شوپیان ۔۔۔یہ کس کا کہو ہے کون مرا۔۔۔۔۔ایس احمد پیرزادہ

شوپیان:یہ کس کا لہو ہے کون مرا؟؟… ایس احمد پیرزادہ
4؍ مارچ کوجنوبی کشمیر کے پہاڑی ضلع شوپیان میں ایک اور خونی کھیل میںدوعسکریت پسندکے علاوہ چار بے گناہ اور معصوم کشمیریوں کو فورسز اہلکاروںنے گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا ہے۔مقامی لوگوں کے مطابق اس روز شام کو جب لوگ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد سے باہر آرہے تھے توکچھ ہی دیر بعد باہر شوپیان سے ۶ کلو میٹر دور ترکہ وانگام روڑ پرپہنوپنجورہ نامی گاؤںمیں گاڑیوں کی تلاشی کرنے والے مقامی کیمپ سے وابستہ44 آر آر کے اہلکاروں نے ایک Swift گاڑی زیر نمبرJK04D 7353پر اندھا دھند فائرنگ کی تین بے گناہ لوگوں کو جان بحق کردیا۔عوامی ذرائع کے مطابق Swift گاڑی پر فائرنگ سے قبل جنگجوؤں اور فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی جس میں ایک عسکریت پسند جان بحق ہوگیا۔اس واقعے کے حوالے سے فوج نے پہلے یہ دعویٰ کیا کہ فائرنگ میں ایک جنگجوعامر احمد ملک ولد بشیر احمد ملک ساکن حرمین شوپیان جان بحق ہوگیا۔ قریباً ایک گھنٹے کے بعد آرمی نے اپنے ایک اور بیان میں کہا کہ اس واقعے میں جنگجو ؤںکے ساتھ موجود تین مقامی نوجوان بھی اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے، جن کی شناخت سہیل احمد وگے ولد خالد احمد وگے (عمر۲۲؍سال) ساکن پنجورہ،شاہد احمد خان ولد بشیر احمد خان(عمر ۲۳؍سال) ساکن ملک گنڈ اور شاہ نواز احمد وگے ولدعلی محمد وگے (عمر۲۳؍سال) ساکن مولوکے طور پر ہوئی۔آرمی کے بیان میں بتایا گیا کہ یہ تینوں نوجوان عسکریت پسند کے ساتھ گاڑی میں جارہے تھے اور اُنہوں نے فوج پر مبینہ طور پر فائرنگ کی، جوابی کارروائی میں یہ چاروں جان بحق ہوگئے۔فوج کے بقول تینوں نوجوان عسکریت پسندوں کے لیے بطورOGW کام کررہے تھے۔ مقامی لوگوں نے آرمی کی اس پوری کہانی کو من گھڑت قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوج نے تینوں نوجوانوں کو جرم بے گناہی میں مار دیا ہے اور اُنہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کی دلیل کو اس بات سے بھی تقویت حاصل ہورہی ہے کہ اگلے دن یعنی۵؍مارچ کی صبح کوسانحہ والی اسی جگہ سے کچھ ہی دوری پرموجود گاڑی Wagon R زیر نمبرJK01Q 1723 سے ایک اورنوجوان گوہر احمد لون ولد عبدالرشید لون (عمر۲۴سال) ساکن مولو کی لاش برآمد ہوئی۔بالفرض مان بھی لیا جائے کہ پہلے تین نوجوان جنگجو کے ساتھ گاڑی میں سفر کررہے تھے تو پھر دوسری گاڑی میں سوارگوہر احمد لون کو کیوں نزدیک سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا ہے۔حالانکہ فوج کی کہانی میں پہلے سے ہی تضاداور جھول پایا جاتا ہے۔جس وقت یہ سانحہ پیش آیا اُس کے کچھ ہی دیر بعد سوشل میڈیا پر فوج کے ذرائع سے مختلف نیوز ایجنسیوں نے جو خبر شائع کی اُس میں ایک جنگجو کے جان بحق ہونے کی اطلاع دی گئی اور ساتھ میں اُس کی تصویربھی عام کردی گئی جس میںاُن کی لاش وردی پوشوں کے درمیان سڑک کے بیچوں بیچ دکھائی دے رہی تھی۔ اگر وہ اُسی گاڑی میں سوار ہوتا جس میں یہ تین معصوم نوجوان تھے تو پھر اُن کی خبر پہلے مرحلے میں نشر کیوں نہیں کی گئی؟کئی ایسا تو نہیں کہ حسب روایت فوج جنگجو کے ابدی نیند سو جانے کے بعدآپے سے باہر ہوگئی اور اُنہوں نے شاہراہ پر چلنے والی گاڑیوں کو بے تحاشا انداز میں نشانہ بنانا شروع کیا۔ جس کی زد میں دونوں گاڑیاں آگئی ہیں جن میں یہ تین نوجوان اور دوسری گاڑی میں ایک اور نوجوان گوہر احمد لون آگئے اور یہ چاروں اَدھ کھلے پھول ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مرجھا گئے۔ آثار و قرآئن اور عوامی ذرائع کی رپوٹوں سے کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے۔اس سانحہ کے حوالے سے فوج نے بیس گھنٹوں کے اندر تین بار متضاد بیانات جاری کیے ہیں۔ اگلے دن جب گوہر احمد کی لاش برآمد ہوئی تو فوجی ترجمان نے گزشتہ دو بیان کے بالکل ہی متضاد تیسرا بیان جاری کردیا جس میں بتایا گیا کہ فوجی ناکہ پارٹی کی جانب دو تیز رفتار گاڑیاں آرہی تھیں جنہیں رکنے کے لیے کہا گیا ، گاڑیاں رُکنے کے بجائے اُن میںسوار جنگجوؤں نے فوج پر فائرنگ کی ، جوابی کارروائی میں ایک جنگجو اور اُس کے چار اعانت کار جان بحق ہوگئے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کا یہ بیان صحیح ہے تو گزشتہ دو بیان کیوں دئے گئے ؟ عام لوگ اور عینی شاہدین اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ پہلے مرحلے میں جو جھڑپ جنگجوؤں کے درمیان ہوئی ہے اُس میں صرف ایک جنگجو جان بحق ہوا تھا، اس لیے پہلے مرحلے پر وہی کہا گیا جو ہوا تھا لیکن بعد میں فوج نے جان بوجھ کر راہ چلتی گاڑیوں کو نشانہ بناکر جوگھناؤنا کام کیا اُس پر پردہ پوشی کرنے کے لیے پھرسے متضاد بیانات جاری کیے گئے۔
سہیل احمد وگے کے بھائی محمد عباس وگے نے فوج کے دعویٰ کی نفی کرتے ہوئے ایک مقامی نیوز ایجنسی سے کہا کہ:’’میں نے سہیل کو 7:24 PM بجے فون کیا تو اُس نے مجھ سے کہا کہ وہ ماں کو بہن کے گھر چھوڑ نے پہلی پورہ پہنچ چکا ہے۔اُس کے صرف آدھے گھنٹے بعد ہم نے یہ المناک خبر سنی کہ فوج نے سہیل کو مار دیا ہے۔‘‘اسی طرح شاہد احمد خان کے والد بشیر احمد نے کہا کہ:’’میرا بیٹا بارہویں جماعت کا طالب علم تھا، وہ نماز پڑھنے نکلا تھا اُسے جرم بے گناہی میں مار دیا گیا۔‘‘جس جگہ پر یہ سانحہ پیش آیا وہاں کے عام لوگوں نے بھی فوج پر الزام عائد کیا کہ اُنہوں نے جھڑپ کے دس منٹ بعد جان بوجھ کر راہ چلتی گاڑیوں کو نشانہ بناکر چار بے گناہ نوجوانوں کو جان سے مار دیا۔… جنوبی کشمیر کے شوپیان ، پلوامہ اور کولگام ضلع میں عوامی غم و غصہ بھی اس بات کی عکاسی کررہا ہے کہ یہاں وردی پوش اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرکے حد سے تجاوز کررہے ہیں۔ نہتے اور بے گناہ لوگوں کو مارنے کی جیسے اُنہیں کھلی لائنس حاصل ہے۔جنوبی کشمیر میں رواں سال میں اب تک درجن بھر بے گناہ نوجوان وردی پوشوں کی گولیوں کا شکار ہوکر جان بحق ہوچکے ہیں اور نہ جانے کتنے بری طرح سے مضروب ہوچکے ہیں۔
ماہ جنوری میں ایسے ہی ایک سانحہ میںآر آرکے اہلکاروں نے اِسی ضلع میںتین نوجوانوں کوجرم بے گناہی میں گولی مار کر جان بحق کردیاہے، جس پر کافی ہنگامہ ہوا تھااور بعد میں پولیس نے جب اس سانحہ میں ملوث میجر آدتیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی تو سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایف آئی آر پرمزید کارروائی کرنے پر روک لگا دی اور جموں و کشمیر گورنمنٹ سے اس سلسلے میںجواب طلبی کی۔ اس سے پہلے محبوبہ مفتی والی پی ڈی پی سرکار نے عوام کو یقین دلایا تھا کہ وہ اس سانحہ کی تحقیقات کرکے ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے گی لیکن جب ۵؍مارچ کو ریاستی سرکار نے سپریم کورٹ میں جواب داخل کیا تواُنہوں نے عوامی مفادات اور جان و مال کے تحفظ کی باتوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اپنے جواب میں سپریم کورٹ کو بتادیا کہ میجر آدتیہ کا نام ایف آئی آر میں درج ہی نہیں ہے۔گویا عوام کو گمراہ کیا جارہا تھا، وقتی طور پر اُن کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یہ جھوٹ اور فریب پر مبنی داؤ کھیلا گیا کہ میجر آدتیہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔یہاں ہر قتل عام میں ملوث اہلکاروں کو بچانے کے لیے پہلے سے ہی ریاست سرکاری تیاریوں میں ہوتی ہے۔یہ المناک صورتحال میجر گوگوئی کے کیس میں بھی دیکھنے کو ملی جس نے بیروہ بڈگام میں فاروق احمد ڈار کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرکے انسانی حقوق کی سر عام بے حرمتی کی۔اُن کے خلاف ریاستی سرکار نے کافی بیان بازی کی تھیں لیکن جب قانون کی بات آئی تو اُنہیں سزا دینے کے بجائے فوج نے اُنہیں ترقی سے نوازا۔ ہندوستان میں اُن کے نام کی T-Shirts تیار کی گئیں جو ہاتھوں ہاتھ بِگ گئیں، اُنہیں ہندوستانی میڈیا اور سیاست دانوں نے ہیروں کے طور پر پیش کیا۔ کشمیریوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والوں کو جب تمغوں سے نوازا جارہا ہو، جب اُن کے سپورٹ میں میڈیا یک طرفہ اور جانبداری پر مبنی رپورٹیں شائع کرتی ہو، جب پٹوری اور مقامی پولیس تھانہ کے اہلکاروں سے لے کر ڈپٹی کمیشنر اور اعلیٰ مقامی سرکاری عہدہ داراور سیاست دان تک اُنہیں بے گناہ ثابت کرنے کے لیے جھوٹی رپورٹ تیار کرنے میں پیش پیش ہوں تو بھلاکیوں کر وردی پوش عام شہری ہلاکتوں سے باز رہیں گے۔جب فوج کو دشمن کی طرح عوام کے رو برو کھڑا کیا جائے، جب کسی بھی شخص کی جان لینے کے لیے سنگ باز، تخریف کار، او جی ڈبیلو، احتجاجی اصطلاحوں کو جواز بنایا جانے لگے تو بخوبی انداز ہوجاتا ہے کہ حالات کس نہج پر جارہے ہیں۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے ، جس کے ذریعے سے یہاں پر کشمیریوں کی نسل کشی کے لیے راہیں آسان کی جارہی ہیں۔وردی پوشوں میں عوام کے تئیں نفرت کے بیچ بوئے جارہے ہیں، فرقہ پرست ذہنیت کو بری طرح سے حاوی کیا جارہا ہے ، عوامی جذبات کو کچلنے کے لیے وردی پوشوں اور فورسز ایجنسیوں کو سرکاری اور سیاسی سطح پر اشتعال دیا جارہا ہے۔ ایسے میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا یہ سلسلہ بھلا کیسے رُک سکتا ہے بلکہ کشمیری عوام کے لیے آنے والا زمانہ مزید پریشان کن اور پر تشدد ثابت ہوسکتا ہے۔
کشمیریوں کی نسل کشی کی ان کھلے عام وارداتوں کی پشت پناہی نہ صرف سرینگر ودلی میں قائم سرکاریں کررہی ہیں بلکہ ایسا کرنے کے لیے وردی پوشوں کو آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ’’افسپا‘‘کا تحفظ بھی فراہم کیا گیا۔ سابق بھارتی فوجی سربراہ نے’’افسپا‘‘ کو مقدس کتاب سے تعبیر کرتے ہوئے اِس کو ریاست جموں وکشمیر میں لازمی قرار دیاہے۔ اس قانون کی رو سے فوج کے خلاف ہوم منسٹری کی اجازت کے بغیر کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکتی ہے۔ وقتی حالات سے نپٹنے کے لیے یہاں کی حکومتیں تحقیقات وغیرہ کا خوب ڈھنڈورا پیٹتی رہتی ہیں لیکن عملی طور پر یہ سب فضول کاوشیں ہی ثابت ہو جاتی ہیں۔اس لیے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ کشمیریوں کی نسل کشی اور یہاں ہورہی سنگین قسم کے انسانی حقوق کی پامالیوں پر تب تک کوئی روک نہیں لگ سکے گی جب تک نہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ عالمی طاقتیں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ عالمی طاقتوں کی جانبداری اور مفاد پرستی کا تو کوئی گلہ نہیں البتہ اسلامی دنیا کی مجرمانہ خاموشی پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ مسلم ورلڈ اگر چاہتی تو احسن طریقے سے ہندوستانی حکومت پر دباؤ بڑھا سکتی تھیں اور ہندوستانی حکمرانوں کو انسانیت کو نگلنے والے مسئلہ کشمیر کے مستقل حل پر راضی کراسکتے ہیں لیکن ملت کے یہ حکمران آنکھ بند کیے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے ممالک میں بھارتی حکمرانوں کی خوب آو بھگت کررہے ہیں، بھارتی وزیر اعظم کو اعلیٰ ایوارڈ سے نوازتے ہیں اور اُن کی خوشنودی کے لیے اپنے ملکوں میں اُنہیں مندر بنانے کے لیے زمین تک فراہم کرتے ہیں، گویا ہر جانب سے دلی سرکار کو اطمینان حاصل ہوچکا ہے کہ کشمیر میں جو کچھ وہ کررہے ہیں اس کے لیے اُنہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔المیہ یہ ہے کہ یہاں موجود ہند نواز سیاست دان کشمیریوں کی بھلائی کی خوب باتیں کررہے ہیں، وہ شہری ہلاکتوں پر بیان بازیاں بھی کرتے ہیں لیکن اُن کی اولین ترجیح اقتدار حاصل کرنے کو ہوتی ہیں۔ ایک دفعہ اقتدار میں آکر وہ انسانی لاشوں پر چل کر دلی کے مفادات کی یہاں پر آبیاری کرتے ہیں۔ اُن کا ضمیر اُنہیں ذرا بھی احساس نہیں دلاتا کہ جن لوگوں کے ووٹ سے وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوجاتے ہیں اُن ہی لوگوں کے قتل عام پر وہ نہ صرف جھوٹے مگر مچھ والے آنسوں بہاتے ہیں بلکہ اُن کے قتل کو جواز فراہم کرنے کے لیے یہ مقامی وکیل کا کام بھی انجام دیتے ہیں۔
بار بار اور نہ رکنے والی عام اور بے گناہ لوگوں کو جان سے مار دینے سے کلیجہ پھٹ جانے کو آتا ہے۔ جب پوری انسانیت آپ کی مخالفت پر آمادہ ہوچکی ہو اور جب تمہارے قتل عام سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہوتو پھر آخری سہارا اللہ رب کائنات کا ہی ہوتا ہے۔ ہمیں بحیثیت ملت اپنے مصائب کا ذکر اپنے رب سے کرنا چاہیے ، اُس کی مدد ضرور آئے گی اور ہماری زندگیوں سے ناکامیوں، نامرادیوں او رمایوسیوں کی یہ سیاہ گھٹائیں چھٹ جائیں گی۔ شرط یہ ہے کہ ہم سب اللہ سے رجوع کریں۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ