کشمیر حل ہوا تودوستی سچی! خلوص ہی دکھائے گا دل و نگاہ کی منزلیں ٭

کشمیر حل ہوا تودوستی سچی!
خلوص ہی دکھائے گا دل و نگاہ کی منزلیں
٭....ایس احمد پیرزادہ
۵۲دسمبر۵۱۰۲ئجمعہ کے روز برصغیر کے کروڑوں عوام کے ساتھ ساتھ عالمی میڈیائی ادارے بھی ا ±س وقت حیرت زدہ رہ گئے جب اچانک بھارتی وزیر اعظم نریندرمودی نے کابل سے اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف کو فون کرکے واپسی پر لاہور میں ا ±ن کے ساتھ ملاقات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا، نواز شریف نے فوراً ہاں کرلی اور یوں دونوں وزرائے اعظم تاریخی شہر لاہور میں آپس میں بغل گیر ہوگئے۔ پاک بھارت ذرائع ابلاغ نے اس اچانک ملاقات کو مختلف زاو ¿یوں سے دیکھنے کی کوشش کی اور اسے نریندر مودی کی شخصیت کا کمال قرار دیتے ہوئے ا ±ن کی تعریف وتوصیف کے پل باندھنے شروع کردئے۔ حالانکہ بعض لوگ اس دورے کو ”اچانک دورہ “تسلیم کرنے سے بجاطور انکارکر رہے ہیں اور اس ملاقات کے پس ِ پردہ پیرس میں دونوں ممالک کے قومی سلامتی مشیران کی میٹنگ اور ا ±ن کی ذہنی کاوشوں کا ثمرہ قرار دے رہے ہیں۔ بات جو بھی ہو ، برصغیر ہند و پاک میں سیاست کا اونٹ کب کس کروٹ بیٹھے، اس حوالے سے کوئی پیش بینی نہیں کی جاسکتی ہے۔ کوئی حتمی رائے ا ±ن لوگوں یا سیاست دانوںکے بارے میں قائم کی جاسکتی ہے جن کا اپنا کوئی مو ¿قف ہو، جن کا کوئی اپنا نظریہ ہو، جن کا خالص اپنا انشیٹیو ہو، جن کا ملکی مسائل کے حوالے سے اپنی کوئی مضبوط رائے اور عقلی دلیل ہو۔ا س کے برعکس جہاں بیرونی ہاتھ سیاست دانوں کو مور کا ناچ نچاتے ہوں، وہاں آپ کا کوئی مدلل رائے قائم کرنا اور حالات کادیانت دارانہ تجزیہ کرنا دیوانے کی بڑ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف ان ہی نواز شریف کے دور میں وہ جب پاک فوج کے سربراہ تھے ، اپنے سخت گیر انہ مو ¿قف کے حوالے سے کافی جانے جاتے تھے۔ مسئلہ کشمیر پر کسی قسم کا کمپرومائز کرنے کی ہوا بھی ا ±نہیں لگ جاتی تو بھرپور انداز سے بھڑک کر ردعمل دکھاتے اورسول گورنمنٹ کو ایسا نہیں کرنے دیتے تھے۔ گرگل جنگ جہاںامریکی میڈیا کے مطابق پاکستان کا پلڑا بھاری رہا اور انڈیا کو پاکستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ جانی و مالی نقصان سے دو چار ہونا پڑا ، کے تخلیق کار جنرل مشرف ہی تھے۔ انہی ریٹائرڈ جنرل مشرف کے بارے میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ بحیثیت چیف آف دی آرمی سٹاف ا ±نہوں نے کئی کلومیٹر سرحد پار کرکے کرگل میں اپنے فوجیوں کے ساتھ ایک رات گزارلی تھی۔ یہ انکشاف اس بات پر دلالت کر تاہے کہ وہ کس مضبوط سوچ اور سخت گیر موقف کے حامل تھے لیکن جب اقتدار کا چسکا انہیں لگا تو یہی مشرف امریکہ کی ایک معمولی دھمکی کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔ طالبان کے خلاف شاہ سے زیادہ وفادار بن کر مملکت خداداد کو کشت و خون کی بھینٹ چڑھادیا ، نتیجہ یہ ہوا کہ اب بھی اس ملک میں امن وآشتی سے کھلواڑ جاری ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جب بیرونی لالچیں اور دباو ¿ آیا تو نہ صرف مشرف جی نے حد متارکہ پر باڑ لگانے کے بھارتی خواب کو پورا ہونے دیا بلکہ کشمیریوں کی اخلاقی، سیاسی اور سفارتی سپورٹ سے ہی ہاتھ کھینچ لئے۔ حتیٰ کہ کشمیر قرار دادوں کی تکذیب کر تے ہوئے اور کشمیریوں کی جانی و مالی قربانیوں کو یک سر نظر انداز کرکے ”آوٹ آف دی بکس حل“ کا جن نکال کر دھونس اور دباو ¿ کے ذریعے کشمیریوں کو اس کے سامنے سر نگوں کرنے کا ہتھکنڈا تک استعمال کیا۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارے یہاں کی حریت نوازسیاسی قیادت کا ایک دھڑا ا ±ن کی ہاں میں ہاں ملاتارہا اور ا ±ن کے فارمولے پر ” قبول ہے“ کی رَٹ لگا کرکشمیرکاز پر نشتر چلاتے ہوئے اس آمر کا جی حضوری بن گیا۔ عملاً یہ سب کرکے مشرف نے ریاست جموں وکشمیر پلیٹ میں رکھ کر بھارت کو پیش کردیا تھا اور اپنی پالیسی کو irreversibleکہہ کر نقلی شیر بن کر دھاڑیں ماریں۔ یہ دوسری بات ہے کہ بھارتی حکمرانوں نے موقع گنوا دیا اور کشمیر میں بقول سابق وزیرخارجہ پاکستان خورشید قصوری کے سیّد علی گیلانی نے ا ±س مشرف گیم پلان کی مخالفت کرکے اسے چوپٹ کردیا۔ سابق وزیر اعظم ہند منموہن سنگھ نے ۴جنوری ۴۱۰۲ئکو اپنی سرکار کے دس برس مکمل ہونے کی خوشی میں منعقد ہ ایک تقریب پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے معاہدے کے ہم بہت قریب پہنچ چکے تھے کہ پرویز مشرف کی آمریت کے خاتمہ سے ہم وہ موقع گنوا بیٹھے۔
اگر چہ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل میں تیسرے فریق کی مداخلت کو کسی بھی صورت میں قبول کرنے سے انکار کررہا ہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ جب کبھی بھی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مذاکراتی ٹیبل سجا یا گیا ، تیسرے فریق کی غائبانہ مداخلت کے سبب ہی سجا۔ امریکی دباو ¿ اور بھارتی اقتصادی مفادات اور مجبوریوں کے سبب ہی یہ سارے کھیل کھیلے جاتے رہے ہیں۔ اس کے لیے پاکستان کو زور زبردستی لولی لنگڑی مذاکراتی عمل کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ مو ¿قف رہا ہے کہ بھارت پاک مذاکرات ا ±سی صورت میں ممکن ہیں جب مسئلہ کشمیر کو اولیت حاصل رہے گی لیکن بھارت کشمیر سے پہلو بچا کر اقتصادی راہداری چاہتا ہے،بھارت افغانستان کی تعمیر میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے، بھارت پاکستان کے راستے مشرق وسطیٰ اور افریقہ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے، بھارت افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کے راستے بحیرہ کیسپین سے یورپ کی منڈیوں تک پہنچنے کی منصوبہ سازی کررہا ہے۔ بھارت پاک چین اقتصادی راہداری سے ایک واہمے ا ور خوف میں مبتلا ہوچکا ہے اور اسے ڈر ہے کہ کہیں اس راہداری سے بھارت کے معاشی مفادات اور تجارتی پھیلاو ¿ محدود نہ ہوجائے۔ اس لیے بھارت نے اس راہداری کے حوالے سے طرح طرح کے اعتراضات ا ±ٹھائے تھے اور عالمی سطح پر اس کو ناکام بنانے کی کوششوں کا آغاز کیا۔وسط ایشیائی ممالک میں تقریباً ساڑھے چھ ٹریلین ٹن تیل و گیس کے ذخائر موجود ہیںجن پر بھارت کی نظریں مر کوز ہیں اور انرجی کے لئے محتاج کسی بھی ملک سے یہی متوقع ہو سکتا ہے۔ ا ±دھر پاکستان کے حوالے سے ہمیشہ سخت گیرانہ مو ¿قف رکھنے والے نریندر مودی اپنے ملک کی جس اقتصادی ترقی کی باتیں کرر ہے ہیں ، ا ±س کا راستہ پاکستان سے ہوکر ہی جاتا ہے۔اس کا اعتراف خود بھارتی وزیر اعظم نے کابل میںپارلیمان کی نئی عمارت کی افتتاحی تقریب پر یہ کہتے ہوئے کیا کہ” ا ±ن کی حکومت پاکستان کو افغانستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے درمیان ایک طاقتور پل سمجھتی ہے۔“ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے حوالے سے وہ اچانک اس قدر نرم پڑ گئے کہ نومبر اور دسمبر۵۱۰۲ئمیں مودی کا غیر متوقع طورلاہور آنا، وزیر خارجہ سشما سوراج کا پاکستان کا سرکاری دورہ کرنا، دونوں ممالک کے سلامتی مشیران کا باہم دگرملنا جلنااور خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر مذاکرات کی بحالی جیسی پیش رفت یکے بعد دیگرے دیکھنے کو مل رہی ہے۔
پاکستان اقتصادی لحاظ سے مضبوط ریاست بن جائے ، کشمیریوں سے زیادہ خوشی کسی اور کو نہیں ہوگی۔ کیونکہ کشمیریوں کا ا ±ن کے ساتھ ایک ہمہ گیررشتہ ہے۔ یہاں دل ا ± ن کے ساتھ دھڑکتے ہیں ، نوجوانوں کے جذبات ا ±س ملک کے ساتھ وابستہ ہیں اور اہل کشمیریہ بھی جانتے ہیں کہ یہ ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور خرابی ¿ بسیار کے باوجود اس وقت عالمی سطح پر ایٹمی طاقت کی حیثیت سے پوری ا ±مت کی شان ہے۔پاکستان ہر لحاظ سے ترقی کرے اور عالم اسلام میں قائدانہ کردار ادا کرے ،ایسا باشعور کشمیری قوم کی چاہت ہے۔اسی طرح بھارت اقتصادی طور پر خوش حال ملک اور مثبت سوچ والی قوم بن جائے تو بحیثیت مسلمان کون کشمیری ناخوش ہو گا کیونکہ جس ملک کے کروڑوں عوام غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کررہے ہوں، ان سے از راہِ انسانیت ہمدردی رکھناا سلام کی بنیادی تعلیم سے میل کھاتی ہے۔ انڈیا کا حال یہ ہے کہ آج بھی کروڑوں لوگوں کو دو وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا اور کروڑوں عوام کو نرم و گرم موسم کے رحم و کرم پر کھلے آسمان تلے راتیں بسر کرنا پڑتی ہیں۔ ہاں اصولی طوردونوں ممالک خوشحال بن جائیں ،اس کے لیے ضروری ہے کہ انہیں آپسی رنجشیں چھوڑنا ہوںگی اور مخلص اور وفاشعار دوست بن کر دوطرفہ تعلقات کو استوار کرنا ہوگا لیکن تعلقات کی بحالی اگر مسئلہ کشمیر کو سائڈ لائن کرکے یا ایسا ”آوٹ آف دی بکس“ حل نکال کر ممکن بنائی جائے جس سے کشمیریوں کی اصل ا ±منگوں اور خواہشات کا قتل ہوتا ہو تو یہ کہاوت کی زبان میں مردہ کتے کو کنوئیں میں رکھتے ہوئے سو بالٹی نکالنے کے مترادف ہوگا۔ یاد رکھئے کشمیری قوم کی جدوجہد دہائیوں پر محیط ہے اور اس کی قربانیاں بے حساب ہیں،اس لئے حقیقت پسندانہ کشمیر حل نظر انداز کرکے دلّی اور اسلام آباد کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتے۔دونوں ممالک کی مادی ترقی کے لیے کروڑوں کشمیریوں کو قربانی کا بکرانہیں بنایا جاسکتا ہے۔
دونوں ممالک کے تعلقات میں جو گرم جوشی گزشتہ دوماہ سے دیکھنے کو مل رہی ہے اور سیاسی و سفارتی سطح پر جو کوششیں ہورہی ہیں ،ا ± ن سے سیاسی تجزیہ کار یہی اندازہ لگا رہے ہیں کہ بیرونی دباو ¿ میں ہی سہی پردے کے پیچھے کچھ نہ کچھ ضرور پک رہا ہے۔عام تاثر یہی ہے کہ بھارت اور پاکستان ایک مرتبہ پھر مسئلہ کشمیر کی ڈور وہی سے پکڑنے پر آمادہ ہوچکے ہیں جہاں پرویز مشرف نے چھوڑا تھا۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر بھارت نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا کیونکہ جو موقع منموہن سنگھ نے گنوا دیا تھا وہ مودی کے ہاتھ لگ گیا اور وہ اس کا بھر پور فائدہ ا ±ٹھانے کی کوشش کریں گے۔ کشمیر ا ±مو ر کے ماہرین کا ماننا ہے کہ مشرف اور منموہن دور میں پرویز مشرف کے چار نکاتی فارمولے میں معمولی رد و بدل کرکے ا ±سی پر سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ مشرف کا چار نکاتی فارمولہ یہ ہے کہ سرحدیں جوں کی توں رہیں گی، البتہ لوگوں کو آرپار جانے کی کھلی اجازت ہوگی، خطہ کے عوام کی اپنی حکومت ہوگی یعنی اندرونی سطح پر اٹانومی فراہم کی جائے گی لیکن وہ آزادی نہیں ہوگی،مختلف مراحل سے دونوں ممالک خطہ سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں گے اور اس خطہ کے نظام کو چلانے کے لیے ہندوستان، پاکستان اور کشمیری ایک مشترکہ میکانیزم تشکیل دیں گے۔ایساسمجھوتہ اگر ہوتا ہے توکشمیریوںکو جوں کی توں پوزیشن پر سرتسلیم خم کرنا پڑے گا۔ خطہ میں ایک وقت میں دو دو ممالک کی براہ راست مداخلت رہے گی، بھارت کا کنٹرول موجودہ ایل اوسی تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ پاکستانی کشمیر تک اس کی توسیع ہو جائے گی۔الغرض یہ فارمولہ بھارت کی جیت پر ہی منتج ہوگا اور اس میں ہارنے والا فریق صرف کشمیری ہی نہیںہوں گے بلکہ پاکستان بھی کچھ پانے کے بجائے زیادہ تر کھو ہی دے گا۔ المیہ یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر نے جن لوگوں کو بام عروج پر لایا، عام انسانوں سے لیڈر بنا دیا، وہیں جانے انجانے کشمیرکاز پر ناقابل ِ قبول سمجھوتہ بازی کے مہرے بننے پر اپنے پر تول رہے ہیں۔ چند دن قبل ایک مقامی روز نامے میں حریت کانفرنس کے ایک صاحب نے یہاں تک کہہ دیا کہ ”امن عمل کو پٹری سے ا ±تارنے والی طاقتوں کی لگام کسنے کی ضرورت ہے “۔ یہ” امن عمل “کیا ہے ؟ کس چڑیا کا نام ہے؟ کس جانب پرواز کرتی نظر آتی ہے؟ یہ شاید وہی ایک جانتے ہیںلیکن ”امن عمل “کو پٹری سے ا ±تارنے والی طاقتیں کون ہیں کم از کم اخلاقی جرا ¿ت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی نشاندہی کی جاتی۔ ہندوستان کے زاویہ ¿ نگاہ سے یہاں امن کے دشمن وہ مظاہرین اور ناراض سواد اعظم ہیںجو اپنے سلب شدہ حق کی باز یابی چاہتے ہیں، دلی کو یہاں امن کے دشمنوں میں حریت پہلے نمبر پر نظر آتی ہے، حق خود ارادیت کی بات کرنے والے امن دشمن دِ کھتے ہیں ، نہتے کشمیری امن دشمن کہلاتے ہیں۔ ایسے میں مذکورہ صاحب کس پر لگام کسنے کی بات کرتے ہیں؟
کشمیر کاز قربانیوں کا جلّی عنوان ہے۔ ان قربانیوں کے ساتھ دغا کر نا آر پار کی حکو متوںکے بس کا روگ نہیں تو گلی کوچے کے لوگ سوائے اپنی ناکامی کے ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟ اگر ایسا ممکن ہوتا تو تاشقند اور پچھتر کے اکارڈ سے لے کر مودی کے دورہ ¿ لاہور تک کی اچھل کود کی تاریخ کچھ اور کہانی سنا تی اور کشمیر حل پر زور دینا گاہے گاہے بانکی مون اور اوبامہ تک کے بیا نات کا حصہ نہ ہوتا۔ کیا یہاں کل کے شیروں کو آج ”ولن“ کی نظر سے دیکھا جاتا ہے؟ اس لیے کسی بھی کشمیری لیڈر کو کسی ایسے پلان کا دست وبازو نہیں بننا چاہیے جو کشمیریوں کی قربانیوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہو اور صرف اسی حل پر لبیک کہنا چاہیے جو ایک کشمیر کو ہی نہیں بلکہ پورے برصغیر کے لئے نوید امن وعزت ہو۔دلّی کے منصوبہ ساز فی الحال یہی چاہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر سردخانے میں چھوڑ کر اقتصادی راہداری حاصل کرکے آگے بڑھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان دشمنی میں بدنام بی جے پی حکومت پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھارہی ہے۔ بہرکیف دلی اوراسلام آباد کو تاریخ نے ایک اور سنہری موقع دیا ہے کہ وہ خلوص دل سے مل بیٹھ کر کشمیری جذبات کے نمائندہ آواز کو اعتماد میں لیتے ہوئے مسئلہ کشمیر کا پ ±رامن ،دیریا، منصفانہ ا ور قابل قبول حل طے کر کے اپنی اقتصادی وسماجی زندگی میں خوشحالیاں بھردیں اور برصغیر کو امن اور دوستی کا تحفہ دیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ا س موقع سے کیسے فائدہ اٹھا یا جاتاہے


Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ