حکومت سازی کی ڈرامہ بازی
نقابیں اُٹھیں گی مگر دھیرے دھیرے

۷جنوری۲۰۱۶ءکو وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد ریاست جموں وکشمیرمیں گورنر راج نافذ العمل ہے کیونکہ پی ڈی پی ، بی جے پی مخلوط سرکار کی بھاگ ڈور سنبھالنے کے لئے پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے اپنی سیاسی حلیف دلّی سرکارکو” اعتماد سازی“ کے اقدامات کئے جانے کی مانگ کی ہے۔ اعتماد ساز ی میں خصوصی طور پر مالی پیکیج کے اعلانات کے علاوہ این ایچ پی سی سے کم از کم ایک پاور پروجیکٹ واپس ریاست کو دئے جانے کی یقین دہانی بھی شامل ہے۔گزشتہ برس مارچ میں دو ماہ طویل درپردہ بات چیت کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان حکومت سازی کے لیے ایک مشترکہ ایجنڈا تشکیل پایا ہے جس پر گزشتہ دس ماہ سے دونوں جماعتیں عمل پیرا ہونے کا زبانی دعویٰ کرتی آئی تھیں لیکن اچانک مفتی محمد سعید کی رحلت کے بعد ایسا کیا ہوا کہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کو مودی سرکار سے” اعتماد کی بحالی کے لیے اقدامات“ کی مانگ کر نے کی ضرورت پڑی۔ دلّی میں بی جے پی سرکار بر سر اقتدار میں آجانے کے بعد سے تاد م تحریر بھارت کئی اعتبار سے عالمی خبروں میں رہا ہے۔ خاص کرعدم برداشت اور مذہبی بھید بھاو ¿ کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بیرون دنیا بھارت کی خوب بدنامی ہوئی۔ اندرون خانہ اس کے ردعمل میں ادیبوں، دانشوروں، ممتاز ہستیوں ، فن کاروں اورسماجی کارکنوں نے سرکار کی جانب سے مختلف شعبوں میں ان کی اہم خدمات کے اعتراف میں دئے گئے اپنے اعزازات اور انعامات واپس کردئے ۔ عدم برداشت اور اقلیتوں کے تئیں ہندتوا طاقتوں کی جانب سے بڑھتی ہوئی زیادتیوں کے پیش نظر خیال یہ کیا جارہا تھا کہ اس اقدام سے بی جے پی سرکار دباو ¿ میں آکر اپنے منفی ارادوں کو ترک کردے گی مگر یہ اس وقت یہ خیال وجنوں ثابت ہو ا جب گزشتہ ماہ ۹ فروری کوجے این یو اور حیدر آباد یونیورسٹیز میں یکے بعد دیگرے اشتعال انگیز واقعات پیش آئے اور قومی سطح پر شدید تنقید کے باوجود یہ جماعت اپنی روش ترک کرنے کے موڈ میں نظر نہ آئی۔ ایسے میں ریاست جموں وکشمیر میں پی ڈی پی کا نیم دلانہ” دباو ¿“ کس قدر کام کرپایا ہے وہ اہل کشمیر کو گزشتہ دو ماہ کے دوران بخوبی دیکھنے کو ملا۔ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے حکومت سازی کے تعلق سے ایک طرح کا سیاسی سنیاس لیا تھا لیکن دلی میں نریندر مودی سرکار کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی،نہ ہی دلی سرکار نے پی ڈی پی کی نئی شرائط پر کان دھرا ہے اور نہ ہی اس جماعت پر ان دو ماہ میں زیادہ توجہ مرکوز کی ہے۔جموں وکشمیر سے دلّی تک بی جے پی کی یہ شان ِ بے نیازی پی ڈی پی کی صفوں میں یہ پیغام پہنچانے کے لیے کافی تھا کہ اقتدار کی ہوس اگر پوری کر نی ہے تو پھراپنی اوقات میں رہ کر بات کرنی چاہیے اور زیادہ رندانہ مطالبات نہیں بلکہ دلّی کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط کے مطابق سب کچھ چلنا چاہیے۔ دو ماہ کی مصنوعی ناراضگی کے بعد اب محبوبہ مفتی کو اپنے صحیح اوقات معلوم ہونے شروع ہوگئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اب اشاروں کنایوں میں اس جماعت نے بی جے پی کے ساتھ از سر نو حکومت سازی کے لیے ماحول ساز گار بنانے کا عمل شروع کیا جارہاہے۔ محبوبہ مفتی نے گزشتہ ہفتے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ”وہ نقادوں کی تنقید سے نہیں ڈرتی ہیں بلکہ چاہتی ہیں کہ مرکزی سرکار سے ایسے اشارے مل جائیں جن سے لگے کہ وہ ریاستی لوگوں کی تعمیر و ترقی کے لیے سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں۔“مطلب اب صرف اشارے دئے جائیں ، کوئی پیشگی شرط نہیں، نہ کسی مالی پیکیج کی مانگ بلکہ تم کچھ بھی نہ کہو کچھ نہ مانو ہم تب بھی تیار ہیں اقتدار میں ساجھ دار بننے کے لیے۔
ریاست جموں وکشمیر کی اسمبلی اور ارکان اسمبلی کی اہمیت ہر دور میں ربر کے مہروں سے زیادہ نہیں رہی ہے۔ سابق را چیف اے ایس دُلت نے اپنی کتابKashmir:The Vajpayee Years میں بہت ہی اہم بات لکھی ہے کہ” ریاست جموں وکشمیر میں لوگ آئی بی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں حتیٰ کہ اگر کسی کو گالی دینی ہو تو لوگ اُسے آئی بی کا ایجنٹ کہتے ہیں ، لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ کشمیر کا پورا نظام ہی آئی بی چلاتی ہے۔“مطلب بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھ میں یہاں کا سارا نظام رہا ہے۔ ایک متنازعہ ریاست ہونے کی حیثیت سے مختلف ایجنسیوں کی یہاں موجودگی کو قانونی جواز بھی فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ اس لیے یہاں عوام کے ووٹوں سے بننے والی حکومتوں کا کردار علامتی ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ سڑکیں اور پل تعمیر کرنے کی نگرانی یہ حکومتیں کرتی ہیں، باقی ریاست کے قضاو قدر کا فیصلہ آئی بی اور دلّی کی ہوم منسٹری ہی لیتی آئی ہے۔ اسمبلی کی قانونی حیثیت کا اندازہ کیا تھا،ا س کے لئے اندرا گاندھی کے دور اقتدار میں خالق میڈ اسمبلی ممبران کی تاریخ دلچسپی سے خالی نہیں۔ اسمبلی کی پاس شدہ آبادکاری بل کے بعد ڈیڑھ دہائی قبل فاروق عبداللہ کی قیادت والی نیشنل کانفرنس حکومت نے ریاستی اسمبلی میں اٹانومی بل کثرت رائے سے منظور کی تو دّلی میں واجپائی سرکار نے اُس بل کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ثابت کردیا کہ ریاست جموں وکشمیر کی اسمبلی ایک علامتی ادارہ ہے۔ اس کی قانونی وآئینی حیثیت وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے دلّی کے مفادات پر چوٹ پڑنے شروع ہوجاتے ہیں۔ کوئی بھی حکومت یا جماعت ہو ، ایک بات ہر اسمبلی ممبر کے ذہن نشین ہوتی ہے کہ اُس کی حیثیت عوامی نمائندے کی نہیں بلکہ دلّی کے یومیہ اجرت والے ملازم جیسی ہے اور وہ ایسا کوئی بیان نہیں دے سکتا، یا ایسے کسی اقدام کی حمایت نہیں کرسکتا جو دلی کو ناگوار گزرے۔ 
محبوبہ مفتی اپنی اصل حیثیت تھوڑی دیر کے لیے یاتو بھول چکی تھیں یا پھر جان بوجھ کر ڈرامہ کیا جاتا رہا تاکہ کشمیری عوام پر و ہی جادو آزمایا جائے جو رائے شماری سے ایکارڈتک کی تاریخ کا حصہ ہے ۔ مارچ۲۰۱۵ءمیں جب مفتی محمد سعید کی سربراہی میں بی جے پی ، پی ڈی پی اتحاد والی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو بڑے ہی چرچے تھے کہ مفتی محمد سعید ایک دور اندیش اور منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ دو ماہ کا وقت لے کر اُنہوں نے مودی سرکار سے سب کچھ منوا لیا ہوگا اور اب وہ ریاست میں اس انداز سے ڈیلور کریں گے کہ ریاست کی ترقی کے بند دروازے وا ہوجائیں گے۔ حالانکہ سیاسی تجزیہ کاروں نے اُسی وقت دونوں جماعتوں کے مشترکہ ایجنڈے کو دیکھ کر کہا تھا کہ گزشتہ حکومتوں کی طرح اس گٹھ جوڑ سے بھی زیادہ اُمیدیں وابستہ نہیں کی جانی چاہیے لیکن پی ڈی پی اور اُس کے حمایتی اخبارات اور قلم کاروں نے کشمیریوں کو سراب دکھانے شروع کردئے تھے۔ ایک مسلمہ فرقہ پرست جماعت کے ساتھ پی ڈی پی کے اتحاد کی تاویلیں پیش کرکے بی جے پی کو دائرے میں بند کرنے کی باتیں کی گئیں تھی لیکن بہت جلد واضح ہوا کہ پی ڈی پی نے جوالیکشن وعدے کیے گئے تھے ،اُن سے بی جے پی نے ہوا ہی نکال دی۔ اگر یہ کہا جائے کہ بی جے پی نے پی ڈی پی کو کہیں کا نہ چھوڑا تو بے جا نہ ہوگا۔ پی ڈی پی بر وزن ِ شعر ہی سہی کشمیر حل کے لیے پاکستان اور کشمیری مزاحمتی خیمے سے بات چیت کی وکالت کرتی آئی ہے۔ الیکشن مہم کے دوران بھی اور اس کے بعد بھی مفتی محمد سعید نے قیام امن کے لیے اس بات چیت کو ناگزیر کہا ۔ اپنی جانب سے پی ڈی پی نے کشمیر حل کی خاطر سیلف رول کا فارمولہ بھی پیش کیا تھا۔ کشمیریوں کو سیاسی پیکیج دینے کے لیے سرینگر میں مودی کے لیے ایک ریلی کا اہتمام بھی کیا تھا۔ شہر و دیہات سے لوگوں کو لالاکر ریلی کامیاب بنانے کے لیے کیا کیا جتن نہ کئے گئے۔ اسٹیج پر مفتی محمد سعید نے وزیر اعظم ہند مودی سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ کشمیریوں کو سیاسی پیکیج یعنی پاکستان اور مزاحمتی خیمے کے ساتھ بات چیت کا تحفہ چاہیے ، تواسی اسٹیج پر ان کوکٹ ٹو سائز کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ ” کشمیر کے حوالے سے مجھے کسی کے مشوروں کی کوئی ضرورت نہیں۔“ اس ایک جملے نے پی ڈی پی کی برسوں کی محنت پر پانی پل بھر میں پھیر دیا۔ پی ڈی پی نے این ایچ پی سی سے پاور پروجیکٹ واپس لینے پر ووٹ حاصل کیے، پی ڈی پی نے سیلاب متاثرین کو امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا، پی ڈی پی نے جیلوں میں بند سیاسی نظر بندوں کو رہا کرنے کی بات کہی تھی لیکن ہوا کیا؟ مسرت عالم کی رہائی ا ور ڈرامائی رہائی کے بعد پی ڈی پی کے بولنے کے لئے کیا بچتاہے ۔ سچ مچ دس ماہی اقتدار میں بی جے پی نے پی ڈی پی کو یرغمال بنائے رکھا ۔ حالانکہ دوسری جانب سے بی جے پی اپنا کام کرتی رہی۔ اپنے مشن اور منصوبے کو عملاتی رہی۔ جموں میں مشرقی پاکستان کے شرنارتھیوں کو ریاست کا مستقل باشندہ بنانے کی خاطراعلانیہ اسٹیٹ سبجیکٹ فراہم کرتی رہی۔ صوبہ جموں سے مسلمانوں کو اپنی زمینوں سے بے دخل کرنے کا کام کرتی رہی۔ سروڑ سانبہ کا حالیہ واقع پریوار کی ایک چھوٹی مثال ہے۔سرکاری محکموں بالخصوص صوبہ جموں میں اپنی فکر کے افراد کو داخل کراتی رہی اور آج بی جے پی میں اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی صوبہ جموں میں وہ سب کام بیروکریسی سے کراتی ہے جو اُن کے منصوبوں اور ایجنڈا کا حصہ ہے۔ غرض پی ڈی پی کی سیاسی ساکھ گزشتہ ایک سال کے دوران بری طرح سے متاثر ہوئی ۔ یہ فطری اصول ہے کہ کمزور طاقت ور کے سامنے شرائط نہیں رکھ سکتا ہے۔ پی ڈی پی اپنی کمزور سیاسی پوزیشن کے ہوتے ہوئے دلّی سرکار سے مطالبات نہیںکرسکتی ہے بلکہ اُن کے اشاروں پر چلنے میں ہی اس جماعت کے مستقبل کا دارو مدار ہے۔ اس لیے آج دو ماہ بعد اگر پی ڈی پی پھر سے بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں شامل ہوجاتی ہے تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں بلکہ ایسا ہی ہونا تھا ،یہ وقت لینا ، دراصل عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کا ایک آزمودہ حربہ ہے تاکہ اُنہیں یہ تاثر دیا جائے کہ یہ جماعت عوامی مفاد میں کس قدر سوچ سمجھ کر فیصلہ لیتی ہے ۔اصل بات تو یہ ہے کہ ریاست جموں و کشمیر میں قائم اسمبلی اور حکومتیں کشمیریوں کے نہیں بلکہ دلّی کے مفادات کی آبیاری کرنے کے لیے قائم ہوتی ہیں۔ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ریاست جموں وکشمیر کی متنازعہ حیثیت کے ساتھ ساتھ اندرونی مفادات کو زیادہ زک اسمبلی اور یہاں کی حکومتوں کے ذریعے ہی ہر دور میں پہنچا یا گیا۔ کٹھ پتلی حکومتیں ڈرامہ بازی صرف اس لیے کرتی رہیں تاکہ عوام سے ووٹ بٹورا جائے۔ ایک اور مثال سابق را چیف اے ایس دُلت کی کتاب سے دی جاسکتی ہے کہ جب فاروق عبداللہ کی سرکار نے اسمبلی میں اٹانومی بل پاس کی تو دّلی سے اے ایس دُلت نے فاروق عبداللہ سے ملاقات کرکے اُنہیں ایسا نہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ فاروق عبداللہ نے جواب میں اُنہیں کہا کہ میں کون سا اس معاملے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کررہا ہوں بلکہ یہ آنے والے الیکشن میں عوام کو منہ دکھانے اور ووٹ بٹورنے کے لیے پتہ پھینکا جارہا ہے، باقی اس بل کابُرا حشر بعد میں دلّی والے خود کریں گے، یعنی سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ کشمیری بے وقوف بھی بنیں اور دلّی کے مفادات پر آنچ بھی نہ آئے۔ یہی ہر دور میں ہوتا چلاآرہا ہے۔ عوام کو لبھانے کے لئے دن کے اُجالے میں لوگوں کو خواب دکھائے گئے اور رات کی تاریکیوں میں اپنے آقاو ¿ں کے ساتھ سودا بازیاں کی جاتی رہیں۔
یہ پہلے سے عام تاثر ہے کہ پی ڈی پی ، بی جے پی ایک مرتبہ پھر اقتدار کے ایوانوں میں براجماں ہوں گی۔ پی ڈی پی بھی نیشنل کانفرنس کی طرح کل کا سوچے بغیر آج کے دن کا مزا لینا چاہتی ہے۔ مستقبل میں اس جماعت کا کیا حشر ہوگا ، اس میں پڑے بغیر یہ لوگ فی الحال مزید چار سال تک اقتدار میں رہ کر کرسی کی نیلم پری چاہتے ہیں۔ باقی اِنہیں یہ بھی معلوم ہے کشمیری لوگوں کی یاداشت کمزور ہے، انہیں زیادہ دیر تک یاد نہیں رہتا کہ اُن کے ساتھ کس نے کیسا برتاو ¿ کیا ۔ یہاں عام لوگوں کے مفادات دہائیوں سے نیلام ہوتے آئے ہیں اور آگے بھی ہوتے رہیں گے۔ اس لیے حکومت کس کی بنے گی؟ ´کن لوگوں کو اقتدار کا پٹہ ملے گا؟ یہ سب باتیں کشمیریوں کی اکثریت کے نزدیک وقت کا زیاں ہے البتہ عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی اقتدار نوازجماعتوں کو ایک بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے اور وہ وقت پر ضرور برستی ہے۔ خلق خدا کے ساتھ دغا کرنے والوں کا انجام بہت ہی بُرا ہوتا ہے۔ آج یہ جماعتیں اور لیڈر سادہ لوح عوام کو ورغلا سکتے ہیں، اُن کا استحصال بھی کرسکتے ہیں ، اُن کی بے نوائی ، سادہ مزاجی اورمجبوریوں کا فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں لیکن جس دن ان کایوم ِ حساب آگیاتو کل کے شاہ آج کے گدا بن کرنشانِ عبرت بن جاتے ہیں ۔
رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ