کرپشن.... سماج کے لیے زہر ہلاہل

٭
ریاست جموں وکشمیر میں جہاں سیاسی اتھل پتھل سے سرکاری دفاتر کا کام کاج بُری طرح سے متاثر ہوتارہا ہے وہیں دفاتر میں کرپشن ، اقربا پروری، کام چوری، کچھ نہ کرنے کی بیماری اور سرکاری نوکریوں کو حرام کمانے کا آسان ذریعہ سمجھنے کی سوچ نے یہاں کے پوری سسٹم کو ہی مفلوج بناکر رکھ دیا ہے۔ مسلمانی کا دعویٰ ہمیں خوب ہے۔ ہم نمازیں بھی ادا کرتے ہیں، مسجد کی پہلی صف میں بیٹھ کر تکبیر اولیٰ بھی ضائع نہیں کرتے ہیں ، ہم دفاتر سے بھاگ کر دین کے کام میں بھی جٹ جاتے ہیں لیکن ہمارا دماغ اس سوچ اور سمجھ سے خالی ہیں کہ فرض شناسی، اپنے کام کے تئیں دیانتداری ، عوام الناس کی خدمت کا جذبہ ہی اصل میں وہ مطلوب صفات ہیں جن کے ذریعے سے ہماری بدنی عبادات اثر انداز ہوسکتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں جائیں تو خاکروب سے لے کر ڈاکٹر تک ہرکوئی عام انسان سے اس طرح پیش آتا ہے جیسے شفا خانے میں کوئی مریض نہیں بلکہ جیل خانہ میں کسی خطرناک مجرم کولایا گیا ہو۔ پچاس پچاس ہزار کی تنخواہ پانے والی نرس تب تک نوزائد بچے کو لواحقین کے سپرد نہیں کرتی ہے جب تک نہ اُسے چائے کے نام پر رشوت دی جائے۔ المیہ تو یہ ہے کہ زچہ اور بچہ ہسپتال میں نرسیں اور صفائی کرنی والی خادمائیں اُن مریضوں کو بھی نہیں بخشتی ہیں جنہو نے مردہ بچے کو جنم دیا ہوتا ہے۔ شعبہ تعلیم کے اعلیٰ دفاتر میں جائیں تو کرپشن کا حال یہ ہے کہ معمولی کام کے لیے بھی باہر کے گیٹ سے ہی ملازمین کی مٹھیاں گرم کرنی پڑتی ہیں۔ سول سیکریٹریٹ جہاں تمام دفاتر موجود ہیں ، جہاں ہزاروں ملازمین کام کرتے ہیں اور جہاں کے ملازمین غریب عوام کے ٹیکس سے عیش کررہے ہیں میں دور دراز اور غریب لوگوں کو اپنی حاجات کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ مہینوں ایک دروازے سے دوسرے دروازے کے چکر کاٹنے کے باوجود لوگوں کے کام نہیں ہوتے ہیں۔ بار بار یہ بھی شکایات موصول ہوتی ہیں کہ کئی دفاتر میں مجبور اورغریب بیوو ¿ں اور لاچار خواتین کا استحصال بھی کیا جاتا ہے۔ ایک غریب اپنی معمولی کام کے غرض سے جب سرینگر کے سول سیکریٹریٹ میں داخل ہوا ، تو وہاں اپنے جیسے ایک اور دور دراز کے دیہاتی کو روتے بلکتے ہوئے دیکھا۔ اُن سے ماجرہ دریافت کیا تو انہوں نے کسی اراضی کے معاملے کی کا ذکر کیا اور کہا کہ گزشتہ دس روز سے یہاں پر آتا رہا لیکن میری کوئی نہیں سنتا۔ کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس خدا کے بندے نے مذکورہ شخص پر ترس کھاکر اُسے کہا کہ یہاں رشوت کا راج چلتا ہے۔ آپ نے مطلقہ ذمہ داروں کو رشوت نہیں دی ہوگی اس لیے آپ کی کوئی نہیں سنتا۔ یہ کہنا ہی تھا کہ پیچھے سے سول سیکریٹریٹ میں تعینات ایک پولیس والے نے اس دونوں کی گفتگو سنی اور دلانے دینے والے غریب سے کہا کہ آپ رشوت دینے کے لیے اس شخص کو اُکسا رہے ہو۔ چلو آپ تھانے ، وہاں آپ پر کیس ہوگا۔ بچارہ اپنی صفائی دیتا رہا لیکن پولیس والا ایک نہ مانا اور اُس غریب شخص کو سیکریٹریٹ سے باہر لے گیا۔ گیٹ سے باہر لے جاکر اُس کے جیب کی تلاشی لی ، جہاں تین سو نقدی کے علاوہ ایک اے ٹی ایم کارڈ برآمد ہوا۔ پھر اس کو اے ٹی ایم پر لے گیا جہاں اُسے کہا کہ چیک کریں آپ کے اکاونٹ میں کتنا پیسہ موجود ہے۔ غریب بچارہ کیا کرتا ۔ وردی پوش کے سامنے بے بس ہوکر اے ٹی ایم میشن سے اکاونٹ میں موجود تین ہزار روپے مذکورہ پولیس والے کے حوالے کرکے اپنی جان چھڑائی۔ڈاکوو ¿ں جیسا یہ طرز عمل یہاں کے ہر دفتر میں پایا جاتا ہے۔ ریاست جموں وکشمیر شاید واحد جگہ ہے جہاں سرکاری دفاتر میں کام چوری اور رشوت ستانی کا بازار اس قدر عروج پر ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں، کسی کو اللہ کے خوب کا اندازہ بھی نہیں ہے۔ اِک دوڑ لگی ہوئی ہے کالا دھن جمع کرکے عیش کوشی کا سامان فراہم کرنے کی۔یہاں کہنے کو حکومتیں بھی بنتی ہیں لیکن وہاں بھی لوگ اقتدار کے سنگھاسن پر صرف اس لیے براجمان ہونے کی دوڑ میں پڑجاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ دولت بٹور سکیں۔سیاسی جماعتیں الیکشنوں میں یہاں حرام پیسہ پانی کی طرح بہاتی ہیں۔ ووٹروں کو پیسہ دیا جاتا ہے۔ پروپیگنڈا مشینری پر اربوں اور کھربوں خرچ کیے جاتے ہیں۔ بعد میں جب اقتدار حاصل ہوجاتا ہے تو عوامی کی رگوں سے خون نچھوڑ ا جاتا ہے۔ عیش پرستی کے عادی حکمران کی راہ پر پھر بیروکریٹ اور عام ملازمین بھی چلتے ہیں ۔ یہ کرپشن کا ہی نتیجہ ہے کہ قابل اور ہونہار ڈاکٹر ہونے کے باوجود ہمارا طبی نظام درہم برہم ہوچکا ہے۔ اچھے اساتذہ موجود تو ہیں لیکن سرکاری ایجوکیشن کا حال اس قدر خستہ ہے کہ اگر حالت یہی رہی تو آنے والی ایک دہائی میں ہمارے سرکاری تعلیمی نظام کا حال اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن سے مختلف نہیں ہوگا۔اس خستہ اور کرپٹ نظام سے تنگ آکر یہاں کی صلاحتیں بیرون دنیا منتقل ہورہی ہیں۔ دماغ ہجرت کررہے ہیں۔ ہماری اسٹیٹ سےBrain Drain ہورہا ہے۔ تعلیم یافتہ ، اعلیٰ ذہانت کے حامل اور کچھ کرنے کی چاہت رکھنے والے لوگوں کی یہاں زمین تنگ کی جاتی ہے اور وہی جب بیرون دنیا جاتے ہیں تو نہ صرف خوب دولت کما لیتے ہیں بلکہ اپنے اپنے شعبوں میں نام پیدا کرتے ہیں۔ڈاکٹر یہاں سے بھاگ رہے ہیں ہم پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ یہ پیسوں کی خاطر بھاگ رہے ہیں جبکہ اصل حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ اُنہیں یہاں کام نہیں کرنے نہیں دیا جاتا ہے۔اُن کے لیے زمین یہاں تنگ کی جاتی ہے۔ یہاں عالمی سطح کے ماہر قلب معالج ڈاکٹر شال نے ایشیاءکا سب سے بڑا دل کے امراض کا ہسپتال بنانے کی سنجیدہ کوشش کی۔ اُس وقت کی نیشنل کانفرنس حکومت نے ڈاکٹر شال سے ہسپتال کی جگہ پر تعمیرات کھڑ اکرنے کی اجازت دینے کے لیے دس لاکھ کی رشوت مانگی۔ رشوت بھی کسی افسر یا منسٹر نے نہیں مانگی بلکہ وزیر اعلیٰ کے لیے اُس کے مشیر خاص نے مانگی تھی جس کا اظہار خود ڈاکٹر شال نے سرینگر کے ایک ہوٹل میں پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ یہ ڈاکٹر اپنا منصوبہ چھوڑ کر واپس امریکہ چلا گیا۔ ہم حقیقی معنوں میں سیاسی غلام ہیں۔ ہمارے سروں پر غیر مسلط ہیں لیکن یہاں کے دفاتر، ہسپتالوں ، کالجوں اور دیگر اداروں میں ۵۹فیصد سے زیادہ وہ لوگ کام کرتے ہیں جو کشمیری ہیں۔ مسلمان ہیں اور اس قوم سے اُن کا تعلق ہے۔ اُن کا اجتماعی کردار اگر کرپٹ ہے تو اس سماج کو اندر ہی اندر کھوکھلا ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بحیثیت سماج ہم اپنی صفوں کو درست کریں۔ خدا خوفی اور جواب دہی کا احساس ہی ہم میں ذمہ داریوں کا شعور پیدا کرسکے گا۔ آج نہیں تو کل یہ دنیا چھوڑ دینی ہے۔ اللہ کے سامنے حاضر ہوکر ایک ایک پل کا حساب دینا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ہم اپنی اجتماعی زندگی کو سنوارنے کے لیے اپنے آپ میںا نفرادی دیانتدارانہ کردار پیدا کریں۔ یہی ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے بہتر ہے اور فلاح و کامرانی کا راز بھی اِسی میں ہے کہ ہم اپنے قومی و ملی کردار کو اسلامی خطوط پر استوار کریں۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ