ہندوستانی مذاکرات کار…نہ دل بدلا نہ سوچ بدلی۔۔۔ایس احمد پیرزادہ


گزشتہ ہفتے بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے دلی میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران ریاست جموں وکشمیر میں جملہ فریقین ( سٹیک ہولڈروں)کے ساتھ مذاکرات کر نے کے لیے سابق آئی بی ڈائریکٹر د نیشور شرما کو بحیثیت مذاکرات کارمقررکئے جانے کا اعلان کیا۔ راجناتھ سنگھ نے کہا کہ مر کزی گورنمنٹ کی جانب سے نامزد مذاکرات کار دنیشور شرما ریاست کے منتخب نمائندوں کے ساتھ ساتھ دیگر جماعتوں اور فریقین کے ساتھ کشمیر پر بات چیت کریں گے۔ جب میڈیا نمائندوں نے اُن سے پوچھا کہ کیا سابق آئی بی ڈائریکٹر مزاحمتی اتحاد حریت کانفرنس کے ساتھ بھی بات چیت کریں گے تو اس پر راجناتھ سنگھ نے کہا کہ شرما جی از خود فیصلہ لیں گے کہ اُنہیں کن کن لوگوں سے ملنا ہوگا۔البتہ بھارتی وزیر اعظم کے آفس میں موجود بھارتی جنتا پارٹی کے لیڈر و منسٹر آف اسٹیٹ داکٹر جتندراسنگھ نے اگلے ہی روز کہا کہ’’آپ اُن لوگوں کے ساتھ کیسے بات کرسکتے ہیں جو پرتشدد کارروائیوں اور حوالہ فنڈنگ میں ملوث ہیں۔‘‘ ریاستی بی جے پی کے صدرنے اپنے ایک بیان میں جتندرا سنگھ کے حوالے سے یہ بات کہی کہ دنیشور شرما ’’مذاکرات کار‘‘ نہیں ہیں بلکہ بھارتی حکومت کا محض ایک نمائندہ ہیں جو ریاست کے لوگوں سے ’’تبادلۂ خیالات‘‘ کریں گے۔ اس تقرری کے حوالے سے پوائنٹس آف ریفرنس اور زمینی حقائق جو بھی ہوں البتہ بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر پر مذاکرات کار کے اس اچانک اعلان سے گرچہ کشمیر میں مزاحمتی اور عوامی حلقوں میں کوئی جوش وخروش نہ دیکھا گیا مگر برصغیر کی سیاسی گلیاروں میں ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔ جہاں ریاست جموں وکشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھارتی وزیر خارجہ کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے ،وہیں مسئلہ کشمیر کے ایک اہم ترین فریق پاکستان نے اس طرح کی سرگرمی کے تئیں نہ صرف سرد مہری کا اظہار کیا ہے بلکہ پاکستان نے کھل کرکہا ہے کہ اسلام آباد اور حریت کے بغیر کوئی بھی بات چیت کارآمد ثابت نہیں ہوسکتی ہے۔
کانگریس کے سینئر لیڈر وسابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے اپنے ردعمل میں کہا کہ’’ حکومت ہند کے اس اقدام سے پتہ چلتا ہے کہ طاقت کے استعمال کا نسخہ فیل ہوچکا ہے اور یہ اعلان اُن لوگوں کی کامیابی ہے جو مسئلہ کشمیر کو سیاسی طور پر حل کرنے کے خواہش مند ہیں۔‘‘ البتہ اُن کی جماعت کانگریس نے بھارتی سرکار کے اس فیصلے کو سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک حربہ قرار دیا ہے۔سابق مذاکرات کار ایم ایم انصاری نے دنیشور شرما کی تعیناتی پر اپنے ردعمل کا اظہا رکرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کا مزاحمتی خیمہ بھلا کیوں کر اُن کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہوگا۔وہ ماضی میں اٹل بہاری واجپائی، ایل کے ایڈوانی اور منموہن سنگھ سے مل چکے ہیںاور اب اُنہیں’’ پاکستانی ایجنٹ‘‘ قرار دیا جارہا ہے ، اُنہیں مبینہ طور حوالہ فنڈنگ میں ملوث کیا جارہا ہے اور اُن کے پیچھے این آئی اے کو لگایا گیا ہے۔ اُنہیں اپنے ہی وطن میں تنہااور بد نام کیا جارہا ہے، میں نہیں سمجھتا ہوں کہ وہ بھارت کی جانب سے تعینات کیے جانے والے مذاکرات کارسے ملیں گے۔‘‘ اْنہوں نے کہا کہ’’وہ (مزاحمتی خیمہ) ہوم منسٹری کی سطح پر یا پھر براہ راست وزیر اعظم سے بات چیت کرنے کے خواہش مندہوں گے اور مجھے نہیں لگتا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے کی جانے والی اس تازہ کوشش میں کوئی خلوص ہے۔ ‘‘ایم ایم انصاری نے مسٹر دنیشور شرما کی تعیناتی پرمزید کہا کہ ’’وہ پولیس بیک گراؤنڈ رکھنے والے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ ایک خالص سیاسی مسئلے کا کوئی حل نکال سکتے ہیں۔‘‘ آرمی چیف جنرل بپن راوت نے بھی صاف کردیا کہ مذاکرات کار کے تقرر کے باوجود عسکریت کے خلاف فوجی آوپریشنز جاری رہیں گے۔
سابق آئی بی ڈائریکٹر و بھارتی حکومت کی جانب سے نامزد کیے جانے والے مذاکرات کار نے مختلف میڈیا اداروں سے بات کرتے ہوئے اپنی تقرری کے اغراض و مقاصد بیان کیے ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں اُنہوں نے کشمیر میں بڑھتی ہوئی’’شدت پسندی‘‘ کا خاتمہ اپنا مقصد و مدعاقرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ کشمیری نوجوان جس طرف جارہے ہیں وہ بنیاد پرستی ہے اور آخر کار از خود کشمیری سماج کو ختم کرے گی۔ ‘‘انہوں نے مزیدکہا کہ’’ میںکشمیری عوام کے تئیں فکر مند ہوں، اگر سب نے یہ راستہ اختیار کیا تو صورت حال یمن، شام اور لیبیا جیسے ہوگی، لوگ کئی محاذوں پر لڑیں گے۔‘‘دنیشور شرما نے یہ بھی کہا ہے کہ’’مجھے کشمیری نوجوانوں کو یہ بات سمجھانی ہے کہ وہ آزادی، اسلامی خلافت یا اسلام کے نام پر صرف اپنا مستقبل اور کشمیریوں کا مستقبل تباہ کررہے ہیں۔‘‘ دنیشور شرما کے اس طرز گفتار سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دلی میں موجود کشمیرپالیسی کے بھارتی ذمہ دارکس نہج پرسوچنے لگے ہیں۔وہ کشمیر کو یمن ، شام اور لیبیا سے جوڑ کر شاید دنیا بھر میں یہ تاثر پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ کشمیرکی صورت حال مشرقی وسطیٰ کی صورت حال سے کسی بھی طرح مختلف نہیں ہے، وہاں منصوبہ بندطریقے پر برادر کشی کروائی جارہی ہے، وہاں مسلکی بنیادوں پر جنگ و جدل کرکے اُمت مسلمہ کے لاکھوں معصوم لوگوں کا خون بہایا گیا ہے، وہاں انسانیت ہر گھڑی رُسوا کی جارہی ہے۔ مغرب اور دنیا بھر میں اُن کے حمایتی اپنی منفی اور شاطرانہ پالیسیوں پر لیپا پوتی کرکے عرب دنیا کی اس ابتر صورت حال کے لیے نام نہاد اسلامی شدت پسندی کومورد الزام ٹھہرا رہے ہیں اور اب شایدکشمیر کو عالمی سطح کے اس گھناؤنے کھیل سے جوڑنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ دنیا کے سامنے کشمیر کیس کو اس انداز سے پیش کیا جارہا ہے کہ یہاں دراصل مسئلہ’’شدت پسندی ‘‘ کا ہے، اُسی طرح کی ’’شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی‘‘ کا جس طرح کی شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی کا سامنا مغربی استعمارکو شام، عراق، لیبا اور یمن میں ہے۔دلی سرکار کے اس بیانئے کے علی الرغم پوری دنیا اس حقیقت سے باخبر ہے کہ مسئلہ کشمیر ۷۰؍سال پرانا حل طلب مسئلہ ہے، دنیا نے اصولی طور پر اس کی متنازعہ حیثیت عالمی ادارے کے توسط سے تسلیم کرلی ہے۔اس مسئلہ کا تعلق کسی شدت پسندی یا انتہا پسندی سے نہیں ہے جب کہ کشمیری عوام کی جائز اور مبنی برحق و صداقت سیاسی جدوجہد کو ’’انتہا پسندی‘‘ قرار دیا جارہا ہے اور یوں بالفعل ایک تیر سے کئی شکار کر کے نہ صرف کشمیر یوں کو روندھا اور مسلا جا رہاہے بلکہ ان کی مظلومیت کو باجواز کہتے ہوئے مغرب کو یہ پٹی پڑھائی جارہی ہے کہ ان سے ہمدردی کر نا اُسامہ اور داعش سے پیار کر نے کے مترادف ہے۔  
دلی کے مسند اقتدار پر براجمان مودی سرکار نے روز اول سے ہی اپنی کشمیر پالیسی کو جارحانہ اور فرقہ پرستانہ رنگ میں ڈبوئے رکھا ہے۔ اس کی رُوسے ایک ہاتھ مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو سرے سے ہی جھٹلایا گیا اور دوسرے ہاتھ کشمیری عوام کو بزور بازو دبانے کے لیے سخت سے سخت تراقدامات کئے گئے۔ مسئلہ کشمیر کے اہم ترین فریق پاکستان کے ساتھ کسی بھی طرح کی بات چیت کو نہ صرف خارج از امکان قرار دیا گیا بلکہ پاکستان کے خلاف’’ سرجیکل اسٹرائیک ‘‘کا دعویٰ تک کیا گیا اور بار بار اُنہیں سرکاری سطح پر’’ سبق سکھانے‘‘ کی دھمکیاں تک دی جا تی رہی ہیں، کشمیری مزاحمتی خیمے کا قافیہ حیات تنگ کیا جا تارہا ہے اور اُن پر این آئی اے کی تلوار لٹکا کر اُنہیں خوف زدہ کرنے کی ہر ممکن کوششوں میںبی جے پی سرکار کوئی پس وپیش نہیں کررہی۔یہ سب چل رہاتھا کہ ایک دن سہ پہر کواچانک ایک نئے مذاکرات کار کی تعیناتی کا فیصلہ میڈیا کے ذریعے سنایا گیا جس نے ہر ایک کو اسی طرح ورطۂ حیرت میں ڈال دیا جیسے مودی نے کابل سے واپسی پر اچانک اپنے طیارے کو پنڈی میں نواز شریف کے گھر کی طرف موڑ کر دنیا ششدر ہوئی۔ سوال یہ ہے کیا بھاجپا سرکار نے اپنی گزشتہ کشمیر پالیسی کو ترک کردیا ہے؟ کیا واقعی نریندر مودی اور اُن کی ٹیم کشمیریوں کے دُکھ درد کو سمجھ کر اُن کی بات سننا چاہتے ہیں ؟ اور کیا واقعی کشمیر کا مسئلہ حل کرنے میں حکومت ہند سنجیدہ اور مخلص ہے؟ یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جو ہر سنجیدہ فکر ذہن میں زیر بحث نئی سچویشن کے حوالے سے از خود خیالوں میں گردش کر رہے ہیں اور لوگوں کوان کاجواب کو ئی موہوم امید دلا کر بتاتا کہ دلی کی سوچ مثبت رُخ اختیار کر چکی ہے اگر وہ بحالیٔ اعتماد کے کچھ ابتدائی نقوش ہی کہیں دیکھتے۔ جب ایسا کوئی اشارہ بھی نہ ہو اور حالات بھی جوں کے توں ہوں تو کیا کہیے؟ اس سلسلے میں جب حقائق کی روشنی میں ہندوستانی سرکاروں کاٹریک ریکارڈ چیک کیا جائے تو یہ ساری سرگرمیاں مشق لاحاصل اور طمع خام، داخلی ٹال مٹول اور خارجی دباؤکی شدت کم کرنے کا آزمودہ نسخہ معلوم ہوگا۔ بھلے ہی بھارتی وزیر اعظم بیرونی دوروں پر ہی کیوںنہ ہوں، بھلے ہی اُن سے امریکہ کامطلبی یارانہ ہو، دلی کو اپنی ’’کامیاب سفارتی‘‘ مہم کے دعوے ہوں، ریاست جموں وکشمیر کی ابتر صورت حال کے حوالے سے کہیں نہ کہیں بیرونی دباؤکا اْنہیں ضرورسامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کو کتنا بھی اپنے اندورونی مسائل کے  ہفت خوان میں اُلجھا ئے رکھا جائے، دنیا میں ابھی بھی وہ اپنے اثر و رسوخ، خارجہ پالیسی اور عالمی سیاست میں اپنی حیثیت سے بھرپور فائدہ اُٹھانے میں کامیاب نظر آرہا ہے۔ امریکہ وزیر خارجہ کے حالیہ دورۂ افغانستان، پاکستان اور بھارت سے محض چند دن پہلے اچانک مذاکرات کار کے نام کا اعلان یہ ظاہر کررہا ہے کہ بھارت کشمیر کے معاملے میں عالمی طاقتوں بشمول امریکہ کے دباؤ میں ہے۔ماہ اگست میں امریکہ وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ : ’’کچھ شعبے ہیں جن میں بھارت کو بھی اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ پاکستان کے خدشات دور ہوسکیں۔‘‘ آج جب ٹیلرسن دوبارہ انڈیا آگیا تو اُن کے احکامات کو بجا لانے کے لیے دلی نے کوئی تو کارنامہ دکھانا ہی تھا، اس نے دنیشور شرما کا پتہ سامنے کر دیا۔حالانکہ یہ سب چھلاوا ہے جس کے ذریعے بڑی بڑی طاقتوں کا موڈ ٹھیک رکھنے کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو بہلانا اور امریکہ کی نئی پاک افغان پالیسی کے بوٹل نیکس کو منیج کرنا مقصودہے۔
جہاں تک عام مصیبت زدہ کشمیریوں کے سوچنے کا تعلق ہے وہ راجناتھ سنگھ کی جانب سے دنیشور شرما کی تعیناتی سے زیادہ متاثردکھائی نہیں دے رہے ہیں، کیونکہ اس قوم نے ایک زمانے میں کے سی پنتھ کو ریاست کے کونے کونے کی خاک چھان مارتے ہوئے دیکھا ہے، اُنہیں لوگوں سے ملتے ہوئے اور جھوٹی یقین دہانیاں کرتے ہوئے پایا ہے، کشمیریوں نے کے سی پنتھ کو بعد میں اس حد تک مایوس ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے کہ دلی کے حکمرانوں کی سرد مہری سے وہ بعد میں دوبارہ کبھی بھی کشمیر آنے سے باز آئے۔ کشمیر کے لوگوں نے موجودہ گورنر این این ووہرا کو بھی مذاکرات کاری کرتے ہوئے دیکھا جنہوں نے بعد میں ریاست کی گورنری حاصل کرکے مسئلہ کشمیر کے بارے میں ا پنے آئیڈیاز کوبستہ ٔ خاموشی میں ڈالنے میں عافیت سمجھ لی۔اُن کی پوزیشن کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ Interlocuter تھے تو دلی نے حریت رہنماؤں کو مذاکرات کے لیے دلی طلب کرکے اُن کے ساتھ براہ رست’’ بات چیت‘‘ کا پہلا دور کیا لیکن جناب ووہرا صاحب کو اس کی اطلاع دینا بھی ضروری نہ سمجھاگیا۔ کانگریسی دور میں دلیپ پڈگاونکر، رادھا کمار اور ایم ایم انصاری کو Interlocuters بناکر کئی ماہ تک اُن کی میڈیا میں خوب تشہیر کی گئی، کشمیر میںاُمیدیں جگائی گئیں ، پھر اس گروپ کی تمام’’ آوارہ گردی‘‘ کا یہ ماحصل سامنے آگیا کہ اُن کی رپورٹ تک کو دلی سرکار نے کھولنا گوارا نہیں کیا۔ یہاں۲۰۱۰ء؁سے۲۰۱۶ء؁تک سرکاری سطح پر دو مرتبہ انتہائی خراب حالات میں آل پارٹی پارلیمنٹ ڈیلی گیشن نے بھی دورہ کیا، اُن کے علاوہ انفرادی سطح پربھی سرکاری و غیر سرکاری سطح پر رام جیٹھ ملانی اور یشونت سنہا بھی حکومت ہند کے آشرواد سے یہاں وارد ہوتے رہے، لوگوں سے ملاقات کرتے رہے، رپوٹیں لکھتے رہے لیکن رات گئی تو بات گئی کے مصداق ہوگئی اور کشمیریوں کے درد کادرماں ہوا نہ یہ کم ہوا۔ اس لئے اب دنیشور شرما ایک انٹیلی جنس مین کو مذاکرات کار یا بھارتی سرکار کا نمائندہ بناکر بھیجنے سے کیا ہوگا؟اس کی پیش گوئی یہاں کا ہر راہ چلتا آدمی بڑی آسانی کے ساتھ کرسکتا ہے۔
دنیشور شرما ایک اہم master  Spy  رہے ہیں، وہ معاملات کو جاسوسانہ انداز میں دیکھنے کا تجربہ رکھتے ہیں، اُن کے پاس نہ ہی کوئی سیاسی تجربہ ہے اور نہ ہی اُنہیں کوئی خاص پولٹکل منڈیٹ حاصل ہے۔اُنہوں نے اپنی تعیناتی کی وجہ خود ہی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کشمیر کی نوجوان نسل کو ’’شدت پسندی اور مذہب انتہا پسندی سے آزاد‘‘ کرانے آئے ہیں۔ وہ کشمیر میں امن بحال کرنے کے لیے بات چیت کریں گے۔ گویا یہ مشن کشمیر حل کی جانب کوئی اقدام ہے ہی نہیں بلکہ اُن بنیادوں تک پہنچنے کی ایک کوشش ہے جن کے ذریعے سے دلی کی تمام چھوٹی بڑی ایجنسیوں کو یہ جانکاری فراہم ہوجائے کہ آخر کشمیری قوم کی نسل ِنو کسی مٹی کی بنی ہوئی ہے۔ اس نئی پود پر تمام طرح کے حربے ناکام ثابت ہوچکے ہیں، اُنہیںلالچ سے خریدا نہ جاسکا، اُنہیں طاقت سے دبایا نہ جاسکا ، اُنہیں دنیوی چکا چوند ی سے لبھایا نہیں جاسکتا۔ اپنے سلب شدہ حقوق کی مانگ پر جمے رہنے کو ’’ شدت پسندی‘‘ سے تعبیر کیاگیا، ان کی دین داری کو’’ مذہبی انتہا پسندی‘‘ کی گالی دی گئی مگر وہیں کا وہیں ہے۔ بہرصورت دنیشور شرما مسائل حل کرنے کے بجائے ایک قسم کا سروے کرنے آرہے ہیں جس سے اُنہیں پتہ چل جائے گا کہ آخر کشمیری قوم اتنی’’ضدی اور ہٹ دھرم‘‘ کیوں ہے جو اتنی ساری قربانیوں اور تباہیوں کے باوجود اپنی سیاسی جدوجہد کو خیر بادکہنے پر آمادہ ہی نہیں ہے۔دنیشور شرما کی تعیناتی کے حوالے سے کانگریس کے سینئر لیڈر و سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم کی اس بات میں جو انہوں نے ایک تازہ بیان میں کہی ہے دم نظر آرہا ہے کہ:’’مذاکرات کار کی نامزدگی ہمیں اس بات کی دلیل نہیں دے رہا ہے کہ حکومت کا دل بدل گیا ہے ، مجھے اس بات پر یقین نہیں کہ دل اور اپروچ میں تبدیلی آئی ہے، مجھے اب بھی یقین ہے کہ وہ مسئلے کے حل کے لئے طاقت کی پالیسی اور فوجی حل نکالنا چاہتے ہیں۔دنیشور شرما کو تمام متعلقین سے بات چیت کرنے کے لیے کہنا دراصل تقسیم کا حربہ ہے تاکہ اس طبقے کو خوش کیا جائے جو مرکز سے کہہ رہا تھا کہ وہ ریاست میں بات چیت کا آغاز کرے۔‘‘ ان تمام ترحالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم یہی اخذ کر سکتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے خواہ کتنے ہی خلوص کے ساتھ بھی اگر دو طرفہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے تو وہ لاحاصل عمل ہوگا کیونکہ جس مسئلے کے تین فریق ہوں، آس میں دو فریقین کی بات چیت کوئی معانیٰ نہیں رکھتی۔ یہ تین فریق مسئلہ کشمیر کے جسم تیں انگ ہیں یعنی دل دماغ اور معدہ۔ان تینوں کے ا تحاد سے ہی زندگی کی گاڑی چلتی ہے۔ نیز طاقت اور تخویف کے حربوں سے کمزور فریق کو مذاکرات کی میز پر لایا جاسکتا ہے لیکن مسئلہ حل ہونے کی کسی کو اُمید رکھنا عبث ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ