جاتے ہیں ۔صورتحال کے صرف ایک پہلو کو دکھا جاتا ہے، دوسرا رُخ دیکھنے کو ”ملکی سلامتی“ کے ساتھ وشواس گھات مانا جاتا ہے۔ گزشتہ تین چار برسوں سے نوجوان نسل کا عسکریت پسندی کی جانب مائل ہونا اور گھریلو سطح کی عسکریت کا جنم لینا، کمسن تعلیم یافتہ اور کھاتے پیتے گھرانوں کے چشم و چراغ کا آرام دہ زندگی چھوڑ کر ہتھیار تھام لینا اور جان کی بازیاں لگا لینے کو شدت پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سرراہ نوجوانوں کا پولیس اور فورسز کے دیگر اہلکارو ں سے ہتھیار چھین لینے کے واقعات اور جان بحق عسکریت پسندوں کے جنازوں میں ہزاروں لوگوں کی متاثرکن شرکت کو ایک ہی رنگ دکھانے والی عینک سے دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ 13 ستمبر 2015 ءکو کاکا پورہ پلوامہ میں ایک مقامی جنگجوارشاد احمد گنائی فورسز کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران جاں بحق ہوجاتا ہے۔پولیس اور فورسز اہلکار اس علاقے کی پوری طرح سے ناکہ بندی کرتے ہیں۔ لوگوں کو اس عسکریت پسند کے نماز جنازہ میں شرکت کرنے سے روکنے کے لیے ہر ایک ہتھکنڈا و ہ اپنے طور استعمال میں لاتے ہیں، اس کے باوجود غیر جانبدار لوگوں کے مطابق 30 ہزار لوگ اُن کے جنازے میں شریک ہوجاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہندنواز سیاست دان عمر عبداللہ نے اپنی ٹویٹ میں سوالیہ انداز سے لکھا ہے کہ” ایک عام عسکریت پسند کے نمازِ جنازہ میں لوگوں کی اتنی کثیر تعداد میں شرکت!.... کیا مالی امداد مسئلہ کشمیر کا حل ہے؟“گزشتہ کئی برس سے وادی کشمیر میں سب سے مطلوب عسکریت پسند ابو قاسم پاکستانی جنگجو تھا۔یہ30 اکتوبر2015 ءکو ضلع کولگام میں فوج اورپولیس کے ساتھ ایک معرکہ میں داعی ¿ اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ نہ ہی اس عسکریت پسند کے یہاں لواحقین تھے اور نہ ہی کوئی خونی رشتہ دار، لیکن اُن کے آخری سفر میں جو مناظر دنیا نے دیکھے ہیں وہ بلاشبہ دّلی والوں کے لیے چشم کشا ہونے چاہیے۔تین اضلاع نے اُن کی معیت کا مطالبہ کیا، کئی خاندان اُن کے وارث بن کر سامنے آگئے، بزرگ خواتین اُن کی لاش پر مٹھائیاں اور پھول نچھاور کررہی تھیں،دودھ سے اُن کے چہرے کا خون دھویا گیا،ہزاروں کشمیری ماو ¿ں نے اُنہیں پُرنم آنکھوں سے آخری سفر پر روانہ کیا، جلوس جنازہ ایسا کہ دور دور تک تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اُمڈ پڑا۔ اِسی طرح گزشتہ ہفتے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے آبائی گاو ¿ں بجبہاڑہ میں جب تین عسکریت پسند جان بحق ہوگئے تو ہزار بندشوں کے باوجود جس بھاری پیمانے پر نوجوانوں نے اُن کے نماز جنازہ میں شرکت کی اور جس طرح سے وزیر اعلیٰ کے آبائی مکان پر پاکستانی جھنڈا لہرایا گیا، یہ معاملہ سچ مچ یہ بتلانے کے لیے کافی ہے کہ جو پروپیگنڈا بھارتی میڈیا اور دلّی سرکار یہاں کے زمینی حقائق کے حوالے سے کرتے رہتے ہیں ،اُس میں ذرہ برابر بھی سچائی نہیں ہے۔کشمیر میںلوگوں کو جمع کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہاں 7 اکتوبر2015 ءکو وزیر اعظم ہند نریندرمودی بڑے ہی ہاو ¿ بھاو ¿ کے ساتھ جلواہ ¿ افروز ہوجاتے ہیں، پوری سرکاری مشینری اُن کا جلسہ کامیاب بنانے کے لیے استعمال میں لائی جاتی ہے، حکمران جماعت میں شامل پارٹیاں اور لوگ اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں عوام کے پاو ¿ں پڑتے ہوئے دیکھے گئے کہ وہ اس جلسے کو کامیاب بنائیں، لیکن اس سب کے باوجود وزیر اعظم ہند کے لیے چند ہزار لوگ بھی جمع نہیں ہوئے، بہاریوں اور پنجابیوں کو پکڑ پکڑ کر مبینہ طور جلسہ گاہ پہنچایا گیا اور کشمیر بھرمیں سول کرفیو جیسا منظر تھا۔کاش !کہ اس پہلو کو بھی ایم کے نارائنن جیسے ذی فہم لوگ دیکھ پاتے۔ وہ اُس نفرت اور غصے کا اندازہ لگا سکتے جو برسوں سے اُس قوم کے اندر موجود ہے جن کے حقوق سلب کرلیے گئے اور اُس والہانہ محبت کا اُنہیں اندازہ بھی ہوجاتا جس کا اظہار وہ ہر آن ہزارخطروں کے باوجود جاں بحق ہونے والے عسکریت پسندوں کے لیے کرتے ہیں۔ اگر صرف کشمیری نوجوانوں کی سوچ اور فکر میںہی ایم کے نارائنن کو”شدت پسندی“ کا عنصر دکھائی دے رہا ہے تو پھرموصوف نے غلط اندازہ لگا لیا ہے۔یہ ”شدت پسندی“ یہاں کی نوجوان نسل میں ہی نہیں ہے بلکہ یہاں کی بزرگ خواتین میں بھی ہے، جنہوں نے پاکستان سے آئے اُبو قاسم کے لیے بے تحاشہ آنسو بہائے، جنہوں نے اُن کی میت پر پھول اور مٹھیائیاں نچھاور کیں، جنہوں نے اُن کی بہن اور ماں ہونے کا دعویٰ کیا۔پھر یہ ”شدت پسندی“یہاں کے بعض بزرگوں میں بھی ہے جو اپنے بیٹیوں کی لاشیں اور جنازے دیکھ کر اپنا غم والم آنسوو ¿ں میں چھپاتے ہوئے دعویٰ کر تے ہیں کہ اُنہیں اپنے عزیز کے جاں بحق ہونے پر کوئی”افسوس“ نہیں ہے، پھر تویہ ”شدت پسندی“ یہاں کے بچوں میں بھی ہے جو اپنے معصوم اورنونہال ہاتھوں میں کنکریاں اُٹھاکر گلیوں اور چوراہوں پر پولیس اور فوج کے ساتھ دودوہاتھ کرتے رہتے ہیں ۔
ایم کے نارائنن اور اس قبیل کے دوسرے افراد جس عالمی عسکریت پسندی کے اثرات سے متاثر ہونے کا اس قوم کو الزام دیتے ہیں وہ انٹلی جنس سے وابستہ ہونے کے باوجود یہاں کے حالات سے نابلدہیں یا جان بوجھ کر انجان بننے کی کوشش کرتے ہیں۔2008 ءاور2010 ءمیں یہاں کے عوام اور نوجوانوں نے پُر امن او رجمہوری طرز پر اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ 2010 ءکی پانچ ماہ کی عوامی ایجی ٹیشن دنیا کی واحد تحریک ہے جس میں لاکھوں لوگوں نے تمام روز مرہ کے معمولات ترک کرکے اپنے سیاسی حقوق کی مانگ کی، بدلے میں جمہوری طرز عمل اختیار کرنے کے بجائے اُنہیں کیا ملا؟سینکڑوں نوجوانوں کی لاشیں، ہزاروں زخمیوں کی آہیں اور سسکیاں، عمر بھر کے لیے ہوئے سینکڑوں اپاہچ، یتیم ، جیل کی کال کوٹھریاں ، مار ڈھار، لوٹ مار اور توڑ پھوڑ وغیرہ ظلم و جبر اور زیادتیوں کے ریکارڈ اس سرزمین پر قائم کیے گئے۔ حالانکہ اُسی وقت یہاں کی قیادت نے بھی اور دانشور و ماہرین نفسیات نے بھی حکومت وقت کو متنبہ کیا تھا کہ اگر عوام کو جمہوری طریقے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنے نہیں دیا گیا تو اِس کے مستقبل قریب میں سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔یہاں کی نوجوان نسل کسی عالمی گروپ یا تنظیم سے ذرا برابر بھی متاثر نہیں ہوئی ہے بلکہ اگر ہم یہ کہیں گے کہ عالمی سطح کے مظلوم اور مقہور قوموں سے وابستہ نوجوان یہاں کے نوجوانوں سے متاثر ہورہے ہیں ،تو بے جا نہ ہوگا۔یہاں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کی جاتی ہے کیونکہ وہ بھی ہماری طرح مظلوم ہیں، یہاں ملا عمر کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی اپنے قوم کو غیروں کے تسلط سے آزاد کرنے کے لیے جنگ لڑ رہے تھے، یہاں عراقیوں ، شامیوں اور روہنگیائی مسلمانوں پر ہورہی زیادتیوں پر احتجاج ہوتا ہے کیونکہ وہ ہمارے دینی بھائی ہیں، یہاں مصریوں پر توپ اور ٹینک چلانے والوں کو کوسا جاتا ہے کیونکہ وہ ظالم ہیں اور ظلم کاجو مہیب چہرہ کشمیریوں نے دیکھا ہے ، یہ قوم کبھی نہیں چاہے گی کہ اس طرز کا ظلم کسی اور قوم پر بھی ٹوٹے ۔ نوے کی دہائی سے پیداہونی والی نسل جن حالات سے گزر کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے، اُن سے آپ کیسے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ شانت، اپنے اسلاف کی طرح ظلم سہنے والے اور آقاو ¿ں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے ہوں گے۔ذلت کی زندگی سے کسی کو پیار نہیں ہوتا ہے،دہائیوں کی ذلت بھری زندگی نے کشمیری قوم کوزندگی کے اُس آخری سرے پر لاکھڑا کردیا ہے جہاں ہماری نوجوان نسل کے لیے زندگی بے معانی ہوکر رہ گئی ہے۔
ظلم و زیادتی پر مبنی پچیس سال طویل زندگی کو ایک” کریڈٹ“ ضرور جاتا ہے کہ کشمیریوں کی نوجوان نسل اسلام کے قریب ہوتی چلی جارہی ہے۔ گزشتہ زمانوں کے بجائے آج کی نوجوان نسل دین اسلام کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کررہی ہے اور یہ اسلام کی آفاقی تعلیمات ہی ہیں جو دورخی پالیسی سے آزاد کرکے انسان کو یک سو اور یک رنگ بنادیتی ہے۔یہاں کی نوجوان نسل اب استحصالی لوگوں کا شکار نہیں بنتی ہے اور دنیا لالچوں میں آنے کے بجائے اپنے قومی کاز اور مشن کے ساتھ وابستہ رہنے کو ہی بھلائی تصور کرتی ہے۔اپنے مو ¿قف پر چٹان کی طرح ڈٹ جانا اور اپنے قومی کاز کے لیے کسی طرح کا کوئی کمپرومائز نہ کرنے کو”شدت پسندی “ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس سے ”ملکی سلامتی“ کے لیے خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ گویانوجوانوں کا اسلام کی جانب مائل ہونا اور اسلامی تعلیمات کو اپنانا”شدت پسندی “ ہے۔ اگر چہ ایم کے نارائنن نے کشمیری نوجوانوں کی اس فکری تبدیلی کا توڑ کرنے والے اقدامات کا ذکر نہیں کیا ہے لیکن حالات کا گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اقدامات میں سب سے پہلا قدم یہ ہوگا کہ کشمیریوں کی نوجوان نسل دین اسلام سے دور ہوجائے۔ دینی تعلیمات کا اُنہیں ایسے تصور کا سیر بنا یا جائے جو ظلم کی مزاحمت سے عاری ہو اورنام نہاد روشن خیالی پر مبنی ہو اور سیکولر روایات کے زیادہ سے زیادہ قریب ہو۔یہی وہی ناقص تصور ہوگا جس میں دین اسلام کو اجتماعی زندگی کے معاملات میں شامل کرنے کو ”دہشت گردی“ اور ”شدت پسندی“ کہلایا جائے گا۔
دین علی الخصوص اسلام کے اجتماعی سسٹم سے کشمیری نوجوان نسل کو متنفر کرنے کے لیے کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس کے لیے دلّی سے ماہرین نفسیات طلب نہیں کیے جائیں گے بلکہ ہمارے ہی سماج سے ہی شکم پرستوں، نام نہاددانشوروں اور کرسی کے لالچی سیاست دانوں کی مزید خد مات حاصل کی جائیں گی۔ سابق را چیف اے ایس دُلت نے جیسے اپنی کتابKashmir: The Vajpayee Years میں لکھا ہے کہ کشمیر میں انڈین ایجنسیاں پیسوں کے ذریعے جنگ لڑ رہی ہے اور بڑے بڑے کام پیسوں کے بل بوتے پر نکالے جاتے ہیں۔ دھن اور دولت کی لالچ میں اب یہاں نئے نئے گمراہ کن افکار اور نظریات کو پھیلانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔ ہمارے یہاں اب کھلے عام دانشوری کا لبادہ اُڑھے کچھ لوگ اسلام کے ”سدھار“ پر مامور کئے جاچکے ہیںجو دین کا کام کرنے والے مخلص لوگوں کو موٹی موٹی کو گالیاں دیتے ہیں ۔اسلام کو صرف ”خدمت“ تک ہی محدود کرنے کی وکالت کر تے ہیں ۔ اسلام کے سیاسی نظام کو ” گیا گزرا“ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔ عالمی تحریکات اسلامی کے نظریات ، افکار اور تعلیمات کو منفی انداز سے پیش کیا جاتا ہے۔اب یہ بھی فتوے آتے ہیں کہ ذہنی گمراہی کی یہ تمام منفی کاوشیں ناکام ثابت ہوں گی کیونکہ کشمیر کی نوجوان نسل اَن پڑھ اور گوار نہیں ہے اور نہ ہی یہاں دین اسلام کی دعوت اور اشاعت کا کام کرنے والوں نے کچی گولیاں کھائی ہیں۔یہاں ایک احتیاط لازمی ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ گھر کے بھیدیو ںسے خبردار رہے ، بالخصوص اُن نام نہاد دانشوروں ، شکم پرستوں اور ابن الوقت لوگوں سے چوکنا رہا جانا چاہیے جو اسلام کی وہ تشریح کرتے ہیں جو مادی مراعات کے عوض اُن سے سرکاری ایجنسیاں کروانا چاہتی ہیں۔ایم کے نارائنن جیسے پالیسی ساز لوگوں کو بھی اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اپنے سلب شدہ حقوق کی مانگ کرنا، اپنی تہذیب و تمدن سے جڑے رہنا، اپنے وجود کو پہچاننا اور اپنے صالح مستقبل کے تئیں فکر مند رہنا ان کی سوچ میں ”شدت پسندی“ ہے مگر ہم اسے”حقیقت پسندی“ کہتے ہیں اور آج کی دنیا کو اسی کا متلاشی ہو نا پڑے گا۔
رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ