!کاش ہمیں بھی قائد اعظم مل جاتا

٭.... ایس احمد پیرزادہ

قائد اعظم محمد علی جناح کی قائدانہ صلاحیتوں کا اُن کے دشمنوں اور حریفوں کوبھی اعتراف تھا۔ اس نے پاکستان کی صورت میں دنیائے اسلام کو ایک ایسا ملک دیا ہے جس کی بنیاد کلمہ حق پر رکھی گئی اور جس نے بعد میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرکے پوری مسلم ورلڈ کا سر فخر سے اونچا کردیا۔ اسلامی دنیا کے اس عظیم لیڈر کی مدّبرانہ صلاحیتوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ اُن حالات میں جب انگریزوں اور ہندوستان کے اکثریتی طبقے کی قیادت کے درمیان بہت سارے معاملات پرہم آہنگی اور اتفاق تھا، جب مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کے لیے بڑے پیمانے کی سازشیں ہورہی تھی مسلم لیگ اپنے مقصد کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوگئی۔یہاں قائد اعظم محمد علی جناح کی سوانح حیات پر بات کرنا مقصود نہیں ہے البتہ اُن کی سیاسی زندگی کے دو واقعات کے تناظر میں اپنے یہاں کی جدوجہد برائے حق خود ارادیت کے چند ایک پہلوو ¿ں پر خامہ فرسائی کرنا اصل مدعا و مقصد ہے۔تقسیم ہندکے بعد جب ہندوستان اور پاکستان الگ الگ مملکتیں بن گئیںتو لارڈ ماو ¿نٹ بیٹن کو ہندوستان نے اپنا گورنر جنرل بنادیا اور ظہور پاکستان کے مخالف ہندوستانی یہ چاہتے تھے کہ ماو ¿نٹ بیٹن پاکستان کے بھی گورنر جنرل بن جائیں تاکہ اس نوزائیدہ ریاست کو ناکام ثابت کرنے میں اپنا کردار بخوبی نبھا سکے، لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے کانگریسی لیڈروں اور ماو ¿نٹ بیٹن کی اس خواہش کو ٹھکرا کر خود کو پاکستان کا گورنر جنرل بنا دیا۔ اس پر قائد اعظم کو لارڈ ماو ¿نٹ بیٹن نے راضی کرنے کی لاکھ کوشش کی مگر وہ راضی نہ ہوئے اور انہوں نے ماو ¿نٹ بیٹن کو جو جواب دیا وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔قائد اعظم نے ماو ¿نٹ بیٹن سے کہا کہ” میرا عمر بھر کا اصول ہے۔ وہ یہ کہ میں قومی مفاد کو ذاتی روابط سے بلند تر رکھتا ہوں۔“دوسرا واقعہ ظہور پاکستان سے دو سال قبل کا ہے کہ ایک موقعے پر قائد اعظم نے فرمایا ہے کہ ”پاکستان مرضی مولا ہے اور مرضی مولا اٹل ہے“
تحریکات میں قیادت کا رول نمایاں ہوتا ہے، قوموں کے عروج و زوال میں لیڈروں کی دور اندیشی اور معاملہ فہمی کا سب سے زیادہ رول رہتا ہے۔ عام لوگوں کو کسی واضح مقصد کی جانب لے جانے اور اُنہیں اُن کی سیاسی منزل مقصود تک پہنچانے کی ہر سبیل قیادت کو ہی تلاش کرنی ہوتی ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کی بکھری مسلم ملت کی جس طرح رہبری و رہنمائی کی اُسے صدیوں تک اپنی آزادی کی جدوجہد کرنے والی قومیں سبق حاصل کرکے اپنی راہیں متعین کریں گی۔ ریاست جموں و کشمیر میں دہائیوں سے تحریک حق خودارایت رواں دواں ہے۔ اس مزاحمتی جدوجہد میں ہم نے تاحال سینکڑوں قبرستان آباد کیے ہیں، دس ہزار سے زائد پیرو جوان افراد کے بارے میں یہ تک معلوم نہیں کہ اُنہیں آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی، ہزاروں بیوائیں اپنی بے بسی اور بے کسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور لاکھ تکالیف کے باوجود اُنہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ارمان قوم کے نام وقف کرچکی ہیں،وہ پچاس ہزار سے زائد یتیم بچے اگر امریکہ یا برطانیہ میں ہوتے تو ان ممالک نے کب کی تیسری عالمی جنگ چھیڑدی ہوتی۔ ہماری عصمتیں لٹی، ہماری عزت و آبرو خاک میں ملائی گئی، ہماری عزت نفس پامال کی گئی، ہمارے یہاں ظلم و جبر کی ایسی دہشت ناک داستانیں رقم کی گئیں کی طلسماتی دنیا کے وہ الف لیلوی شیطان بھی دنیا کی بڑی جمہوریت کے وردی پوشوں سے پناہ مانگ رہے ہوں گے۔جو قوم صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں ذلالت کی زندگی گزارنے کی عادی ہوچکی ہوگئی ، وہ اس قدر روشن مستقبل کے لیے قربانیاں دے رہی ہے یہ کوئی معمولی بات نہیںہے۔ ان سب قربانیوں اور مصائب و مشکلات کو برداشت کرنے کے باوجود آج ہماری قوم ایک ایسی جگہ پر کھڑی ہے جہاںسے منزل کے بظاہر دور دور تک آثار دکھائی نہیں دیتے ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ رہبری کرنے والے ہی جب ماسیوں کا شکار ہوچکے ہوں گے اور رہنمائی کرنے کے بجائے اگر وہ ہمتیں توڑنے کا کام کررہے ہوں گے تو بھلا قوم کی ہچکولے کھا رہی نِیا کیسے پار لگے سکتی ہے۔
معمولی ہواو ¿ں کے جھونکے مزاحمتی قیادت کو اس قدر مرعوب کرتی ہیں کہ وہ اپنی ساری جدوجہد سے اس حد تک مایوس ہوجاتے ہیں کہ کھلے عام اپنی نجی محفلوں میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ جس جدوجہد کے لیے وہ برسرپیکار ہیں وہ دم توڑتی نظر آرہی ہے۔ مزاحمتی قیادت کی مایوسی کا اس سے بڑھ کر او ر کیا ثبوت ہوگا کہ اب وہ اپنی تمام تر سرگرمیوں کو خالص ایک عدد اخباری بیان تک ہی محدود کیے ہوئے ہیں۔اُنہیں بظاہر خود بھی اس بات کا یقین نہیں ہے کہ جس منزل کی جانب وہ رواں دواں ہیں اُس کی راہ اتنی طویل ہے کہ کم از کم اُن کی بس کی بات نہیں کہ وہ کامیابی کے ساتھ یہ سارا فاصلہ طے کرسکیں گے۔ جب حالت یہ ہو تو بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مزاحمتی خیمے کی رفتار سست کرنا کیا معنیٰ رکھتا ہے۔حالانکہ کوئی بھی نشانہ پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو پہلے اس کا یقین ہو کہ وہ جس نشانے کو پانے کا خواہش مند ہے اُس میں اتنی دم ہے کہ وہ اسے حاصل کرسکے گا۔ یقین اور ایمان کی طاقت سے ناممکن کو بھی ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جو پاکستان حاصل کیا ہے وہ اُسے پریس بیان سے حاصل نہیں ہوا اور نہ ہی پاکستان کا خواب محض تقریروں سے ہی شرمندہ ¿ تعبیر ہوسکا ہے بلکہ اس میں قائد اعظم کے اُس ایمان اور یقین کی طاقت کا سب سے بڑا رول ہے جس کے بل بوتے پر وہ کہتے تھے کہ”پاکستان مرضی مولا ہے اورمرضی مولا اٹل ہے۔“ہم جب نوے کی دہائی کا عسکری دور دیکھتے ہیں تو عسکری کمانڈر بننے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے تھے کہ کامیابی کی صورت میںحکومت سازی میں کہیںہم نہ پیچھے رہ جائیں، پھر جب منحرف بندوق برداروں کا سیاہ دور دیکھا او ر عسکری محاذ ٹھنڈا پڑتا ہوا محسوس ہوا تو بندوق کو تیاگ کرسیاسی محاذ گرماکر”جمہوری“ طریقوں سے بھارت کو ریاست چھوڑنے پر مجبور کرنے کا ہنر آزمانے لگے۔اُس کے بعد جب ہندنواز الیکشنوں کی سیاست چلی تو دل بدلی میں دیر نہ لگی۔ کل کے”مجاہد“، این ڈی ٹی وی اور دیگر چینلوں پر 2008 اور2010 کے عوامی ریلیوں سے مرعوب ہوکردہاڑنے والے آج ریاست جموں و کشمیر کوہندوستان کا”اٹوٹ انگ“ قرار دینے میںشرم بھی محسوس نہیں کرتے ہیں۔ہم ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت قوم کو بے خبر رکھ کر ساز باز کرنے والوں ، پرویز مشرف کے چارنکاتی فارمولے کا کھلونا بننے والوں،الیکشنوں میں پراکسی اُمیدوار اُتارنے والوں،دّلی کی ایما پر پاکستان جانے والوں میں قائد اعظم محمد علی جناح کو نہیں پائیں گے۔ہواو ¿ں کا رُخ دیکھ کر وفاداریاں تبدیل کرنے والوں میں کامل ایمان اور یقین محکم ہونے کی اُمید رکھنا بیوقوفوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہے۔ہماری بدنصیبی یہ رہی ہے کہ قیادت اور قائدین میں اکثر جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے اور کاز کے ساتھ وفاداریاں نبھانے کے بجائے ذاتی مفادات کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ صلاح مشورہ کرنے اور اجتماعی طور پر حکمت عملیاں مرتب کرنا تو دور کی بات ہے بلکہ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے لیے متضاد پالیسیاں ترتیب دی جاتی ہیں۔ مانا کہ قومی شعور اس حدتک بیدار نہیں ہے کہ وہ جدوجہد کے نفع نقصان کا خیال رکھ سکیں، لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ ساری خطا قوم پر ڈال کر قیادت اپنی آپ کو بری الزمہ قرار دے دے۔ قائداعظم محمد علی جناح کو جب اُن حالات میں بکھری پڑی مسلم ملّت کو جوڑ کر رکھنا آیا اور وہ بھی اتنی وسیع و عریض مملکت میں تو بھلا ہماری قیادت ریاست جموں و کشمیر کے اس چھوٹے سے خطے میں اپنی قوم کو کسی ایک نقطہ پر جمع کیوں نہیں کرسکتے ہیں۔ سب سے بڑا المیہ جو ہماری تحریک حق خودارادیت کے ساتھ ہے وہ یہ کہ ہماری قیادت میں سے اکثریت کو بھی جدوجہد کے منطقی انجام تک پہنچنے کا ایمان ویقین نہیں ہے۔ وہ شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ لشکر کشی کے خواب دیکھ رہے ہیں حالانکہ ایمان و یقین کی ہی طاقت کامیابی کے لیے راہیں کھول سکتی ہے۔ قیادت کے لیے ضروری ہے کہ وہ قائد اعظم والا ایمان نہ صرف اپنے آپ میں پیدا کریں بلکہ قوم میں بھی اس قدر امیدوں کو زندگی بخشیں کہ اُنہیں اپنی منزل اگلے دن کے سورج چڑھنے سے زیادہ دور نہ دکھائی دے۔ 
 ایک اور المیہ جس کے رحم و کرم پر قربانیوں سے پُر ہماری جدوجہد برائے حق خود ارادیت ہے وہ یہ کہ جس طاقت اورملک کے ساتھ ہمارا واسطہ ہے اُس کی فریب کاریوں سے ہم صحیح طور پر واقف نہیں ہیں۔ ڈپلومیسیاں، وفود ، آمد ِمشن اور نجی دوستانیوں کے ذریعے سے یہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں نہ صرف ماہر ہیں بلکہ ان شاطرانہ طریقوں کے ذریعے سے ہی اس قوم نے ہماری جدوجہد کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ کسی سے ملنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ معاملات طے کرنے میں اُن کے مشوروں پر عمل پیرا ہونے سے ہماری گاڑی آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہی چلی جاتی ہے۔یہاںبھی قائد اعظم محمد علی جناح کے فارمولے کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ قومی و ملی مفاد کو ذاتی روابط سے بلند تر رکھتالازمی ہے۔ جبھی ایک دن ضروری ہم اپنی منزل کو سر کر لیں گے۔ باقی حالات کے اتار و چڑھاو ¿ تو اس راہ میں آتے جاتے رہیں گے۔ آج پلڑا بظاہر اُس جانب جھکاہوا دکھائی دے رہا ہے ہماری حکمت عملیاں صحیح سمت میں رہیں تو کل کو اس سے ہماری جانب جھکنا ہی جھکنا ہے ۔ انشاءاللہ۔
essahmadpirzada@gmail.com

Comments

Popular posts from this blog

لندن کی کشمیر کانفرنس۔۔۔ ایس احمد پیرزادہ

پبلک سیفٹی ایکٹ اور نیشنل کانفرنس....ایس احمد پیرزادہ