بشری حقوق:جرائم سے پردہ اٹھا دھیرے دھیرے۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

 حال ہی میں اقوام متحدہ میں قائم کمیشن برائے انسانی حقوق نے کشمیر میں ہورہی جبر و زیادتیوں پر اپنی نوعیت کی پہلی رپورٹ شائع کی ہے۔۴۹؍صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کشمیرمیں تعینات بھارت کے وردی پوشوں اور انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی ظلم و زیادتیوں کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ تشویش کا اظہار بھی کیا گیا، نیز ہندوستان اور پاکستان سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنے اپنے زیر انتظام ریاستی علاقوں میں انسانی حقوق کے حوالے سے آزادانہ بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن کے قیام میں تعاون فراہم کریں تاکہ ریاستی عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا پتہ لگایا جاسکے۔مسئلہ کشمیر کی ستر سالہ تاریخ میں دنیا کے اس بڑے ادارے کی جانب سے اپنی نوعیت کی اس پہلی رپورٹ کا پاکستان نے نہ صرف خیر مقدم کیا ، بلکہ پاکستانی حصے والے کشمیر میں غیر جانبدار کمیشن کے قیام کواس شرط کے ساتھ تسلیم کرلیا کہ اگر بھارت بھی اپنے زیر تسلط علاقے میں کمیشن کا قیام عمل میں لانے کے لیے تعاون فراہم کرے ، پاکستان کو کمیشن کے قیام میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اس کے برعکس حکومت ہند نے اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو یکسر مسترد کرکے اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی تشویش اور سفارشات کو کسی خاطر میں ہی نہیں لایا۔رپورٹ کے۱۳؍ذیلی عناوین میںفورسز کو حاصل خصوصی اختیارات اور اس کے نتیجے میں اْنہیں سزا سے استثناء حاصل ہونا، فوجی عدالتوں کا انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا کرنا، گرفتاریاں، طاقت کے بے جااور بے تحاشا استعمال، قتل عام ، آنکھوں کی بینائی چھینے والے پیلٹ گن کا استعمال ، بے تحاشا انداز میں غیر قانونی طور پر لوگوں کو گرفتار کرنا، کم عمر بچوں کو بدنام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندکرنا،وردی پوشوں کی جانب سے گرفتار شدگان کا جسمانی تشدد، حراستی گمشدگیاں، صحت عامہ سے وابستہ عملے اور گاڑیوں پر فورسز کا حملہ آور ہونا، مذہبی معاملات میں مداخلت اور مذہبی شعائر پر پابندیاں، اظہار رائے پر قدغنیں، انسانی حقوق کارکنوں اور میڈیا سے وابستہ اہلکاروں کو اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے سے جبراً روکنا، کشمیری طلباء کے حصول تعلیم کی کوششوں میں رکاوٹیں پیدا کرنا اور جنسی زیادتیوں جیسے جرائم کی نشاندہی کی گئی ہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں ۸؍جولائی۲۰۱۶ء؁ کے بعد ریاست گیر عوامی احتجاجی تحریک سے نبرد آزماہونے کے لیے طاقت کے بے جا اور وحشیانہ استعمال اور اس کے نتیجے میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ جولائی۲۰۱۶ء؁ سے لے کر مارچ۲۰۱۸ء؁ تک بھارتی فورسز نے طاقت کا بے جا استعمال کرکے130 سے145 کے درمیان عام شہریوں کو جان بحق کردیا، جب کہ اس دوران ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو مضروب کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کرفیو نافذ کرکے لوگوں کے نقل و حرکت کو مسدود کردیا گیا اور طبی امداد فراہم کرنے والے عملے کے ساتھ ساتھ زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے والی ایمبولینس گاڑیوں کو بھی اپنی ڈیوٹی نبھانے سے جبراً روکا گیا۔اس جنگی صورت حال کے نتیجے میں مجبور و محصور عوام کو زبردست پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔یواین کے اس رپورٹ میں فوج کو حاصل خصوصی اختیارات کے حامل قانون آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ(AFSPA) اور پبلک سیفٹی ایکٹ(PSA) کو آڑے ہاتھوں لے کر کہا گیا کہ اس طرح کے کالے قوانین حصول انصاف اور جرائم میں ملوث فورسز اہلکاروں کو سزا دلانے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ مارچ۲۰۱۶ء؁ سے اگست۲۰۱۷ء؁تک ایک ہزار افراد کو بدنام زمانہ قانون پبلک سیفٹی ایکٹ(پی ایس اے) کے تحت جیلوں میں نظر بند کردیا گیا۔مواصلات پر پابندی، اظہارِ آزادی رائے پر قدغن اور میڈیا سے وابستہ افراد کو ہراساں کرنے کی بھی شدید نکتہ چینی کی گئی، نیزجنسی زیادتیوں کے معاملات میں قصور واروں کو سزا دینے اور مظلومین کو انصاف فراہم کرنے میں سرکاری انتظامیہ کی ناکامی کو بھی اجاگر کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق نے اپنی اس رپورٹ میں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر دعویٰ کہ یہ ادارہ ریاست جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات کے بارے میں جامع بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے پر غور کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر زید رادالحسین نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے بارے میں جامع بین الاقوامی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کرنے پر غور کر رہی ہے اور اس کے لیے انہوں نے بھارت اور پاکستان پر تعاون کرنے کے لیے تاکید کی ہے۔ پاکستانی دفترخارجہ نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کاخیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت اقوام متحدہ قرار دادوں پر اس کی روح کے مطابق عمل کرے۔رپورٹ میںریاست جموں وکشمیر کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے بھارت پر زور دیا گیا کہ وہ کشمیر میں تشدد بند کرکے جامع مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرے۔
یہ پہلی دفعہ ہے کہ اس عالمی ادارے نے اس طرح سے کھل کر رپورٹ شائع کرکے حقائق کی نشاندہی کی ہے۔ کشمیری عوام اس رپورٹ کو لے کر اطمینان کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی گلہ کررہے ہیں کہ ستر سال کے مظالم اور ظلم و زیادتیوں کی خبریں اب اس عالمی ادارے کے کانوں میں پڑ رہی ہیں، اس سست رفتاری کے نتیجے میں یہاں کتنی انسانی جانیں تلف ہوئیں ہیں اس کا اندازہ عالمی اداروں کو لازماً کرنا چاہیے، حالانکہ بھارت انسانی حقوق کے دوسرے عالمی اداروں کی اس طرح کی درجنوں رپورٹیں پہلے بھی رد کرچکا ہے اور اب بھی جو مؤقف دلی سرکار نے کشمیر کے حوالے سے اختیار کررکھا ہے اْسے دیکھ کر ایسا نہیں دکھائی دیتا ہے کہ سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ رکھنے والا ملک دنیا کے سب سے بڑے ادارے کی کشمیررپورٹ کو خاطر میں لاکر اپنا ریکارڈ درست کرنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ اگر چہ اس رپورٹ کے نتیجے میں زمینی سطح پر فی الوقت کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے، ریاست فوجی چھاونی میں تبدیل ہوچکی ہے، فوج کو حاصل خصوصی اختیار نے وردی پوشوں کو اس حد تک حوصلہ فراہم کررکھا ہے کہ وہ کہیں بھی کسی بھی بے گناہ شہری کو گولیوں سے چھلنی کرسکتے ہیں اور اْن سے اس بابت کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ حالیہ دلدوزسانحات کھلم کھلاگواہی دے رہے ہیں کہ اقوام متحدہ کی کشمیررپورٹ نے دلی کے ارادوں اور منصوبوں پر کسی قسم کی کوئی بریک نہیں لگائی ہے لیکن کشمیری عوام کے لیے یہ رپورٹ اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ یہاں جو کچھ ہورہا ہے اس کو لے کر عالمی ادارے اور طاقتیں زیادہ دیر تک اندھے، گونگے اور بہرے نہیں رہ سکتے ہیں۔ بالآخر اْنہیں اپنے ہی مفادات کی خاطر دلی کے ہاتھ نہ صرف انسانی حقو ق کی پامالیوں سے روکنے پڑیں گے بلکہ اْنہیں اس بات کے لیے مجبور بھی کرنا پڑے گا کہ وہ کشمیری عوام کو اْن کا بنیادی حق فراہم کریں۔ گویا واضح ہوجاتا ہے کہ ریاستی عوام کی بے پناہ قربانیاں ضائع نہیں ہوں گی بلکہ اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں ایسے اسباب ضرور پیدا کرے گا جو کشمیریوں کی انتھک کوششوں، قربانیوں اور جدوجہد کا میٹھاثمر فراہم کرنے کا سبب بن جائیں گے۔یہ رپورٹ ہر حیثیت سے عام کشمیریوں کے لیے حوصلہ افزا ہے، اس میں ہندوستانی فوج کی زیادتیوں اور مظالم کی نشاندہی نہیں کی گئی ہے،بلکہ اس میں گرفتاریوں، قتل و غارت گری ، مذہبی رسومات پر پابندی، لوگوں کے روز مرہ کے معمولات پر قدغنین، ترسیلات اور مواسلات پر روک گویا ہر غیر انسانی حرکت کو موضوع بحث بناکر ان حرکات کو ہدف تنقید بنایا گیا،اس میں پہلی مرتبہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ہزاروں الزامات کی تحقیقات کے لیے عالمی پیمانے کا تحقیقاتی کمیشن بنانے کی بات کہی گئی ہے، ا س میں مسئلہ کشمیر کو متنازعہ قرار دے کر مذاکرات کے ذریعے اس کے حل کی بات کہہ کر گویا کشمیری عوام کے ستر سالہ دیرینہ مؤقف کی کھل کر حمایت کی گئی ۔یہ رپورٹ بلاشبہ کشمیر یوں کو اخلاقی جیت کا احساس پیدا کرنے والی ہے اور کشمیری کہیں اس جیت پر کامیابی کے احساس میں مبتلا نہ ہوجائیں، اس کے لیے رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی یاست میں کئی ایسے واقعات و سانحات کو آہنی ہاتھوں سے انجام دیا گیا جن کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی یہ تاریخی رپورٹ پس منظر میں چلی گئی اور اسے عوامی حلقوں میں موضوع بحث نہ بننے دیا گیا۔ یہ حکمت عالمی بڑے ہی شاطرانہ طریقے سے انجام دی گئی اور اس کے لیے کھیل بھی بڑے پیمانے پر کھیلا گیا۔
 یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اقوام متحدہ نے۱۹۴۸ء؁ میں انسانی حقوق کے دن کے طور پر۱۰؍دسمبر کو مختص کردیا ہے اور اقوام متحدہ میںاس دن انسانی حقوق کے تحفظ اور آگاہی کے لیے عالمی منشور بھی جاری کیا گیا۔ جنرل اسمبلی میں رائے شماری کے وقت اس کے حق میں ۴۸؍ ممالک نے ووٹ دیا جب کہ ۸؍ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔۳۰؍دفعات پر مشتمل اس منشور کے تحفظ اور تجاویز کے لیے ایک مستقل کمیشن برائے انسانی حقوق بھی قائم کیا گیا، جس کے ذریعے کشمیر کے حوالے سے گزشتہ رپورٹ شائع ہوئی ہے۔یہ کمیشن مختلف اوقات میں دفعات کی عملدر آمد کی صورتحال کا جائزہ بھی لیتا رہتا ہے۔انسانی حقوق کے اس عالمی منشور میں اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ دنیا میں انسانی آزادی، انسانوں کے درمیان مساویانہ حیثیت، اظہار آزادی رائے کا احترام، سماجی تحفظ کا حق، مذہبی آزادی، ظلم و زیادتیوں اور تشدد اورانسانیت کے ساتھ غیر انسانی اور توہین آمیز سلوک سے اجتناب کو ہر حیثیت میں یقینی اور ممکن بنایا جائے گا۔ المیہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اس عالمی منشور میں جتنے بڑے دعوے کیے گئے ہیں اور جتنی خوشنما باتیں درج ہیں ،اْتنا ہی اس منشور کی آج تک بے حرمتی ہوتی رہی ہے۔ بڑی بڑی طاقتیں جہاں بھی جاتی ہیں، جن قوموں کو اپنا غلام بناتی ہیں، جہاں بھی جابرانہ قبضہ کرتی ہیں وہ انسانی حقوق کے ان عالمی اصولوں کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ فی زمانہ افغانستان، عراق، شام، مصر، لیبیا، بنگلہ دیش، فلسطین، کشمیر، چیچنیا عالمی طاقتوں کے وحشی پن اور انسانی حقوق کے عالمی منشور کی دھجیاں اْڑانے کی زندہ ترین مثالیں ہیں۔بھارت گزشتہ کئی سال سے اقوام متحدہ میں اپنی مستقل نشست کے لیے عالمی سطح کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اپنے ملکی مفاد کے خاطر امریکہ جیسا ملک بھارت کی حمایت کررہا ہے ،لیکن حالت یہ ہے کہ جس عالمی ادارے کی مستقل رکنیت کے لیے دلی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے، اْسی ادارے کی  کشمیررپورٹ کو خاطر میں نہ لاکریہ ملک ریاست جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی مٹی پلید کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ ملک ایک ایسے ادارے کی مستقل رکنیت حاصل کرکے اْس کی حق ادائی بھلا کیسے کرے گا جس کے واضع کردہ قوانین اور منشور کایہ احترام کرنے سے خود کو قاصر پاتا ہے؟ دراصل موجودہ زمانے میں عالمی سطح کے بڑے بڑے اداروں کی رکنیت حاصل کرکے مختلف طاقتیں انسانیت کی خدمت اور عالمی پیمانے پر اپنا کردار ادا کرنے کی نیت سے ایسا نہیں کرتی ہیں بلکہ اپنے اپنے ملکی مفاد میں اپنی ہر جائز و ناجائز حرکت کو جواز فراہم کرنے اور اپنی طاقت کا سکہ جمانے کے لیے ان عالمی فورموں کی اکائی بننے کے لیے جوڑ توڑ کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کا یہ ادارہ بڑی طاقتوں کی لونڈی بن چکی ہے اور جس طرح وہ چاہیں گے اس ادارے کا استعمال کرتے ہیں۔ اس ادارے کے بارے میں پاکستان کے معروف قلمکار شاہ نواز فاروقی نے اپنے ایک مضمون میں خوب تبصرہ کیا ہے کہ:’’جدید مغربی تہذیب وحی کو نہیں مانتی مگر اْس نے دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کو دنیا کی تقدیر کا خدا بنایا ہوا ہے اور ان کی رائے کو وحی۔ دوسری سطح پر ویٹو پاور بادشاہت کی علامت ہے۔ جدید مغرب جمہوریت پسند اور بادشاہت کے سخت خلاف ہے، مگر سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین دنیا کے پانچ بادشاہوں کی حیثیت رکھتے ہیں، اور وہ 1945ء سے آج تک سلامتی کونسل میں جمہوریت عزت ریزی کررہے ہیں۔ سلامتی کونسل اگر کوئی عورت ہوتی تو وہ اب تک  Me Too مہم کا حصہ بن چکی ہوتی اور امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین کسی کو دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہ رہتے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب اپنے آزادی کے عقیدے کی بھی بے حرمتی کررہا ہے اور اس نے جمہوریت کو بھی ایک طوائف بناکر رکھ دیا ہے۔ جہاں تک مساوات اور بھائی چارے یا Fraternity کا تعلق ہے تو مغرب کی تخلیق کی ہوئی دنیا میں نہ کہیں مساوات ہے، نہ کہیں بھائی چارہ ہے۔‘‘… ایسے میں یہ ادارہ رپورٹ کی اجرائی سے آگے بڑھ کر اقدام کرپائے گا، یہ ان پانچ طاقتوں کے موڑ اور مشترکہ مفاد پر منحصر ہے۔اس ادارے کے بارے میں دنیا بھر کے انسانوں کا یہی تصور ہے۔ اس لیے اپنے حوالے سے غلط تصورات کو زائل کرنے کے لیے اقوام متحدہ جیسے ادارے کو اپنی اہمیت منوانے اور اپنے کھوئے ہوئے وقار کو قائم کرنے کے لیے اپنی رپورٹوں کو محض فائلوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس کے لیے اْن ممالک پر ہر قسم کا دباؤبڑھانے کے لیے عملی اقدامات بھی کرنے چاہیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میںملوث ہیں اور ایسے ممالک میں بھارت کا نمبر کسی درجہ کم نہیں ہے کیونکہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ وشال دیش گزشتہ ستر سال سے کشمیر میں جائز سیاسی حقوق کی مانگ کرنے والے عوام کے خلاف طاقت کا وحشیانہ طریقے سے استعمال کررہا ہے اور عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے چنگیزیت اور بربریت کو بھی شرمسار کررہا ہے

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ