آصفہ۔۔۔ المیہ بھی چتاؤنی بھی۔۔۔۔ایس احمد پیرزاہ

 حال ہی میں صوبہ جموں کے کٹھوعہ ضلع کے ہیرا نگر تحصیل سے تعلق رکھنے والی گجر بکروال طبقے کی ایک معصوم کلی ۸؍برس کی ننھی سی جان آصفہ کو اغواء کرکے پہلے وحشیانہ انداز میں جنسی زیادتی کا شکار بنایا گیا پھراغوا ء ہونے کے ایک ہفتہ بعد اُ س معصومہ کی لاش نزدیکی جنگل سے برآمد ہوئی۔ سچ پوچھئے تو یہ ایک کم سن و معصوم بچی کی بے گور وکفن لاش ہی نہیں تھی بلکہ یہ انسانی سماج کی گراوٹ کا کھلااشتہار تھا ، یہ ہمارے یہاں انسان نما درندوں کے تسلط کا اعلان تھا، یہ آدمیت کے اوپر شیطان کی یلغار تھی ، یہ اس بات کا اشارہ تھاکہ ظلم وتشدد کی ماری سرزمین پہ معصومیت اور مظلومیت دو ناقابل معافی گناہ ہیں، یہ ریاست میں لا قانونیت کے راج تاج کا اظہار تھا۔ اس لئے آصفہ کے المیے کو محض جنسی بے راہ روی کے واقعے سے ہی تعبیر نہ کیا جائے بلکہ اس سے بین السطور واضح ہوتا ہے کہ مسلم اکثر یتی ریاست میں مسلمان کی عزت وآبرو اور جائداد واملاک سب سے زیادہ داؤ پر لگی ہوئی ہیں ۔ 
  کہانی کی شروعات یوں ہوئی کہ معصوم آصفہ ایک روز خلاف معمول اپنے مال مویشی کے ہمراہ واپس نہ آئی، والدین انتظار کر نے لگے ، انتظار نے طوالت پکڑا تو خدشات نے جنم لیا، پریشانیوں نے آگھیرا ، تلاش شروع ہوئی مگر بچی کا کوئی اتہ پتہ نہ ملا ۔ والدین کی فکر مندی کوآنسوؤں اور آہوں نے دوبالا کردیا ، چلتے چلتے بات ہیرا نگر پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کر نے تک پہنچی ۔ گمشدہ بچی کے والدین نے پہلے ہی دن مقامی پولیس ا سٹیشن میں رپورٹ درج کی تھی لیکن پولیس نے ان غریبوں کی فریاداور دُہائی پر بروقت کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی۔اگر پولیس رپورٹ درج ہونے کے فوراً بعد حرکت میں آجاتی تو شاید اِس معصوم کی جان بچ جاتی، لیکن جب پولیس مستعدی کی بجائے عدم فعالیت کا مظاہرہ کر نے لگی تو ’’بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ‘‘ نعرہ دینے والوں کی اصلیت بے سہارا گجر فیملی کے سامنے ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آئی ۔ اس لئے کھٹوعہ المیے کا تجزیہ کر نے والے مبصرین سوال کرتے ہیں کہ جب معاملہ مسلم بچیوں کا ہوتا ہے تو خاکی وردی والے عصمتوں کے لٹیروں کے طرفدار بلا وجہ نہیں بن جاتے ہیں۔ اس کا نمونہ گزشتہ سال کشمیری بہو بیٹیوں کے بال کاٹنے والے منظم گروہوں کے حوالے سے پولیس کی عدم کارکردگی سے بھی لوگوں کو دیکھنے کوملا۔ بہرحال کٹھوعہ کی معصومہ آصفہ کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے، اُسے درندگی کاشکار بنانے والوں کے خلاف کوئی بروقت کارروائی نہ ہوئی،۔اس کے اغوا ء کار وحشیوں نے بچی کی عزت ریزی پر ہی بس نہیں کیا بلکہ اپنی زندگی کی صرف آٹھ بہاریں دیکھنے والی اس معصوم کلی کو مسل کر اس کی زندگی کا چراغ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گل کردیا۔یہ جرائم کی دنیا کی بھیانک واردات ہے اور اس واردات میں کن کا ہاتھ ہے؟ کون لوگ اس میں ملوث ہیں اور اُن کی پشت پناہی کہاں سے ہورہی ہے ؟ اس معاملے کو کیوں دبایا جارہا ہے؟ ملوثین کی کیوں پردہ پوشی ہورہی ہے؟ کیوں پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومت بھی اس جرم عظیم کے حوالے سے اصل حقائق عوام کے سامنے نہیں لارہی ہے؟ کیوں اس سانحہ کوبھی شوپیان کی آسیہ اور نیلوفرکی طرح پراسرار بنانے کی کوشش ہورہی ہے؟ کٹھوعہ اور صوبہ جموں میں جن  باضمیرلوگوں نے آصفہ کو انصاف دلانے کے لیے آواز بلند کی ،اُنہیں کیوں پولیس نے گرفتار کرلیا ، اُنہیں طرح طرح سے کیوں ہراساں کیا گیا؟  اس المیے کی یہ ساری کڑیاں جوڑیئے تو اس جانب اشارہ ملے گا کہ یہ واردات محض جرائم پیشہ فرد یا ٹولے کاکیا ہوا ایک عام جرم نہیں ہے بلکہ ایک مخصوص کمیونٹی کے خلاف منظم انداز کی  مجرمانہ واردات ہے۔ اس کے پیچھے اوچھے سیاسی مقاصد بھی ہوسکتے ہیں ، فرقہ پرستانہ ذہنیت بھی ہوسکتی ہے اور اس کے ذریعے سے خطہ میں موجود پسماندہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے ذلیل مقصد بھی کارفرماہوسکتا ہے۔یہ الزام نہیں ہے بلکہ گزشتہ کئی برسوں میں ایسے المیوں اور سانحات کی کڑیاں ملایئے تو ذہنوں میں ایسا ہی مایوس کن خاکہ تشکیل پاتا ہے۔ 
دلی میں بی جے پی کا تخت پر براجمان ہونا اور پھر ریاستی اقتدار میں اس کی شرکت داری کے بعد صوبہ جموں کے مسلمانوں کو طرح طرح سے ہراساں و پریشاں کیا جانا کوئی سات پردوں میں چھپی حقیقت نہیں۔ تند وتلخ حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے ریاست میں مسلم دشمنی کو بنیاد بناکر ہی نہ صرف الیکشن لڑا تھا بلکہ اسی وجہ سے صوبہ جموں میں نمایاں کامیابی بھی حاصل کرلی تھی۔اس کے الیکشن منشور میں مشرقی پاکستان کے شرنارتھیوں کو شہریت دینا شامل ہے اوراُن شرنارتھیوں میں شامل فرقہ پرست ذہنیت کے لوگوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بیج بہت پہلے سے بوئے جا چکے ہیں۔ نیزاس خطہ میں کافی عرصے سے تیز طرار فرقہ پرستوں کا آنا جانا بلاوجہ نہیں ہے ۔ وہ بڑی بڑی سبھاؤں میں اشتعال انگیز تقریریں ایک مقصد کے تخت کرتے ہیں جن میں وہ کھلے عام اپنے سیوکوں کے کا نوں میں مسلم دشمنی کا زہر گھول دیتے ہیں ۔ بی جے پی کی کامیابی اور اقتدار میں آجانے کے بعد صوبہ جموں میں ایسی فرقہ پرست طاقتوں کے حوصلہ بلند ہوگئے، اُنہوں نے بہت پہلے سے صوبہ جموں میں اکثرمقامات پر غریب مسلمانوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کردیا۔ آج تک راجوری کے علاقے میں ’’گاؤ رکھشا‘‘ بریگیڈ کی جانب سے غریب مسلمانوں پر کئی منظم حملے بھی ہوئے ہیں۔ بی جے پی کے وزیر جنگلات نے ’’جنگلاتی اراضی پر قبضہ ‘‘کا شوشہ پھیلا کر غریب گوجروں کی بستیوں کو نشانہ بناتے ہوئے ان کی جھونپڑیوں کومنہدم کروایا۔ انہدامی کارروائیوں کا آغاز جان بوجھ کر مسلم بستیوں سے کیا گیا ۔اس کے ردعمل میں ان غریب مسلمانوں نے احتجاج بھی کیا، اُن کی بات سننے کے بجائے اُن پر گولیاں برسائی گئی ، جس میں ایک مسلم نوجوان کی موت بھی وقع ہوئی ۔ اُن کی جگی جھونپڑیوں کو فلمی انداز میں نذر آتش کردیا گیا، اُن کے گھر تہس نہس اورآشیانے اُجاڑ دئے گئے ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بی جے پی کے وزیر چودھری لال سنگھ کا وہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے جس میں انہوں نے گوجروں کے ایک وفد کو دھمکاتے کہا تھا کہ وہ صوبہ جموں میں۱۹۴۷ء کو دوہرا سکتے ہیں۔ نومبر۱۹۴۷ء میں صوبہ جموں میںمسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام ہوا۔ چھ لاکھ کے قریب مسلمانوں کو تہ تیغ کیا گیا۔ مسلم آباد ی کو ۴۷؍فیصدی سے گھٹا کر محض۷؍فیصدی تک پہنچا دیا گیا۔ عزت مآب مسلم خواتین کو عریاں کردیا گیا اور اُن کی اجتماعی عصمت دریوں کے ساتھ ساتھ مسلم دوشیزاؤں کو اغوا ء کرکے غائب ہی کردیا گیا۔ جموں کی یہ تلخ یادیں آج بھی جب ہم پڑھتے ہیں تو روح کانپ اُٹھتی ہے ، دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی ہیں اور خون کھول اٹھتا ہے۔
آصفہ کے اجتماعی عصمت دری جیسا کہ اُن کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سے ظاہر ہوا اور پھر اُن کے قتل کو جب ۴۷؍کو دوہرانے کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے تو عام مسلمانوں کے اس شک کو تقویت حاصل ہوجاتی ہے کہ یہ دلدوز واردات کسی منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہوسکتی ہے۔وادی کشمیر میں گزشتہ کئی برسوں سے قتل اور جرائم کی درجنوں جگرسوز وارداتیں رونما ہوئی ہیں، یہاں پولیس نے چند ہی گھنٹوں میں اُن کیسز کو سلجھانے کا دعویٰ کیا،جس کی ایک مثال چند ماہ پہلے بارہمولہ میں ایک خاتون کا ہسپتال سے غائب ہوجانا اور پھر اگلے ہی دن اُن کی لاش نزدیکی کھیتوں میں مل جانا ہے۔اس واردات کو پیش آجانے کے صرف دوسرے ہی دن پولیس نے اُن کے قتل میں ملوث شخص کو گرفتار کرلیا ۔ یہاں اگر کسی کیس میں ملوث اشخاص گرفتار نہیں ہوتے ہیں، وہ صرف ایسے کیسز ہیں جن میں شک کی سوئی وردی پوشوں کی جانب جاتی ہے، چاہے یہ کنن پوشہ پورہ جیسا سانحہ ہو، وہ شوپیان کی آسیہ اور نیلوفر جیسی بیٹیوں کا عصمت دری اور قتل جیسی المناک واردات ہو۔ایسے سانحات کو چھوڑ کرباقی جرائم پیشہ افراد کی جانب سے جتنے بھی جرائم کا ارتکاب آج تک ہواہے، اُن سب میں ملزمان کو پولیس نے تمام ثبوتوں کے ساتھ گرفتار کرکے قانون کے حوالے کردیا ہے ۔ اس لئے اگر معصوم آصفہ کا قتل بھی عام نوعیت کا ہوتا، اِس میں بھی جرائم پیشہ افراد ملوث ہوتے تو پھر اصل مجرمان کب کے گرفتار ہوچکے ہوتے لیکن جب ہم پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے کیس کو الجھانے اور وقت کو ٹال دینے کی دانستہ کوششوں کو دیکھتے ہیں تو یہ کہنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کی جاتی ہے۔ آسیہ اور نیلوفر کے کیس کو پس پشت ڈالنا تھا تو اُس معاملے میں بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کے نتیجے میں پہلے تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا گیا پھر کیس سی بی آئی کو سونپ دیا گیا جس نے اپنی تحقیقاتی ہسٹر ی کے خلاف اپنی فائنل رپورٹ میں کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق مجرموں کو بے نقاب تو نہیں کیا، البتہ جو لٹ چکے تھے، جن کی بیٹیوں پر ظلم عظیم ہوا تھا ، جن لوگوں نے اس وحشی پن کے خلاف آواز بلند کی، اُن ہی کو مورد الزام ٹھہراکر پورے معاملے کو گول کردیا۔ حد تو یہ ہے سی بی آئی نے آسیہ اور نیلوفر کا پوسٹ مارٹم کرنے والی ڈاکٹر تک کو بھی ’’مجرم‘‘ قرار دیا۔ اس طرح ملت کی اُن مظلوم بیٹیوں کی پوری فائل روز محشر تک داخل دفتر کردی گئی۔بالکل ویسا ہی طرز عمل آصفہ کے معاملے میں بھی اختیار کیا جارہا ہے۔ اُس کے معاملے میں بھی شروع سے ہی پولیس نے لیت و لعل کا مظاہرہ کیا، پھر عوامی دباؤ پرتحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی۔ جب اس سے بات بنتی نظر نہیں آئی تویہ کیس کرائم برانچ کو سونپ دیا گیا۔انصاف کے لیے آواز بلند کرنے والے لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ عجب نہیں کہ عنقریب مقتول آصفہ کو ہی ’’قتل‘‘ ہونے کے لیے اور اُن کے غریب والدین کو انصاف طلب کرنے کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ یہ اندھوں او ربہروں کا دیس ہے، یہاں انصاف فراہم کرنے والوں اور فرقہ پرستوں کے اشاروں پر رقص کرنے والے سرکاری عہدہ داروں کو یہ تک احساس نہیں کہ اگر آج پسماندہ گجر کمیونٹی کی آصفہ ظلم و بربریت کا شکار ہوگئی ہیں کل کو یہ ظلم ہماری بیٹی، بہن اوربیوی پر بھی ہوسکتاہے۔جو رویہ آصفہ کے معاملے میں اختیار کیا جارہا ہے اُس کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں شوپیان کی آسیہ اور نیلوفر کی فہرست میں ملّت کی ایک اور بیٹی کا اضافہ ہوا ہے۔ 
جب آپ ایک متنازعہ خطے میں رہتے ہوں، جب آپ پر آٹھ لاکھ سے زائد وردی پوش افسپا سے مسلح کرکے مسلط کردئے گئے ہوں، جب آپ کے خلاف فرقہ پرست طاقتیں چوبیسوں گھنٹے سازشیں کرنے میں مصروف ہوں، جب آپ خوف اور دہشت کے ماحول میں سانس لے رہے ہوں اور جب آپ کو یہ تک معلوم نہ ہو کہ کب آپ کو گولی سے اُڑا دیا جائے ، کب آپ کے گھر کو بارود سے نیست و نابود کردیا جائے اور کب عزت مآب ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتیں تار تار ہوں تو ایسے میں ہر فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے اردگرد پیش آنے والے حالات سے باخبر رہے، سازشی عناصر کی تمام تر سازشوں کو سمجھے ، پُر فریب نعروں کے جھانسے میں نہ آئے، وہ لالچ میں آکر بہک نہ جائے، وہ معمولی مفادات کے چکر میں اپنی تباہی و بربادی کو گلے لگانے کا سامان فراہم نہ کرے۔ ہم جانتے ہیں کہ اجتماعی طور پر ہمارے خلاف کس طرح کی جال بچھائی جارہی ہے۔ دانش گاہوں میں ہماری لاڈلی بیٹیوں کو ’’ٹیلنٹ‘‘ اور’’ایکسپوژر ‘‘کے نام پر بے حیائی کے دلدل میں کس طرح دھکیلا جارہا ہے، ہماری بیٹیوں کے لئے کس بے تکلفی کے ساتھ بالی وڈ کے دروازے کھولے جارہے ہیں، ٹیلنٹ پرموشن کے نام پر کون سے گل کھلائے جارہے ہیں، اعلی افسران ہماری بیٹیوں کو مختلف موقعوں پر ’’کلچرکے فروغ‘‘ کے نام پر کس طرح رقص و سرور کی محفلوں کی زینت بننے پر تیار کرتے ہیں۔ہمیں انتظامیہ کے ایسے بے حمیت آلہ کاروں سے یہ پوچھنے کا حق حاصل ہے کہ کیا ’’ٹیلنٹ‘‘ میں نکھار صرف ناچ نغمے سے آجاتا ہے؟ آصفہ نے دنیا چھوڑتے ہوئے یہ پیغام دیا ہے کہ ہمیں انفرادی و اجتماعی سطح پر ایسی تمام سازشوں اور حربوں سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے جو ہمارے دین وایمان کے لئے زہر ہلاہل ہیں ۔ ایک مسلمان کے لیے جان گنوانا گوارا ہوسکتا ہے لیکن اُس کی ماؤں ، بہنوں او ربیٹیوں کی عزت پر کوئی آنچ آجائے، یہ اُمت کے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ فرد کے لیے بھی ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ ہمیں اپنے گردونواح کے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینا چاہیے اور اپنے گھر میں، سماج میں اور اپنے خطے میں بلا کسی من وتُو کے بنت ِحوا کی عزت، آبرو اور عصمت محفوظ بنانے کے لیے دفاعی لائینیں متحد ومنظم ہوکر کھینچنی چاہیے اور یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ کے سوا ہمارا کوئی مددگار نہیں ۔


Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ