امتحانی نتائج کاتابناک پہلو#ایس احمد پیرزادہ


امتحانی نتائج کاتابناک پہلو

محنت سے روشن ذہانت کی مشعل


 اس سال کے دسویں اور بارہویں امتحانات میں متاثر کن کارکردگی سے میدان مارنے والے تمام امیدارواروں کو مبارکباد!
گزشتہ ادوار کی طرح اب زمانہ وہ نہیں رہا کہ شجاعت، بہادری اورافرادی قوت کی بنیاد پر قوموں اور ممالک پراپنی فتح کا جھنڈا گاڑاجاسکے، گھوڑے دوڑا کر اپنی مملکت کے حدود کو پھیلایا جاسکے، جسمانی محنت اور مشقت سے ترقی اور خوشحالی کو عام کیا جائے بلکہ اکیسویں صدی کا یہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ یہاں جنگ جیتنے کے لیے زورِ بازو کی ضرورت( امریکہ اور اس کے حواری کو مستثنیٰ کر کے ) نہیں پڑتی بلکہ ہزاروں میل دور آرام دہ کمرے میں بیٹھ کر، چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ڈرون ٹیکنالوجی سے دشمن کے بڑے بڑے فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ جدید علوم پر دسترس سے کائنات کی بہت ساری چیزوں پر انسان کی گرفت کافی مضبوط ہوگئی ۔ ٹیکنالوجی انسانیت کے لیے اُسی طرح اہمیت کی حامل بن گئی جس طرح زندہ رہنے کے لیے سانس لینے کی ضرورت واہمیت ہے۔ آج کے دور میں وہی قومیں ترقی یافتہ کہلائی جاسکتی ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں آگے ہوں۔ نہ صرف جنگی میدان کی کامیابیوں کا دارو مدار جدید علوم پر دسترس ہونے پر موقوف ہے بلکہ اپنے نظریات، افکار اور اپنی تہذیب کودوسری قوموں تک پہنچانے اور پھیلانے کے لیے بھی علوم پر دسترس ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس کے ذریعے سے آپ دوسری قوموں پر حاوی ہوسکتے ہیں۔شاید اسی لیے بحیثیت مسلمان ہم پوری دنیا میں پٹ رہے ہیں کیونکہ ہم نے جدید علوم کے حصول میںکافی لاپرواہی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مغرب ہم سے کافی آگے نکل چکا ہے۔ ہر میدان میں اُس کی تحقیق، انتھک محنت اور لگن نے اُنہیں اس مقام پر لاکھڑا کردیا کہ آج وہ دنیا پر حکمرانی کررہے ہیں۔ خیر اُمت سے وابستہ ہونے کے باوجود ہم اُن سے ماریں کھا رہے ہیں۔ زندگی کا سلیقہ اُنہیں ہم سے سیکھنا تھا اور المیہ یہ ہے کہ آج ہم اُن سے مرعوب نظر آرہے ہیں۔ ہدایت کا سرچشمہ ہمارے پاس ہے، فلاح و کامیابی کا راز ہمارے پاس تھا مگر ہم غافلوں کی طرح سوتے رہے اور اُنہوں نے ہمارے نسخہ کیمیا سے ہر درد کی دوا پانے کے اقدامات کیے۔ نتیجہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔ پوری مسلم دنیا کے حکمران اُن کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں، وسائل ہمارے ہیں ، زمینیں ہماری ہیں ، عیش و عشرت کا سامان وہ لوٹ رہے ہیں۔ قدرتی ذخائر سے ہماری سرزمینیں مالا مال ہیں ، فائدہ وہ سمیٹ رہے ہیں ،کیونکہ اُن کے پاس علوم ہیں، ٹیکنالوجی ہے۔ دنیا میں ایک ایسا نظام رائج کرانے میں یہ ترقی یافتہ قومیں کامیاب ہوئی ہیں کہ ہم دن بدن پیچھے ہی چلے جارہے ہیں اور اُن کا سفر ترقی اور کامیابیوں کی ہی طرف گامزن ہے۔جو چیزیں اور سہولیات اُن کے پاس آج آجاتی ہیں اُنہیں ہم تک پہنچتے پہنچتے دہائیاں لگ جاتی ہیں۔قرون وسطیٰ میں وہ ہم سے سو سال پیچھے تھے، آج ہم اُن سے پانچ سو سال پیچھے چل رہے ہیں۔ جب وہ قلیل مدت میں دو سال کا سفر طے کرسکتے ہیں ہم کیوں نہیں کرسکتے؟ ہم آج بھی صحیح راہ پر گامزن ہوتے ہوئے اُنہیں پیچھے چھوڑسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں سے سبق سیکھ کر دنیا کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی پر اپنی گرفت مضبوط کرلیں۔ ہمارے پاس آسمانی ہدایت ہے، عدل و انصاف پر مبنی الٰہی نظام ہے۔ غیر اقوام نے سائنس اور ٹیکنالوجی حاصل کرکے دنیا کو سوائے غربت، افلاس ، رہزنیوں اور قتل و غارت گری کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ہم اگر علوم پر دسترس حاصل کرلیں گے ، دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے اور انسانیت کی فلاح و بہبودی ایک یقینی امر بن جائے گا ۔ مفکر اسلام علامہ سیّد مودودیؒ نے کیا خوب فرمایا :”مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے، تمام دنیا کی قومیں اُن کے پیرو اور مقلد رہیں۔ جب وہ اکتسابِ علم اور اجتہادِ فکر کی راہ میں تھک کر بیٹھ گئے تو گویا انہوں نے خود دنیا کی راہ نمائی سے استعفیٰ دے دیا.... جب مسلمان تھک گئے، ان کی روح ِ جہاد سرد پڑگئی، قوتِ اجتہاد شل ہوگئی ، تو ان میں ترقی کی رفتار رُک گئی اور وہ امامت کے منصب سے معزول ہوگئے۔ جہاد اور اجتہاد کا جھنڈا جس کو مسلمانوں نے پھینک دیا تھا، مغربی قوموں نے اُٹھا لیا۔ وہ علم و عمل کے میدان میں آگے بڑھے، مسلمان سوتے رہے۔“( تنقیحات)۔ اب ہمیں پھر سے علم کے میدان میں آگے بڑھنا ہوگا، علم و اجتہاد کا جھنڈا ہاتھ میںلینا ہوگا اور دنیا پر پھر سے چھا جانا ہوگا۔
جہاں ہم رہتے ہیں پوری دنیا جانتی ہے کہ یہ ایک متنازعہ خطہ ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے یہ قوم ذہنی اضطراب میں مبتلا ہے۔بالخصوص پچھلے بیس برسوں سے یہ ایک جنگ زدہ خطہ کہلایا جاتا ہے۔ جو خون آشام دن ہم نے دیکھے ہیں، جو خوف اور دہشت پر مبنی راتیں یہاں گزاری جاتی ہیں اُن میں تعلیم، ترقی اور علوم پر دسترس حاصل کرنے کے بارے میں سوچنے کے لیے بھی وقت نہیں ملتا ہے۔ مجموعی طور پر جب لوگوں کے اعصاب پر خوف طاری ہو، جب جان کے لالے پڑ رہے ہوں تو ایسی ڈراو ¿نی صورتحال میںزندگی کے دوسرے معاملات کے حوالے سے پلاننگ کرنا ممکن نہیں رہ جاتا ہے۔ ہم جب دنیا کے جنگ زدہ خطوں کا حال دیکھتے ہیں تو وہاں کا تعلیمی نظام درہم برہم پاتے ہیں۔ مسلم دنیا کی خوشحال ریاستیں گزشتہ کئی برسوں سے جنگ اور مغرب کی شروع کردہ خانہ جنگی کی لپیٹ کیا آگئی ہیں کہ وہاں کا بشمول تعلیمی نظام سارا سسٹم ہی چوپٹ ہو چکا ہے۔ عراق، افغانستان، لیبا، شام وغیرہ میں جنگی صورتحال سے وہاں کے اسکولوں اور کالجوں پر قریب قریب تالے ہی پڑچکے ہیں۔صورتحال جوں کی توں رہی تو ان ممالک میں آنے والی ایک دو دہائیوں میں ہنگامی صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ ناخواندہ افراد کی شرح بڑھ جائے گی جب کہ صلاحیتوں کے مالک ملکی نظام چلانے والے افراد کا قحط پڑجانے کا احتمال پیدا ہوجائے گا۔ہمیں عادت پڑچکی ہے کہ ہم زیادہ تر حساب کتاب اپنی ناکامیوں کا ہی کرتے ہیں۔ اپنی قومی غیرت پر افسوس کرنا، اپنے ناعاقبت اندیشی کا رونا رونا اور اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کا خود ہی پروپیگنڈا کرکے عوامی جوش اور جذبے کو ٹھنڈا کرنے کا کارِ بدانجام دیتے ہیں۔ منفی طرز عمل کے عادی ہونے کی وجہ سے ہمارا دھیان مثبت باتوں کی جانب جاتا ہی نہیں ہے۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم مجموعی طور کمزوریوں اور خامیوں کا احتساب کرکے اُن کا علاج کرتے اور مثبت پہلوو ¿ں کو ہی زیادہ تر اُجاگر کرتے تاکہ ہماری جدوجہد سے جڑے عام انسان کے دل میں یہ بات بیٹھ جاتی کہ اس قوم کا حوصلہ آسمانوں کو چھو رہا ہے، سخت سے سخت حالات میں بھی ہم کہیں نہ کہیں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔ دلائل کے ساتھ درجنوں ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ جن کے ذریعے سے یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ کشمیری قوم نے گزشتہ دودہائیوں میں کتنا کچھ پایا ۔ شکست خوردہ ذہنیت کا ایک طبقہ مفروضوں پر مبنی یہ بات قوم کے ذہنوں میں بیٹھانے کی کوشش کررہا ہے کہ تحریک حق خود ارادیت کی جدوجہد نے اس قوم کو کچھ نہیں دیا ،حالانکہ جس مقصد کے لیے ہم جدوجہد کررہے ہیں اگر چہ ہم ابھی تک وہ نشانہ پانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں لیکن اس سفر میں راہ چلتے ہوئے ہم نے بہت کچھ پایا بھی ہے۔ تعلیم زندہ قوموں کی پہچان ہوتی ہے۔جنگ زدہ خطہ میں رہنے کے باوجود کشمیری قوم نے تعلیم کے ساتھ کوئی کمپرومائز نہیں کیا ہے۔ اپنی نسلوں کو تعلیم کے نور سے آراستہ کرنے کے لیے ہر سختی جھیلی ہے،بم اور بارودکے مہیب سائیوں میں، چھاپوں اور کریک ڈاونوں میں بھی، فرضی جھڑپوں کے باوجود اس قوم نے اپنے نونہالوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا ہے۔ مخالف طاقت نے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی کہ یہاں جہالت عام رہے لیکن داد دیجئے گا عام کشمیریوں کا کہ جنہوں نے سخت حالات میں بھی، کم وسائل کے باوجود، خوف اور دہشت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی نئی نسل کے تعلیمی سفر کو متاثر نہیں ہونے دیا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ کشمیری طالب علم دنیا کے ہر خطے میں اپنی قابلیت اور ذہانت کا لوہا منوارہے ہیں۔
گزشتہ کئی برسوں سے یہاںدسویں اور بارہویں جماعت میں امتحانات کے نتائج ہر اعتبار سے حوصلہ افزاءہیں۔ جنگی صورتحال کے باوجود قومِ کشمیر کی نوجوان نسل اپنی صلاحیتوں کو لوہا منوا رہے ہیں۔ اس سال دسویں جماعت کے نتائج برآمد کیا ہوئے کہ دو طالب علم ریاست میں بھی اور ریاست سے باہر بھی توجہ کا مرکز بن گئے۔ افضل گورو جنہیں اپنے وقت کی حکومت ہند نے سیاسی مفادات کے خاطر تمام قانونی و اخلاقی لوازمات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تختہ ¿دار پر چڑھا دیا تھا، کے فرزند ارجمند غالب گورو نے474 نمبرات حاصل کرکے پوزیشن ہولڈرس میں اپنا نام درج کروایا۔ اِسی طرح گزشتہ برس ماہ آگست میں ہی ایک معرکہ آرائی کے دوران داعی ¿ اجل کو لبیک کہنے والے پلوامہ کے گلزار احمد بٹ نامی لشکر طیبہ کے عسکریت پسند کے بیٹے نذر جہانگیر بٹ نے 472 نمبرات حاصل کرکے ثابت کردیا کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی یہاں کی نسل نو قوم کا مستقبل سنوارنے کے حوالے سے غافل نہیں رہتی۔ غالب گورو کا نام برسوں سے میڈیا میں گردش کرتا رہا ہے۔ اُن کی ماں اور بزرگ دادی کے ساتھ ساتھ اُنہیں بھی سرینگر سے دلّی تک دردر کی خاک چھانٹنا پڑی۔یہ مظلوم خاندان برسوں اضطراب اور ذہنی کشمکش میں مبتلا رہا۔ لازمی طور پر غالب کا ذہن بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہا ہوگا۔ اپنی ماں اور دادی کی بے بسی اور اپنے والد کو محض سیاسی مفادات کے پیش نظر تختہ دار پر چڑھانے کی یادیں اور اُن سے آخری ملاقات نہ کرنے کا صدمہ اس معصوم ذہن کو ہمیشہ متاثر کرتا رہے گا۔ اس خاندان پر کیا حالات گزر چکے ہوں گے، اس کا اندازہ عام حالات میں ہم نہیں کرسکتے ہیں۔ اس کے باوجود پوزیشن ہولڈرس میں اپنا نام درج کرکے غالب افضل گورو نے ثابت کردیا کہ وہ ایک ذہین قوم کا بیٹا ہے اور اپنی ذہانت اور قابلیت سے وہ دنیا پر ظاہر کرسکتا ہے کہ جس فرد کو جھوٹے الزامات میں سولی پر چڑھا لیا گیا تھا، اُس کا بیٹا اپنی محنت اور لگن سے اجتماعی ضمیر پر یہ واضح کررہا ہے کہ ہم کوئی”دہشت گرد“ قوم نہیں ہے بلکہ ظلم و جبر کی چکی میں پھنسی ایک ایسے دیس کے باسی ہیں جن کے سیاسی حقوق پر شب خون مارا گیا۔نذر جہانگیر بٹ کا باپ عسکریت پسند تھا۔ جن دنوں وہ امتحان کی تیاریاں کررہا تھا اُنہی دنوں میں اُن کا والد صاحب ایک خونریز جھڑپ میں اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس معصوم بچے کی ذہنی حالت کیا ہوئی ہوگی اور امتحانات پر کس حد تک وہ اپنی توجہ مرکوز کرسکا ہوگا۔گلزار احمد بٹ لشکر طیبہ کا مطلوب ترین جنگجو تھا۔ اُن کی تلاش میں بار بار اُن کے گھر پر چھاپے پڑتے تھے۔ ایک ایک لمحہ اس خاندان کو خوف اور دہشت میں گزارنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ ہر وقت وردی پوشوں کے آدھمکنے کا ڈر لگا رہتا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب جان کے لالے پڑرہے ہوں گے تعلیم ، امتحان اور کامیابی حاصل کرنے کی تمنائیں ہی مر جاتی ہیں۔ اسی طرح ترال کے معروف جنگجو برہان وانی کی بہن نے بارہویں جماعت میں اعلیٰ نمبرات حاصل کرکے تاریخ رقم کی ہے۔ حالانکہ اس معصوم بچی نے اپنے ایک بھائی کی گولیوں سے چھلنی لاش دیکھی ہے، دوسرے بھائی کے پیچھے وردی پوش دن رات لگے رہتے ہیں ۔ اپنے دو جوان خوبصورت، باصلاحیت اور عزیز بھائیوں کو موت کی ڈگر پر محو سفر دیکھ کرایک معصوم بہن کے دل پر کیا گزرتی ہوگی، اس کا ذرا برابر اندازہ بھی ہم نہیں کرسکتے ہیں۔ لیکن جب امتحان اور امتحان میںکامیابی کی بات آتی ہے تو ملّت کی یہ بیٹی ثابت کرتی ہے کہ کشمیری قوم سخت سے سخت حالات میں بھی دنیا کے ساتھ آگے بڑھنے کی جدوجہد کے سلسلے میں کوئی کمپرومائز نہیں کرسکتی ہے۔ یہ صرف تین مثالیں ہیں، ورنہ اگر اعداد و شمار جمع کرنے بیٹھ جائیں تو ہزاروں نام سامنے آئیں گے جو نامساعد حالات کا شکار ہونے کے باوجود اپنی نوجوان نسلوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھارہے ہیں، جو قوم و ملت کو درپیش چلیجنز کا سامنا کرنے کے لیے دماغ پیدا کرنے کا کارِ عظیم انجام دے رہے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں نے ہمیں کیا دیا۔ جدوجہد پر مبنی اس پُر آشوب دور نے ہمیںغالب اور نذر جیسے بیٹے دئے ہیں جو سخت اور کٹھن حالات میں بھی جیت کے نشانے کو پانے کا عزم رکھتے ہیں، جو ذہنی تناو ¿، دہشت اور خوف کو ہرا کر اُن سے آگے بڑھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہ دو نوجوان اُن ہزاروں بچوں کی ترجمانی کرتے ہیں جو گزشتہ نامساعد حالات کے دوران تولد ہوئے اور جنگی حالات میں بھی اپنے لیے اور اپنی ملت کے لیے راہیں تلاش کرنے کے لیے محنت اور لگن کے ذریعے سے کامیابی کی کسی بھی اونچائی کو چھو سکتے ہیں۔یہاں وہ عظیم مائیں بھی خراج تحسین کی مستحق ہیں جنہوں نے بیوہ ہوکر بھی اپنے بچوں کے تعلیم کو متاثر ہونے نہیں دیا۔ اونتی پورہ کے ایک یتیم بچے نے بھی امتحانات میں اچھے نمبرات لے کر دکھایا کہ ذہانت اور محنت کے آگے مشکلات کا سیلاب بے معنی رکاوٹ ہوتاہے ۔
ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، نہ ہی ہمیں وہ جدید سہولیات دستیاب ہیں جن کے ذریعے سے ہم مسابقتی اور مقابلہ جاتی امتحانات میں ترقی یافتہ قوموں کا مقابلہ کرسکتے لیکن ہمارے پاس خداداد ذہانت ہے، ہمارے پاس لگن ہے، ہم کسی بھی صورتحال میں سب کچھ بھلا کر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے کا ہنر جانتے ہیں۔قومی و ملّی قیادت کے لیے لازمی ہے کہ وہ ایسے ہونہار طالب علموں کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی کریں۔ انہیں ایوارڈوں اور شاباشیوںسے نوازیں، ان کے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لیے اقدامات کریں، انہیں اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن سہولیات میسر رکھنے کا انتظام کریں۔ بزرگ حریت قائد سیّد علی گیلانی صاحب کا یہ قدم اَحسن ہے کہ وہ اس سال میٹرک میں اعلیٰ مقام پانے والے طلبہ کو انعامات سے نوازیں گے۔ہماری جدوجہد طویل ہوتی جارہی ہے۔ دنیا ایک ایسے دور میں جارہی ہے جہاں باصلاحیت اور ذہین لوگ دماغوں کے ذریعے سے قومی مقاصد حاصل کرنے کی جنگ لڑیں گے۔ آنے والا وقت ہمارا ہو ، اس کے لیے لازمی ہے کہ ہم اپنے ان ہونہار اور ذہین بچوں کو زندگی کے ہر میدان میں خدمات انجام دینے کے لیے تیار کریں۔ غالب، نذر اور وہ تمام طالب علم جو مختلف امتحانات میں اپنی مظلوم قوم کا نام روشن کررہے ہیں ، واقعی مبارک بادی کے مستحق ہیں اور یہ لٹی پٹی قوم اُن سے یہی اُمید کرے گی کہ وہ کامیابیوں کا یہ تسلسل برقرار رکھیں گے ۔مستقبل میں اپنی سیاسی جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اپنی شخصیت میں نکھار پیدا کریں گے۔
رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ