عید کا کیا مقصد....؟

٭....ایس احمد پیرزادہ
رمضان المبارک کے عظیم ایام ایمان و احتساب کے ساتھ گزارنے کے بعد اب ہم عیدکی خوشیوں میں شامل ہونے کی تیاریوں میں مصروف عمل ہیں۔ رمضان المبارک کے دوران جنہوں نے روزے رکھے، فرائض کے ساتھ ساتھ نوافل کا بھی اہتمام کیا، زکوٰة اور صدقہ الفطر ادا کیا، دوران ماہ انفاق کا کھلے دل سے مظاہر ہ کیا، قیام الیل کرکے اللہ کے حضور اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کی، اللہ کی کتاب قرآن مجید کی تلاوت کی، قرآن سماعت کیا اور اس کی آیات پر غور و فکر کیا،ایسے بندوں کا حق بنتا ہے کہ وہ عبادات کے اِن عظیم مراحل سے کامیابی کے ساتھ گزر جانے کے بعد اپنی خوشیوں اور مسرتوں کا اظہار کریں۔پھر جب عید کی رات آتی ہے تو آسمان پر اس رات کو روزہ داروں کے لیے ” لیلةالجائزہ “انعام کی رات قرار دیا جاتا ہے۔ دیگر ادیان کے بجائے مسلمانوں کی خوشیاں بھی حدود و قیود میں اور ایک الگ ہی نرالے انداز سے منائی جاتی ہیں۔ یہاں فسق و فجور نہیں ہوتا ہے، یہاں شراب نوشی کی محفلیں نہیں ہوتی ہیں، یہاں بے حیائی اور بے شرمی نہیں ہوتی،خوشیاں منانے کے دوران یہاں اختلاقیات کا جنازہ نہیں نکلتا ہے، یہاں خوشیاں منانے کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ مسرتوں کے ان لمحات میں اپنے پیدا کرنے والے خالق و مالک کو بالکل ہی بھول جائیں۔ بلکہ یہاں اپنے گناہوں کا احتساب ہوتا ہے، یہاں اپنے پڑوس میں رہنے والے غریب کا چولہا جلانے میں سبقت لینے کا درس ہوتا ہے، یہاں یتیموں کو اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے، یہاں اردگرد کے تمام غرباء، مساکین اور مفلوک الحال لوگوں کی خبرگیری منصبی ذمہ داریوں میں شامل ہوتی ہے، یہاں کھانے اور پینے کے معاملے میں حد سے نہ گزرنے کی وارنگ بھی ہے، یہاں اللہ کا شکر و ثنا ہوتا ہے، یہاں اپنے گناہوں، کوتاہیوں اور لغزشوں کی معافیاں ہوتی ہیں، یہاں باطل کے مقابلے میں حق کی کامیابیوں کے لیے دُعائیں ہوتی ہیں۔یہاں اسلامی اصولوں کی پاسداری کے لیے عید یوم عہد ہوتا ہے ، یہاں انسانیت کی بھلائی اور دین کی سربلندی کے لیے اپنی زندگیاں نچھاور کرنے کا اعلان ہوتا ہے۔ گویا جس طرح سے دیگر اقوام اپنی خوشیاں اور مسرتیں مناتے ہیں ، مسلمان کی خوشیاں اُن کے بالکل ہی برعکس ہیں۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ” حق تعالیٰ شانہ رمضان کی ہر رات میں ایک منادی کو حکم فرماتے ہیں کہ تین مرتبہ یہ آواز دے کہ ہے کوئی مانگنے والا جسے میں عطا کروں؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا میں اس کی توبہ قبول کروں؟ ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کون ہے جو غنی کو قرض دے ایسا غنی جو نادار نہیں؟ ایسا پورا پورا ادا کرنے والا جو ذرا بھی کمی نہیں کرتا۔“یہاں غنی کو قرض دینے کی بات بھی آئی ہے۔ مطلب رمضان کی تعلیمات میں سے ایک اہم مطالبہ بندوں سے یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں۔ مفلوک الحال لوگوں کی اعانت کی جائے۔اور ضرورت مندوں کی ضررویات کا خیال رکھا جائے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ عید کے موقعے پر چار اشخاص کے علاوہ سب کو معاف فرما دیا جاتا ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! وہ چار شخص کون ہیں؟ ارشاد ہوا کہ ایک وہ شخص جو شراب کا عادی ہو، دوسرا وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرنے والا ہو، تیسرا وہ شخص جو قطع رحمی کرنے والا اور ناطہ توڑنے والا ہو، چوتھا وہ شخص جو کینہ رکھنے والا اور آپس میں قطع تعلق کرنے والا ہو۔اس حدیث پاک میں شراب کے عادی لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ جب سارے لوگوں کی مغفرت ہورہی ہوگی، جب اللہ کے خزانوں کے دروازے وا ہوں گے ، جب مغفرت اور نارِ جہنم سے لوگ جوق در جوق خلاصی پارہے ہوں گے تو ایسے میں اُن بدنصیب لوگوں میں جن کی مغفرت نہیں ہوجائے گی میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جو شراب کے عادی ہوں گے۔ یہاں جن لوگوں کو اس قوم کے افراد نے ووٹ دئے ہیں، جو اسمبلی میں عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اُنہی لوگوں نے شراب پر پابندی کی بات کو یہ کہہ کرمسترد کردیا ہے کہ یہاں”آزاد سماج“ ہے اور لوگوں کو حق ہے کہ وہ جو کچھ کرنا چاہیں گے کرسکتے ہیں۔ درج بالا حدیث کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں کی حکومت اور ارباب اقتدار لوگ مسلم اکثریتی ریاست کو جہنم کی راہ پر ڈال رہے ہیں۔ آزاد سماج کا اگر یہ مطلب ہے کہ کوئی بھی انسان کچھ بھی کرسکتا ہے تو پھر چور کو چوری کا حق حاصل ہونا چاہیے، کل کو کوئی بھی انسان الف ننگاہوکر مسافر بسوں میں ، بازاروں اور چوراہوں پر گھومنے لگیں گے تو پھر اُنہیں بھی ”آزادی“ کے نام پر اس کی اجازت ہونی چاہیے۔یہ فرسودہ قسم کی فکر ہے اور ایک ایسے سماج میں جو مذہب کے ساتھ جنون کی حد تک لگاو ¿ رکھنے والا ہو کو پستیوںمیں ڈال دینا اس قوم و ملت کے خلاف گہری سازش تصور کی جائے گی۔ہمیںعید کے اس مقدس موقعے پر اس صورتحال سے واقف رہنا چاہیے۔ ہمیں ارباب اقتدار لوگوں کے ارادوں سے آگاہ رہنا چاہیے۔ہمیں کسی بھی صورت میں اُن طاقتوں کے ہاتھ مضبوط نہیں کرنا چاہیے جو اسلام دشمن پالیسیاں اختیار کرکے دین پسند سماج کو مذہب بیزاری کی راہوں پر ڈال دینے کے خواہاں ہوں۔ اس رمضان کے دوران ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے کئی ایک بیانات اخبارات کی زینت بن گئے ہیں۔جن میں سے ایک بیان میں موصوفہ نے ریاست کے علماءکرام اور مبلغین پر تاپڑ توڑ حملے کرکے اُنہیں سیاسی مسائل میں نہ الجھنے کی تلقین کی۔ دوسرے بیان میں موصوفہ نے یہاں تک کہنے کی جرا ¿ت کی کہ اُنہیں مسلمان ہونے میں ہی شرمندگی محسوس ہورہی ہے۔ مسلمان ہونا اور نہ ہونا اُن کی ذات تک محدود ہے اور یہ اُن کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے۔ اسلام میں کوئی جبراور ذیادتی نہیں ، وہ چاہے تو مسلمان بن کررہ سکتیں ہیں اور نہ چاہئے تو اس کی بھی اسے اجازت حاصل ہے البتہ علماءکرام اور مبلغین حضرات کو حق بات کہنے سے روکنے کی جو جسارت انہوں نے کی اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ وہ دینی معاملات میں مداخلت کرکے اسلامی شخصیات اور علمائے کرام کو اپنے مزاج کے تابع چلنے پر مجبور کررہی ہیں۔اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ یہاں انفرادی سطح سے لے کر اقتدار کے ایوانوں تک کے جملہ مسائل کا حل موجود ہے۔ یہاں علماءکرام کی حیثیت راہبروں کی سی ہے۔ اسلامی نظام میں اِن ہی علماءکے ہاتھ میں مملکت کی بھاگ ڈور ہوتی ہے۔ ایسے میں وزیر اعلیٰ نے یہ کیسا کہہ دیا کہ علمائے کرام دفعہ 370 اور مسئلہ کشمیر کی بات نہ کریں۔ یہ علماءکرام کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی و ملی مسائل کے تئیں عوام الناس کی رہبری کریں۔ یہاں المیہ یہ بھی ہے کہ علمائے کرام کا ایک مخصوص طبقہ اپنے آپ کو نظام اسلامی سے لاتعلق کرچکا ہے اور وہ مسجد کی چار دیواری تک ہی اپنے آپ کو محدود کیے ہوئے ہیں۔ اگر انہوں نے ملّی مسائل کے تئیں اپنی ذمہ داریاں نبھائی ہوتی تو شائد آج محبوبہ مفتی ایسی باتیں کرنے کی جرا ¿ت نہ کرتی۔عید کا پیغام ہمارے علماءکرام کے لیے بھی ہے اور عام لوگوں کے لیے بھی کہ وہ علماءکرام کو مجبور کریں کہ وہ جملہ ملی سیاسی معاملات میں اُن کی رہبری کریں۔
ریاست جموں وکشمیر کی حیثیت متنازعہ ہے۔ ہم کئی دہائیوں سے مسلسل جنگی حالات سے گزر رہے ہیں۔ ان حالات نے ہمارے یہاں بے شمار مسائل پیدا کیے ہیں۔ ایک جانب پانچ سو کے قریب آبادقبرستان میں نوجوانوں او رنونہالوں کی قبریں روز یہاں کے مجموعی آبادی کو تڑپارہی ہیں تو دوسری جانب قبروں میں سوئے ہوئے لوگوں کے یتیم بچے اور بیوائیں اس سماج کے لیے بہت بڑا چلینج بن چکے ہیں۔ نیم بیواو ¿ں کا درد و کرب بھی کچھ کم نہیں ہے۔ ملت کی یہ مظلوم بیٹیاں جیتے جی مرچکی ہیں۔ زندہ لاش بنی ہوئی حوّا کی ان بیٹیوں کے لیے بھلا کیسی مسرتیں ہوں گے جب نہ ہی اُن کے شریک حیات کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ زندہ ہیں نہ ہی اُن کے مردہ ہونے کی کوئی تصدیق کررہا ہوگا۔ ایک جانب یہ یتیم ، بیوائیں، نیم بیوائیں اور بڑھاپے کے سہارے سے محروم والدین اپنے اقرباءکی جدائی سے نڈال ہوچکے ہیں اور آہ و زاری کرکے دن رات اپنے آپ اُن کی یاد میں تڑپا اورترسا رہے ہیں وہیں دوسری جانب اُن کی کمائی کا ذریعہ چھن جانے سے یہ لوگ مالی طور پر بھی پریشان حال ہوچکے ہیں۔ان کے گھر میں چولہا نہیں جلتا ہے، یتیم بچوں کی عید کے موقعے پر نئے نئے کپڑے پہنے کو نہیں ملتے ہیں، بزرگ والدین کے پاس دوائیوں تک کے لیے پیسہ نہیں ہوتا ہے۔ ایسے میں یہ لوگ عید کی خوشیوں میں بھلا کیسے شریک ہوسکتے ہیں۔ کیا یہ حالات ہمیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم طرح طرح کے پکوان تیار کریں، پارکوں میں موج مستی کریں، عید کے نام پر لاکھوں روپے شاپنگ پر خرچ کریں۔عید کا تصور ہی یہی ہے کہ ہم خوشیوں میں ان سب لوگوں کو شامل کریں۔ اپنے اخراجات کم کرکے اُس میں سے اُن کاحصہ نکال لیں۔ مسلمانیت کا یہ اصول ہے کہ یہاں دوسروں کے لیے جینا سیکھایا جاتا ہے۔ اس لیے اس عید کا بہترین پیغام یہ بھی ہے کہ ہم ان یتیموں، بیواو ¿ں ، نیم بیواو ¿ں ، مفلوک الحال لوگوں اور حالات کے ستائے ہوئی انسانیت کے لیے جینا سیکھ لیں۔اُن کی داد رسی کریں اور اُن کے درد و کرب کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
ہمارے یہاں جدوجہد برائے حق خود ارادیت کی تحریک رواں دواں ہے۔ اس جدوجہد میں تاحال ہماری قوم نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔ اُن قربانیوں کی لاج رکھنے کا عہد کرنا بھی اس عید کا ایک اہم پیغام ہے۔ یہاں کوئی گھر ایسا نہیں ہے جس نے کسی نہ کسی صورت میں تحریک حق خودارادیت کے لیے قربانی نہ دی ہو۔ ہر سو ظلم وجبر کی داستانیں رقم ہوئی ہیں۔ آج بھی کشمیریوں کے ساتھ ہندوستان بھر میں صرف اس وجہ سے سوتیلا سلوک روا رکھا جاتا ہے کیونکہ ہم اپنے حقوق کی بازیابی کی بات کرتے ہیں۔ ایسے میں اس جدوجہد کے خلاف ہر سطح پر سازشیں ہورہی ہیں۔ مخالف سمت کے پالیسی ساز اداروں نے زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں چھوڑا ہے جہاں انہوں نے ہماری آواز کو دبانے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری نہ کی ہو۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اغیار کی تمام چالوں، حربوں اور سازشوں سے باخبر رہنا چاہیے اور کسی بھی طرح ذاتی مفادات کے لیے تحریک حق خود ارادیت کو اپنے سے نقصان پہنچانے کوشش نہ کریں۔
ریاست جموں وکشمیر میں بھی اور بیرون ریاست کے قیدخانوں میں بھی ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوان ، بزرگ اور بچے اسیری کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔ چار دیواری میں قید ہمارے یہ بھائی کن کن مشکلات میں گرے ہوئے ہیں اس کا اندازہ عام حالات میں ہم نہیں کرسکتے ہیں۔ تہاڑ جیل میں ایسے بھی قیدی ہیں جنہیں اپنے کیسوں کی پیروی کرانے کے لیے وکلاءکو دینے کے لیے موٹی موٹی رقم نہیں ہوتی ہے۔اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے یہ طویل عدالتی کارروائی کا خرچہ ہی برداشت نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ بے چارے برسوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ یہاں کی مختلف جیلوں میں بھی قیدیوں کی حالت اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔یہ جیل خانوں کی حالت ہے ، پیچھے ان قیدیوں کے گھروں کے کیا حالات ہیں اس کا تصور کرنے سے ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہماری اجتماعی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم عید کے اس مقدس موقع پر اِن اسیران کا خاص خیال رکھیں ا ور ان کے گھریلو ضروریات کے ساتھ ساتھ عدالتی کارروائیوں کے اخراجات میں بھی کچھ حصہ بٹا سکیں۔
عید کے اس مقدس موقع کا سب سے اہم اور اعلیٰ پیغام یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم اپنی پوری زندگی اسلام کے تابع رکھیں اور قرآن وسنت کو اپنا نصب العین بناکر زندگی کا ہر لمحہ اللہ کی پیروی میں گزاریں۔ اس وقت ملت اسلامیہ جن مصائب و مشکلات سے دو چار ہے اُن سے نکلنے کی صر ف یہی ایک راہ موجود ہے کہ ہم اللہ کی جانب رجوع کرکے اُس کے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں۔ اس فلسفے کو جس دن ہم سمجھ پائیں گے اُس دن سے ہی مسائل و مشکلات سے نکلنے کی راہیں وا ہوجانے شروع ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عید کا حقیقی فلسفہ سمجھنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
رابطہ:9797761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ