کشمیر کاز اَ ٹل ہے

کشمیر کاز اَ ٹل ہے!

ا پنی قربانی کے بل کامیابی ڈھونڈتے

ایس احمد پیرزادہ
ہندوستان کے مسلم و غیر مسلم دانشوروں سے جب بھی بات کرتے ہیں توکشمیر، مسئلہ کشمیر اور اہل کشمیرکے بارے میں ا ±ن کی باتیں قریب قریب ایک ہی جیسی ہوتی ہیں۔ کشمیر یوں سے بھرپور ہمدردی جتاکر ا ±ن کی زبان سے جو باتیں سننے کو ملتی ہیں وہ یہ ہوتی ہیں : ”کشمیری لوگ بڑے ہی ذہین ہوتے ہیں لیکن اس قوم کی جذباتیت اِنہیں اکیسویں صدی میں ہورہی تعمیر و ترقی کا حصہ بننے نہیں دیتی۔“ ایک معروف غیر مسلم صحافی نے حال ہی میں مجھ سے کہاہے کہ:” آپ کی جدوجہد برحق ہے، کشمیر یوں کے ساتھ حکومت ہند نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا ہے اور نہ ہی کبھی کرنے کا ارادہ ہے۔ آپ لوگوں کو اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہیے کہ ہندوستان کشمیریوں کو کبھی بھی استصواب رائے کا موقع فراہم نہیں کرے گا ، آپ کے لیے بہتر یہ ہے کہ اپنی جدوجہد کو ترک کرکے ہندوستان کی ترقی میں شامل ہوجائیں۔تمہاری آنے والی نسلوں کو فائدہ نصیب ہوگا۔“ایک اور صاحب قلم ہندوستانی دانشورنے کہا کہ:” ہندوستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اقتصادی طاقت کے طور پر ا ±بھر رہا ہے، دنیا کی تیسری بڑی فوجی طاقت اوردنیا کی بڑی جمہوریت کا اعزاز بھی اِسی ملک کو حاصل ہے، جس پاکستان کے بل بوتے پرتم لوگ آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہو ، وہ اپنے مسائل میں اس قدر ا ±لجھا ہوا ہے کہ مستقبل میں شایدہی تمہاری سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد کرسکے گا۔رہا سوال دنیا کا تو اس کا حال یہ ہے کہ بڑی بڑی عالمی طاقتیں روئے زمین کے تمام مسلمانوں کو نیست و نابود دیکھنا چاہتی ہیں، خود مسلمان ذہنی پستیوں کے اس قدر شکار ہیں کہ ا ±ن کے حکمران اپنے تحت و تاج بچانے کے لیے دشمنوں کے ہی آلہ ¿ کار بن رہے ہیں، ایسے میں آپ لوگ” جنونی “کیوں بنے ہوئے ہو؟ آپ ہر وقت سنگ بازی اور جلسے جلوسوں کے بارے میں ہی کیوں سوچتے رہتے ہو؟جہاں جاتے ہو اپنے غصے اور نفرت کا اظہار کیے بنا نہیں رہتے ہو، آخر آپ لوگ عقل سے کام کیوں نہیں لیتے ہو؟“… گویا کشمیریوں کو ہندوستانی فوج سے ڈرایا جارہا ہے، اس ملک کی اقتصادی ترقی سے مرعوب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی بے ر ±خی اور ا ±ن کے دوہرے معیار ذہن نشین کرائے جاتے ہیں تاکہ ہم مایوسی کا شکار ہوجائیںاور ہاتھ کھڑا کرکے اپنی جائز اور مبنی برحق جدوجہد سے دستبردار ہوجائیں۔
جموں وکشمیر کے حدود سے باہر یہ حال ہندوستانی مسلم و غیر مسلم دانشوروں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کا بھی ہے۔ عام ہندوستانیوں کی اکثریت بھی یہی سوچتی ہے کہ کشمیری قوم جس راہ پر گامزن ہے ا ±س کا ا ±نہیں کچھ ماحصل نہیں ہے۔ البتہ ریاست کی صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں کے لوگوں کی سوچ ہندوستانی سیاستدانوں، دانشوروں اور فوجی جنرلوں کی رائے سے بالکل ہی جدا اور مختلف ہے۔سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلنے والے لوگوں، عسکریت پسندوں کے جنازوں میں شریک ہونے والے نوجوانوں، تحریک حق خود ارادیت کے لیے اپنے لخت جگر قربان کرنے والی ماوو ¿ں ، بڑھاپے کے سہارے سے محروم ہونے والے بزرگوں، جیون ساتھی سے جدا ہونی والی بیواو ¿ں اور شفقت پدری سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہونے والے یتیم بچوں کو کبھی بھی ہندوستان کی فوجی طاقت نے مرعوب نہیں کیا۔یہاں عوامی سطح پر کسی بھی گفتگو کا موضوع یہ نہیں ہوتا ہے کہ ہندوستان تیسری بڑی فوجی طاقت ہے، اس کا مقابلہ ہم کیسے کرسکتے ہیں؟ بھارت کی اقتصادی ترقی یہاں کے عوام کو ذرا برابر بھی متاثر نہیں کرتی ہے ، بھلے ہی ہندوستان کا اقتصادی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا ڈھونڈرا پیٹا جارہا ہو ، یہاں ہر چھوٹا بڑا ان حقائق سے بخوبی واقف ہے کہ جس ملک نے ہمارے سیاسی حقوق سلب کئے ہوئے ہیں، ا ±س کی آبادی میں250 ملین لوگوں کی روانہ آمدنی ایک ڈالر سے کم ہے۔وہاں کی 50 فیصد آبادی کو مناسب رہائش دستیاب نہیں ہے، جہاں70 فیصدآبادی کو بیت الخلاءکی سہولت ہی دستیاب نہیں اور کھلے میں رفع حاجت پورا کرکے بیماریوں کا سامان ازخود فراہم کرتی ہے، جہاں35 فیصد گھرانوں کو پانی کی سہولیات دستیاب نہیں ہے، جہاں85 فیصد دیہات میں سکینڈری اسکول موجودنہیں ، جہاں 40 فیصد دیہات سڑک رابطوں سے محروم ہیں اور جہاں کا پوراسیاسی وانتظامی سسٹم ہی کرپٹ ہے، ایسے ملک کی خیالی اقتصادی ترقی سے پھر بھلا کشمیریوں کی ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟
دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کی بے ر ±خی کی مثالیں دے کر کشمیریوں کی ہمت توڑنے کی بہت کوششیں کی جارہی ہیں حالانکہ زمینی صورتحال یہ ہے کہ یہاں کے لوگ اب دنیا پر زیادہ بھروسہ کرنے کے بجائے عالمی سیاست کے ا ±لٹ پھیر کا انتظار کرتے ہیں، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ عالمی سیاست میں تبدیلیاں رونما ہونے میں دیگر نہیں لگتی ہے۔ایک دہائی قبل امریکا بہادر کی آنکھ میں آنکھ ملانے کی کسی میں ہمت نہیں تھی ، اب حالت یہ ہے کہ روس اور چین ا ±س کی سپرطاقت ہونے کے زغم کو توڑرہے ہیں۔ جس روس کے کبھی بھی پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات نہیں رہے ہیں اور جو بھارت کا قریب ترین دوست شمار کیا جاتا ، وہ اب پاکستان کے ساتھ نہ صرف فوجی مشقیں کررہا ہے بلکہ اپنے روایتی دوست بھارت کی پاکستان کے حوالے سے فرمائشیں ماننے سے بھی انکار کررہا ہے۔دسمبر۶۱۰۲ئکو بھارت کے شہر امرتسر میں ہارٹ آف ایشیاءکانفرنس کے دوران روسی نمائندے نے پاکستان کو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والی ریاست قرار دینے کے عمل کو واضح طور پر ناپسند کیا۔ اس سے قبل۶۲/ اکتوبر۶۱۰۲ئکو بھارتی ریاست گوا میں برکس کانفرنس کے موقع پر بھی روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے بھارت کی خصوصی درخواست کومسترد کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ دہشت گردی کا ذکر کرنے سے صاف گریز کیا۔پاکستان دہشت گردوں کاپیچھا کرنے کے لئے کھل کر افغانستان کی اندر کارروائی کرتا ہے اور وہاں پر موجود امریکیوں کو جیسے سانپ سونگھ جاتا ہے، ایسا صرف چند برس پہلے تک ممکن نہیں تھا۔یہ تبدیلیاں واضح طور پر ظاہر کررہی ہیں کہ گر چہ بڑی بڑی طاقتیں خالص ا ±ن مسائل میں مداخلت کرتی ہیں جہاں ا ±ن کے اپنے اغراض و مقاصد ہوں لیکن دنیا کے حالات تبدیل ہونے میں دیگر نہیں لگتی۔ اگر امریکا کے مفادات بھارت میں ہیں، چین اور روس ،پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ جڑ رہے ہیں۔
بھلے ہی آج دنیا ہماری مدد کرنے کو تیار نہ ہو ،لیکن ہم ثقہ طور جانتے ہیںکہ کبھی نہ کبھی دنیا کو عالمی امن کے مفاد میں مجبوراً کشمیر میں مداخلت کرنا پڑے گی کیونکہ ہمارے مسئلے کی وجہ سے جنوبی ایشیاءکا پورا خطہ نیوکلیر فلش پوائنٹ بن چکا ہے۔کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کے خاطر کبھی نہ کبھی اقوام عالم کو مجبور ہونا پڑے گاکہ وہ مسئلہ کشمیر میں منصفانہ مداخلت کریں۔دنیاوی حالا ت آئے روز تبدیل ہورہے ہیں ، اس لیے جو لوگ کشمیریوں کو موجودہ عالمی حالات کے تناظر میں اپنی جدوجہد سے دستبردار ہونے کا مفت مشورہ دے رہے ہیں، ا ±نہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وقت کی ا ±لٹ پھیرمستقبل میں حالات اوربڑی طاقتوں، دونوں کو کشمیریوں کی جدوجہد کا حمایتی بناسکتا ہے۔ یہ وقت کا پھیر بدل ہی تو ہے جو فاروق عبداللہ عسکریت پسندوں سے جیلیں بھرنے کی بجائے انہیں گولی سے ا ±ڑانے کی وکالت میں بڑی دھواں دار تقریریں کر تے اور پاکستان کو ایٹم بم سے خاکستر کر نے کی صلاح دیتے پھر تے تھے ،وہ ا ب حقائق کو تسلیم کر کے عسکریت پسندوں کو وطن کے بے لوث جانباز قرار دے رہے ہیں اور پاکستان سے افہام وتفہیم کی وکالت کر تے ہیں۔
 حق یہ ہے کہ ہمارا تعلق ایک ایسی ملت سے ہے جس نے ہمیشہ اور ہر حال میں حق کی ہی طرف داری کی ہے۔ جھوٹ کا اگر پورا دنیا ساتھ دے رہا ہوگا، حقائق سے اگر ہر کوئی آنکھیں چرا رہا ہوگا، سچائی کے خلاف دنیا بھر کی طاقتوں میں مضبوط الحاق کیوں نہ ہوا ہوگا، ہم ا ±س کے باوجود حق اور سچائی کی ہی بات کریں گے۔جھوٹ ، فریب اور اپنے ضمیر کا سودا کرنے کے لیے جو لالچیں ہمیں دی جارہی ہیں، جس ترقی اور اپنی خداداد ذہنیت کا مظاہرہ کرنے کا جو فریب ہمیں دیا جارہا ہے، اپنی جدوجہد کو ترک کرنے کے لیے جو سبز باغ ہمیں دکھائے جارہے ہیں ا ±ن کے بارے میں بحیثیت قوم ہمارا یہ ایمان ہے کہ جس یقین اور دیانتداری کے ساتھ گزشتہ۰۷برسوں سے یہ قوم اصولوں پر مبنی اپنی تحریک کے ساتھ جڑی رہی، آئندہ بھی ا ±سی طرح رہے گی۔ ہمارے اسلاف نے اس جدوجہد کے بیج اپنا خون پسینہ نچوڑ کر بوئے ہیں، ہماری گزشتہ نسلوں نے اس بیج سے پھوٹے والے پودے کی آبیاری قربانیوں سے کی ہے، ہماری موجودہ نسل اس درخت کو اپنے پاک خون سے سینچ رہی ہے اور اگر ضرورت پڑی تو ہماری آنے والی نسلیں بھی اپنے حقوق کی جنگ لڑتی رہیں گی، یہاں تک کہ ظلم و جبر کی تمام زنجیریں ٹوٹ کر بکھر جائیں گی اور ہماری کامیابی کا سورج طلوع ہوجائے گا۔ دنیا کو جان لینا چاہیے کہ جس منزل کی تلاش میں کشمیری قوم دہائیوں قبل چل پڑی ہے ، ا ±س پر ہم اب اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ پیچھے مڑجانے کا مطلب قوم کے اجتماعی ضمیر کی موت ہوگا،سچائی سے دستبردار ہوکر جھوٹ اور فریب کا طرف دار بن جانا اپنے ایمان کا سودا کرنے کے مترادف ہوگا۔جس دن ہم نے واپسی کا تصور بھی ذہن میں لایا ، ا ±س دن ہماری مسلم شناخت، اسلامی تہذیب و تمدن اور قومی غیرت و یکجہتی کا بھی انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا جائے گا بلکہ ہمارا حشرا سپین جیسی ہونے میں دیر نہ لگے گی۔ہماری کامیابی یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی جدوجہد کو بھول کرقیاسی ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائیں ، کشمیر کو اقتصادی طور پر اس قدر خوشحال بنائیں کہ لوگ یورپ کو بھول جائیں بلکہ ہماری کامیابی کی واحد ضمانت مخلصانہ مگر مدبرانہ جدوجہد میں مضمر ہے۔ ہم اپنی نادانیوں سے لاکھوں افراد کی قربانیوں کا سودا نہیں کرسکتے ہیں۔ ہم لٹی عصمتوںکو کسی بھی حالت میں بھولا نہیں سکیں گے، ہم اپنے ا ±ن معصوم بچوں کے گناہ گار نہیں بن سکتے ہیں جنہوں نے ایک عظیم مقصد کے لیے اپنی جانیں اور اپنی آنکھیں نچھاور کردی ہیں۔ حکومت ہند کے کہنے پر کچھ لوگ شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لیے بیرون ممالک سے یہاں تشریف لاتے ہیں،وہ اپنے یہاں کے ہمدردوں کی مدد سے ہندوستان اور عالمی صورتحال کی کچھ ایسی تصویر کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں جن سے عام لوگ اپنی جدوجہد سے مایوس ہوجائیں لیکن جس تحریک کی پشت پر معصوم نوجوانوں کا مقصد لہو ہوگا ،وہاں ناا ±میدیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی ہے بلکہ ہر چلینج ایک نیا ولولہ اور جوش پیدا کردیتا ہے۔
کشمیری قوم کے خلاف بھارتی میڈیا چاہے لاکھ برائیاں کرے،منفی پروپیگنڈا کرکے ہماری صورت اول تاآخر مسخ کرے، ایک بات نہ صرف ہندوستان کو بلکہ پوری دنیا کو تسلیم کرنی پڑے گی کہ یہ وہ نہتی قوم ہے جو کبھی بھی حوصلہ شکن حالات میںبھی طاقت سے مرعوب نہیں ہوئی۔ یہاں کے لوگ بھارت کے کونے کونے میں پہنچ جاتے ہیں، نہ ہی ا ±نہیں بھارت میں قائم ہونے والیMNC's متاثر کرتی ہیں اور نہ ہی بھارت کا کارپوریٹ کلچر ا ±نہیں اپنی جانب کھینچنے میں کامیاب ہوا ہے، چند بڑے شہروں کی چکا چوند زندگی بھی کشمیری نسلوں کو فریب دینے میں ناکام ہوئی ہے اور یہاں ہندوستان کی جانب سے وقت وقت پر دکھائے جانے والے ترقی کے خواب بھی اس قوم کو للچانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔اگر ہندوستان کبھی حقیقی معنوں میں سپرپاور بھی بن گیا تو شاید ہی کشمیری یقین کریں گے۔ یہاں یہ بات ہر ایک کے ذہن میں بیٹھ چکی ہے کہ بھارت کے پاس ا ±تنی طاقت نہیں ہے کہ وہ کشمیریوں کے دلوں سے حقیقی طور آزادی کا خواب نکال سکے۔اس لیے جو لوگ ہمیں مشوروں سے نواز رہے ہیں، ا ±نہیں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ دنیا اس قوم کو دیوانوں میں شمار کرے، جنونی کہے یا پھر جذباتیت سے مغلوب قوم، اسے تعمیر و ترقی کا دشمن قرا ردیا جائے، تنگ نظر کہا جائے یا کچھ اور… یاد رکھئے یہ قوم اپنی جدوجہد سے کسی بھی صورت میں دستبردار نہیں ہوسکتی۔ حق اور سچائی کی لڑائی میں فنا ہوجانا اسے منظور ہوگا لیکن جھوٹ اور فریب کے سامنے سرجھکانا منظور نہیں۔ اگر یہ قوم اس اینٹ گارے کی بنی ہوتی تو اندرا عبداللہ ایکارڈ کے مابعد کی کہانی کچھ اور ہوتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ وقت کا قائد جھکا بھی اور کرسی کی چار ٹانگوں کے دام ہمرنگ ِ زمیں کا شکار بھی ہو امگر قوم اکیلی اپنے جذبے کی صداقت پر قربان ہوتی رہی اور لرزاں وترساں کشمیر کاز کے راستے پر تن تنہاچلتی رہی۔ اگر یہ قوم اپنے اصولی موقف سے دستبردار ہونے کی روا دار ہوتی تو اس نے نوے سے اب تک کس بنا پر بد ترین آندھیوں اور طوفانوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا؟
 ہاں یہ ضرور ہے کہ کشمیری قوم چاہے گی کہ دنیا اس کی مدد کرے، حقیقت اور سچائی کا ساتھ دے ، اس کی دلی خواہش ہے کہ پاکستان تادیر محسن بن کر کشمیریوں کی جائز برحق جدوجہد کے لیے سیاسی، سفارتی اور اخلاقی مدد جاری و ساری رکھے، بشمول منصف مزاج ہندوستانیوں کے عالمی طاقتیں مداخلت کرکے برصغیر کے کروڑوں عوام کی بھلائی کے لیے مسئلہ کشمیر کو حل کرائے۔ ہاں، اگر کوئی کشمیریوں کی ناقابل تردید سچائی کا ساتھ نہ دے ، کوئی ہمالیہ جیسی ٹھوس کشمیر کی حقیقت تسلیم نہ کرے ، پاکستان اپنے خانگی مسائل کی وجہ سے کشمیر کاز سے ہاتھ کھینچ لے ، عالمی طاقتیں اپنا دوغلا رویہ جاری رکھیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کشمیری ہمت ہار جائیں بلکہ اہل کشمیر نے یہ جدوجہد اپنے خلوص وایثار کے بل بوتے پر شروع کی ہے، یہ سچائی اور جھوٹ کے درمیان جنگ ہے اور اسے جیت لینے کے لیے اگر کشمیری قوم کو قیامت کی صبح تک جدوجہد کرنی پڑے ، یہ قوم محض اللہ کے بھروسے پر کرتی رہے گی۔ 
رابطہ

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ