کشــمــیــر :حالات خاک سدھریں گے

کشــمــیــر :حالات خاک سدھریں گے

طاقت کے نشانے پہ ہے جذبات کا گلشن

۔ 2016 ء اور 2017ء کے خونین برس گزر جانے کے بعد 2018 ء کے لیے یہ اُمیدیں باندھی جارہی تھیں کہ اس سال کشمیر میں کشت و خون کاسلسلہ تھم جائے گا۔انسانی جانوں کے زیاں کا سلسلہ رُک جائے، لیکن گزشتہ برسوں کی طرح اس بار بھی پہلے ہی تین ماہ کے دوران اہالیان کشمیر کی تمام تر خوش اُمیدیوں پرپانی پھر گیا ہے۔ ریاست میں موجود دس لاکھوں نفری پر مشتمل وردی پوش افسپا جیسے قوانین سے حاصل شدہ غیر معمولی اختیارات کی آڑ میں کشمیریوں کی نوجوان نسل کا بے تحاشہ لہو بہاتے جا رہے ہیں اور انسانی حقوق کی ان بدترین خلاف ورزیوں کو جائز جتلانے کے لیے ملوث ایجنسیاں دم ٹھونک کر ناقابل قبول وغیر معقول جوا ز بھی پیش کرتی ہیں۔ حد یہ کہ عوام کے خلاف اس کھلی جنگ کے خلاف وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے بھائی اور وزیر سیاحت مفتی تصدق نے بغیر کسی لاگ لپٹی کے اعتراف کر دیا ہے کہ پی ڈی پی اور بی جے پی کا سیاسی گھٹ جوڑ جرائم پیشوں کا باہمی اتحاد لگتا ہے۔ ان کی زبانی اپنی ہی حکومت پر تنقید کی بوچھاڑپر اگرچہ تجزیہ کار ورطہ ٔحیرت میں ہیں مگر ناقابل تردید سچ یہ ہے کہ صرف یکم جنوری 2018 ء سے لے کر 11 ؍اپریل تک 29 عام اور نہتے کشمیری نوجوانوں کو مختلف مقامات پر گولیوں کا نشانہ بناکر جان بحق کردیا گیا۔ اس دوران48عسکریت پسند بھی جان بحق ہوئے۔ 12 ؍پولیس اہل کاروں اور 13 ؍بھارتی فوجیوں سمیت سال کے پہلے سو دن میں 102 ؍انسانی جانیں تلف ہوئی ہیں۔ تازہ ترین سانحہ کھڈونی کولگام میں پیش آیا جہاں11 ؍اپریل کو فوج کے ساتھ ایک معرکہ آرائی میں اگر چہ عسکریت پسند محاصرہ توڑ کر بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوئے تاہم وردی پوش اہل کاروں نے مختلف جگہوں پر عام اور نہتے احتجاجی نوجوانوں پر فائرنگ کر کے چار معصوم نوجوانوں کو جان بحق کرنے کے علاوہ 65 ؍ دیگر افراد کو زخمی کردیا۔ زخمیوں میں کئی افراد کی حالت مختلف ہسپتالوں میں نازک بنی ہوئی ہے۔ کھڈونی کی اس خون ریز معرکہ آرائی میں فوج کی جانب سے گن شپ ہیلی کواپٹر استعمال میں لائے گئے اور عینی شاہدین کے مطابق اندھا دُھند طریقے سے عام لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سانحہ میں جن نوجوانوں کی موت واقع ہوئی اُن میںشرجیل احمد شیخ ولد عبدالحمید شیخ ساکن کھڈونی(عمر 28 سال) ، بلال احمد تانترے و لد نذیر احمد تانترے ساکن کجر(عمر 16 ؍سال)، فیصل الائی ولد غلام رسول الائی ساکن ملہورہ شوپیان(عمر14 ؍سال) اور اعجاز احمد پالہ ساکن تل خان بجبہاڑہ شامل ہیں۔اہا لیانِ کشمیرکی بدنصیبی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوگا کہ 28 ؍سال کی عمر کا شرجیل احمد جنہیں اپنے گھر کے صحن میں گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا ،کی صرف چار روز بعد شادی ہونی والی تھی۔ شرجیل کے والدین نے اُن کی شادی کے لیے تمام تیاریاں مکمل کرلی تھیں ، دعوت نامے بھی تقسیم ہوچکے تھے، والدین اپنے آشیانے میں شادی کی خوشیوں کے انتظار میں دن گن رہے تھے کہ اُن کے بیٹے کو خون میں نہلایا گیا۔ جہاں شادی کے روایتی گیت بجنے والے تھے وہاں صف ماتم بچھ گیا۔ جن والدین نے اپنے بیٹے کے دولہا بننے کے خواب سجا رکھے تھے، اُنہیں اُن کی لاش کا بناؤ سنگھار کرنا پٖڑا۔ ماہ جبین جن کے ساتھ شرجیل کی شادی ہونے والی تھی، جو اپنے سپنوں کے اپنی گھر گرسہتی سنبھالنے کے انتظار میں بیٹھی تھیں، اُنہیں تقدیر نے رخصتی سے قبل ہی بیوہ بنا دیا ۔ 14؍برس کی عمر کے فیصل الائی کو جب صبح سویرے فوجی محاصرے اور انکاؤنٹر کی اطلاع ملی تووہ فوراً گھر سے نکل پڑے۔ روانہ ہونے سے قبل اپنے گھر والوں کو کہہ گیا کہ وہ اُن کے آخری رسومات کی تیاریاں کریں۔ پھر دوپہر ہونے سے قبل ہی اُن کی لاش گھر پہنچ گئی۔عام شہری ہلاکتوں کے حوالے سے سرکاری فورسز ایجنسیوں کو کوئی افسوس بھی نہیں ہے بلکہ ریاستی پولیس چیف نے مرنے والوں کو اپنی موت کا خود ذمہ دار قرار دے کر مقتولین کو ہی ’’مجرم‘‘ ٹھہرایا۔
یکم اپریل کو شوپیان ، اسلام آباد اور گاندربل میں 17 ؍کشمیری نوجوانوں کو ابدی نیند سلا دینے کے سانحہ سے ابھی اہلیان کشمیر سنبھل ہی نہیں پائے تھے کہ ضلع کولگام میں ایک اور مقتل گاہ سجایا گیا۔ ریاست جموں وکشمیر جو ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل ہوچکی ہے، میں سیکورٹی یا عرف عام میں امن و قانون کی صورت حال بنائے رکھنے کے نام پر کیا کیا گل کھلائے جاتے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آئے روز کشمیرکے طول و عرض میں بالعموم اور جنوبی کشمیر میں بالخصوص کریک ڈاون، تلاشی کارروائیاں اور چھاپے مارتے جاتے ہیں۔ شہر سرینگر میں جگہ جگہ عوام کے نقل وحرکت پر بندشیں عائد کی جاتی ہیں ، نوجوانوں کی گرفتاریاں تو روز کا معمول بن چکا ہے۔عام شہریوں کو مسلسل خوف و دہشت کے ماحول میں سانس لینے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ شہری ہلاکتوں کے بعد عوام اپنی ناراضگی اور اربابِ اقتدار سے احساس بیگانگی کا اظہار ہڑتال اور احتجاجی مظاہروں سے کرتے ہیں۔ طلباء و طالبات اسکولوں او رکالجوں میں پرامن طریقے پر جب اپنا احتجاج درج کرنے نکل جاتے ہیں تو پولیس اور نیم فوجی دستے اُن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ حالانکہ جمہوری سماجوں میں پُر امن احتجاج عوام کے لیے دنیا کا تسلیم کیا ہوا بنیادی حق ہے لیکن یہاں ا س کے اُلٹ میں عوامی احتجاج کو اعلانِ جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور احتجاجی لوگوں کو دشمن اور فوجی  زبان میںgun-less terroristقرار دے کر اُن پر طاقت کے وہ تمام حربے ا ور ہتھکنڈے استعمال میں لائے جاتے ہیں جو ایک ملک دشمن ملک کی فوج کی پسپائی کے لئے استعمال کر تی ہے۔عام لوگ جس مقاومتی سیاست کے قائل ہیں اور جن مزاحمتی سیاست دانوں کی بات سنتے اور مانتے ہیں ،اُن قائدین کی سیاسی سرگرمیوں پر 2008 سے مکمل طور پر قدغن لگائی گئی ہے۔ حریت کانفرنس جو حقیقی معنوں میں عوامی جذبات کی نمائندگی کرتی ہے، کے لیڈروں اور کارکنان کو یا تو جیلوں میں بند کردیا گیا یا پھر اُنہیںاپنے گھرکی چار دیواری تک محدود کررکھاگیا ہے۔ کشمیریوں کی نوجوان نسل کے اندر بڑھتے ہوئے سنگ بازی کے رحجان کے تاروپود بھارتی ایجنسیوں نے نہ جانے کہاں کہاں جوڑنے کی کوششیں کیں، نوجوانوں میں ناراضی ظاہر کر نے کے اس اسلوب کو پانچ سو اور ہزار کے نوٹوں سے نتھی کر نے کی کیا فسانہ تراشیاں نہ کر دی گئیں، پتھراؤ میں ملوث نوجوانوں پرکیا کیا حربے استعمال نہ کیے گئے، اُن کا کتنا ٹارچر کیا گیا، اُنہیں کہاں کہاںجیلوں میں ٹھونس نہ دیا گیا، گزشتہ برسوں میں اُن میں کئی سوافراد کو پولیس میں نوکریاں تک فراہم کی گئیں ،لیکن آئے روزسنگ بازی کے واقعات میں کمی ہوئی یا اضافہ ہوا، جواب کشمیر کے ہر پیر وجوان پر دواوردوچار کی طرح واضح ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ نوجوان نسل کو جمہوری طریقے پر جب اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی اجازت نہ دی جائے، جب اُن کے جذبات کی نمائندگی کرنے والے سیاست دانوں کو اُن کے درمیان آنے نہ دیا جائے، جب اُنہیں اظہار رائے کے حق سے محروم کیا جائے تو پھر تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے یہ نسلیں دوسرے طریقے استعمال کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتی ہیں۔ یہ نسلیں کوئی ان پڑھ، جاہل اور گنوار نہیں ہیں، جو اکیسویں صدی کے اس دور میں مرعوبیت کا شکار ہوکر گھٹن کی زندگی قبول کرلیں گے۔ یہ وہ نسل ہے جو میڈیائی دور میں رہتی ہے، جو سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا کی نوجوان نسل سے جڑی ہوئی ہے،جنہیں اپنے حقوق اور زندہ رہنے کا حاصل حق معلوم ہے، بھلا یہ کیسے بندوق کے سائے میں جینے پر راضی ہوں گے۔منفی اور جھوٹے پروپیگنڈوں کے ذریعے بھلے ہی کشمیریوں کی اس نسل نو کو شدت پسند، اُکسائے ہوئے اور دہشت گردہی کیوں نہ ثابت کیا جائے لیکن حقیقت حال یہی ہے کہ یہ سب ریاستی دہشت گردی کا شکار بنائے جا چکے ہیں، اِن کے لیے زمین تنگ کردی گئی ہے، اِنہیں اپنے مفادات اور بنیادی حقوق والی زندگی جینے سے محروم کیا جاچکا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کشمیریوں کی یہ نسلیں اس قدر جری اور نڈر بن چکی ہیں کہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے نہیں ڈرتیں، یہ اٹھتی جوانیاں گولیوں کا سامنا کرنے سے بھی نہیں ڈرتی ہیں۔ یکم اپریل کو اسلام آباد کے ڈورو علاقے میں جو کم سن عسکریت پسند روف احمد ٹھوکرفورسز کے ساتھ جھڑپ میں جان بحق ہوگیا ، دوران انکاؤنٹر آخری وقت میں اپنے والدین کے ساتھ فون پر ہوئی گفتگو کے دوران وہ بھی یہ کہتے ہیں کہ زندگی بھر جیل میں سڑ جانے سے بہتر ہے کہ انسان عزت سے موت کو گلے لگا لے۔ اُن کے والد نے اخباری نمائندوں کو بتایا ہے کہ ’’پولیس نے میرے بیٹے کا جینا حرام کررکھا تھا، اُنہیں بار بار تنگ کیا جارہا تھا، گرفتار کر لیا جاتا تھا، 2016 میں دو ماہ تک پولیس حراست میں سختیاں جھیلنے پر اُنہیں مجبور کیا گیا ، ایسے میں اُنہوں نے اپنے آپ کو بندوق کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور پایا ہے۔
کشمیر کے ذی حس طبقے کے لیے یہ صورت حال کسی بھی طرح سے اطمینان بخش نہیں ہے، ہماری نسلیں بوجوہ زندگی پر موت کو ترجیح دے رہی ہیں، بایں ہمہ کوئی قوم کیسے یہ گوارا کرے گی کہ اُس کی باصلاحیت نوجوان نسل گاجر مولی کی طرح کٹتی رہے لیکن اس تعلق سے یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیوں ہمارے یہ نونہال خطرناک راہ پر گامزن ہورہے ہیں۔ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو صاحب ظاہر ہورہا ہے کہ حکومت ہند کی سخت گیر پالیسیاں ہماری نوجوان نسل کو مایوسیوں میں دھکیل رہی ہیں، اُنہیں اپنے سیاسی مستقبل اور دینی شناخت کے حوالے سے جب چاروں اور اندھیرا چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے، اُنہیں جب یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اُن کی بات سننے اور اُن کے حقوق کی بازیابی کے لیے کسی بھی طرح کی بات چیت کے لیے دلی سرکار کسی بھی صورت میں تیار نہیں ہے، تو ایسے میں وہ خطرناک راہوں کے مسافر بن جانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔2008 ء اور2010 کی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران جلسے اور جلوسوں میں عوام از خود فوجی تنصیبات اور سرکاری املاک کی حفاظت کیا کرتے تھے ۔جب بھی کسی کیمپ یا بینکر سے جلوس گزرتا تھا تواحتجاج میں شامل رضاکار پہلے ہی کیمپ کے سائڈ میں کھڑے ہوکر جلوس کو پُر امن طریقے سے آگے بڑھا دیتے تھے لیکن بعد کے برسوں میں جب پُرامن عوامی احتجاجوں پر سختیاں کی گئی، طاقت کا بے تحاشا استعمال کیا گیاتو یہی نوجوان نسل جو شہری ہلاکتوں کے باوجود 2008 ء اور2010 ء کے عوامی احتجاج میں پُر امن رہا کرتے تھے2016 ء میں ظلم و زیادتیوں کے خلاف تشدد پر اُتر آئے ۔افسوس کا مقام یہ ہے کہ دلی کو مشوروں سے نوازنے والے اُن کے مقامی کارندے اُنہیں یہ نہیں سمجھاتے ہیں کہ کشمیرکی گلیوں میں طاقت کے ذریعے امن قائم کرنے کے جو خواب تم لوگ دیکھتے ہو، وہ کبھی بھی سچ ثابت نہیں ہوں گے بلکہ اس طرز عمل سے ہر آنے والا دن بد سے بدتر ہوتا جائے گا۔
2010 ء اور2016ء کی عوامی ایجی ٹیشن کے دوران مزاحمتی خیمے کا مورال گرانے کے لیے جس چیز کو سب سے زیادہ سرکاری سطح پر پروپیگنڈا کرکے ایشو بنایا گیا، وہ ابتر حالات کی وجہ سے ریاست کے نظام تعلیم پر پڑنے والے منفی اثرات تھے۔ ایجی ٹیشن کے نتیجے میں تعلیمی اداروں کے بند رہنے سے بچوں کا تعلیمی کیرئیر برباد ہونے کی باتیں کی گئیں، حالانکہ ان برسوں میں ہڑتالی کال کے بجائے کرفیواور بندشوں کے باعث زیادہ تر دنوں میں تعلیمی ادارے بند رہے۔اب 2017 ء سے ایک اورطرز عمل اختیار کیا جانے لگا۔ جوں ہی کہیں حالات خراب ہوجاتے ہیں، کسی جگہ بے گناہوں کا خون بہایا جاتا ہے ، سرکار فوراً تعلیمی اداروں اور انٹرنٹ کو بند کرنے کا اعلان کرتی ہے۔ گزشتہ برس اُس وقت کے وزیر تعلیم نے ایک مرتبہ بزرگ حریت لیڈر سید علی گیلانی سے بھی اپیلیں کی تھیں کہ وہ اسکولوں میں تدریسی عمل جاری رکھنے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کریں ، حالانکہ تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا حکم سرکار اور متعلقہ فورسز ایجنسیوں کا ہوتا ہے۔گزشتہ برس کے دوران بھی سرکارکی خراب پالیسی کی ہی وجہ سے بیشتر وقت تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل متاثر رہا اور رواں سال میں بھی سرمائی تعطیلات کے بعد جب سے تعلیمی ادارے کھل گئے زیادہ تر دنوں میں سرکاری احکامات کے نتیجے میں ان میں تدریسی عمل ٹھپ رہا۔ 11 ؍اپریل کو شوپیان سانحہ کے پس منظر میں کئی دنوں بعد تعلیمی اداروں کو کھول دیا گیا، لیکن جوں ہی کولگام میں ہوئی ہلاکتوں کی خبریں موصول ہوئیں ، طلباء کو زبردستی تعلیمی اداروں سے بھگا دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ سرینگر کے زنانہ تعلیمی اداروں کی طالبات کو بھاگنے کے لیے پولیس اُن کے پیچھے ایسے پڑگئے جیسے وہ انسان ہی نہیں تھے۔ کئی طالبات کو زنانہ پولیس نے لاٹھی چارج سے زخمی بھی کردیا ہے۔جان بوجھ کر اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تعلیمی سال مسلسل ضائع کیے جارہے ہیںاور اس کشمیر دشمن پالیسی کے دور رس مضر اثرات بہرحال آنے والے وقت میں ظاہر ہوں گے۔عام شہریوں پر ظلم و زیادتیاں نہ ہوتیں، نوجوانوں کی نسل کشی نہ ہوتی اور انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں نہ ہوتی تو طلباء اور طالبات سڑکوں پر نکل آنے پر مجبور نہیں ہوتے۔ دنیا بھر میں ظلم و زیادتیوں پر طلباء کے احتجاج کا چلن عام ہے۔ یہاں کے طلباء و طالبات کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ ظلم و زیادتیوں اور انسانی حقوق کی شدید پامالیوں پر پرامن احتجاج کریں۔ اگر طلباء کو اپنا احتجاج درج کرنے کا حق دیا جاتا تو وہ اپنی ناراضگی درج کرنے کے بعد کلاسوں میں جاتے اور تدریسی عمل میں منہمک ہوجاتے لیکن اُن کے جمع ہونے سے قبل ہی وردی پوش اُن پر ٹوٹ پڑتے ہیں جس کے نتیجے میں طلباء بھی مشتعل ہوجاتے ہیں اور اس طرح امن قانون کی صورتحال بنائے رکھنے کا بہانہ بناکر سرکار تعلیمی اداروں کو بند کردیتی ہے۔
سرکار اور اس سے منسلک فورسز اداروں کو اپنی شدت پسندی پر مبنی پالیسی کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ جان گنوادینے والوں کوہی اپنی موت کا ذمہ دار ٹھہرانے اور خود اپنے گریبان میں نہ جھانکنے سے عوامی غم و غصہ ٹھنڈا پڑجانے کے بجائے مزید بڑھنا طے ہے۔ لہٰذا جب تنازعہ کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ مسئلہ ہے اور حکومت ہند بھی یہ بات کئی موقعوں پر علی الاعلان مان چکی ہے، تو اب اس مسئلے کے منصفانہ ، پُرامن ، اور قابل حل حل سے بھاگ جانے کی پالیسی کشمیر کے ساتھ ساتھ برصغیر کے امن وآشتی کے لیے کسی معنی میں خوش آئند نہیں ۔ کڑاوسچ یہ ہے کہ اگر یہ حل طلب مسئلہ یوں ہی لٹکتا رہا تو آنے والے وقت میں خدانہ کرے پورا برصغیر ناگہا نی طور ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں بھی آسکتا ہے۔  
 

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ