روہنگیا۔۔۔۔آدم خوروں کے نشانے پر

روہنگیا…… آدم خوروں کی نذر - ایس احمد پیرزادہ

اس وقت جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں چشم فلک برما میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کے نئے نئے مناظر دیکھ رہی ہوگی اور دنیا کو پتہ چل رہا ہوگا کہ کس طرح بے یار ویار مددگار روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام رخائن کے بدھ بھکشو کر کے گوتم بدھ کی اہنساوادی تعلیمات کا مذاق اڑاتے پھر رہے ہیں۔ یہ سارا خونی کھیل صرف بدھ بھکشوؤں کا کیا دھرا نہیں بلکہ مبصرین کہتے ہیں کہ اس کی پشت پر در پردہ ا مر یکہ ہے جو چاہتا ہے کہ گیس اور تیل کے ذخائر سے مالا مال میانمار میں قیام ِ امن کے نام پر عراق کی مانند مداخلت کر کے خطے میں اپنے پیر جمائے تاکہ تیل اور گیس پر ہاتھ صاف کر تے ہوئے چین اور شمالی کوریا پر اپنی گہری نظر رکھ سکے۔ اسرائیل اس خونی سازش کو عسکری محاذ پر کامیاب بنانے کے لیے میانمار کو اسلحہ اور فوجی تربیت سے لیس کر رہاہے جب کہ بھارت اور بنگلہ دیش امر یکی خاکوں میں رنگ بھر نے کے لیے واشنگٹن کو خوشی خوشی اپنے شانے پیش کر رہے ہیں۔ برما کی مسلم اقلیت کو تہ تیغ کر نا اور بچے ہوئے لوگوں میں بھگڈر مچاکر انہیں ملک بدر ہونے پر مجبور کرنا بدھ بھکشوؤں کا یک نکاتی ہدف ہے مگر ایک بار برما امریکہ نیٹو کی شکل میں یا 'یواین پیس کیپنگ فورس' کے نام سے ہتھے چڑھ گیا تو آنگ سانگ سوچی اور رخائن بدھوں کو دن میں ہی تارے نظر آئیں گے۔
روہنگیا کی داستان ِالم کو دوسرارْ خ دیکھتے ہیں۔ حجاج بن یوسف کا نام اسلامی تاریخ میں اْموی دور کے ظالم ترین گورنروں کے طور پر درج ہے، لیکن جب بغداد سے ہزاروں میل دور خلیج فارس میں طوفانی ہواؤں کی وجہ سے ایک عرب مسلم تجارتی قافلہ دبیل ( ہند) کی بندرگاہ پر اْترا اور وہاں سندھ کے حکمران راجہ دہر کے بحری قزاقوں نے اْن پر حملہ کرکے نہ صرف اْن کا مال و اسباب لوٹ لیا بلکہ پورے قافلے جس میں خواتین بھی شامل تھیں، کو پکڑ پکڑ کر قید کرلیا تو عرب قبیلے بنی یربوع کی ایک قیدی عورت نے خوف و دہشت میں تھر تھراتے ہوئے چیخ چیخ کرصدائیں لگائیں: یا حجاجا، یا حجاجا اغثنی( اے حجاج! اے حجاج میری مدد کرو)۔ جب یہ اطلاع حجاج بن یوسف تک پہنچ گئی کہ عرب کی ایک بیٹی نے اْسے پکارا ہے تو وہ جوش غضب سے بھڑک اْٹھا اور کہا:لبیک(میں حاضر ہوں)۔ پھر تاریخ نے دیکھ لیا کہ ملت اسلامیہ کی اس بیٹی اور اس پورے قافلے کو چھڑانے کے لیے حجاج بن یوسف نے پے در پے دو لشکر سندھ کی جانب روانہ کیے۔ پہلا لشکر عبداللہ بن بنہان کی سرگردگی میں گیا تو جنگ کے ابتدائی مرحلے میں ہی لشکر کا سالار شہید ہوگیا جس کے بعد فوج میں مایوسی پھیل گیا اور یہ مہم ناکام ہوئی۔ دوسرا لشکر بدیل بن طہفہ کی سرکردگی میں روانہ کیاگیا جس کا حشر بھی پہلے لشکر جیسا ہوا۔اہم ترین جرنیلوں کی شہادتوں اوردو مسلسل شکستوں کے باوجود حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کی قید میں مسلم بہن کی چیخ و پکار اور فریاد کو فراموش نہیں کیا بلکہ محمد بن قاسم ؒکی قیادت میں ایک اور لشکر سندھ کی جانب روانہ کردیا۔ پھر تاریخ نے یہ بھی دیکھ لیا کہ کس طرح محمد بن قاسمؒ نے نہ صرف اْس بہن اور دیگر قیدیوں کو راجہ دہر کی قید سے آزاد کرالیا بلکہ سندھ اور ہزاروں میل پرمشتمل ملحقہ علاقہ جات میں اسلام کا جھنڈا بھی لہرایااور عدل و انصاف پر مبنی ایسا نظام قائم کیاکہ جس میں مسلم و غیر مسلم ہر بندۂ خدا کے لیے امن، اطمینان، سکون اور ترقی کا دور دورہ تھا۔یہ ہماری سنہری تاریخ کے ہزار پنوں کا محض ایک پنہ ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ ماضی کی اسلامی مملکتیں خواہ کتنی ہی بگاڑ کی شکار کیوں نہ تھیں، مگرانہوں نے ہر دور میں مظلوم انسانیت کی مدد کو اولین ترجیح دی۔
اْمت مسلمہ کی سنہری اور تابناک تاریخ کے ساتھ جب موجودہ دور کے مسلمان حکمرانوں کا موازنہ کیا جاتا ہے تو کسی بھی حال میں ایسا نہیں لگتا ہے کہ ہم بھی اْسی اْمت کا حصہ ہیں یا ہماری رگوں میں ہمارے اسلاف کا خون دوڑ رہا ہے۔ آج کی مسلم مملکتیں ہوں یا مسلم حکمران، اْنہیں امت کے جسم سے بہتے خون کی نہ ہی کوئی فکر ہے اور نہ ہی وہ کٹ مر رہی مسلم اْمہ کو بچانے کے لیے کچھ کرنے میں دلچسپی دکھاتے ہیں۔ آج کل دنیا کا ایسا شاید ہی کوئی خطہ بچا ہو جہاں مسلمان مظلومیت کی حالت میں نہ ہوں اور جہاں اسلام دشمن طاقتیں درندوں کی طرح مسلمانوں پر نہ ٹوٹ پڑی ہوں۔ برما دنیا کے نقشے پر ایک چھوٹا سا ملک ہے، اس ملک میں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت رہتی ہے، جن کا دعویٰ ہے کہ اْن کا مذہب کسی بھی زندہ ہستی کی جان لینے کی کسی بھی صورت میں اجازت نہیں دیتا ہے۔ اس ملک میں روہنگیا مسلمان اقلیت میں ہیں اور گزشتہ کئی دہائیوں سے امن کا لبادہ اْوڑھے بدھسٹ دہشت گردوں کی ظلم و بربریت کا شکار بن رہے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے بالعموم اور ۲۵؍اگست ۲۰۱۷؁ءسے بالخصوص وہاں کی حکومتی افواج اور انتہا پسند بدھ دہشت گرد مل کر مسلمانوں کا صفایا کررہے ہیں۔ لندن سے شائع ہونے والے ایک نامور اخبار 'دی انڈیپنڈینٹ' نے پچھلے ہفتے کی اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ایک سو کلو میٹر کے فاصلے تک آنے والی تمام مسلم بستیوں کا صفایا کیا گیا۔ مکانوں کو آگ لگا دی گئی، جو سامنے آیا اْسے تیز دھار والے ہتھیاروں سے مار کاٹا گیا، عورتوں کی بے حرمتی کرکے اْنہیں زندہ جلایا گیا، چھوٹے معصوم بچوں کی تلواروں سے چیرپھاڑ کی گئی۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصویروں سے درد دل رکھنے والے انسان کے رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ہر سو بکھیری پکڑی لاشیں، ملت کی ماؤں اور بہنوں کی بے گور و کفن خون میں لت پت عریاں بدن، سمندر کے پانیوں میں تیرتی معصوم بچوں کی لاشیں درندگی، حیوانیت اور بربریت کو شرمسار کررہی ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ۲۵؍اگست سے تاحال 400 1مسلمانوں کو تہ تیغ کیا جاچکا ہے۔ سینکڑوں بستیاں ویران ہوچکی ہیں۔ لاکھوں مسلمان اپنے آپ کو سمندر کے لہروں کے سپرد کرکے راہ فرار اختیار کررہے ہیں، بنگلہ دیش میں تاحال ڈیڑھ لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان داخل ہوچکے ہیں۔بھاگتے ہوئے مسلمانوں کی کئی کشتیاں سمندر میں اْلٹ چکی ہیں جن میں بچوں اور عورتوں سمیت درجنوں افراد کو سمندر کی لہروں نے اپنی آغوش میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھپا لیا ہے۔غرض روہنگیا مسلم دنیا کے مظلوم ترین بے خانماں لوگ ہیں جن کی وقعت کیڑے مکوڑے سے بھی گئی گزری کر دی گئی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اْن کا تعلق اْس اْمت سے ہے جس کے سردار آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مظلوموں کی ہمیشہ اور ہرحال میں داد رسی فرمائی ہے، جنہوں نے اپنے تو اپنے غیروں کو بھی عدل اور انصاف، پْر امن زندگی کی ضمانت فراہم کی، جنہوں نے جانوروں اور پر ندوں کے حقوق کو تحفظ دیا۔
روہنگیا مسلمانوں کی خون کے آنسو رلانے والی یہ حالت زار دنیا ئے انسانیت بالخصوص عالم اسلام کے عیاش حکمرانوں کو کیوں ٹس سے مس نہیں کررہی ہے؟ امر یکہ کی لونڈی وہ اقوام متحدہ کہاں ہے جو انسانیت کو تحفظ فراہم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے؟ اْس ایٹم بم کا کیا ہوا جس کے بارے میں کہا گیا کہ اب اْمت مسلمہ کی جانب کوئی میلی آنکھ اْٹھا کر نہیں دیکھ سکتاہے؟34 ممالک کی اْس اسلامی فوج کے دستے کہاں ہیں جو دہشت گردی کا صفایا کرنے کے لیے وجود میں لائی گئی؟ دنیا کے خطرناک ترین برمی سرکاری و غیر سرکاری دہشت گردوں نے طوفان بدتمیزی برپا کررکھی ہے اور ہماری ملت کے اکابرین کا کہیں اَتہ پتہ نہیں ہے۔ایران کے پاسداران انقلاب کے وہ جنرل قاسم سلیمانی آج کہاں ہیں جو عراق سے شام تک اور لیبا سے یمن تک ہونے والی قتل و غارت گری کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جاتے ہیں؟ یمن اور قطر پر بمباری کرنے والے جہازوں او ربرسنے والے اُن میزائیلوں کا رُخ برمی دہشت گردوں کی جانب کیوں نہیں موڑ ا جاسکتا ہے جن کی زد میں آکر 1600 سے زائد مسلم بچے جرم بے گناہی میں موت کی گھاٹ اُتار دئے گئے۔ مغرب و عرب شاہوں کا لاڈلا جنرل سیسی کہاں ہے جس نے ہزاروں خدا ترس اخوانیوں کو بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا لیکن آج اْسے سانپ سونگھ گیا؟رئیسوں اور عیاشوں کی سر زمین قطر کے بادشاہوں سے بھی سوال کیا جاسکتا ہے کہ اگر آپ نے امریکہ میں سمندری طوفان سے متاثرہونے والے چند ہزار لوگوں کے لیے پہلے مرحلے میں ہی3 ؍کروڑ امریکی ڈالرز کی امداد کا اعلان کیا تو اپنے روہنگیائی بھائیوں کے لیے کیا آپ کے پاس چند ہزار ڈالر، دینار اور درہم تو دور ہمدردی کے دو بول بھی نہیں ہیں؟پڑوسیوں کا سب سے زیادہ حق ہوتا ہے، روہنگیامسلمانوں کے پڑوس میں بنگلہ دیش واحد مسلم ریاست ہے۔ وہاں کے مودی بھگت اور مغرب نواز کٹھ پتلی وزیراعظم حسینہ واجد کی اخلاقی حالت دیکھ لیجئے کہ اْس نے دو ہفتے قبل تک ایک بھی روہنگیامسلم کو اپنے ملکی حدود میں داخل نہیں ہونے کی اجازت نہیں دی کہ اْنہیں سمندر کی بے رحم لہروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ گزشتہ ہفتے بنگلہ دیشی حکومت نے میانمار کی حکومت کو روہنگیامسلمانوں کو دبانے اور کچلنے کے لیے فوجی امداد فراہم کرنے تک کی آفر کی تھی۔ یہ تو بھلا ہوترکی کے صدر رجب طیب ادروان کا جنہوں نے بنگلہ دیشی حکومت کو مال و دولت کی لالچ دے کر اْنہیں مظلوم روہنگیامسلمانوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولنے پر مائل کردیا ہے۔ترکی اور مالدیپ واحد ملک ہیں جس نے سرکاری سطح پر روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی۔ ترکی کے صدر نے ہر ایوان میں آواز بلند کرنے کا عہدکیا ہے اور عملاً ترکی ہی ان مجبور اور حالات کے ستائے ہوئے مسلمانوں کی مدد کررہا ہے۔باقی مسلم دنیا کے حکمران حقیر مفادات اور اپنی کرسیوں کی برقراری کے خیال سے روہنگیا سے آنکھیں پھیر کر پتھر کے بْت بنے ہوئے ہیں۔ اْنہیں آسمانی قہر کا بھی خوف نہیں ہے، سرکش ہوکر الٰہی احکامات اور اپنی ذمہ داریوں کو ان مسلم حکمرانوں نے مذاق بنا کررکھ دیا ہے۔
بھارت جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ دار ہے، عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ملک میں مقیم چالیس ہزار برمی رفیوجیوں کو ملک بدر کرنے کی مہم کا عندیہ دے چکا ہے۔ بی جے پی سرکار یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان رفیوجیوں کی جان کو اپنے وطن میں خطرہ لاحق ہے، اْنہیں وہاں بھیج دینے پر تلی ہوئی ہے۔ گزشتہ ہفتے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی ایک ایسے وقت میانمار کے دورے پر گئے جب آنگ سان سوچی کے قاتلانہ کردار پر عالم ِانسانیت ملامت کر رہی ہے، مودی جی نے اس کے ساتھ جو مشترکہ بیان جاری کیا جس میں یہ بتایا گیا کہ بھارت کو جس صورت حال کا کشمیر میں سامنا ہے اْسی طرح کی صورت حال برما کو روہنگیا مسلمانوں کی صورت میں درپیش ہے۔غرض کشمیر کی طرح برما کے جو نہتے مسلمان وردی پوشوں ا ور بغیر وردی کے ا ٓدم خوروں کے شکار ہیں، الٹااْنہیں ہی موردِ الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔ قاتل ہی مقتول پر الزام ِقتل ہونے کا فرد جرم عائد کرتے ہیں۔یہ طرزِ گفتار اْمت مسلمہ کے خلاف اْس جارحیت پسندانہ عالمی سوچ کا عکاس ہے جس کے تحت مسلمانوں کو پوری دنیا میں صفحہ ہستی سے مٹانے کا منصوبہ تشکیل پایا ہے۔مسلم دشمن اقوام نے ٹھان لی ہے کہ وہ مسلمانوں کی نسل کشی کرکے اْنہیں سیاسی، اقتصادی اور دفاعی اعتبار سے اس قدر کمزور کردیں گے کہ آئندہ کئی صدیوں تک مسلمان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی پوزیشن میں نہ رہیں۔ بہر حال رونا تو مسلم حکمرانوں کا ہے جو اسلام دشمن طاقتوں کی اس مہم جوئی میں اْن کے براہ راست یا بلواسطہ معاونین کی حیثیت سے کام کرتے ہیں، اْنہیں خواب وخیال میں بھی اندازہ نہیں کہ ایسا کر کے وہ خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماررہے ہیں۔
آج کیوں کوئی محمد بن قاسم ؒبن کر مظلوم اور نہتے مسلمانوں کی مدد کے لیے نہیں آتا ہے؟ کیونکہ آج اْمت’’ملتِ واحدہ‘‘ نہیں رہی ہے۔ آج مسلمان قوموں، قبیلوں اور جغرافیائی حد بندیوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔آج مسلمانوں پرآمریت سوار ہوچکی ہے، خاندانی راج نے اْمت کے وسائل پر قبضہ جما رکھا ہوا ہے۔ حالانکہ اگر آج بھی اْمت مسلمہ کے 57 مملکتوں میں اتحاد و اتفاق اور فکری حدت ہوتی تو میانمار کو جرأت نہ ہوتی کہ مسلم اْمہ سے چھیڑے اوراگر مسلم حکمران مغرب کے پیروں میں پڑے رہنے کے بجائے اپنی ملت کے لیے اْٹھ کھڑا ہوجاتے تو وہ بہت معجزے کرسکتے۔ مسلمانوں کی اجتماعی طاقت کا مسلم حکمرانوں کو یا تو اندازہ نہیں ہے یا جان بوجھ کر وہ اسلام دشمن طاقتوں کے آلۂ کار بن رہے ہیں۔ میانماراور کشمیر سے لے کر فلسطین، شام اور افغانستان تک کے مظلوم مسلمانوں کی مددتو دور کی بات، اب تو مسلم حکمران اور بادشاہ مسلم دشمن قوتوں کو ’’امن پسندی کے اسناد اور انسانیت نوازی کے تمغے ‘‘دے رہے ہیں،اْن کے ساتھ فخراً ہاتھ ملائے جارہے ہیں، معانقے کر رہے ہیں۔ عام مسلمانوں کے لیے نااْمیدی اور مایوسی کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ موجودہ دور ظلم و جبر کی انتہا کا دور ہے، یہاں سے آگے مسلمانوں کی واپسی کا دور شروع ہونے والا ہے جب ہر ظالم کا ہاتھ روکا جائے گا اور ہر مظلوم کی دادرسی ہوگی۔ ہمیں کچھ نہیں تو کم ازکم اپنے ایمان کا مظاہرہ کر نے کے لیے روہنگیا مسلمانوں کی حفاظت اور ان کے سفاک دشمنوں کی شکست و ہزیمت کے لیے دست بدعا ہونا چاہیے۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ