جہاں رمضان کا آغاز بندشوں اور قدغنوں سے


وادی کشمیر 

جہاں رمضان کا آغاز بندشوں اور قدغنوں سے ہ!

۶۲مئی کو اہلیان وادی رمضان کے چاند کا انتظار کررہے تھے کہ اُدھر جنوبی کشمیر کے ترال علاقے میں رات گئے فوج اور عسکریت پسندوں کے درمیان شدید جھڑپ شروع ہوئی جو ۷۲جون سنیچر وار کو دو عسکریت پسندوں سبزار احمد بٹ اور فیضان احمدکے جان بحق ہوجانے کے ساتھ ہی اختتام کو پہنچ گئی۔ رات کے دوران فوج ایک مکان کو نذر آتش کردیا جبکہ دوسرا مکان اگلے روز جھڑپ کے دوران تباہ ہوگیا۔ جوں ہی شہر و دیہات میں یہ بات پھیل گئی کہ جھڑپ میں برہان مظفر وانی کے قریبی ساتھی اور معروف عسکری کمانڈر سبزار احمد بٹ اپنے ایک اور کمسن ساتھی فیضان احمد کے ہمراہ داعی ¿ اجل کو لبیک کہہ گئے، وادی بھر میں احتجاج شروع ہوا۔ جھڑپ کے مقام پر سینکڑوں مقامی نوجوانوں نے احتجاج کیا ، جس کو منتشر کرنے کے لئے وردی پوشوں نے راست گولیا ں چلائی۔ دوپہر تک وادی کے اکثر علاقوں میں دوکانیں بند ہوچکی تھی اور احتجاجی مظاہرے بھی شروع ہوچکے تھے۔ شام دیر گئے تک درجنوں نوجوانون شدید زخمی ہوچکے تھے جن میں دو بہنوں کا اکلوتا بھائی ۸۱سالہ عاقب رشید ساکن ترال سیموہ میں جھڑپ کے مقام پر سر میں گولی لگنے سے ابدی نیند سو گیا۔ عاقب رشید نے قرآن پاک حفظ کررکھا تھا اور اب عید کے بعد مزید دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دیوبند جانے کا منصوبہ بناچکے تھے۔مٹن اسلام آباد سے تعلق رکھنے ایک اور نوجوان صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں وینٹی لیٹر پر زندگی کی سانسیں گن رہا ہے، اُن کے سر پر راست ٹیئر گیس شل لگ چکا ہے اور اُن کے سر کی ہڈیاں ٹوٹ چکی ہیں اور ٹوٹی ہوئی ہڈی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اُن کے دماغ میںپیوست ہوئے ہیں۔ڈاکٹروں کے مطابق مذکورہ نوجوان کو برین ہمریج ہونا کا خطرہ لاحق ہے۔ درجنوں ایسے نوجوانون ترال، اسلام آباد اور سرینگر کے مختلف ہسپتالوں میں داخل کرائے گئے جنہیں فورسز کی گولیوں اور پیلٹ کے چھروں نے مضروب کیا ہے۔ 
امن و قانون کی صورتحال کو خراب نہ ہونے دینے کی آڑ میں حکام نے پوری وادی میں بندشیں قائم کیں، سرینگر کے سات تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں کرفیو کے نفاذ کا اعلان کیا گیا، جنوبی کشمیر کے تمام اضلاع میں تمام جگہوں پر فورسز کو تعینات کردیا گیا، ترال جانے والے تمام راستے بند کردئے گئے۔ فون اور انٹرنٹ سروس بند کردی گئی۔سرکاری بندوشوں اور قدغنوں کے اس نہ رکنے والے سلسلے سے پہلے ہی کشمیری عوام کی زندگی اجیرن بن چکی تھی لیکن رمضان کے مقدس مہینے کے ابتداءمیں حکام کی جانب سے اس طرح کی بندشوں نے عوام الناس کو ذہنی و جسمانی پریشانی میں مبتلا کردیا۔ رمضان کے پہلے ہی روز وادی کی سڑکوں پر ایمبولینس کی”سیرن“ بجنے سے عوام میں اضطرابی کیفیت پائی جاتی ہے۔ وردی پوش جان بوجھ کر لوگوں کے روز مرہ کے معمولات میں مشکلیں کھڑا کرتے ہیں اور یہ سب امن و قانون کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے نام پر یہاں ہوتا ہے۔ 
حالات کی ابتری اور جنگل راج کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ گزشتہ دنوں یہاں فوج نے دعویٰ کیا کہ اُنہوں نے سرحدی علاقہ اُوڑی میں کنٹرول لائن کے قریب پاکستانی فوج کی خصوصی کمانڈوز ٹیمBAT کے دوارکان کو اس جانب آنے کی کوشش کرتے ہوئے گولی مار کر جان بحق کردیا۔ لیکن جب اِن دو ”خطرناک کمانڈوز“ کی لاشیں آخری رسومات ادا کرنے کے لیے گانڈ مولہ کی مقامی آبادی کے سپرد کی گئیں تو لوگ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ دونوں لاشیں کسی کمانڈوز کی نہیں ہیں بلکہ ۰۸برس کی عمر تک کے معمر ترین افراد کی ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اُنہیں مبینہ طور پر کہیں سے پکڑ کر اُن کا مژھل طرز پر فرضی انکاونٹر کیا گیا ہے۔گویا وادی میں وردی پوشوں کو ہر طرح کی حرکت کرنے کی کھلی چھوٹ حاصل ہے اور وہ انسانی حقوق کی جتنی بھی چاہیں بے حرمتی کرسکتے ہیں، اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اس بات کو تقویت اُس وقت حاصل ہوئی جب بھارتی فوج کے سربراہ نے گزشتہ دنوںنسانی ڈھال بنائے جانے والے میجر گگوئی کی حمایت کرتے ہوئے کہاکہ ”جب لوگ پتھر پھینک رہے ہیں اور ہم پر پٹرول بم پھینک رہے ہیں، اگر میرے جوان مجھ سے پوچھیں گے کہ ہمیں کیاکرناچاہیے تو کیا مجھے کہناچاہیے کہ ابھی انتظار کرو اورمرو۔ میں آپ کے لئے اچھے تابوت لاﺅں گااورآپکی لاشیں عزت کیساتھ گھربھیج دوں گا۔“راوت نے کہاکہ ”مجھے فوج کی ہمت برقرار رکھنی ہے جوکشمیر میں لڑرہی ہے۔“وادی کی صورتحال کے بارے میں جنرل راوت نے خیال ظاہرکیاکہ فورسزکیلئے یہ زیادہ آسان ہوتااگر مظاہرین پتھر کے بجائے گولیاںچلاتے۔انکا مزید کہناتھا” بلکہ میری خواہش ہے کہ یہ اگر مظاہرین پتھر پھینکنے کے بجائے مسلح فورسز پر ہتھیاروں سے فائرنگ کریں ، اسکے بعد میں وہ کرسکتاتھا جومیں کرناچاہتاتھا۔“ 
اپنے اس بیان میں بھارتی آرمی چیف نے کھل کر اپنے اداروں کا اظہار کیا کہ وہ کشمیر میں قتل عام کرنے کے لیے بہانے کی تلاش میں ہیں۔ اُن کے اس بیان پر ہیوم رائٹس واچ نے کہا کہ ” بھارتی فوجی سربراہ کا بیان مجرمانہ قیادت کا اظہار ہے۔“ذی حس لوگوں، حریت قیادت اور عالمی انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں نے بھی بھارتی فوجی سربراہ کے بیان کو مجرمانہ قرار دیا۔ بپن روات کے اس بیان کی گرچہ دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن بھارتی حکومت نے اپنے فوجی سربراہ کے بیان کی حمایت کی اور کہا بھارت کی سرکار بپن راوت کے بیان کو صحیح مانتی ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بھارتی فوج حکومت ہند سے افسپا میں مزید اختیارات کی مانگ کررہی ہے اور گزشتہ دنوں سی آر پی ایف کے ترجمان کاایک عدد بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ سی آر پی ایف احتجاجیوں پر پیلٹ گن کا استعمال کرتی رہے گی۔گویا ایک فرسٹیشن ہے جو سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ عوام کو دبانے کی اور اپنے طاقت کے غرور کا اظہار کرتے ہوئے عالمی قواعد و ضوابط کو پیروں تلے روندنے کی بھارتی فوج روایت قائم کررہی ہے۔کشمیر کی پوری آبادی کو یرغمال بنایا گیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ان انسان دشمن کارروائیوں میں یہاں کی مقامی حکومت اور ہند نواز سیاست دان بھر پور ساتھ نبھا رہے ہیں۔ اُن لوگوں کے خلاف جن کے ووٹ سے یہ لوگ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ چکے ہیں یہ استعمال ہورہے ہیں۔اپنے حقیر مفادات اور مالی مراعات کی وجہ سے یہ اندھے، گونگھے اور بہرے بن چکے ہیں اور اگر کہا جائے کہ کشمیری مسلمانوں کے خلاف ہورہے ظلم و جبر اور زیادتیوں میں ان ہی ہندنوازوں کے ہاتھ استعمال ہورہے ہیں تو بے جانہ ہوگا۔
اہلیان کشمیر بھی امن کے خواہشمند ہیں، وہ بھی انسانی جانوں کے زیاں پر افسردہ ہیں بلکہ سب سے زیادہ تکلیف کشمیریوں کو ہی ہورہی ہے کیونکہ ہماری نسلیں آئے روز کٹ مر رہی ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ کوئی سنگ بازی کی زد میں نہ آجائے ، کسی بھارتی کا بیٹا نہ چھن جائے لیکن ہم ساتھ ساتھ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوانوں کے سینے بھی چھلنی نہ ہوجائیں، ہماری نونہالوں کو انتہائی اقدام پر مجبور نہ کیا جائے، پولیس تھانوں میں نونہالوں اور نوجوانوں کا تھرڈ ڈگری ٹارچر اور تذلیل نہ کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں جس طرح ہندوستان کی پوری آبادی کو عزت و احترام سے جینے کا حق حاصل ہے، جس طرح وہ آزادی کے ساتھ سانس لینے کا حق رکھتے ہیں اُسی طرح کشمیری عوام بھی عزت و احترام اور آزادی کے ساتھ جینے کا حق رکھتی ہے۔ یہ قوم تشدد کی حامی نہیں ہے، یہ دنیا کی امن پسند قوم ہے۔ ہم صرف اپنے حقوق کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ، دنیا کے اس سب سے بڑے ادارے کی قرار دادوں کا احترام کرنے کی دُہائی دیتے ہیں۔ طاقت اور قدغنوں سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ہی ایک زندہ قوم کو ایسے حربوں سے دبایا یا ڈرایا جاسکتا ہے۔دانش مندی اِسی میں ہے کہ بھارت کی سرکار اور اُن کی فوج اس بات کو سمجھ لیں کہ جو مسئلہ معاملہ فہمی اور دور اندیشی کا تقاضا کرتا ہے اُس میں طاقت کا استعمال کرنے سے صورتحال بد سے بدتر ہوسکتی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ