اسمبلی تحلیل.... تاریخ دوہرائی گئی!

(کشمیر عظمیٰ۶۲نومبر)
۰۲نومبر۸۱۰۲ئ کے روز ریاست جموں وکشمیر میں حکومت سازی کے حوالے کافی ہلچل دیکھنے کو ملی ہے اور شام ہوتے ہوتے ریاستی گورنر ستیہ پال ملک نے ہند نواز جماعتوں کی جانب حکومت سازی کی کوششوں پر نہ صرف پانی پھیر دیا بلکہ علاقائی ہند نواز سیاسی جماعتوں، لیڈروں اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو یہ بھی یاد دلایا کہ ریاست جموں وکشمیر میں جمہوری اصول اور قدریں ایک محدود Limit تک ہی کام کرتی ہیں جہاں سے دلی کی برسر اقتدار جماعتوں کے مفادات شروع ہوجاتے ہیں وہاں سے ریاستی حدود میں آئین، جمہوریت اور اصولوں کی سیاست کے لیے راستے مسدود ہوجانے شروع ہوجاتے ہیں۔۰۲نومبر کو دن بھر ریاست کی سیاسی گلیاروں میں یہ افواہیں گردش کررہی تھیں کہ بی جے پی کا راستہ روکنے کے لیے تین حریف جماعتیں نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور کانگریس ریاست میں حکومت سازی کے لیے صلاح مشورے کررہی ہیں اور عنقریب ریاست میں حکومتی سازی کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔ ان افواہوں نے سرینگر سے دلی تک بی جے پی اور ریاست میں اُن کے لیے کام کرنے والے سیاست دانوں کو حواس باختہ کردیا۔ بوکھلاہٹ کا عالم یہ تھا کہ بی جے پی کے جنرل سیکریٹری رام مادھونے یہاں تک کہہ دیا کہ” پی ڈی پی، این سی اور کانگریس نے پاکستان کے کہنے پر ریاست میں حکومت سازی کا فیصلہ کرلیا ہے۔“ان ہی افواہوں کے بیچ شام کو پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ کے ذریعے گورنر کے نام لکھے جانے والے اُس خط کو منظر عام پر لایا جس میں اُنہوں نے ریاست میں حکومت تشکیل دینے کا دعویٰ پیش کرنے کے لیے گورنر سے ملاقات کے لیے وقت مانگا تھا۔ انہوں نے اپنے خط میں دعویٰ کیا کہ پی ڈی پی کو حکومت تشکیل دینے کے لیے نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی حمایت حاصل ہے۔محبوبہ مفتی نے اپنے ٹویٹ میں یہ عجیب انکشاف بھی کیا ہے کہ اُنہوں نے اس خط کو راج بوجھ فیکس کرنے کی کوشش کی لیکن وہاں کا فیکس بیکار پڑا ہوا تھا، اس کے بعد انہوں نے گورنر سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ فون پر دستیاب ہی نہیں تھے۔ محبوبہ مفتی کی جانب سے حکومت سازی کا دعویٰ پیش کرنے کے کچھ ہی وقت بعد ایک اور دعویٰ سجاد لون کی جانب سے سامنے آیا، اُنہوں نے بھی ایک ایسا ہی خط گورنر کے نام سوشل میڈیا پر ڈال دیا جس میں حکومت سازی کا دعویٰ پیش کیا گیا۔حکومت سازی کا دعویٰ کرنے والی جماعتوں کے خطوط راج بھون تو نہیںپہنچ پائے ہیں اور نہ ہی گورنر صاحب نے اپنے آپ کو حکومت بنانے والی سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے لیے فون پر دستیاب رکھا البتہ اُنہوں نے الگ سے ایک حکم نامے میں ریاستی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اعلان کرکے حکومت سازی کی تمام تر کوششوںپر پانی ضرور پھیر دیا ہے۔شام دیر گئے راج بھون کی جانب سے جاری کردہ ایک پریس بیان میں کہا گیا:” جموں وکشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے انہیں حاصل اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے جموں وکشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کردیا ہے۔“گورنر نے اپنے اقدام کے لیے ایک عجیب قسم کا Logic پیش کیا کہ ”متضاد فکر کے حاملین جماعتیں کی حکومت پائیدار ثابت نہیں ہوسکتی تھی اس لیے انہوں نے اسمبلی کو ہی تحلیل کرکے نئے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔“حالانکہ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ حکومت بنانے کا یہ دعویٰ پیش کرنا نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس کا ایک سیاسی داو ¿ ہے جس کے ذریعے سے وہ دلی کو اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں تاکہ ریاست میں کوئی تیسرا فرنٹ وجود میں آکر حکومت پر قابض نہ ہوجائے، جس میں یہ تینوں جماعتیں کامیاب رہی ہیں، ورنہ دنیا جانتی ہے کہ وادی میں اثر و رسوخ رکھنے والی ہند نواز سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ کس حد تک سخت رویہ اختیار کرتی چلی آئی ہیں۔
۹۱ جو ن ۸۱۰۲ئ سے ریاست میں گورنر راج نافذ ہے۔ دلی میں قائم بی جے پی سرکار نے اس دوران یہاں اپنی ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ستیہ پال ملک کو بحیثیت گورنر تعینات کردیا جس پر بی جے پی کے ریاستی صدر نے برملا کہہ دیا کہ یہ ”بی جے پی کا اپنا آدمی ہے“اورگزشتہ پانچ ماہ کے دوران بی جے پی جوڑ توڑ کرکے ریاست میں اپنی من پسند سرکار تشکیل دینے کی ہر ممکن کوشش کررہی تھی۔ گزشتہ دنوں سجاد لون کی قیادت میں بی جے پی کی سرکار وجود میں آنے کی قیاس آرائیاں اُس وقت صحیح دکھائی دینے لگیں جب پی ڈی پی کے سینئر لیڈر اور ممبر پارلیمنٹ مظفر حسین بیگ نے سجاد لون کی سربراہی میں تیسرے فرنٹ کا حصہ بننے کا اشارہ دیا تھا۔ان کوششوں سے نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی اور کانگریس تینوں جماعتوں کی صفوں میں اضطراب پیدا ہونا یقینی تھا، اس لیے کسی بھی ایسی سرکار کا راستہ روکنا تینوں جماعتوں کا مشترکہ مقصد بن گیا جس کے ذریعے سے ان جماعتوں کا وجود خطرے میں پڑجانے کا اندیشہ پیدا ہوجائے۔ جبھی ایک دوسرے کے سخت خلاف نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی اتحاد پر راضی دکھائی دے رہی تھیں۔دلی جس نے ہر ہمیشہ کشمیرمیں کسی بھی سیاسی طاقت کو پنپنے نہیں دیا بلکہ جب بھی کوئی جماعت کشمیر کی سیاست پر حاوی ہونے لگی تو اُنہوں نے اُس کے مدمقابل ایک اور جماعت کو لاکھڑا کرکے یہاں کی سیاسی جماعتوں کو اس حد تک کمزور بنا کر رکھ دیا کہ وہ دلی کے سامنے آنکھ اُٹھا کر بات کرنے کی جرا ¿ت نہ کرسکیں، نیشنل کانفرنس کے مدمقابل پی ڈی پی کو کھڑا کرکے دونوں جماعتوں کو دلی کے سامنے جولی پھیلانے کی پوزیشن میں لاکھڑا کردیا گیا لیکن جب یہ دو جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرنے کے لیے سوچنے لگیں ہیں تو یہ دلی کے پالیسی سازوں کے لیے غیر متوقع خبر تھی، اس لیے دلی سرکار نے ”اپنے “ گورنر کے ذریعے سے بوکھلاہٹ میں ریاستی اسمبلی کو ہی تحلیل کرواکے اگر چہ وقتی طور پر بی جے پی کا راستہ روکنے والی بھلا کو ٹال دیا ہے لیکن اس فیصلے سے ریاست کے مستقبل پر دور رس اثرات مرتب ہونے کا بھی احتمال ہے۔دلی کی حکومتیں بار بار کہہ رہی تھیں کہ گزشتہ ادوار میں کشمیر اُمور میں بے جا مداخلتوں کی وجہ سے ہی کشمیری عوام ناراض ہیں اور اب وقت بدل چکا ہے، آئندہ ایسی مداخلتیں نہ کرکے وہ کشمیریوں کا دل جیت جائیں گے، لیکن اپنی عادت سے مجبور دلی سرکار نے روایتی انداز اپنا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ کشمیریوں کا اُن پر بھروسہ نہ کرنا صحیح ہے۔ اور کشمیری عوام یہ سوچنے میں حق بجانب ہیں کہ ریاست میں حکومتیں اور سرکاریں دلی کی ہی آشرواد سے بنتی بھی ہیں اور گرتی بھی ہیں، وہ جو کچھ کرتی ہیں دلی کے کہنے پر ہی کرتی ہیں اور کبھی کبھی یہاں کی سرکاریں اتنی بے بس بنائی جاتی ہیں کہ وہ برملا اپنی بے بسی کا اظہار بھی کرتی ہیں۔ جس طرح ۰۱۰۲ئ میں عمر عبداللہ نے اور ۶۱۰۲ئ میں محبوبہ مفتی نے اپنی بے بسی کا برملا اظہار کرکے اعلاناً کہہ دیا کہ نہ ہی دلی میں اُن کی بات سنی جاتی ہے اور نہ ہی یہاں کام کرنے والی ایجنسیاں اُن کی احکامات کو خاطر میں لاتے ہیں۔گزشتہ ستر سال سے یہاں کے پورے سسٹم کو ”کٹھ پتلی“ بناکر رکھ دیاگیا ہے۔
۷۴۹۱ئ سے لے کر آج تک کشمیرکی سیاسی حالات پر اگر نظر دوڑائی جائے گی تو اُس میں ہر مرحلے پر دلی کی بے جا مداخلت،ریاستی کی سیاسی و آئینی حیثیت کو کمزور کرنے اور پارٹی مفادات کی خاطر دغا بازی، فریب اور سیاسی چالبازیاں ہی دکھائی دیتی ہیں۔اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی فورم پر۸۱قرار دادوں کے ذریعے سے دنیا کے سامنے کشمیریوں کو حق خود ارادیت فراہم کرنے کا وعدہ کرکے بعد میں اِس سے مکر جانا ہی سب سے بڑی بد دیانتی ہے، اس کے بعد مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے اونچے سیاسی قد کاٹھ کے باوجود اُن کے نام کو اپنی قوم کی سامنے شجر ممنوعہ بنانے کی بات ہو یا پھر صادق، بخشی اور مفتی جیسے کرداروں کی تخلیق کرکے اُنہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بعد اُنہیں بے آبرو کرنے کے واقعات ہوں، ہر مرحلے پر دلی کے مسند اقتدار پر براجمان لوگوں نے کشمیر میں بین الاقوامی قوانین، جمہوریت اور سیاسی اخلاقیات کو پیروں تلے روند ڈالا۔پھر۷۸۹۱ئ کے الیکشن میں تاریخ ساز دھاندلیاں کرواکے جس طرح سے شکست خوردہ اُمیدواروں کو کامیاب قرار دیا گیا اُس نے نہ صرف کشمیریوں کا ہندوستانی جمہوریت سے اعتبار ختم کردیا بلکہ دنیا کے غیر جانبدار ادارے اور سیاسی ماہرین بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ریاست جموں و کشمیر میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویٰ کرنے والوں کی جمہوریت محض فریب اور ڈھکوسلہ ہے۔جب نوے کی دہائی میں ریاستی عوام نے سڑکوں پر آکر اپنے حقوق کی مانگ کرکے کشمیر میں زمینی سطح پر بھارتی رٹ کو چیلنج کیا تو پھر بھارتی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ وہاں کی سول سوسائٹی، صحافی اور دانشور بھی چیخ چیخ کر یہ قبول کرنے لگی تھے کہ کشمیر میں دلی کی جانب سے بے شمار غلطیاں سرزد ہوئیں ہیں جن کو آئندہ نہیں دوہرایا جائے گا، لیکن حالات اور وقت نے ثابت کردیا کہ دلی کی جانب سے یہاں کے معاملات میں بے جا مداخلت کا وطیرہ تبدیل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی ایسی کوئی اُمید کی جاسکتی ہے، حالانکہ کشمیری قوم پہلے سے ہی حکومت ہند اور وہاں کے پالیسی ساز اداروں کی ضد او رہٹ دھرمی کو دیکھ کر یقین کرنا چھوڑ چکی ہے۔
دنیا جانتی ہے کہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی جیسی ہند نواز سیاسی جماعتوں کی اقتداری اور انفرادی مفادات کی سیاست سے ہی یہاں بھارت کی رٹ قائم ہے۔ یہ جماعتیں اپنے عوام کی خواہشات، اُمنگیں اور آرزو ¿ں کا قتل کرکے اُن کا استحصال کرتی چلی آئی ہیں ، یہ دلی میں بننے والی ہر کشمیر مخالف پالیسی کا نہ صرف حصہ بن جاتی ہیں بلکہ اُس پالیسی کو یہاں عملانے کے لیے شاہ سے زیادہ وفاداری کا مظاہرہ بھی کرتی ہیں۔ فاروق عبداللہ جو اپنے ہندوستانی ہونے کا نہ صرف فخریہ اظہار کرتے رہتے ہیں بلکہ ”دیش بھگتی“ کے گیت گانے کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بمباری کرنے کی شدت سے مانگ کرکے بار بار ”بھارتی“ ہونے کا ثبوت بھی دے چکے ہیں، لیکن آج کے ہندوستان میں کشمیری نسل سے ہونے کی وجہ سے اُنہیں بھی نہ صرف مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے لوگ کئی بار اُنہیں پاکستانی ہونے کا طعنہ بھی دے چکے ہیں۔نوے کی دہائی میں جس وقت کشمیر کی گلیاروں میں قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا، وردی پوش کپواڑہ، ہندواڑہ، سوپور، بجبہاڑہ، گاو ¿ کدل وغیرہ جیسے درجنوں قتل عام کی میدان سجا چکے تھے اُس وقت ہوم منسٹری کی کرسی پر مفتی محمد سعید بیٹھے ہوئے تھے اور وہ اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کرواکے دلی میں داد تحسین حاصل کررہے تھے، وہی مفتی محمد سعید جن کی بنائی ہوئی پی ڈی پی کوآج کل بھارتی عوام کے سامنے بی جے پی ، بھارتی میڈیا اور وہاں کے شدت پسند طبقے پاکستانی حمایت یافتہ سیاسی جماعت ثابت کررہے ہیں۔بھارت کی جانب سے اپنایا جانے والا یہ منفی اور تعصب پر مبنی رویہ ہندنواز جماعتوں او رلیڈروں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہونا چاہیے، لیکن کیا کریں اقتداری حرص اور ضمیر کی سودا گری کا، اتنی ذلت سہنے کے باوجود وہ اپنے ہی عوام کا استحصال کرکے اُن پر روا مظالم کا نہ صرف نظارہ کرتے رہتے ہیں بلکہ اُن میں برابر کے شریک بھی بن جاتے ہیں۔ظلم کی کلہاڑی کے دستے بن کر یہ حقیر مفادات کی خاطر اپنے ضمیر کی آواز سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے ہیں۔
اقوام عالم کو کشمیر کے ان سیاسی حالات کو دیکھ لینا چاہیے جہاں دنیابھر کے اقوام جمہوریت کی باتیں کرتے ہیں ، وہاں اُنہیں کشمیر کے حدود و قیود میں اپنی ہی تخلیق کردہ اس ”جمہوری دلہن “کی عزت تار تار ہونے کا بھی جائزہ لینا چاہیے اور اس بات کا ادراک حاصل کرلینا چاہیے کہ کشمیر میں یہ سب اقدامات محض اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے کیے جارہے ہیں ، اصل میں ریاست جموں وکشمیرایک متنازعہ خطہ ہے اور اس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں یا پھر سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے نکالنا باقی ہے۔ جب تک نہ اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل نکالا جائے یہاں جمہوریت کا قتل ہوتا رہے گا اور انسانیت بھی رسوا ہوتی رہے گی اور ریاست کے کروڑوں عوام مصائب و مشکلات میں پستے رہیں گے۔ اس لیے اقوام عالم کو اپنا کردار نبھانے کے لیے سامنے آجانا چاہیے۔

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ