مفتی حکومت پر بھاجپا کا ’سر جیکل سٹرائیک‘

٭…ایس احمد پیرزاہ
رمضان المبارک کے مقدس و بابرکت ایام گزر جانے کے ساتھ ہی ابھی کشمیرمیں عیدالفطر منائی ہی جارہی تھی کہ ریاست جموں وکشمیر کے حکومتی ایوانوں میں یکایک ایک بڑا زلزلہ آیا۔ ریاستی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اس زلزلے سے بے خبر اپنے سرکاری کام میں مصروف تھیں کہ دفعتاً ان کو مطلع کیا گیا کہ اب وہ سابقہ چیف منسٹر ہیں کیونکہ ان کے ملی جلی حکومت کے ساجھے دار بی جے پی نے دلی سے فرمان جاری کیا ہے کہ پارٹی نے بھارتی قوم کے مفاد میں پی ڈی پی کی حمایت واپس لے لی ہے۔ اسی ایک چھوٹی سی اطلاع کے ساتھ ہی محبوبہ جی اقتدار سے بے دخل ہو کر مستعفی ہوئیں۔ غور طلب ہے کہ موصوفہ کے اس منطقی انجام پر عوام میں کوئی ہلچل دیکھنے کو ملی نہ کہیں کوئی پتہ ہلا۔دلی نے ریاست میں محبوبہ مفتی حکومت کا خاتمہ کرکے گورنر راج نافذ کردیا گیا۔ اس اقتداری اْلٹ پھیر کا ایک قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ بھاجپا محبوبہ مفتی پر سیاسی سرجیکل اسٹرائیک کر نے ولی ہے۔۱۹؍جون کی دوپہر کو اچانک بی جے پی کے جنرل سیکریٹری و کشمیراْمور کے انچارج رام مادھو نے دلی میں پریس کانفرنس میں یہ غیر متوقع اعلان کرکے سب کوورطۂ حیرت میں ڈال دیا کہ اْن کی جماعت بی جے پی ریاست جموں وکشمیر میں حکومت سے الگ ہورہی ہے۔ اس طرح ریاست میں گزشتہ چار سال سے بی جے پی اور پی ڈی پی کے مشرق و مغرب والے منصوعی ملن کا عبرت ناک اختتام ہوا، وہ بھی بی جے پی کی اپنی مرضی اور منشاء کے عین مطابق۔
  یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ فرقہ پرستی ایک زہر ہے اور فرقہ پرستی کے علمبرداروں کی حیثیت اْس زہریلے سانپ کے جیسی ہوتی ہے جس کی دشمنی سے زیادہ اْس کی دوستی خطرناک ہوتی ہے۔ پی ڈی پی نے ۲۰۱۴ء؁میں ریاست کے حدود و قیود میں بی جے پی کے قدم روکنے کے نام پر الیکشن لڑا تھا لیکن جب سرکار تشکیل دینے کی باری آئی تو عوامی امیدوںا ور توقعات کے برعکس مفتی سعید نے ایک ایسی متنازعہ جماعت سے گٹھ جوڑ کیا جس کے نامۂ اعمال میں مسلم دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، جس کے ہاتھوں ہندوستان میں سینکڑوں مسلم کش فساات میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا تھا، جس نے گجرات میں دو ہزار مسلمان کو بڑی ہی بے دردی کے ساتھ یک بار قتل کروایا، جس نے مسلم اقلیت کی عزتیں اور عصمتیں تار تار کرنے کی گھناؤنی حرکتوں کو عین دھارمک سمجھ کر ارتکاب کیا۔ اس کھلی کتاب کے باوجودپی ڈی پی کے بانی مفتی سعید کا مسلم اکثریتی ریاست میں بی جے پی کے لیے راستہ کھولنا اور اسے یہاں اپنے دیر ینہ خاکوں میں رنگ بھرنے کا موقع فراہم کیا ہے، مقصد صرف یہ تھا کہ اْنہیں اقتدار کی نیلم پری سے وصل ہوجائے۔ بغیر کسی نظریاتی ہم آہنگی ، سیاسی سوجھ بوجھ اور دُوررس نتائج کی پیش بینی کر تے ہوئے پی ڈی پی نے باعزت امن ، زخم نہیں مرہم ،گولی نہیں بولی جیسے پُرکشش سیاسی نعرے ترک کئے اور محض کرسی کے فراق میں نیشنل کانفرنس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سنگھ پریوار سے مل کر مخلوط حکومت بنا ڈالی۔ لوگوں کو کسی ایجنڈا آف آلائنس کے کاغذی پشتارے کا لولی پپ تھماکر بہلایا گیا ، تاثر یہ دیا گیا کہ اب ان کے لئے مرکز سے اسی طرح دودھ کی نہریں اور شہد کے چشمے بہنے والے ہیں جیسے نیر ومودی پر پنجاب نیشنل بنک مہربان ہوا۔ حق یہ ہے کہ ریاست کی یہ مخلوط حکومت کشمیریوں کے مجموعی مفادات کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف تھا۔ گزشتہ تین برسوں کے دوران بی جے پی نے سرکار میں رہتے ہوئے ہر وہ ہدف پورا کیا جو کشمیر مخالف تھا اور جس کے ذریعے سے ریاست میں دلی کی اجارہ داری قائم ہونے میں اُنہیں خاصی مدد ملی۔اس کے برعکس پی ڈی پی بڑی ہی بے بسی کے ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والے ریاست مخالف اقدامات کو دیکھ کر صرف خاموشی کی لحاف اوڑھتی رہی۔ اکثر دفعہ سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی چھوٹے چھوٹے معمولی نوعیت کے انتظامی امورات کے لیے بھی دلی کے سامنے بھیگی بلی بنتی رہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ چار سالہ دورِ اقتدار میں پی ڈی پی نے’’ ایجنڈا آف الائنس‘‘ کا خوب ورد کیا لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ اُس تحریر کو بی جے پی نے کبھی کوئی اہمیت ہی نہیں دی۔ ’’ایجنڈا آف الائنس‘‘ میں پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور کشمیر میں ’’ بحالیٔ اعتماد ‘‘ کے اقدامات کی بات بڑے طمطراق سے کہی گئی تھی لیکن جب مفتی  سعید نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو پہلی دفعہ کشمیر بلا کر اُنہیں سرینگر کے قلب میں اسٹیج فراہم کیا اور وہاں اولالذکر نے امن مذاکرات اور بحالیٔ اعتماد کی بات کی تو مودی نے بر سرموقع اس مشورے کو سختی سے رد کرتے ہوئے یہ کہا کہ اُنہیں کشمیر مسئلہ میں کسی کے مشوروں کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اگر پی ڈی پی کے پاس سیاسی سدھ بدھ اور عزتِ نفس کی کوئی رگ بچی ہوتی اور یہ جماعت حقیقی معنوں میں اپنے عوام کے بارے میں فکر مند ہوتی تو مفتی محمدسعید اُسی وقت کولیشن سرکار کو خیر باد کہہ دیتے لیکن ہزار مرتبہ بی جے پی کے ہاتھوں بے آبرو ہوکر بھی یہ جماعت رسوائی کے اُسی کوچے میں ٹکی رہ کر اپنا تماشہ بناتی رہی۔ اس جماعت کو کیا کھٹوعہ کیس کے وقت زریں موقع نہ ملا تھا کہ تھوڑی سی حمیت دکھاکر بھاجپا سے رشتہ ناتہ توڑدیتی۔ اس کے علی الرغم سنگھ پریوار نے لاج شرم دکھا کر اپنے دووزراء کو معزول کر دیا۔ آج جب اس جماعت کو بی جے پی نے استعمال کرکے سر راہ پھینک دیا توکشمیرمیںکسی کو دُکھ نہیں ہوا بلکہ سوشل میڈیا پر محبوبہ مفتی کی سرکار جانے پر خوشیوں کابرملا اظہار کیا جارہا ہے، جب کہ بی جے پی گورنر راج اور این این ووہرا کی وساطت سے براہ راست حکومت میں موجود ہے۔ اس بات کے پیش نظر عمر عبداللہ کا یہ کہنا کہ حکومت نہ گری بلکہ محبوبہ مفتی کو حکومت سے ہٹایا گیا، ایک ناقابل تردید سچ ہے۔ یہ ا سی طرح کا کڑواسچ ہے جیسے شیخ عبداللہ کو ۹؍ اگست ۱۹۳۵ء میںگل مرگ میں ہو اخوری کے دوران نہرو نے بیک جنبش قلم اقتدار سے الگ کر دیا اور ڈاکٹر فاروق کا تختہ اندراگاندھی نے ابروئے چشم کے ہلکے سے اشارے سے پلٹ دیا۔ 
 آج کی تاریخ میں پی ڈی پی کے کھاتے میں اگر کچھ ہے تو وہ سات سو کے قریب کشمیریوں کا خون ناحق ہے،اقتدار کی اس تقریباًچارسالہ مدت میں اس حکومت کے زیر سایہ ایک ہزار کے قریب کشمیری نوجوانوں کو آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوئے،سولہ ہزار لوگ جیلوں میں ٹھونس دئے گئے، مذہبی فرائض کی ادائیگی پر پابندیاں عائد کی گئیں، جنوبی کشمیر میں عوام کے اربوں کھربوں روپے کے مال و اسباب کو تہس نہس کردیا گیا، جی ایس ٹی کا متنازعہ قانون یہاں لاگو کر کے ریاست کی مالی خودمختاری کو بیچ کھایا گیا، فوج اورنیم فوجی دستوں کے ساتھ ساتھ پولیس کو عوام کا قافیۂ حیات تنگ کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔ سچ یہ ہے کہ بی جے پی کےDo More نے پی ڈی پی کو اس قابل بھی نہیں چھوڑا کہ وہ عوام کے سامنے جاکر گلہ کرسکے کہ بی جے پی نے انہیں دھوکہ دیا ، جن سنگھ نے اُن کے ساتھ وشواس گھات کیا۔ محبوبہ مفتی نے سرکار چھن جانے کے بعد جو پریس کانفرنس دی اُس میں اُنہوں نے بی جے پی کے خلاف ایک لفظ بھی نہ بولا، نہ اپنا مان رکھنے کے لئے ان سے کوئی بے ضرر گلہ کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پی ڈی پی کس قدر بدترین انجام سے دو چار ہوئی ہے۔
بی جے پی بلاشبہ ایک نظریاتی جماعت ہے، یہ فرقہ پرستی کی آڑ لے کر اور مذہبی منافرت کو ہوا دے کر اپنے لیے سیاسی مقام بنانے میں ماہر ہے۔ بایں ہمہ سہناے سپنوں پرا اُستوار مودی لہر کا سحر آہستہ آہستہ ہندوستان میں ٹوٹ رہا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں جو وعدے اس جماعت نے ہندوستانی عوام کے ساتھ کیے تھے اُن کو پورا کرنے میں یہ لوگ بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔۲۰۱۹ء؁ میں ہندوستان میں پارلیمانی انتخابات ہونے جارہے ہیں، بی جے پی کو ایک مرتبہ پھر اقتدار پر قابض ہونے کے لیے کوئی نہ کوئی ایسا ایشو کھڑا کرنا ہے جس کو اچھال کر وہ ایک آنکھ سے دیکھنے کے عادی عام خام لوگوں کو پھر سے بے و قوف بنانے میں کامیاب ہوجائے گی۔ اس کے لیے کشمیر اور پاکستان سے منافرت و مغائرت بڑا کوئی انتخابی ایشو نہیں ہے۔ بھارتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بی جے پی مضبوطی سے حاوی ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے میڈیا کا استعمال کرکے بی جے پی نے کشمیراو رکشمیریوں کے خلاف بے انتہا زہر اگلا ہے اور بھارت بھر میں یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ جیسے کشمیری ہندوستان سے کوئی حق خودارادیت نہیں مانگتے بلکہ ہندوستانی عوام کے ساتھ خدا واسطے بیر رکھتے ہیں۔اسی غلط بیانی کی آڑ میں لوگوں کو یہ پٹی پڑھائی جارہی ہے کہ کشمیر یوں کو اگر سختی سے دبایا نہ گیا تو’’ بھارت ماتا‘‘ کی خیر نہیں اور یہ کام صرف بی جے پی کر سکتی ہے۔ بہر حال مخلوط حکومت سے علاحدہ ہونے سے قبل دلی نے رمضان سیز فائر کا خاتمہ کیا۔ اس کے علاوہ جونہی اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے اپنی نوعیت کے پہلی رپورٹ میں کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر پہلی دفعہ نئی دلی کو براہ راست آڑے ہاتھوں لیا گیا تھا تو ایک بھونچال آیا۔اس غیر متوقع صورت حال کو ڈائیلوٹ کر نے کے لئے اور دنیا میں کشمیرکاز کو دہشت گردی جتلانے کے لیے دستانے پہنے قاتلوں کے ذریعے کشمیر کے نامور صحافی شجاعت بخاری کا پُر اسرار طور بہیمانہ قتل کروایا گیا۔اس خون ِناحق کا فائدہ کشمیر کاز کے مخالفین کو ہی حاصل ہوا۔ اس قتل عمد پر جذباتی ہیجان کے پس منظر میں ابھی کشمیر وبیرونِ کشمیر آنسو ہی بہائے جارہے تھے کہ بی جے پی نے پی ڈی پی سے علاحدگی اختیار کرلی اور دلیل یہ دی کہ کشمیر میں حالات قابو سے باہر ہوچکے ہیں اور اُن پر کنٹرول پانے اور’’دیش کوبچانے‘‘ اور آرمی کو ہر طرح کے اختیارات تفویض کرنے کے لیے ہی بی جے پی نے ریاست میں اقتدار کی قربانی دی ہے۔اس سیاسی داؤ پیچ کے ذریعے بی جے پی ایک تیر سے کئی شکار کرگئی۔ اول یہ کہ۲۰۱۹ء؁کے انتخابات میں اب وہ ہندوستانی عوام کے پاس  سینہ پھلا کر جائے گی کہ ہم نے ہی دیش کی ’’سلامتی‘‘ کے لیے ریاست جموں وکشمیر میں آرمی کو کھلے اختیارات دئے تا کہ وہ ہندوستان کی رکھشا کر کے قوم کا سر فخر سے اونچا کریں۔ دوم یہ کہ یہ کارڈ کھیل کر بھاجپا اگلے انتخابات میں جموں کی اسمبلی نشستوں پر پھر سے قابض ہونے کے لئے پر تول رہی ہے۔سوم یہ کہ کشمیرکاز کو دبانے کے لیے مودی سرکار گورنر انتظامیہ کے ذریعے براہ راست معاملات کو کنٹرول کرے گی۔ان باتوں کا اشارہ بی جے پی کے ریاستی شاخ کے صدر اور اس سے وابستہ دیگر کئی لیڈران اپنے بیانات میں دے چکے ہیں۔انڈین آرمی چیف بپن راوت اور وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی اس نوعیت کے بیانات دئے ہیں جن میں حق خود ارادیت کی حامی کشمیری عوام کے لیے دھمکیاں تھیں۔ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر اور کانگریس کے سینئر وزیر غلام نبی آزاد نے بھی کشمیریوں کی نسل کشی کے احتمال کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار کے مطابق حالات کا نقشہ بتا رہاہے کہ کشمیری عوام کے لیے آنے والے وقتوں میں مزید پیچیدگیاں اورمشکلات پیدا ہونے کا خاصا امکان موجود ہے۔ اس حوالے سے مزاحمتی قائدین کو پہلے سے ہی پردے کے پیچھے بُنی جارہی سازشوں کا توڑ کر نے کی موثر حکمت عملی وضع کر نی ہوگی تا کہ انسانی جانوں کے مزید اتلاف سے بچا جاسکے۔
 بعض تجزیہ کاریہ اندیشہ بھی ظاہر کر ر ہے ہیں کہ بھاجپا اور پی ڈی پی میں کوئی میچ فکسنگ یاکوئی ملی بھگت ہونا بعیدازامکان نہیں۔ پی ڈی پی نے اقتدار کھو جانے کے بعد یہ تاثر دیا تھا کہ جیسے اُنہیں بی جے پی کے ارادوں کی کوئی علمیت ہی نہیں تھی جب کہ دلی کے ایک موقر اخبار نے یہ دعویٰ کیا کہ بی جے پی کے لیڈر اور کولیشن سرکار کے مرکزی کردار رام مادھو نے پہلے ہی محبوبہ مفتی کو بی جے پی کے ارادوں سے باخبر کیا تھا اور اُنہیں حکومت سے علاحدگی اختیار کرنے کی وجوہات اور ضروریات سے پیشگی طورباخبر کیا تھا۔ جہاں تک اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعدمحبوبہ مفتی کی پریس کانفرنس میں اُن کی باڈی لینگویج کا تعلق ہے، اُس سے بھی مبصرین یہ اخذکر تے ہیں کہ مفتی صاحبہ کا کنڈکٹ بتارہاتھا کہ اُن کے لیے یہ کوئی اہم نیوز یا لمحۂ فکریہ نہیں۔ پریس کانفرنس میں وہ اس قدر ہشاش بشاش نظر آرہی تھیں جیسے وہ حکومت چھن جانے کے وجوہات کا نہیں بلکہ حکومت حاصل ہونے کا اعلان کرنے جارہی تھیں۔ پھر وہاں بی جے پی کی اس جفاکاری پر ذرا بھی لب کشائی نہ کرنا بھی یہ ثابت کرتارہا کہ دونوں جماعتوں میں کہیں نہ کہیں کوئی رازدارانہ مفاہمت موجود ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ بی جے پی کی حامی بھرتے ہوئے پی ڈی پی یہ چاہتی ہو کہ کشمیریوں کی رواں سیاسی جدوجہد کو دبانے کے لیے فوج کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا جائے تاکہ آرمی کو جنگی سطح کے اختیارات سے لیس کرنے سے ممکنہ قتل عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام اس جماعت پر نہ آئے اور پھر آگے حالات اگر قابو میں آگئے تو اس مصنوعی جدائی کاخاتمہ بالخیر کیاجائے۔اس خدشے سے اس لئے انکار ممکن نہیں ہے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ یہاں اقتدار کی ہوس ہند نواز جماعتوں کو کسی بھی حد تک لے جاسکتی ہے، یہاں وزارت کی کرسیاں ہمیشہ انسانی سروں پر ہی حاصل کی جاتی ہیں، یہاں جو لوگ ایک روز گندی نالے کے کیڑے کہلاتے ہیں ،اگلے روز انہی کے ساتھ سیاسی معانقے اور معاشقے ہوتے ہیں ، یہاں کے ہند نواز سیاست کا ر عوامی ووٹ اور منڈیٹ کوکچل کر دلی کو ہی کعبہ ٔ  مقصود بناکر وہاں کا کلمہ گرداننے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ، یہاں لیڈر لوگ ووٹ حاصل کرنے کے بعد عوامی جذبات کا احترام کرتے ہیں اور نہ عوامی مفادات کا تحفظ کر نا اپنا فریضہ مانتے ہیں۔اس لیے اگر آنے والے وقت میں یہاں کوئی بھی خونی کھیل کھیلا گیا ،اُس کے لئے ہند نواز جماعتیں بالخصوص پی ڈی پی پر وقت کامورخ ذمہ داری عائد کر نے سے گریز نہیں کرے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ