اسکولوں کو نذر آتش کرنے میں کس کا فائدہ؟

اسکولوں کو نذر آتش کرنے میں کس کا فائدہ؟

٭.... ایس احمد پیرزادہ
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج اور ادیگر سرکاری ایجنسیاں کشمیریوں کی جدوجہد برائے حق خود ارادیت کو بدنام کرنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کررہے ہیں۔رواں عوامی تحریک کو بدنام کرنے کے لیے گزشتہ چند ہفتوں سے وادی کے مختلف اضلاع میں اسکولی عمارتوں کو نذر آتش کرنے کے پُر اسرار واقعات پیش آرہے ہیں۔ اسکولی عمارتوں کو خاکستر کرنے کے ان پے درپے واقعات سے کشمیری سماج میں بے چینی اورتشویش کی لہر پھیل جانا لازمی امر ہے اور ہر ذی حس فرد اِن افسوسناک وارداتوں کو لے کر فکر مند دکھائی دے رہا ہے۔گزشتہ چار ماہ سے جاری عوامی ایجی ٹیشن کے دوران نذر آتش کیے جانے والے اسکولوں کی تعداد تادم تحریر۰۳تک پہنچ چکی ہے۔کولگام، پلوامہ، اسلام آباد، بارہمولہ اور بڈگام ضلع میں نذر آتش کیے جانے اسکولوں کو کون لوگ خاکستر کررہے ہیں اس بارے تاحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے البتہ آثار و قرآئن سے واضح ہوجاتاکہ جو لوگ اپنے حقیر سیاسی مقاصد اور مفادات کی خاطر قومی کاز تک کو بھی داو ¿ پر لگا سکتے ہیں وہ ا سکول کیا بستیوں کی بستیاں راکھ کی ڈھیر میں تبدیل کرکے اپنے گھناو ¿نے ارادوں کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کی جرا ¿ت بھی کرسکتے ہیں۔ریاستی انتظامیہ، ایجوکیشن منسٹر، پولیس کے اعلیٰ آفسران آگ لگنے سے قبل ہی کہنا شروع کردیتے ہیں کہ ان وارداتوں کے پیچھے حریت خیمے سے وابستہ لوگوں کا ہاتھ ہے او ر وہی کشمیریوں کی نئی نسلوں کو تعلیم کے نور سے محروم رکھنے کے لیے اسکولوں کو نذر آتش کروانے کی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔عام کشمیری وزیر تعلیم اور اُن پولیس افسروں سے جو آگ کی اِن پراسرار وارداتوں کا الزام مزاحمتی خیمے پر عائد کردیتے ہیں پوچھنا چاہتے ہیں کہ بھلا کیوں وہ لوگ اپنی قوم کی نئی نسلوں کو یہ جانتے ہوئے بھی کہ تعلیم ہی تحریک حق خودارادیت او ر عوامی جدوجہد میں جان ڈالنے کی اصل وجہ ہے اسکولوں کو نذر آتش کروائیں گے؟ اسکول نذر آتش کرنے سے فائدہ کن کو حاصل ہوگا؟ ایسی گھناو ¿نی کارروائیوں کے نتیجے میں نقصان کس کا ہوگا؟ ان سوالات پر غور کرنے سے خود بخود اصل ملوثین بے نقاب ہوجائیں گے۔رواں عوامی احتجاج کے دوران جو پہلی اسکولی عمارت آگ کی نذر ہوئی ، وہ ۰۱ستمبربوٹینگو اسلام آبادمیںگورنمنٹ ہائی اسکول کی عمارت تھی۔ اس میں نامعلوم افراد نے آگ نہیں لگائی بلکہ جب۸۱برس کی عمر کے طالب علم یاور مشتاق ڈار کو فورسز اہلکاروں نے جرم بے گناہی میں گولیاں مار کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سلادیا تو پھر اُس کے نماز جنازہ میں ہزاروں لوگ کی شرکت سے وردی پوش بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے۔ اُنہوں نے عوام پر اس قدر شلنگ کی کہ جس اسکولی عمارت کے صحن میں نماز جنازہ ادا کرنی تھی، فورسزاہلکاروں کی ٹیئرگیس شلنگ سے اُس میں آگ نمودار ہوئی اور وہ پوری کی پوری خاکستر ہوگئی۔کبھی وزیر تعلیم نے اس بلڈنگ اور پلوامہ میں فورسز اہلکاروں کے ہاتھوں جان بوجھ کر نذر آتش ہونے والی بلڈنگوں کا نام نہیں لیا۔ آج محبوبہ مفتی صحابہ کہتی ہیں کہ ” ہم جب تعلیم کی بات کرتے ہیں تو جواب اسکول جلائے جانے سے دیا جاتا ہے“ ۔ وزیر اعلیٰ صاحبہ اُس وقت بڑی ہی دلیر بن جاتی ہیں جب الزام تحریک پسند افراد پر عائد کرنا ہوتا ہے، وہ اُس وقت کہاں تھی جبکہ اُن کی چھتر چھایہ میں اور احکامات پر کام کرنے والے فورسز اہلکار کھلے عام کھیتوں میں لوگوں کی جمع شدہ شالی کے ڈھیر جلاکر راکھ کردیتے تھے۔جب کروڑوں روپے مالیت کی میوہ فصل کو تباہ و برباد کیا جاتا تھا، جب گھر میں گھس کر توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ ساتھ قیمتی اسباب لوٹ لیا جاتا ہے۔پلوامہ کی عفراءتوصیفہ اور افروزہ کی بات کیوںکرتی جنہیں جرم بے گناہی میں بڑی ہی سفاکیت کے ساتھ پیلٹ چھروں کا شکار بنایا گیا اور اُن کی آنکھوں کو ناکارہ بنانے کی دانستہ کوشش کی گئی۔ قانون کے نام نہاد رکھوالے ہی جب قانون کی بے حرمتی کرنے پر اُتر آتے ہوں گے تو پھر اُن کے نزدیک مدارس کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ جہاں عوام کے خلاف آفیشلی ”آپریشن توڑ پھوڑ“ کیا جارہا ہو، وہاں دور رس نتائج پانے کے لیے خفیہ طریقے سے”آپریشن اسکول جلاو ¿“ شروع کیا جانا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔یہ بھی اطلاقات ہیں کہ چند ایک اضلاع میں محکمہ تعلیم کے اعلیٰ عہدہ داروں نے پہلے ہی اسکول انتظامیہ کو ہدایات دے رکھی تھیں کہ وہ اسکولوں سے اہم ریکارڈ نکال کر محفوظ جگہ پر رکھیں، یعنی ارادوں میں پہلے سے ہی کھوٹ بھرا ہوا تھا۔ 
مسئلہ کشمیر گزشتہ ۰۷برسوں سے لٹکا ہوا ہے۔ اس دوران کشمیری قوم نے بہت کوشش کی لیکن بھارت کے فوجی طاقت اور چالبازیوں نے ہمیشہ کشمیری قوم کو وقتی خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کردیا تھا لیکن گزشتہ ۰۳برسوں کی جہد مسلسل نے دلّی کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے اور دس لاکھ فوج کی موجودگی کے باوجود کشمیریوں نے مزاحمت کے تمام حربوں کو اختیار کرکے دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کرلی۔۷۴۹۱ئ سے ۵۸۹۱ئ تک ریاست میں شرحِ خواندگی بہت حد تک کم تھی، لوگ مزدور پیشہ تھے۔ عالمی حالات، سیاست اور مسئلہ کشمیر کی باریک بینیوں کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ اس لیے اُن کی جدوجہد کو بھارت اور اُن کے مقامی گماشتے مکرو فریب کی نت نئی چالبازوں کے ذریعے بڑی آسانی کے ساتھ دبانے میں کامیابی حاصل کرلیتے تھے۔۵۸۹۱ئ کے بعد ریاست میں شرحِ خواندگی میں اضافہ ہونے کے ساتھ ہی عوامی سطح پر سیاسی بیداری بھی آنی شروع ہوگئی، لوگ مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو بخوبی سمجھنے لگے اور دنیا کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرنے کے طریقوں سے بھی آگاہی ہونے لگی۔ جبھی نوے کی دہائی کے ابتداءسے کشمیریوں نے نئے اور نرالے انداز سے اپنی سیاسی حقوق کی باز یابی کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔یہ تعلیم ہی ہے جس نے کشمیری نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے سے ایک دوسرے کے علاوہ دنیا بھر کے لوگوں کے ساتھ جوڑ دیا ہے، اُنہوں نے نہ صرف اپنے خیالات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے شروع کردئے ہیں بلکہ غصب شدہ سیاسی حقوق کی باز یابی کے لیے بھی آوازیں بلند کی جانے لگی ہیں۔جب قوم تعلیم یافتہ تھی جبھی حریت پسندسیاسی لیڈران کے لیے استعماری حربے اور ہتھکنڈوں کو بے نقاب کرنے میں آسانی ہوئی۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ریاست جموں وکشمیر میں وقت کے ساتھ ساتھ شرحِ خواندگی میں اضافہ کیا ہوا کہ مزاحمتی تحریک نے بھی نہ صرف شدت اختیار کرلی بلکہ دنیا بھر میں اپنا لوہا بھی منوالیا ہے۔ آج دنیا کا کوئی بھی خطہ ایسا نہیں ہوگا جہاں کشمیری قوم کی استقامت اور جدوجہد کے چرچے نہ ہورہے ہوں گے۔آج جس نام نہاد”شدت پسندی“ کو اختیار کرنے کا طعنہ کشمیری قوم کے نونہالوں کو دیا جارہا ہے اُس کا کریڈٹ بھی نوجوانوں میں تعلیم کے ذریعے سے آئی بیداری کو ہی جاتا ہے۔ مطلب صاحب ہے کہ دلی سے سرینگر تک حکومتی پالیسی سازوں کے لیے کشمیر کی جدید تعلیم یافتہ نسل درد سر بن چکی ہے اور وہ اپنی سطح پر تعلیم کے ذریعے سے آئی تبدیلی کا تجزیہ ضرورکررہے ہوں گے۔ اس کے برعکس مزاحمتی خیمہ جو ۷۴۹۱ئ سے ہی تحریک حق خود ارادیت کے حوالے سے عوام کو متحرک کرنے کے لیے کام کررہے تھے کو تعلیم یافتہ لوگوں کی وجہ سے ہی عوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔آج اگر عوام اُن کی کال پر مہینوں معمولات زندگی کو خیر باد کہہ رہے ہیں اِس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ لوگ سمجھ دار ہوچکے ہیں، اُن میں سیاسی بیداری پیدا ہوئی ہے، وہ تعلیم اور میڈیا کے ذریعے سے اس بات کا ادراک حاصل کرچکے ہیں کہ ہند نواز سیاسی ٹولہ اُن کا استحصال کررہا ہے جبکہ مزاحمتی خیمہ اُنہیں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے سرگرم عمل ہوجانے کی ترغیب دے رہا ہے۔اب یہ واضح ہوجاتا ہے کہ تعلیم سے کس کو بیر ہوسکتا ہے؟ تعلیم کے ذریعہ کس کا فائدہ اور کس کا نقصان ہوا ہے؟ جن کا نقصان ہوا وہی اسکولوں کو نذر آتش کروانے کی بزدلانہ حرکات کا ارتکاب کروارہے ہوں گے۔
رواں پرامن عوامی ایجی ٹیشن کے دوران بھارتی فورسز نے جس طرح سے بے تحاشا طاقت کا استعمال کرکے انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کا ارتکاب کیا ہے اُس نے دنیا بھر میں بھارت کے جمہوری دعوو ¿ں کی پول کھول کررکھ دی ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد کے حوالے سے سخت مو ¿قف اختیار کرنے کو تصویرِ نیم رُخ ہی کہا جاسکتا ہے ، عالمی سطح پر جس ہزیمت کا سامنا ہندوستان کو کرنا پڑا اُس کی وجہ سے بھارتی پالیسی ساز تلملا اُٹھے ہیں۔ اِسی لیے عوامی ایجی ٹیشن اور جبر زیادتیوں سے توجہ ہٹانے کی خاطر کبھی سرجیکل اسٹرائیکس کا ڈرامہ رچایا گیا تو کبھی یہاں کی جدوجہد کو”ایجی ٹیشنل دہشت گردی اور دانشورانہ دہشت گردی“ کے القاب سے نوازا گیا۔ کبھی پاکستان کو دہشت گرد ریاست قرار دینے کے لیے زور دار مہم چلائی گئی تو کبھی سندھ طاس معاہدے کو موضوع بحث بناکر حقیقت حال سے نظریں چرانے کی کوشش کی گئی۔موجودہ زمانے میں دنیا میں جتنے بھی نعرے لگتے ہیں اُن میں سرپرست اور اہمیت کا حامل تعلیم کے فروغ کا نعرہ ہوتا ہے۔ دنیا کا ایسا کوئی بھی ملک نہیں ہے جہاں تعلیم کو عام کرنے اور خواندگی شرح بڑھانے کے بارے میں بڑے بڑے منصوبے نہ بنتے ہوں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیمیں تیسری دنیا کے ممالک میں تعلیم کو فروغ دینے میں جی توڑ کوششیں کررہے ہیں اب عالمی سطح پر کشمیریوں کی جدوجہد کو شدت پسندی اور نام نہاد مذہبی انتہا پسندی قرار دینے کا اس سے بڑھ کر اور کون سا طریقہ ہوسکتا تھا کہ یہاں اسکولوں کو نذر آتش کیا جائے اور باہری دنیا کو یہ باور کرایا جائے کہ جن لوگوں پر یہاں وردی پوش گولیاں برسا کر اُن کے نوجوانوں کو موت کی گھاٹ اُتار رہے ہیں، اُن کے طالب علموں کو آنکھوں کی بصارت سے محروم کرتے ہیں، اُن کے کم عمر بچوں کو جیلوں میں ٹھونس رہے ہیں، اُن کی نوجوان نسل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپاہچ بناتے ہیں وہ معصوم اور بے گناہ نہیں ہیں بلکہ ایک ایسی شدت پسند قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں جو تعلیم کے دشمن ہیں ، اِسی لیے وہ اسکولوں کو بھی جلا کرراکھ کردیتے ہیں۔گویا اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کرنے اور کشمیریوں کی پُر امن عوامی جدوجہد کو بدنام کرنے کے لیے اسکولوں کو نذر آتش کرکے آسان طریقہ ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ایک تیر سے دو شکا ر کیے جارہے ہیں۔ کشمیری نسلوں کو تعلیم کے نور سے محروم رکھ کرمستقبل میں اُنہیں سیاسی اعتبار سے اندھیروں میں دھکیل دیا جائے اور عالمی سطح پر کشمیری قوم کی جدوجہد برائے حق خود ارادیت اور یہاں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرپردہ پوشی کرنا ہی اسکولی عمارتوں کو پھونک ڈالنے کی بنیادی وجہ ہوسکتی ہے۔
ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے؟ قوم کی مجموعی ذمہ داری کیا بنتی ہیں؟ ان سوالات پر ہمیں بحیثیت فرد بھی اور بحیثیت قوم بھی غور کرنا چاہیے۔ اولین ترجیح اسکولوں کی حفاظت کو ہونی چاہیے۔ ہمارے گھر جلیں لیکن ہمارے علاقوں میں قائم اسکولی عمارتوں پر کوئی آنچ نہ آنے پائیں، اسی سوچ پر مبنی ہماری حکمت عملی ہونی چاہیے۔ محلہ سطح کی کمیٹیاں اسکولی عمارتوں کی حفاظت کے لیے انتظامات کریں۔ پہرہ دیا جائے اور شرپسند عناصر پر کڑی نظر رکھی جائے۔ ہماری جدوجہد برائے حق خود ارادیت اصولوں پر مبنی ہے اور کوئی بھی تحریک جس کی بنیادیں مضبوط ہو، جس کے دامن میں بیش بہا قربانیاں ہوں اُس کو ظلم و جبر اور طاقت کے بل پر دبایا نہیں جاسکتا ہے۔ البتہ مخالف طاقت ایسی تحریکات کو بدنام کرنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈوں پر اُتر آتی ہے۔ اسکول نذر آتش کرنے کے پیچھے بنیادی اور واحد مقصد تحریک حق خود ارادیت کو بدنام کرنا اور یہاں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی پردہ پوشی کرنا ہے۔اپنی تحریک کو بدنامی سے بچانے کی خاطر ہمیں اسکولی عمارتوں کی حفاظت کو عوامی سطح پر یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ہڑتال اور احتجاج کے دوران بچوں کو پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ اپنے گھروں میں جاری رکھنا چاہیے۔محبوبہ مفتی کی حکومت کے تمام کارندے اپنے اقتدار کی نِیا کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے تعلیم کو سیاسی مقاصد کے خاطر استعمال کررہے ہیں، حالانکہ جو کشمیری قوم ہمہ تن رواں عوامی ایجی ٹیشن کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اُسے بھی یہ فکر لاحق ہے کہ اُن کے بچے اپنی تعلیم کو جاری رکھ سکیں۔ تعلیم کے نام پر استحصال کرنے والے اقتداری ٹولے کشمیری نسلوں کی فکر کرنا چھوڑ دینا چاہیے اور مگرمچھ کے آنسوں نہ بہاکر شاطرانہ طرز عمل اختیار نہ کرنا چاہیے۔ یہ قوم اپنی نسلوں کو تعلیم کے زیور سے ضرور آراستہ کرے گی۔ ہم نے تب اپنی نسلوں کو اَن پڑھ اور گنوار رہنے نہیں دیا جب یہاں صرف گولیاں برستی تھی، جب راہ چلتے لوگوں کو مارا جارہا تھا ، ہمارے نونہالوں نے عسکریت کے عروج میں بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کی ہیں، ہمارے بچوں نے اُس وقت بھی نمایاں کارکردگی دکھائی جب شام ہوتے ہی گھر کے چراغوں کو بجھانا لازمی ہوتا تھا ، روشنی باہر جانے کا مطلب فورسز اہلکاروں کے ہاتھوں موت کو دعوت دینا ہوتا ہے۔ رات دیر گئے تک پڑھائی کا تصور بھی بچے نہیں کرسکتے تھے۔ہم نے تب علم کی شمع کو جلائے رکھا جب دن کے اوقات میں کریک ڈاو ¿ن اور رات کی تاریکیوں میں خوف کی وجہ سے پڑھائی کے لیے وقت ہی نہیں ملتا تھا۔کشمیری ذہین قوم ہے، ہمیں تعلیم پر درس دینے کی نہ ہی ضرورت ہے اور نہ ہی دلی سے سرینگر تک کسی کو فکر مندہونا چاہیے۔ ہم اپنے مستقبل کے حوالے سے غافل نہیں ہیں اور نہ ہم اپنے بچوں کے مستقبل کو تاریک ہونے دیں گے۔ آخر کار تعلیم اور تعلیم یافتہ لوگ ہی ہماری حق خود ارادیت کی جدوجہد کا عظیم اثاثہ ہیں۔
رابطہ:979761908

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ