ہماری زندگی کا مقصد.... حق کی طرفداری


٭.... ایس احمد پیرزادہ

اسلام دین فطرت ہے اور پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل پوری انسانیت کی فلاح و بہبودی کے لیے جو عملی طریقہ سکھایا اور جو مبنی برحق تعلیمات اُمت مسلمہ کو دی ، اُس کے ہوتے ہوئے اسلام کے نام لیواو ¿ں کو کسی دوسرے نظام یا ضابطے کی کبھی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ یہ ہمارا اپنا المیہ ہے کہ ہم نے اسلامی تعلیمات کو فراموش کرکے انسان کے بنائے ہوئے اصول اور ضابطوں کو اپنایا ہواہے۔ لازمی طور پر انسان میں خامیاں ہوتی ہیں اور لاکھ خامیوں کے ہوتے ہوئے کوئی انسان ایسا نظام اور زندگی گزارنے کا لائحہ عمل فراہم نہیں کرسکتا جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ تمام کمیوں اور خامیوں سے پاک نظام ہے۔ انسان کی تخلیق جس ہستی نے کی ہے ، جس ربّ ذوالجلال نے انسان کے لیے ضروریات زندگی پیدا کیے ہیں ، کائنات بنائی ہے اُسی اللہ تعالیٰ کا نظام ہی عالم انسانیت کو فلاح او ربھلائی عطا کرسکتا ہے۔ آنے والے وقت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جو پیشین گویائیاں احادیث کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں اُن سے آج کے زمانے کی نظام ہائے زندگی کی خوف عکاسی ہوتی ہے۔کنزل العمال جلد ۲، حدیث نمبر ۷۹۲ میں رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ایک حدیث درج ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
”عنقریب تم پر ایسے لوگ حاکم ہوں گے جن کے ہاتھ میں تمہاری روزی ہوگی۔ وہ تم سے بات کریں گے تو جھوٹ بولیں گے اور کام کریں گے تو برے کام کریں گے۔ وہ تم سے اس وقت تک راضی نہ ہوں ھے جب تک تم ان کی برائیوں کی تعریف اور ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرو۔ پس تم ان کے سامنے حق پیش کرو جب تک وہ اسے گوارا کریں۔ پھر اگر وہ اس سے تجاوز کریں تو جو شخص اس پر قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔“
ذرا بھی غور کیا جائے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث پاک ایمان کو مضبوطی عطاکرنے والی حدیث ہے۔ موجودہ زمانے میں سچائی کی بات کرنا اور اللہ اور اُن کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام کی بات کرنا گویا تختہ دار پر چڑھ جانے کے برابر ہے اور ہم جیسے کمزور اور ضعیف ایمان مسلمانوں کا حوصلہ جواب دینے لگتا ہے تو ہادی ¿ برحق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کمزوریوں کے باوجود ہم میں ہمت اور طاقت پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔متذکرہ بالا حدیث پاک میں اس وقت کی اطلاع مومنین کو پہلی ہی دی گئی ہے جب اسلام کے نام لیواو ¿ں پر ایسے حاکم مسلط ہوجائیں گے جو جھوٹ بولنے میں ماہر ہوں گے اور جن کے یہاں کسی نیک کام کی کوئی توقع ہی نہیں کی جاسکتی ہے بلکہ وہ بدی کے پتلے ہوں گے۔ ہم جب اپنے سسٹم پر نظریں دوڑاتے ہیں اور حالات کا جب باریک بینی سے مشاہدہ کیا جاتا ہے تو انسانی سروں پر سوار حکمرانوں میں وہ تمام خصلتیں موجود ہیں جن کی اطلاع حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیوں پہلی دی ہیں۔انتخابی عمل اپنے عروج پر ہے، عام لوگوں کو لبھانے کے لیے وعدوں اور سبزباغوں کی لمبی فہرست کا ورد روز جلسوں اور جلوسوں میں کیا جاتا ہے۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو نوکریوں کا جھانسا دے کراُنہیں اپنا دامن تھمانے پر مجبور کرکے اُن کی صلاحیتوں اور اُن کی ڈگریوں کا استحصال کیا جاتا ہے،ترقیاتی منصوبوں کی ایسی کاغذی گرافکس پیش کی جاتی ہے کہ بیچارہ عام انسان تو دن گننے لگ جاتا ہے کہ کب الیکشن کے نتائج کا اعلان ہوجائے گا اور کب ہمارا یہ من پسند اُمیدوار اسمبلی کی زینت بن جائے گا ہم مغرب اور یورپ والی ترقی دیکھیں گے۔انتخابات اختتام کو بھی پہنچ جاتے ہیں، لوگ اقتدار کی کرسیوں پر بھی براجمان ہوجاتے ہیں اور چھ سال کی مدت بھی ختم ہوجاتی ہے مگر وعدے کبھی وفا نہیں ہوتے ہیں۔ پھر الیکشن کا دور آجاتا ہے اور پھر وعدوں کا یہ جھوٹا سلسلہ چل پڑتا ہے ، پھر سے لوگ بیوقوف بنائے جاتے ہیں۔موجودہ سیاست کی بنیاد ہی جھوٹ پر قائم ہے اور فریب کاری میں ماہر بندہ ہی موجودہ سسٹم میں کامیابی کے زینے بڑی ہی آسانی کے ساتھ طے کرسکتا ہے۔
جھوٹ اور فریب کاری کے ذریعے سرکاری ایوانوں میں پہنچ جانے والے لوگ جب عوام الناس کے سروں پر سوار ہوجاتے ہیں تو عوامی منڈیٹ اور عوام کی خواہشات کا احترام کرنے کے بجائے انسانیت کو شرمسار کرنے والے کام ہی اُن سے انجام پاتے ہیں۔ شراب کی بل کہاں پاس ہوجاتی ہے؟، وردی پوشوں کو قتل عام کرنے کا لائنس کون عطاکرتا ہے؟ قانون سازی کرکے اسلامی قوانین کے برعکس انسانی قانون کون نافذ کرتا ہے؟ بے حیائی ، فحاشیت اور عریانیت کو کون لوگ فروغ دیتے ہیں؟سودی کاروبار ہر گھر میں داخل کرنے والے کون لوگ ہیں؟ ۶۰۰۲ئ کے جنسی اسکینڈل میں کون لوگ ملوث تھے؟کن کے اشاروں پر ۸۰۰۲ئ ، ۹۰۰۲ئ اور۰۱۰۲ئ میں وادی کے گلی کوچوں اور بیچ چوراہوں پر نوجوانوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی؟کن کے کہنے پر نوعمر بچوں پر پبلک سیفٹی ایکٹ جیسا ظالم قانون نافذ کیا جاتا ہے؟.... یہ وہ تمام برے کام ہیں جو موجودہ زمانے کے حکمران کرتے ہیں۔ انفرادی زندگی کی موج مستیاں تو اپنی جگہ ، اجتماعی زندگی کے کرتوت بھی ہر کسی کے سامنے عیاں ہیں۔ گزشتہ سال کی ایک مثال نمونے از خروارے پیش کی جاسکتی ہے جب ریاست کے ایک منسٹر نے ایک لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ دن کے اجالوں میں زیادتی کرنے کی کوشش کی۔ عوامی دباو ¿ کے تحت مذکورہ منسٹر کے خلاف کیس تو درج کرلیا گیا تھا مگر کارروائی نہ دارد.... کیونکہ قانون اور انصاف کے تمام ایوانوں کو ہمیشہ حکمران طبقے نے اپنی لونڈی سمجھ کے رکھا ہوتا ہے۔
یہ دنیاوی زندگی کے بندے اور آخرت سے غافل حکمران آپ سے خالص ووٹ بٹورنے سے ہی راضی نہیں ہوجاتے ہیں بلکہ آپ کے لیے لازمی بن جاتا ہے کہ آپ دن رات ان کے ہاں میں ہاں ملانے والے ہوں، یہ دن کو رات کہیں تو آپ کو لیے انکار کی کوئی وجہ نہیں رہتی، یہ برے کاموں کو نیک قرار دیں تو آپ کو اس پر اپنی مہرتصدیق ثبت کرنی ہے، یہ خدا بیزار زندگی کو پروان چڑھائیں ، آپ کے لیے کوئی چارہ ہی نہیں کہ اُس زندگی کو گلے لگا لیں۔ انکار کی صورت میں آپ کے لیے جیل خانے ہیں، پبلک سیفٹی ایکٹ ہے، وردی پوش ہیں اور وردی پوشوں کے ڈنڈے اور گولیاں ہیں، فرضی کیس میں ملوث کیے جاسکتے ہو۔پھر بھی نہ مانے تو فرضی انکاونٹر اور زیرحراست ہلاکتوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، شور شرابے اور ہنگاموں کا ڈر ہوتو پھر نامعلوم بندوق برداروں کے کھاتے میں ڈال دئیے جاو ¿ گے۔گویا یہ آپ سے کسی بھی صورت میں راضی ہونے والے نہیں ہیں جب تک نہ آپ ان کی ہر جھوٹ اور ہر فریب کے ساجھے دار بن جاو ¿ گے، جب تک نہ آپ اُن کی کامیابیوں کے گن بھرے دربار میں گاو ¿ گے،اور جب تک نہ آپ اُن کی ہر گناہ کو جائز ٹھہراو ¿ گے۔ یہی تو موجودہ زمانے میں چلتا ہے۔ حکمرانوں کے خوف کی وجہ سے اُن کی جے جے کار ہوتی ہے، مفادات کے چکر میں اُن کے ناجائز کاموںکو بھی جائز ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایک جانب حکمرانوں کی ایماءپر ملّت کی نسل نو کا خون بہایا جارہا ہے، دن دہاڑے چھترگام میں معصوموں کے خون کی ہولی کھیلی گئی تو دوسری جانب ہم اِن ہی حکمرانوں کو پھر سے اقتدار کے تخت پر بٹھانے کے لیے الیکشن ریلیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جان کے خوف سے، مفادات کے چکر میں، دنیاوی زندگی پانے کی حرص میں ہم بھول جاتے ہیں کہ اس طرز عمل سے آخرت بگڑ جانے کا خطرہ ہے اور، اللہ تعالیٰ کے غضب کا ہم مستحق بن سکتے ہیں۔
ایسے حالات کے لیے متذکرہ بالا حدیث پاک میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ جب ایسے حالات کا سامان تمہیں درپیش ہو تو”پس تم ان کے سامنے حق پیش کرو جب تک وہ اسے گوارا کریں۔ پھر اگر وہ اس سے تجاوز کریں تو جو شخص اس پر قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔“.... ایسے حالا ت میں ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ ہم حق بات کہیں، ہم حکمرانوں کی اس خدا بے زار زندگی کا پردہ چاک کرکے اُنہیں راہ راست پر آنے کی دعوت دیں، ہم لوگوں کو بتائیں کہ اصولوں اور ہدایت پر مبنی وہی زندگی ہے جس کی رہنمائی رہبر انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیوں پہلے کی ہے۔ ہمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کھل کر بات کرنی ہے، ہمیں سماجی ناانصافیوں پر الم بغاوت بلند کرنی چاہیے، ہمیں آفسر شاہی کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوجانا ہے،ہمیں معصوموں کے قتل ناحق کے خلاف آواز بلند کرنی ہے، ہمیں شراب، سود اور فحاشیت و عریانیت کو فروغ دینے پر حکمران طبقے کو بتانا ہوگا کہ یہ اسلام کے اصولوں کے خلاف کام ہیں اور بحیثیت مسلمان ہم ایسا کوئی کام برداشت نہیں کریں گے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ٹکراتے ہوں گے۔ سچائی ، انصاف اور اسلام کے لیے بات کرنے پر اگر ہمیں قتل بھی کر دیا جائے گا تو ہمیں خوشی ہونی چاہیے کیونکہ رسالت مآب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خوش خبری سنادی ہے کہ جو حق کی آواز بلند کرنے پر قتل کر دیا جائے گا وہ شہید ہے۔ 
ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی زندگی کے تمام فیصلے اس سوچ کے ساتھ کرنے چاہیے کہ کہیں کسی فیصلے یا اقدام سے ہماری آخرت برباد نہ ہوجائے۔ مسلمان کی زندگی کا بس ایک ہی مقصد ہونا چاہیے کہ اُسے اللہ کی رضا حاصل ہوجائے۔ کوئی بھی کام محض خدا کے لیے کیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کو فراموش کرکے دنیاوی مفادات کے لیے زندگی صرف کی جائے تو یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ کسی مومن کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وقت کے حکمرانوں کو راضی کرنے کے لیے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کرے۔ ہمارے لیے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مبارکہ آنکھیں کھول دینے کے لیے ہی کافی ہے جس میں فرمایا گیاکہ”جس نے کسی حاکم کو راضی کرنے کے لیے وہ بات کہی جو اس کے رب کو ناراض کردے وہ اللہ کے دین سے نکل گیا۔“.... آج کے دوران میں ہمیں اپنی اپنی جگہ پر خود ہی فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں اللہ کے دین کے ساتھ رہنا ہے یا پھر گمراہی و ذلت کی راہ اختیار کرنی ہے۔ فیصلہ ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے۔
essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ