دلی کی صوفی کانفرنس


دلی کی صوفی کانفرنس
یہ بیل منڈھے نہ چڑھی

آل انڈیا علماءو مشائخ بورڈ نامی کسی غیر معروف تنظیم کے اہتمام سے ۱۷مارچ سے ۲۰مارچ تک ”انٹر نیشنل صوفی کانفرنس“ منعقد ہوئی۔ کانفرنس کا آغاز وگیان بھون نئی دلی میں ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر سے ہوا۔ ۱۸اور ۱۹مارچ کو کانفرنس کے مختلف سیشن اسلامک کلچر سینٹر میں منعقد ہوئے۔ اختتامی اجلاس ۲۰مارچ کو رام لیلا میدان میں ہوا۔بقول کانفرنس آرگنائزر کے اجتماع میں ۲۵ ممالک کے نمائندوںنے شرکت کی، جن میں مختلف درگاہوں کے مجاوروں اور خانقاہوں کے متولیوں سمیت ایک مخصوص فکر سے وابستہ مقررین اور مبلغین بھی شامل تھے۔کانفرنس کے پہلے روز شرکاءنے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا استقبال”بھارت ماتا کی جے“کا نعرہ لگا کر کیا گیا اور قوالی کے ذریعے تقریب کی شروعات ہوئی۔اس کانفرنس کو ہندوستان بھرمیں موجود ایک مخصوص فکر سے وابستہ لوگوں سے منسوب کیا گیا، حالانکہ اُس طبقے سے وابستہ نامور علمائے کرام نے قبل از وقت اس کانفرنس اوراس کے ایجنڈے کی کڑی الفاظ میں نکتہ چینی کرتے ہوئے اجتماع کو مسلمانوں کی تقسیم کا استعماری حربہ قرار دیا تھا۔جمعیت علمائے ہند کے دونوں دھڑوںنے بھی اس کانفرنس کو سازش سے تعبیر کیا ہے۔۱۱فروری کو ہندوستانی مسلمانوں کے مختلف لیڈروں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس کانفرنس کے انعقاد کو ہندوستانی مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی ایک چال قرار دیا ۔انہوں نے کہا کہ جاہ پسندوں پر مشتمل ایک گروپ حکومتی مدد سے ان مسلم دشمن سازشوں کا آلہ ¿کار بن رہا ہے۔پریس کانفرنس میں مذکورہ لیڈروں نے یہ الزام عائد کیا کہ اس کانفرنس کے منتظمین کو حکومت بھاری رقومات فراہم کررہی ہے۔۷مارچ کو آل انڈیا علماءو مشائخ بورڈ کے ذمہ داروں نے بھی ایک پرنس کانفرنس کے دوران قبول کیا کہ حکومت ہند اس کانفرنس کے انعقاد میں مالی تعاون دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی امداد و مدد کے بغیر ایسی کانفرنس کا انعقاد کرنا ناممکن تھا۔۸مارچ کو بریلوی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے پریس کے نام بیان جاری کرتے ہوئے اس کانفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کیا ۔آل انڈیا سنی جمعیت علماءآف مہاراشٹرااور رضا اکیڈمی کے علاوہ دیگر بریلوی مکتب ِفکر سے وابستہ اداروں او رعلماءنے اپنے بیان میں کہا کہ”صوفی کانفرنس“ کا انعقاد کرنے والے کچھ طاقتوں کے اشاروں پر ایسا کررہے ہیں۔،جو چاہتے ہیں کہ مسلمان مسلکی اور مکتبی بنیادوں پر آپس میں دست و گریباں ہوجائیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے افتتاحی تقریر میں تصوف کا پیغام عام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تصوف اسلام کے اصولوں اور سب سے زیادہ انسانی اقدار پر فوکس کرتا ہے۔ تصوف کے فروغ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک ایسا کام ہے جسے ریاستوں، معاشروں، اولیائ، علماءکرام اور خانوادوں کو یقینی طور پر کرنا چاہیے۔ بھارتی وزیر اعظم نے پاکستان کی جانب اشارتاًکہا کہ کچھ لوگوں کو منظم کیمپوں میں تربیت دی گئی ہے جب کہ کچھ ایسے ہیں جنہیں سائبر دنیا میں اس کی ترغیب ملتی ہے۔کچھ ایسی طاقتیں اور تنظیمیں ہیں جو ریاست کی پالیسی اور منصوبہ بندی کے اوزار ہیں ، کچھ ایسے ہیں جنہیں گمراہ عقیدے کی وجہ سے اس کام کے لئے آمادہ کیا جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ وہ دوسری جگہ پر دوسروں کو مارنے سے تو اپنی ہی زمین پر اپنے ہی لوگوں کو زیادہ ہلاک کررہے ہیں جس سے پوری دنیا غیر محفوظ اور پرتشدد ہوتی جارہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کے نناوے نام ہیں جن میں سے کسی میں بھی ”تشدد“ کا لفظ نہیں ہے۔ بہر صورت ان کی گل افشانیوں پر تبصرہ کر نے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ مودی کی وزارت عالیہ کی چھتر چھایہ میں گجراتی مسلمانوں کے قتل عام اوربھاجپا حکومت کی زمام کا ر اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد مسلم اور دلت اقلیتوں کے خلاف پر تشدد کارروائیاں انڈیا کے باشعور شہر یوں سمیت اوبامہ پر بھی واضح ہیں ۔ اوبامہ نے بلاو جہ نے اپنے دورہ ¿بھارت کا اختتام اس بم شل سے نہ کیا کہ ملک میں عدم رواداری اور مذہبی تعصب پر روک لگائی جائے ۔ یہ چیزیں صوفی کانفرنس میں ان کے خیالات کی تردید کے لئے کافی ہےں۔ کانفرنس کے سلسلے میں ایسی بھی خبریں اخباروں کی شہ سرخیاں بنیں کہ آل انڈیا علماءو مشائخ بورڈ نامی غیر معروف تنظیم کی سرپرستی بی جے پی گورنمنٹ کررہی ہے اور اُسے یہ کانفرنس منعقد کرانے کے لیے حکومت کی جانب سے مبینہ طور ۱۶کروڑ روپے فراہم کئے گئے۔اس اجلاس میں ”سیاسی اسلام“ کا توڑ کرنے کے لیے ”ورلڈ صوفی فورم “ نام کے ایک نئے اتحاد کی تشکیل بھی کی گئی۔ایک غیر معروف تنظیم کی جانب سے ایسی کانفرنس کا انعقاد اور کانفرنس کا آغاز بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر سے ہونا بھی اس امر کو صحیح ثابت کررہا ہے کہ یہ سب حکومتی سرپرستی میں ہورہا ہے۔ اور ایسی کانفرنس کے اغراض و مقاصد بھی واضح طور پر سامنے آرہے ہیں۔
اگست۲۰۱۵ءمیںآل انڈیا علماءو مشائخ بورڈ کے بینر تلے چالیس افراد پر مشتمل ”صوفی ازم“ کے ماننے والوں کا ایک وفد وزیر اعظم ہند نریندر مودی سے ملاقی ہوا۔ اس ملاقات کے دوران بھارتی وزیر اعظم کے ہمراہ اُن کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائز اجیت دول بھی رہے تھے۔ اجیت دول آئی بی کے سابق چیف رہے ہیں اور خفیہ ایجنسیوں میں منصوبہ بندی کرنے والا ایک اسمارٹ دماغ تصور کئے جاتے ہیں۔ اُن کی سربراہی میں ایک فاونڈیشن کام کررہی ہے جس کا نام ”وی ویکانندہ فاو ¿نڈیشن“ ہے ۔ ہندوستانی وزیر اعظم کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اور سابق آئی بی چیف کی نگرانی میں کام کرنے والا یہ فاو ¿نڈیشن مختلف گروپوں کی بوجوہ سرپرستی کررہا ہے۔ آل انڈیا علماءو مشائخ بورڈ بھی ایسا ہی ایک گروپ ہے جس کی سرپرستی ”وی ویکانندہ فاو ¿نڈیشن“ کررہا ہے۔ اس ملاقا ت میں چالیس نفری وفد نے وزیر اعظم ہند سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ”شدت پسند“ مسلم تنظیموں، افراد اور اداروں کے خلاف سخت کارروائی کریں اور بیرون دنیا کی رقومات سے پنپنے والی فکر سے وابستہ لوگوں کو ہندوستان بھر کی اوقاف کمیٹیوں اور بورڈز سے نکال باہر کریں۔مسلمانوں کی طاقت توڑنے کے لیے اگر پریوار کے چہیتے لوگ میدان میں ہوں تو ”عالمی صوفی فورم“ نامی تنظیموں کا وجود میں آنا کوئی انہونی بات نہیں لگتی۔ البتہ سوچنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کہ ہندوستان میں فرقہ پرست طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آگ اُگل رہی ہے ایک مخصوص گروہ کی سرپرستی کیوں کی جارہی ہے؟عالمی حالات پر اگر نظر ڈالی جائے تو امریکہ نے مسلم ورلڈ میں ایک ایسا بھوت پہلے ہی کھڑا کر لیا ہے جس کی آڑ میں وہ اور اُس کی حلیف استعماری قوتیں اُمت مسلمہ کی سرزمین پر نہ صرف موجود رہ سکتی ہیں بلکہ اُن کا قتل عام کرنے کی اُنہیں لائنس بھی مہیا رہے گی اور اُن کے وسائل کو دو دو ہاتھوں لوٹنے کا بہانہ بھی میسر رہے گا۔ ”ہندوتوا“ طاقتیں جن کی گنگا جمنی تہذیب کے حامی ہندوستان میں اس وقت حکومتی دبدبہ بھی ہے، کا ایجنڈ ا یہ رہا ہے کہ ”ہندوستان میں جنہیں رہنا ہوگا وہ ہندو بن کر ہی رہ سکتے ہیں۔“ اس خاکے میں رنگ بھرنے کے لیے لازمی ہے کہ وہ ہر وقت اقلیتوں باالخصوص مسلمانوں کی نسل کشی کرتے رہیں، اُنہیں ذہنی دباو ¿ میں رکھ کر اُن کی معاشرتی، سماجی ، ثقافتی اور مذہبی سرگرمیوں کو محدود کریں۔ مغرب کی طرح انڈیا کو بھی ایک ”بھوت“ چاہیے اور” شدت پسندی کا توڑ“ کر نے کے بہانے ہمیشہ مختلف گروہوں کی ہوا کھڑی کردی جاتی ہے۔ تازہ کوشش کے طور پر کہا گیا کہ ہندوستان آئی ایس آئی ایس کے نشانے پر ہے اور اس کے لیے عراق اور شام میں سرگرم یہ تنظیم بھارت میں بھی بھرتی کررہی ہے۔ اس نام پر ہندوستان بھر میں مسلم نوجوانوں کو نشانہ بنانے کا آغاز کب کا کیا جاچکا ہے۔ آثار و قرائن بتا رہے ہیں کہ آنے والا وقت ہندوستانی مسلم نوجوانوں کے لیے زیادہ سخت اور کڑا ہوگا۔ آئی ایس آئی ایس کے نام پر جب وسیع پیمانے پرفرضی انکاونٹر شروع ہوجائیں گے، گرفتاریاں ہونے لگیں گی، قانون بننے لگیں گے، مذہبی معاملات میں مداخلتیں ہونے لگیں گی تو انسانی حقوق کی تنظیموں اور دنیائے انسانیت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی زبان بند رکھنے کے لیے کوئی نہ کوئی جادوئی چھڑی بھی تو ہونی چاہیے۔ ”ورلڈ صوفی فورم“وہی جادوئی چھڑی ہے جو اندرون و بیرون دنیا بھارت کی جانب سے کی جانے والی ہر مسلم دشمن کارروائیوں کوجائز ٹھہرائے گی۔ یہ تنظیم او ریہ لوگ حکومت سے مطالبہ کرتے رہیں گے کہ شدت پسندمسلمانوںاور اسلامی نظام کی بات کرنے والوں کی لگام کسی جائے اور اُن کی سرگرمیوں پر قدغن لگائی جائے تو حکومت ہند دنیا کو بتاتی رہے گی کہ وہ جو کچھ کررہے ہیں مسلمانوں کی ”اکثریت“ کے کہنے پر کررہی ہے۔صوفی ازم کے نام پر ہونے والی اس کانفرنس سے ظاہر ہورہا ہے کہ آنے والے وقت میں ہندوستان میںکام کرنے والی اسلامی تحریکات ، اداروں اور علمائے کرام کی دعوتی سرگرمیوں پر زمین تنگ کی جاسکتی ہے۔یہ فورم الیکشن میں مسلم ووٹ تقسیم کرنے میں بھی کارگر ثابت ہوسکتاہے۔ جیسا کہ گزشتہ برسوں سے بی جے پی لیڈر سبھرامنیم سوامی کئی مرتبہ برملا کہہ چکے ہیں کہ مسلمانوں میں سے صوفی ازم کے علمبرداروں کی پشت پناہی کرکے ہم مسلم ووٹ کو توڑ سکتے ہیں اور مسلم ووٹ کے تقسیم ہونے سے فائدہ بی جے پی کو حاصل ہوگا۔ سب سے بڑا فائدہ جو اس شاطرانہ طرز سیاست سے حاصل کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اُلجھا دیا جائے گا۔ 
وزیر اعظم ہند نریندر مودی کی تقریر پر صوفی ازم کے یہ نام نہاد علمبردار تالیاں بجا بجا کر داد دے رہے تھے،کیا اُن کی یاداشت اُس حد تک کمزور ہوچکی ہے کہ اُنہیں گجرات اور مظفر نگر یاد ہی نہیں رہا تھا یاپھر نذرونیاز میں مست تھے؟۲۰۰۲ءمیں گجرات میں جنونی فرقہ پرستوں نے یہ نہیں دیکھا تھا کہ یہ” شدت پسند“ سلفی کا گھر ہے اور یہ” دہشت گرد“ جماعتی کا گھر ہے، انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا تھا کہ یہ دیوبندی کی ماں بیٹی بہو ہے اور یہ بریلوی کے گھر کی عزت و آبرو ہے بلکہ انہوں نے صرف ایک شناخت ”مسلم“کو دیکھا، پہچانا اور پھر وہ سب کچھ کیا جس سے شیطان کی بھی روح بھی کانپ اُٹھتی ہے۔ نہ سابق کانگریسی ممبر پارلیمنٹ احسان جعفری کولبرل مسلمان ہونے پر کوئی چھوٹ ملی ، نہ کسی صوفی درویش کو بخشا گیا، نہ کسی درگاہ وخانقاہ کے مجاورو متولی کو معاف کیا گیا۔ جلاو ¿ اور گھیراو ¿ کے دوران آستانوں پر ماتھا نہیں ٹیکا گیا بلکہ مسلم شناخت کی ہر چیز کو تہس نہس کرکے زمین بوس کردیا گیا۔ نریندر مودی کی امن اور شانتی کا آج کا یہ اپدیش اُس وقت کہاں گیا تھا؟عشرت جہاں تو نہ ہی دیوبندی تھی اور نہ ہی سلفی، وہ جماعتی بھی نہیں تھی اور نہ ہی اُس کا تعلق آئی ایس آئی ایس سے تھا۔ پھر کیوں اُس کا دن دھاڑے انکاونٹر کیا گیا؟ احسان جعفری تو ایم پی تھا، سیکولر کانگریسی تھا، اپنے آپ کو فخراً ہندوستانی کہلاتا تھا، مسلم سواداعظم کے تئیں اُس کا یہی طرز عمل تھا جو آج کے وگیان بھون کے ان صوفیوں قوالوں کا ہے پھر اُن کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیوں کئے گئے؟ اُن کے گھر کی عورتوں کی عزت اور عصمت کیوں تار تار کی گئی؟ صوفیت کے نام پر وظیفہ کھانے والے ا ن ناعاقبت اندیش لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ وقت آنے پر ان کی یہ ”دنیا بناو ¿ صوفیت“ کسی کام نہ آئے گی اور نہ ہی شاہ سے زیادہ وفادار بننے کی مسخرانہ ادائیں ان کاکچھ بھلا کرسکیں گی کیونکہ فرقہ پرست ذہنیت کے سامنے آپ کی بھی وہی حیثیت ہے جو دوسرے مسلمانوں کی ہے، یہ تو اپنے دلت ہندوو ¿ں کو نہیں بخشتے تمہیں کیا مانیں ؟ اس مغالطے میں نہ پڑنا کہ یہ ہمارے ہیں بلکہ مسلمانوں کی طاقت توڑنے کے لیے وقتی طور وہ آپ کو استعمال کررہے ہیں ۔ جس دن اُنہیں معلوم پڑ جائے کہ اب آپ کی ضرورت نہیں رہی اُس دن یہ ایڈوانی ا ور جوشی کی طرح تمہیں بھول جائیں گے، پھر نہ خاد ملے گا نہ وصال ِ صنم ہوگا ۔ یہ ایک اطمینان بخش امر ہے کہ اہل سنت والجماعت سے منسلک تما م مسلم رہنماو ¿ں نے ”صوفی کانفرنس“ کو بیک آواز مسترد کردیا ۔ حق بات یہ ہے کہ اس مودی کانفرنس کی بیل منڈھے نہ چڑھی۔۔ عام مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسی کانفرنسوں کے اسباب ومحرکات دیکھیں، سمجھیں اور سوچیں اور ان کے پس پردہ اغراض و مقاصد کو جانیں۔ مسلمانوں کی فکری و مذہبی قیادت پر فرض عائد ہوتاہے کہ وہ ایسی سازشوں کا مسلک ومشرب سے بالاتر ہو کر مشترکہ طور بروقت توڑ کریں اور اپنے عقائد ، ملّی تشخص اور قومی ایکتا کو ہرحال میں برقرار رکھیں۔
رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ