رمضان سیز فائر؟؟؟

عدوئے مکرم ہوئے مہرباں کیوں
٭…ایس احمد پیرزاہ
۵ ؍اور۶؍مئی ۲۰۱۸ء؁کو بالترتیب سرینگرکے چھتہ بل اور شوپیان کے بڑی گام علاقوں میں مسلح تصادم آرائیوں کے دوران ۸؍سرکردہ عسکریت پسند وں کے جاں بحق ہونے اور ان سنسنی خیز سانحات کو لے کر احتجاجی عوام پر فورسز اہل کاروں کی راست کارروائی کے دوران مزید 7؍عام معصوم نوجوانوں کو موت کی ابدی نیند سلادینے کے نتیجے میں ایک بار پھر یہ واشگاف ہواکہ ارضِ کشمیر یہاں کے باشندوں کے لیے بڑی سرعت کے ساتھ مقتل بنتی جارہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بجائے اس کے اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے لوگ کشمیری نوجوانوں کی قتل و غارت گری کو رکوانے میں اپنا کلیدی کردار اداکریں،وہ آرمی چیف سے یہ کہیں کہ ’’ آزادی نہیں ملے گی‘‘ جیسی ڈائیلاگ بازاْن کے منصب کے شایانِ شان نہیں ، وہ زخموں پر مرہم کاری کے بھولے ہوئے نعرے کا کچھ لحاظ کریں ، کرسی ٔاقتدار پر براجمان لوگ عوام کے خلاف فورسز کی جنگ کوجواز یت تراشتے ہوئے ہر روز نت نئی دلیلیں پیش کررہے ہیں۔ دلی کا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ ریاست میںبرسر اقتدار جماعت بی جے پی لیڈر بھی شہریوں کے قتل کے لیے سرکاری فورسز کو نہ صرف داد اور شاباشی دیتے ہیں بلکہ کشمیریوں کی آوازکو دبانے کی خاطر طاقت کے بے دریغ استعمال کو جائزبھی قرار دے ر ہے ہیں۔ غور طلب ہے کہ آئے روز انسانی جانوں کے زیاں کے حوالے سے مفتی سرکار کی غیر ہمدر دانہ پالیسی اور بڑی حد تک دلی کے سامنے بھیگی بلی بننے کی ادائیں عوام بالخصوص نوجوانوں کے غم و غصے میں اضافہ کرتی جارہی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ سرکاری کارندے اور حکومتی صلاح کار اپنے اپنے مفادات اور نوکری کے چکر میں طرح طرح کی چاپلوسیاں اور مکاریاں کر کے دلی کے فیصلہ ساز اداروں کو یہ یقین دہانی کرارہے ہیں کہ وادی میں ’’ آپرویشن آل آوٹ ‘‘ کے عنوان سے اْن کی شدید اور جارحانہ پالیسیاں’’ حالات کو بہتر‘‘ بنانے میں معاون و مدد گار ثابت ہورہی ہیں۔حالانکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ وادی کے طول وعرض میں لاقانونیت کا بول بالا ہورہاہے، عوامی حلقوں میں’’ زخموں پر مرہم ‘‘والی سرکارکے تئیں بدگمانیاں جنم لیتی جارہی ہیں، ڈنڈے کے زور پر کاروبار ِسرکار  چل رہا ہے۔ بہرصورت ضمیر نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے، جو ہر انسان کو اْن کے برے اعمال پر ٹوکتا رہتا ہے۔ یہاں لالچ، مفادات اور اقتدار کی ہوس نے سیاست دانوں کے دل اس قدر سیاہ کررکھے ہیں کہ اْن کے اندرون اور بیرون میں صرف یہ بات رَچ بس چکا ہے کہ ردِ عسکریت کے نام سے کشمیریوں کا قتل عام ہونا اور سرکاری فورسز کی ہر کارروائی کو جائز قرار دینا اْن کی اپنی کرسی کو محفوظ بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند مہینوں میں انسانوں جانوں کے زیاں کا تسلسل اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں بھی برسراقتدار جماعت اور ہند نواز اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران کے دل پگھلا نہیںسکی ہیں بلکہ یہ حضرات کھلے عام نہتوں کے خلاف مسلح افواج کی کارروائیوں کو جہاں جائز ولازم ٹھہرا رہے ہیں،وہی پوری کشمیری قوم کو گناہ گار مان رہے ہیں۔ہر شہری ہلاکت کے بعد کرفیو اور بندشیں لگانا، جنازوں پر قدغن لگانا، احتجاجیوں کو دبانے کے لیے بلٹ اور پیلٹ کا بے تحاشہ استعمال کرنااور بات بات پر انٹرنٹ کو بندکرنا جیسی کارروائیاں اب سرکاری معمولات میں نمایاں طور پر شامل ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ معصوم کشمیری نوجوانوں کی قتل سے عوامی توجہ ہٹانے کے لیے طرح طرح سرکار اور اس کے حاشیہ بردار و وظیفہ خوار مصنوعی ایشوز کھڑا کر تے ہیں تاکہ عوامی حلقوں کا اصل یا بیانیہ (narrative ) کو بدلا جاسکے اور مظلوم قوم غیر ضروری بحث و مباحث میں پڑ کر کنفیوژن کے دلدل میں پھنس جائے اور وہ اپنے اصل سیاسی ہدف سے کو سوں دورہوجائیں۔ 
اْدھرحکومتی سطح پر غلط پروپیگنڈوں کے باوجود عوامی موڈ اور عوام کی واضح سیاسی اْمنگ اور اس کے حصول کے لیے کی جانے والی کوششوں اور بیش بہا قربانیوں سے جونہی دنیا پر واضح ہونا لگ جاتا ہے کہ کشمیر ایک اہم سیاسی مسئلہ ہے،تو کشمیر حل کے لئے کسی سنجیدہ پہل کے بجائے کرسی کے پجاری خالص چکنی چپٹی باتوں سے کشمیریوں کی دل بہلائی کی کوششوں میں لگ جاتے ہیں۔ اسی دیر ینہ روایت کی تقلید میں ۹؍مئی کو ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے وادی میں پائی جارہی سنگین صورت حال کے موضوع پر آل پارٹیز میٹنگ بلائی۔ کل جماعتی اجتماع کے بعد انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا کہ تمام جماعتوں پر مشتمل ایک وفد دلی جاکر وہاں وزیر اعظم ہندنریندر مودی سے اپیل کرے گا کہ وہ واجپائی طرز پر رمضان میں یک طرفہ سیز فائر کا اعلان کریں تاکہ وادی میں جاری خون ریزیاں بند ہوجائیں۔ وزیر اعلیٰ کی اس غبارہ نما تجویز سے اگلے ہی روز اْن کی اتحادی جماعت بی جے پی نے یہ کہہ کر ہوا نکال دی کہ انہیں وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی اس تجویز کے ساتھ اختلاف ہے۔بی جے پی نے جنگ بندی کی تجویز سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ جنگ بندی کرنے سے فوج کی ان کامیابیوں کو دھچکا لگے گا جو اْسے جنگجوؤں کے خلاف جاری آوپریشنز میں حاصل ہورہی ہیں۔‘‘اس ضمن میں ۱۲؍مئی کو وزیر اعظم ہند کے دفتر میں منسٹر آف اسٹیٹ ڈاکٹر جتندر سنگھ نے کہا :’’ جو لوگ جنگ بندی کے نام پر تشدد سے اجتناب برتنے کی باتیں کرتے ہیں وہ دراصل رمضان کے نام پر سیاست کرتے ہیں۔‘‘اگر چہ بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے ۱۱؍مئی کوایک تقریب کے حاشیے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے محبوبہ مفتی کی تجویز پر’’ غو رکرنے‘‘ کا عندیہ دیا مگر یہ تسلی بیان برائے بیان تھا۔اْنہوں نے کہا :’’ماہ رمضان اور امرناتھ یاترا کے موقع پر جموں وکشمیر میں یک طرفہ جنگ بندی کے مطالبے پرغور کیا جائے گا۔‘‘البتہ راجناتھ سنگھ کے اس بیان سے سیئز فائز کے اس اچانک نعرہ کے پس پردہ مقاصد کی کچھ دْھندلی سے تصویر واضح ہوجاتی ہے۔۲۰۱۶ء؁ سے تاحال محبوبہ مفتی سرکار کو کبھی یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ وہ سیئز فائر کرواکے عوام کو ظلم وزیادتیوں سے کچھ ریلیف فراہم کرے؟ اچانک ایسا کیا ہوا ہے کہ تمام ہند نواز جماعتوں کو ریاست میں جنگ بندی کا خیال آیا ؟ ان سوالات کا جواب راجناتھ سنگھ کے بیان میں کسی حد تک موجود ہے، انہوں نے رمضان اور امرناتھ یاترا کا نام لیا ہے۔ ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ رمضان تو بہانہ ہے اصل میں ریاست اور دلی سرکار کو امرناتھ یاترا کی فکر لاحق ہے۔ چونکہ آنے والے ایام میں حالات مزید خراب ہونے کی صورت میں جنوبی کشمیر بْری طرح متاثر ہوسکتا ہے، ہڑتال اور احتجاج کے پیش نظر وہاں کی سڑکوں پر چلنا پھرنا دوبھر ہوسکتا ہے۔ چونکہ امرناتھ یاتریوں کے آنے جانے کاراستہ بھی جنوبی کشمیر سے ہی ہے۔،اس لیے امرناتھ یاترا کے دوران حالات کو ٹھیک رکھنا حکومت کے لئے امر مجبوری ہے۔ اب اس میں بروزن شعر رمضان کا نام لے کر کشمیری عوام کو یہ دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جیسے ہند نوا ز جماعتوں کو اْن کی بڑی فکر دامن لاحق ہے، حب کہ اصل فکر سیاست زدہ یاترا کو منطقی انجام تک پہنچانے کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس حوالے سے شاید دلی بھول رہی ہے کہ امرناتھ یاتریوں کے سْکھ چین کے لئے بے بس کشمیری عوام نے ہمیشہ ا نسانیت اور اسلامیت کی وہ تاب ناک مثالیں قائم کی ہیں جن کا بھارت کے اتہاس میں کہیں کوئی ثانی نہیں ملتا۔ 
 کشمیر میں زمینی سطح پرجنگ بندی ہوجائے تو یہ اس سے بڑھ کر کیااَحسن کام ہوسکتاہے ؟ اس کا سب سے زیادہ خیر مقدم کشمیری ہی کریں گے، کیونکہ جنگ کے تمام ناقابل برداشت نتائج اسی قوم کو کتنی کچھ جھیلنا پڑتی ہیں، اس کا اندازہ شاید ہی کسی غیر کشمیری کو ہوسکتا ہے۔ جنگی صورت حال کے نتیجے میں ہماری نسل کشی ہورہی ہے، ہمارے نوجوان اپاہچ بنائے جارہے ہیں، جیل اور تعذیب خانوں کی سختیوں میں ہماری نسلیں سڑائی جارہی ہیں، ایسے میں جنگ کی تباہ کاریوں سے نجات کا خواہش مند سب سے زیادہ کشمیری ہی ہونا قدرتی امر ہے۔ البتہ کشمیری قوم یہ چاہتی ہے کہ جنگ بندی کا یہ داؤمحض اپنا کام یعنی امرناتھ یاترا کی پر امن تکمیل ممکن بنانے تک محدود نہ ہوں بلکہ اس کے پیچھے یہ نیک مقصد کار فرما ہونا چاہیے کہ دیرینہ حل طلب مسئلے کو حتمی طور انصاف کی بنیادوں پر خلوص نیت کے ساتھ حل کیا جائے۔اس بات کا اعتراف بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن روات نے بھی کیا ہے کہ:’’ بندوق سے نہ ہی آرمی اپنا نشانہ پالے گی اور نہ ہی کشمیری عسکریت پسند اپنے مقاصد میںکامیاب ہوں گے۔‘‘ حالانکہ یہی وہ جنرل ہیں جنہوں نے صرف ایک برس قبل آوپریشن آل اوٹ شروع کرتے وقت بڑی ہی بے تکلفی سے کہا تھا کہ وہ سامنے والوں کو ’’ختم‘‘ کرکے ہی دم لیں گے لیکن ایک سال کی مسلسل کوششوں اور اتنا سارا خون بہانے کے باوجود اْن کی فوج اور حکومت آج بھی وہیں پرکھڑی ہے جہاں وہ ایک سال قبل تھی بلکہ اْس سے بھی اَبتر صورت حال کا اْنہیں سامنا ہے۔انڈین آرمی چیف نے کشمیری نوجوانوں کو مخاطب ہوکر یہ بھی کہا ہے کہ :’’اْنہیں آزادی کسی بھی صورت میں حاصل نہیں ہوگی‘‘۔ اْن کے اس بیان کو کشمیری نوجوان یہ کہہ کر اپنی کامیابی سے تعبیر کررہے ہیں کہ جو ملک اور فوج کل تک کشمیر کو متنازعہ مسئلہ ماننے سے انکاری تھے اور دنیا کے سامنے یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ ’’یہاں پاکستانی درندازی کے نتیجے میںحالات خراب ہیں‘یہ بے روزگاری کا مسئلہ ہے‘‘ اور کبھی یہاں کی عوامی ایجی ٹیشنوں کو تعمیر و ترقی میں کمی کا نتیجہ قرار دے رہے تھے لیکن اب بھارتی فوجی سربراہ خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیری عوام بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ آرمی چیف کے اس بیان میں کم ازکم کشمیریوں کے لیے جیت کا احساس چھپاہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ عددی اعتبار سے دنیا کی دوسری بڑی فوج کے سربراہ نے کشمیریوں کی جدوجہد کے تیور دیکھ کر کم از کم یہ تو تسلیم کرلیا ہے کہ اصل مسئلہ ناخواندگی، بے روز گاری اور تعمیر وترقی میں کمی نہیں ہے بلکہ کشمیری عوام اپنے سلب شدہ سیاسی حقوق کی بحالی اور اْن وعدوں کی تکمیل چاہتے ہیں جو اقوام عالم کو گواہ کر کے ان ساتھ کیے گئے ہیں۔
جنگ بندی کی تجویز کے ردعمل میں بی جے پی کی ریاستی شاخ کا کڑا رْخ دیکھ کر محبوبہ مفتی سرکار کی بے بسی بھی واضح ہوجاتی ہے۔ ایک ریاست کی وزیر اعلیٰ ہوکر بھی اْنہیں دلی کے سامنے جنگ بندی کے لیے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں ، حالانکہ فورسز ایجنسیوں کی یوئنفائڈ کمانڈ کی سربراہی اْن کے پاس ہے اور مسلح فورسز دستوں کے ہاتھوں ہورہی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے اْن سے دستخط بھی لیے جاتے ہیں لیکن ریاست کے اہم ترین فیصلوں کے لیے وہ مجاز نہیں ہیں۔ یا د رکھئے یہ تند و تلخ حقیقت آج پہلی بار اخفاء کے سو پردے پھاڑ کر منظر عام پر نہیں آئی بلکہ یہ وہ کہانی ہے جو شیخ محمد عبداللہ کی ریاست میں نظامت ِعالیہ ، پھر وزارتِ عظمیٰ اور پھر چیف منسٹری کے دوران دلی نے ہمیشہ طاقت کی زبان سے لکھی اور آج کی تاریخ میں بھی اسی کا اعادہ کچھ زیادہ ہی شدو مد سے ہورہاہے۔ ویسے بھی اگر ہندوستان کی دیگر ریاستوں کا جموں وکشمیر کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو تاریخ چیخ چیخ کر بولے گی کہ یہاں کی حکومتیں روز اول سے دلی کے سامنے تن ِمردہ ثابت ہوتی رہیں، یہ دلی کی مرضی کے بغیر کوئی بھی فیصلہ لینے کی مجاز نہیں ہوتیں، یہاں کی حکومتیں دلی کی غلط پالیسیوں پر معمولی نوعیت کی لب کشائی کرنے کی بھی جرأت نہیں کرپاتی ہیں کیونکہ اْنہیں دربار سے کھٹکا لگتا ہے کہ کہیں وہ اقتدار کی باگ اس سے چھین کر وقت کے کسی بخشی یا زمانے کے کسی غلام محمد شاہ کے نام نہ کردے۔دلی سرکاروں نے ہمیشہ ریاستی جموں وکشمیر کے مسند اقتدار پر براجمان لوگوں کو یہ احساس دلایا کہ سیاسی معنی میں اْن کی کوئی وقعت اور اہمیت نہیں ہے۔ جس وقت نیشنل کانفرنس برسراقتدار تھی اور عمر عبداللہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پربراجمان تھے، اْنہوں نے اپنے اْس پانچ سالہ دور اقتدار میں بار بار دلی سے فریادیں کیں کہ وہ چند علاقوں سے ہی سہی تجرباتی طور آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ کا خاتمہ کرے لیکن اْن کی التجاؤں اور اپیلوںکودرخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے نریندر مودی کے سامنے سرینگر میں ایک موقع پر دورانِ جلسہ پاکستان اور حریت کانفرنس کے ساتھ مذاکرات کرنے کی اپیل کر نے کی بھول کی تو اْسی اسٹیج پر بھارتی وزیر اعظم نے مفتی سعید کی اپیل کو تیکھے انداز میں ردکرکے مسئلہ کشمیر کے معاملے میں کسی سے مشورہ نہ لینے کی بات کہہ ڈالی کہ سابق وزیراعلیٰ سمجھ گئے وہ قطبین کاا تحاد نہیں کر گئے ہیں بلکہ ایک طاقت ور شیر کا رشتہ ایک ضعیف وکمزور اور بے زبان میمنہ سے جوڑ چکے ہیں۔ یہ چیز وقتاًفوقتاً یہاں عاریتاً اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے لیڈروں کو اپنا حدود و قیود بتا تی رہی ہے۔ بیشک دلی کی جانب سے بار بار یہاں کے برسراقتدار جماعتوں اور جی حضوریوں کو اْن کی اوقات یاد دلائی جاتی ہیں اور اس فہرست میں حکومت میں بھاجپا کی ساجھے دار مجبوبہ مفتی بھی شامل ہیں۔ بہر کیف ریاست کے حالات سنگین ہیں اور دن بدن بدسے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ ریاست عملاً پولیس اور فوجی اسٹیٹ بن چکی ہے۔ بڑے بڑے فیصلے فورسز ایجنسیاں کررہی ہیں ، عوام کے مشکلات و مصائب کو جان بوجھ کر بڑھایا جارہا ہے،اس گھمبیرصورت حال میں لاشوں پر سیاست کر نے والی کسی حکومتی ہستی سے کوئی مرہم کاری کی امید وابستہ کرنا خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ سچ یہ ہے کشمیر کی جنگی صورت حال میں بین الاقوامی مداخلت لازمی بن جاتی ہے، جب تک نہ عالمی طاقتیں اس مسئلے کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کریں یہاں کے عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا ،اگرچہ یہ بات سوائے ووٹ بنک سیاست کے خود ہندوستان کے لئے بھی کوئی نفع رساں سودا نہیں کہلا سکتا۔ کاش کہ کشمیر حل کو ماردھاڑاور منافرت پسندانہ سیاست پر موخر کر نے والے اہل ِا قتدار اس نوشتہ ٔدیوار کو پڑھ لیں!!!رہا سوال سیز فائر کا تو اس کے دروازے ہندوستان کے وزیر دفاع نرملا سیتا رامن نے زور دار اور تیکھے الفاظ کہہ کر بند کردئے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ