دو کشمیری اسکالرز پر ’’غداری ‘‘ کا مقدمہ

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کشمیر طلباء خوف کا شکار
۱۲؍اکتوبر کو یوپی پولیس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دو کشمیری ریسرچ اسکالرس کے خلافIPC سیکشن124A کے تحت غداری کا مقدمہ درج کرکے یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں زیر تعلیم کشمیر کے قریباً بارہ سو طلباء کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔مذکورہ دو کشمیری اسکالرس پر الزام ہے کہ انہوں نے 11 ؍اکتوبر کو کینڈی حال میں دیگر کشمیری طلباء کے ساتھ جمع ہوکر مبینہ طور عبدالمنان وانی کا غائبانہ نماز جنازہ اداکرنے کے علاوہ ’’دیش مخالف‘‘ نعرہ بازی کی۔ یوپی پولیس کی جانب سے غداری کا مقدمہ درج ہونے سے قبل ہی یونیورسٹی حکام نے تین کشمیری اسکالرس کو یونیورسٹی سے معطل کرنے کے علاوہ دیگر درجنوں طلباء کے نام وجہ بتاؤ نوٹس جاری کردئے تھے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی حکام اور یوپی پولیس کی جانب سے کی جانی والی اس کارروائی کو طلباء مخالف قرار دیتے ہوئے یونیورسٹی کے کشمیری طلباء نے ایک خط کے ذریعے سے سخت احتجاج درج کیا ہے۔وی سی کے نام اپنے ایک خط میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلباء یونین کے کشمیری نژاد نائب صدر نے دھمکی دی کہ’’ اگرکشمیری طلباء کو تنگ طلب اور ہراساں کرنے کی یہ کوششیں بند نہ کی گئی تو یونیورسٹی میں موجود 1200 طلباء و طالبات اپنی ڈگری اسناد واپس لوٹا کر اجتماعی طور پر یونیورسٹی سے ہجرت کریں گے۔انہوں نے ان الزامات کی تردید کی کہ کینڈی حال میں کشمیری طلباء نے کوئی نعرہ بازی کی ہو یا پھر غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ اُن کے مطابق ’’بے شک کشمیری طلباء کینڈی حال میں جمع ہوئے تھے کیونکہ دن بھر ہندوستانی میڈیا میں وادی کے اندر بگڑتی ہوئی صورتحال کی خبریں نشرہونے کی وجہ سے طلباء میں پریشانی لاحق ہوئی تھی اور صحیح صورتحال جاننے اور حالات پر بات کرنے کے لیے وہ وہاں پر جمع ہوئے تھے ‘‘۔ اُنہوں نے الزام لگایا کہ’’ کینڈی حال میں موجود پریشان حال کشمیری طلباء پر کچھ غیر کشمیری طلباء نے لاٹھیوں سے حملہ کیا ہے، جس کی شکایت یونیورسٹی حکام کے سامنے پہلے ہی کی گئی تھی لیکن ہماری شکایت سننے کے بجائے الٹا ہمیں ہی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔‘‘جامعہ ملیہ نئی دلی میں زیر تعلیم کشمیری طلباء نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کشمیری طلباء کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اُن کا بھرپور ساتھ دینے کی یقینی دہانی کرکے اِن اندیشوں کو صحیح ثابت کردیا ہے کہ بیرون ریاست ہر تعلیمی ادارے میں موجود کشمیری طلباء خوف و ہراس میں مبتلا ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بیرون ریاست کشمیری طلباء کو ذہنی پریشانیوں میں مبتلا کردیا گیا ہے بلکہ برسوں سے یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے۔ میرٹھ میں کرکٹ میچ کا بہانہ بناکر سینکڑوں کشمیری طلباء کو کالج سے بے دخل کرنے کا معاملہ ہو یا پھر پنجاب کے مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلباء کو کشمیری ہونے کے ’’جرم‘‘ میں گرفتار کیے جانے کے درجنوں معاملات ہوں ، شاردا میں کشمیری اسٹوڈنٹ کی مارپیٹ کا معاملہ ہو یا پھر میڈیا کے ذریعے سے منفی پروپیگنڈا کے نتیجے میں بیرون ریاست مقیم کشمیریوں کا ایک ایک لمحہ خوف میں گزارنے کی بات ہو، ہر دفعہ کشمیری نوجوانوں کو یہ احساس دلایا گیا کہ اُن کا کشمیر ی ہونا ہی اُن کا سب سے بڑا جرم ہے۔
بھارت میںعدم برداشت کا حال یہ ہے کہ کسی انسان بالخصوص مسلمان کی آواز کو دبانے کی بات ہو تو فوراً ہی سرکاری مشینری اور فورسز ایجنسیاں اُن پر ’’غداری‘‘ کا مقدمہ دائر کرلیتے ہیں۔ حالانکہ آئین ہند میں آزادیٔ اظہارِ رائے (Freedom of Speech) کی گارنٹی ہے۔سابق بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مارکنڈے کاٹجو نے اپنے فیس بک پوسٹ میں کشمیری اسکالرس کے خلاف کیس درج کیے جانے پر لکھا کہ:’’ میری رائے میں اُن کی گرفتاری بالکل ہی غیر قانونی ہے۔ آزادی کی ڈیمانڈ کرنا جرم نہیں ، یہ آئین ہند کی دفعہ برائے آزادیٔ اظہارِ رائے آرٹیکل19(1)(A) کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ تب جرم بن جاتا ہے جب ڈیمانڈ سے آگے بڑھ کر انسان تشدد پر اُتر آجائے۔‘‘انہوں نے مزید لکھا کہ:’’ ہندوستان میں بہت سارے لوگ آزادی کی مانگ کررہے ہیں، مثال کے طور پرکشمیری، خالستانی، نارتھ ایسٹ کے لوگ وغیرہ اور اُن کا آزادی کی مانگ کرنا کوئی جرم نہیں ہے۔اس لیے کشمیری طلباء نے اگر نمازِ جنازہ ادا کی ہے یا پھر آزادی کے حق میں نعرہ بازی کی ہوتو اُنہوں نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا جس پر اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔‘‘
کوئی بھی اللہ کا بندہ اس دنیا سے چلا جائے تو اْس کے نمازہ جنازہ میں شرکت کرنا ایک مسلمان کا دینی فریضہ ہوتا ہے، اور اگر جانے والا جان پہچان والا ہو، رشتہ دار یا پھر زندگی کے کسی بھی موڑ پر ساتھیوں میں رہا ہو تو اْن کے لیے دعا گو ہوجانا انسان کا حق بن جاتا ہے۔ علی گڑھ میں کشمیری طلباء نے اگر اسی حق کا استعمال کیا ہے؟ تویہ کون سا اتنا بڑا جرم ہے کہ اْن پر غداری کے مقدمات درج کیے جائیں، اْنہیں یونیورسٹی سے نکالا جائے یا اْن کے نام وجہ بتاونوٹس جاری کیے جائیں۔ حالانکہ وہ کسی بھی ایسی میٹنگ کے بارے میں سرے سے ہی انکار کرتے ہیں۔دور جدید میں تمام اقوام یونیورسٹیوں او ر کالجوں میں طلباء ایکٹویزم کونمایاں حیثیت دے کر اُنہیں اپنے خیالات و جذبات کا بھرپور اظہار کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں تاکہ نوجوان نسل کی صلاحیتیں پروان چڑھ جائیں اور وہ مستقبل میں قوموں کی تقدیر بدلنے کے کام آجائیں۔آج کے زمانے میں یہ سہولیت ہر ملک کے طلباء کو حاصل ہے، نیز بھارت کی دیگر ریاستوں کے طلباء بھی کالجوں او ریونیورسٹیوں میں سیاسی مسائل پر کافی سرگرم رہتے ہیں لیکن جب بات کشمیری طلباء کی آتی ہے اُن پر قدغنیں عائد کی جاتی ہیں، اُنہیں اپنے خیالات کا اظہار کرنے پر بعض اوقات جیل بھی جانا پڑتا ہے۔اُن کا تعلیم پانا اور مختلف شعبوں میں آگے بڑھنا بھی بعض اوقات’’دہشت گردی‘‘ کہلاتا ہے۔شوشل میڈیا کے زمانے میں خیالات کا اظہار ہر شہری کا بنیادی حق بن چکا ہے،لیکن جب ہمارے نوجوان اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو اُنہیں مختلف شکنجوں میںکسا جانے لگتا ہے، اُنہیں ذہنی و جسمانی طور ہراساں کیا جانے لگتا ہے۔کشمیری نوجوانوں کے سوشل ایکٹویسٹ بن جانے کو کبھی Terrorism  Intellectualکانام دیا جاتا ہے تو کبھی OGW's   Intellectualکی اصطلاح اْن کے لیے استعمال کی جاتی ہے اورکبھیInstigatorکی لیبل اْن پر چسپاں کرکے اْنہیں ہراساں و پریشان کیا جاتا ہے۔ 
اب کی بار علی گڑھ میں دو ریسرچ اسکالرز کو یونیورسٹی سے معطل کرکے اْن پر’’غداری ‘‘ کا مقدمہ دائرکرنا، دیگر کے خلاف وجہ بتاو نوٹس جاری کرنا یہ جتلاتا ہے کہ جمہوریت کے دعویداروں کے یہاں کوئی اصول نہیں ہیں۔وہ ہماری پڑھی لکھی نسل کو نشانہ بناکر تعلیم کے حصول کے لیے دوسری ریاستوں کا رُخ کرنے والے طلباء کی راہیں روک لینا چاہتے ہیں، اْن کی خواہش ہے کہ کشمیری قوم کی نئی نسلیں اَن پڑھ اور گنوار رہیں ، کیونکہ علوم سے دور رہنے والی قوموں کو زیر کرنا آسان ہوجاتا ہے، پڑھی لکھی اور سوچنے سمجھنے والی نسلوں کو جسمانی طور ہتھکڑیوں سے جھکڑا تو جاسکتا ہے لیکن اْن کی سوچ کی پرواز پر کوئی قدغن نہیں لگا ئی جاسکتی ۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بارہ سوطلباء کی کیمپس سے لوٹ جانے کی دھمکی پوری قوم کے لیے باعث تشویش ہے۔کشمیری قوم کا یہ ماننا حق بجانب تصور ہوگا کہ جس طرح ہمارے سیاسی وانسانی حقوق سلب کرلیے گئے ہیں اْسی طرح اب ہماری نسلوں کو تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی حق سے محروم کیا جارہا ہے۔ اقوام عالم سے بھی گزارش ہے کہ وہ ہماری نسلوں کا تعلیم پانے کے حق کو سلب کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں دو پی ایچ ڈی اسکالر کی معطلی اور اْن پر غداری کے مقدمات کی پرزور الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے اور اس طرح کی کارروائیوں کو گٹھیا سوچ کی عکاسی تصور کیا جانا چاہیے۔یہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اعلیٰ حکام نے بھی دوہرے معیار کا مظاہرہ کرکے دانستہ طور پر کشمیر طلباء کو بلاوجہ’’مجرموں‘‘ کی صف میں لاکھڑا کردیا ہے، حالانکہ طلباء کے تحفظ کی ذمہ داری یونیورسٹی حکام پر عائد ہوجاتی ہے۔ 
ایک اہم بات جس کی جانب ہماری نوجوان نسل بالخصوص بیرون ریاست مقیم طلباء کی خصوصی طور پر دھیان دینا چاہیے۔ وہ ریاست سے جہاں بھی موجود ہوں، اُنہیں اپنے تعلیمی کیرئیر پر بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ اُنہیں اپنے آپ کو علم کے ہتھیار سے لیس کرنے کے دوران دیگر معاملات میں نہیں الجھنا چاہیے۔ اُنہیں اس بات ادراک حاصل کرلینا چاہیے کہ وہ ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتے ہیں جن کا قافیہ حیات تنگ کرنے کے لیے پہلے سے ہی بہانے تراشے جارہے ہیں۔ بے شک و ہ جوان ہیں اور اُن کے جذبات کو کبھی کبھار ٹھیس پہنچ جاتی ہے، لیکن جن حالات سے ہماری قوم گزر رہی ہے اور جس طرح کے مسائل سے اُمت مسلمہ دوچار ہے اُن میں نوجوانوں کے لیے لازمی بن جاتا ہے کہ وہ اپنے عقل جو جذبات کے تابع رکھنے کے بجائے جذبات کو عقل کے تابع رکھیں۔دور اندیشی کا مظاہرہ کرکے اپنے صلاحیتوں کو بڑھانے پر توجہ مرکوز کریں۔وقت آئے گا کہ یہ قوم اپنی نسلوں کی صلاحیتوں کا پھل کھائے گا۔ ان شاء اللہ۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ