کشمیر کو بھارتیوں کو آباد کرنے کی جانب پہلا قدم

 کشمیر کو بھارتیوں کو آباد کرنے کی جانب پہلا قدم

٭… ایس احمد پیرزادہ
بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے آرٹیکل 35A کی منسوخی کے لیے عرضی قبول کرنے اورگورنمنٹ آف انڈیا کواس ضمن میں اپنا جواب دخل کرنے کی نوٹس روانہ کیے جانے نے ریاست جموں وکشمیر کے عوامی و سیاسی گلیاروں میں ہل چل پیدا کردی ہے۔ متحدہ مزاحمتی قیادت نے ریاستی کی خصوصی پوزیشن کے ساتھ کسی بھی طرح کی چھڑ چھاڑ کے خطرناک نتائج سامنے آنے کی بات کہی اور ایسے کسی بھی اقدام کے خلاف بھر پور ایجی ٹیشن چھیڑنے کا عندیا بھی دیا ہے جبکہ ہند نواز جماعتوں کے کان بھی اس مسئلے کو لے کر کھڑے ہوگئے۔ نیشنل کانفرنس کے سرپرست و سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے اپنی رہائش گاہ پر تمام اپوزیشن جماعتوں کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی جبکہ اس میٹنگ کے اگلے ہی دن وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اپنے سیاسی حریف فاروق عبداللہ کے ساتھ ایک گھنٹے تک ملاقات کی۔ محبوبہ مفتی نے کانگریس کے ریاستی صدر کے ساتھ بھی ملاقات کی جبکہ چند اسمبلی ممبران نے بھی اُن کے ساتھ ملاقات کرکے اُنہیں پیدا شدہ صورتحال کے نتیجے میں اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔ مزاحمتی قیادت نے بھی حسب تواقع مؤقف اختیار کرکے تمام تر مشکلات کے باوجودکشمیر کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے اور اس کی خصوصی پوزیشن کو زک پہنچانے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے عزم کا اظہارکیا۔کشمیری ٹریڈ یونینوں نے بھی ریاست کی خصوصی پوزیشن کے خلاف ہورہی سازشوں کے خلاف صف آرا ہونے کا اعلان کیا ہے۔ عوامی سطح پر بھی ریاست بالخصوص وادی میں کافی اضطراب پایا جارہا ہے اور عام لوگ بڑی ہی باریک بینی سے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ پہلی دفعہ ہے کہ کسی مسئلے میں ریاست کی جملہ سیاسی طاقتیں بظاہر ایک ہی صفحہ پر کھڑی نظر آرہی ہے۔ گو کہ تمام اسٹاک ہولڈرس بھارت کی جانب سے کسی بھی ایسے اقدام کے خلاف سینہ سپر ہونے کا اعلان کرچکے ہیں لیکن یہ آنے والا وقت ہی بتا دے گا کہ کون کہاں پر کھڑا ہے، کس میں کتنا خلوص ہے اور کون کس حد تک بھارت کی جانب سے کسی بھی ایسے جارحیت پر مبنی اقدام کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے کا حوصلہ رکھتا ہے۔
10 ؍ اگست کو انگریزی روز نامہ گریٹر کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے کار گزار صدر وسابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا ایک انٹرویو شائع ہوا ہے جس میں اُنہوں نے آرٹیکل 35A کی منسوخی کے خلاف ریاستی سرکار کے جواب کو کمزور قرار دیتے ہوئے کہا کہ ریاستی حکومت کیس کی پیروی اُس انداز سے نہیں کررہی ہے جس طرح کی جانی چاہیے۔ اُنہوں نے اپنے انٹرویو میں مزاحمتی قیادت بالخصوص بزرگ لیڈر سید علی گیلانی کو آڑے ہاتھوں لے کر کہا ہے کہ حریت کو اس مسئلے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ ہندوستانی آئین کو تسلیم ہی نہیں کرتے ہیں۔اس کے برعکس ہند نواز جماعتیں آئین ہند کو تسلیم کرتی ہیں اور وہی مسئلے کے خلاف سینہ سپرہونے کے حقدار ہیں۔ عمر عبداللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ 2010 میں جب اُن کی سرکار نے’’ نیشنل فورڈ سیکورٹی ایکٹ‘‘ لاگو کرنے کی کوشش کی تو اُس وقت سید علی گیلانی نے ایجی ٹیشن شروع کرنے کی دھمکی دی جبکہ GST لاگو ہونے کے موقعے پر اُنہوں نے موجودگی سرکار کومحفوظ راہ داری فراہم کی۔عمر عبداللہ کے اس انٹرویو میں بہت ساری باتوں کا جواب موجود ہے۔ سب سے بڑی بات جو انہوں نے کہی، وہ یہ ہے کہ حریت کے بجائے ریاست کی خصوصی پوزیشن کا دفاع ہند نواز جماعتوں کا حق ہے۔ حریت لیڈروں کے بغض میں ہی سہی عمر عبداللہ نے پتے کی بات کہی ہے۔ ہندنواز جماعتیں یہاں ہر ہمیشہ دعویٰ کرتی آئی ہیں کہ وہ کشمیر میں ریاست کے مفادات کا تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ ہندوستان میںکشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کے نام پر بی جے پی نے اپنا ہر الیکشن لڑا ہے اور بھارتی عوام بالخصوص فرقہ پرست اکثریت نے اُنہیں اِسی ایجنڈے کو پائیہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ووٹ دئے ہیں جبکہ اس کے برعکس کشمیر میں یہاں کی سیاسی جماعتوں نے ہر الیکشن کے موقعے پر کہا ہے کہ وہ کشمیریوں کے مجموعی مفادات بالخصوص ریاست کی آئینی پوزیشن کی حفاظت کریں گے اور اس پر کسی بھی طرح کی کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ان جماعتوں نے کشمیرکی اکثریت کے جذبات اور احساسات کے برعکس بھارت کے اجارہ داری کو یہاں قائم کیا ہے، یہاں کے لوگوں کی اُمنگوں کا خون کرکے دلی کی حکمرانی کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ہے۔ دلی کو یہاں کے وسائل تک رسائی فراہم کی ہے، اُن کے ہر جائز و ناجائز مفاد کی آبیاری کی اور بدلے میں دلی کے حکمرانوں کو ریاست میں اپنے ان ہمدردوں اوربہی خواہوں کی بھی عزت رکھنی چاہیے جو کہ وہ نہیں رکھیں گے۔ ہند نواز جماعتیں آج تک کشمیر میں جس اقتدار کا مزہ لے رہی تھیں ، یہ اقتدار اُنہیں ریاست کی خصوصی پوزیشن کی حفاظت کے صلے میں حاصل ہوجاتا ہے، آج اُنہیں اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے کا وقت آگیا ہے۔
بے شک مزاحمتی جماعتوں اور ہند نواز جماعتیں دو متضاد راہوں پر گامزن ہیں۔ مزاحمتی جماعتیں کشمیر میں بھارت کو موجودگی کو ناجائز تصور کرتی ہیں اور اس متنازعہ مسئلہ کے لیے آخیر دم تک جدوجہد کرنے کا بار بار اعادہ کرتی ہیں ، اس کے برعکس ہند نواز جماعتیں بھارت کے ساتھ کشمیر کے نام نہاد الحاق کو حتمی قرار دے کر ہندوستانی آئین کے دائرے میں رہ کر کشمیر کو زیادہ سے زیادہ اندرونی خود مختاری دینے میںیقین رکھتی ہیں۔یہ جماعتیں بار بار یہاں کے عوام کو یقین دلانے کی کوششوں میں لگی رہتی ہیں کہ ہندوستان میں اُن کے مفادات محفوظ ہیں۔ جہاں تک مزاحمتی جماعتوں کا تعلق ہے وہ شروع سے لے کر آج تک اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ان جماعتوں نے کشمیری قوم کے دلوں سے حق خود ارادیت حاصل کرنے کے جذبے کو کبھی مرنے نہیں دیا ، یہ لوگ مسئلہ کشمیر کو بڑی حد تک عالمی سطح پر زندہ رکھنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ اُن کے طریقے کار میں سستی ،کاہلی اور حکمت عملیوں کے فقدان کا اعتراف کیا جاسکتا ہے لیکن اُن کی نیت اور جدوجہد کے تئیں والہانہ لگاؤ سے کوئی عقل کا اندھا ہی انکارکرسکے گا۔اُن کے برعکس ہند نواز جماعتوں نے کیا کیا ہے؟ وہ خالص اقتدار کے خوب مزے لیتے رہے، یہ جماعتیں آج تک ہر مرحلے پرریاست کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے میں بالکل ناکام رہی ہیں۔ان جماعتوں کی وجہ سے ہی کشمیر کی اندرونی خودمختاری آہستہ آہستہ ختم ہوتی چلی جارہی ہے۔ یہاں کے آبی وسائل تک دلی کو رسائی فراہم کرنے میں کن کا کردار ہے؟ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں مزاحمتی جماعتوں نے اپنے نصب العین کی ہر ہمیشہ آبیاری کی ہے وہیں ہند نواز جماعتوں نے اُس مقصد وجود جس کا وہ دعویٰ کررہے ہیں کہ قبا ہی چاک کر ڈالی۔ آج تک ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کے علاوہ ریاست سے وابستہ جتنے بھی مفادات کو زک پہنچایا گیا اُس میں یہاں کی ہند نواز جماعتوں کا کلیدی رول رہا ہے۔
ہندنواز جماعتیں اقتداری سیاست سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کا مادہ ہی نہیں رکھتی ہیں۔ آرٹیکل 35A کی منسوخی کے مسئلہ کی ہی اگر بات کریں گے تو اس میں بھی یہاں کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس تنظیمی اور اقتداری مفادات کے تناظر میں بات کرتے ہیں۔ جہاں تک پی ڈی پی کا سوال ہے، ایک جانب اُس کی صدر صاحبہ کہتی ہیں کہ اگر دفعہ370 کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کی گئی تو کشمیر میں ترنگا ہاتھ میں اُٹھانے والا کوئی نہیں رہے گا، موجودہ صورتحال میں بھی پی ڈی پی صدر کافی متحرک ہوگئیں ہیں لیکن جس جماعت کے ساتھ پی ڈی پی تاحال کولیشن سرکار میں موجود ہے وہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کی سب سے بڑی وکیل ہے۔حتیٰ کہ2014 میں جس "We The Citizens" نامی غیر سرکاری تنظیم نے آرٹیکل35A کے منسوخی کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دی ہے وہ آر ایس ایس کی ایک ذیلی تنظیم ہے اور اس کے صدرسندیب کلکرنی جو مرچکے ہیں آرایس ایس کے متحرک کارکن رہ چکے ہیں۔اس وقت جب محبوبہ مفتی بظاہر 35A کو بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں اُس کی حکومت میں شامل کولیشن پارٹی بی جے پی کے ریاستی ترجمان اعلان کرتے ہیں کہ’’دفعہ370 اور35A کو الوداع کہنے کا وقت آگیا ہے‘‘۔ ایک ہی سرکار دو متضاد لائنوں پر اگر کام کرے تو اس میں شامل پارٹیوں کی کس بات پر اعتبار کیا جائے گا۔ یہ تو منافقانہ طرز عمل ہی کہلائے جائے گا۔دوسری جانب نیشنل کانفرنس کے کارگزار صدر عمر عبداللہ کی بیان بازی سے بھی یہی بات اخذ ہورہی ہے کہ اُنہیں آرٹیکل35A کی پریشانی سے زیادہ اقتدار کے ایوانوں پر نظریں مرکوز ہیں۔ وہ کوئی ٹھوس لائحہ عمل اپنانے کے بجائے محبوبہ مفتی کے ہر اقدام میں کیڑے نکال رہے ہیں۔ وہ اپنے ٹویٹس کے ذریعے سے ریاستی سرکار کے اقدامات پر انگلی اُٹھا رہے ہیں۔ گویا خلوص اور ریاستی مفادات کی فکر کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ہندنواز اقتدار کے بھوکے ہیں ، اقتدار کی لالچ میں ہر ہمیشہ دلی کے سامنے معذرت خواہانہ لب و لہجہ اختیارکرکے وہاں کی سرکار کو اس قدر جری بنادیتے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت ریاست جموں وکشمیر کے مفادات کے ساتھ ہر طرح کی چھیڑ چھاڑکرنے کی ہمت کرتے رہتے ہیں۔
35A پر حملہ اور دفعہ370 کے خلاف ہورہی سازشوں کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ریاست کے مسلم اکثریتی کردار کو ختم کیا جائے۔ یہاں کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے۔ اسرائیلی طرز پر ریاست کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لیے گزشتہ کئی برس سے کام ہورہا ہے اور اس کام میں سرعت لانے اور اسے قانونی حیثیت دینے کے لیے لازمی ہے کہ مذکورہ دونوں دفات کو ختم کیا جائے۔ اس کے لیے کشمیر دشمن طاقتیں کام کررہی ہیں۔ دلی کے پالیسی ساز بخوبی جانتے ہیں کہ دیر سویر مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کے لیے ریفرینڈم کرنا لازمی بن جائے گا، اس لیے تیاری کے طور پر وہ کشمیر میں آبادی کا توازن بگاڑنے کے اسرائیلی منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ اپنے مسلم تشخص کو بچانے کے خاطر ہمیں بحیثیت مسلمان یک جٹ ہونے کی ضرورت ہے۔اقتدار پرستی اور حقیر مفادات کے بجائے قومی مفادات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔
حریت کانفرنس کے سینئر لیڈر میرواعظ عمر فاروق نے بجا فرمایا ہے کہ آرٹیکل 35A کی حفاظت کی ذمہ داری ہند نواز جماعتوں کی ہے۔ یہ ہندنواز جماعتوں کے لیے امتحان کی گھڑی ہے۔ لوگوں کے ساتھ دہائیوں سے کیے جانے والے جھوٹے وعدوں کی لاج رکھنے کا اُنہیں ایک موقع نصیب ہوا ہے۔ اس مرتبہ اگر یہ جماعتیں ریاستی عوام کے ساتھ دغاکرتی ہیں تو یہاں ان کے لیے زمین تنگ ہوجائے گی۔ لوگ اِن کی فریب کاریوں اور چالبازیوں کو سمجھ جائیں گے اور پھر وہ یہاں کے معصوم عوام کو بہلا اور ورغلا نہیں سکتے ہیں۔اگر ہندنواز جماعتیں ناکام ہوجاتی ہیں تو پھر مزاحمتی جماعتوں کے لیے کوئی چارۂ کار ہی باقی نہیں بچتا کہ وہ ریاست میں عوامی ایجی ٹیشن شروع کریں۔ ریاستی مفادات کا تحفظ ہر فرد پر واجب ہے،دینی و ملی شناخت کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس مرتبہ دلی میں موجود فرقہ پرست طاقتوںپر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اُن کی ہر سازش کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جائے گا بلکہ ریاست کے مجموعی مفادات کے لیے یہ قوم پہلے بھی متحد رہی ہے اور آج بھی متحد ہے۔ بحیثیت قوم بھی ہمیں پارٹی، جماعتوں ، نظریات سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارے تشخص اور وجود پر حملہ ہے، اس لیے اپنے وجود اور ملی تشخص کے لیے تمام تر اختلافات کو چھوڑ کر ہمیں ان حالات کا بڑی ہی بہادر ی کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے۔بصورت دیگر ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ